donateplease
newsletter
newsletter
rishta online logo
rosemine
Bazme Adab
Google   Site  
Bookmark and Share 
mazameen
Share on Facebook
 
Literary Articles -->> Adabi Khabren
 
Share to Aalmi Urdu Ghar
Author : Press Release
Title :
   Hamnawa Kolkata Ke Zer Ehtemam Aalmi Mushaire Ka Inaqaad

ادارہ’’ہم نوا‘‘ کلکتہ کے زیر اہتمام عالمی مشاعرے میں

 

قطر سے افتخار راغبؔ کی شرکت

    کولکاتا ؍(پریس ریلیز)شہر نشاط کلکتہ میں یوں تو ادبی ثقافتی و سماجی اداروں کی کمی نہیں۔لیکن ’’ہم نوا‘‘ کی بھی تشکیل اور اس کی افتتاحی تقریب کی بدولت اپنے آپ میں ایک مثالی ادارہ بن کر عالم وجود میں آیا ہے۔جو اپنے پہلے ہی پروگرام کے انعقاد سے ہر خاص و عام کی ہم نوائی حاصل کرنے میں کافی حد تک کامیاب رہا۔فراغ روہوی صاحب یوں تو اکثر وبیشتر ادبی و شعری محفل آراستہ کرتے رہتے ہیں۔لیکن ’’ہم نوا‘‘ کے زیر اہتمام عظیم الشان عالمی مشاعرے کا انعقاد ان کی فعالیت کی ضمانت مانی جارہی ہے۔

    گزشتہ یکم اگست کو ادارہ ’’ہم نوا‘‘ کا عظیم الشان افتتاحی پروگرام عالمی مشاعرہ کی شکل میں مغربی بنگال اردو اکاڈمی کے مولانا ابوالکلام آزاد اوڈیٹوریم میں شام چھ بجے منعقد ہوا۔مسلسل بارش کے باوجود اس انوکھے پروگرام میں ادباء شعرا ‘صحافی‘وکلاء اور ہر مکتبۂ فکر کے لوگوں کی اچھی خاصی تعداد دیکھی گئی۔

    اعلان کے مطابق مشاعرے کی صدارت حضرت قیصر شمیم نے فرمائی۔جبکہ نظامت کے فرائض دبنگ لب ولہجہ کے شاعر ڈاکٹرعاصم شہنواز شبلی نے خوش اسلوبی کے ساتھ انجام دیے۔مہمان خاص کی حیثیت سے اسٹیج پر جناب سید شہاب الدین حیدر (چئیر مین لائبریری سب کمیٹی‘ مغربی بنگال اردو اکاڈمی)‘ جناب حفیظ الرحمن(نائب صدر‘ انجمن ترقی اردو ہند(مغربی بنگال)‘ جناب شاہ محمد قادری نائب (صدر‘ ادارہ ’’شب تاب‘‘)‘جناب خالد عباد اللہ (معروف سیاست داں)‘جناب قمرالدین ملک‘جناب پرویز اقبال (ہر دل عزیز سماجی کارکن)‘جناب فرید خاں‘جناب صادق ضیا‘جناب مظہر ربانی بیگ‘ محترمہ عاصمہ سعید(سکریٹری ’’دی گیٹ وے اکاڈمی )وغیرہ رونق افروز تھے۔

    تقریب کا آغاز جناب غلام مدنی قادری نے تلاوتِ قرآن پاک سے کیا۔اورمعروف شاعر جناب سحر مجیدی نے نعتیہ کلام پیش کیا۔اس کے بعد شعرا و مہمانانِ کرام کا استقبال ’’ہم نوا ‘‘ کے بنیاد گزار سکریٹری جناب فراغ روہوی اور ان کے معاون جناب سید عثمان جاوید(سکریٹری ادارہ ’’منزل‘‘) نے مشترکہ طور پر صافہ بندی اور گلدستہ سے کیا۔سب سے پہلے ادارہ ’’ہم نوا‘‘ کے تعلق سے اظہار خیال کا سلسلہ شروع ہوا جس میں ادارے کی اہمیت و افادیت پر روشنی ڈالی گئی ساتھ مفید مشورے بھی روشن ہوئے۔اظہار خیال کرنے والوں میں جناب سید شہاب الدین حیدر ‘جناب حفیظ الرحمن ‘جناب شاہ محمد قادری‘جناب جمال احمد جمال مروئی والا‘جناب خالد عباد اللہ‘جناب قمرالدین ملک‘ جناب پرویز اقبال و دیگر مقررین صاحبان نے اپنی اپنی بات سامنے رکھی۔تمام مقررین نے ادارہ ’’ہم نوا‘‘ کی تشکیل و بنیاد کو مغربی بنگال کے لیے خوش آئند قرار دیا۔تقریر میں اس نکتے پر زیادہ زور ڈالا گیا کہ ادبی ثقافتی پروگرام کے انعقاد کے ساتھ انگلش میڈیم اسکول کا بھی قیام عمل میں لایا جائے اور رحمانی 30کی طرح مغربی بنگال میں بھی مقابلہ جاتی پروگرام پر توجہ صرف کی جائے جس سے مسلم بچے بچیاں اپنے مستقبل سنوارنے کے ساتھ قوم و ملت کا نام بھی روشن کریں۔

    مشاعرے کے تعلق سے حضرت قیصر شمیم نے کہا کہ ترقی پسند تحریک شروع ہونے سے قبل مشاعرے کا افتتاح مشاعرے کے صدر کیا کرتے تھے۔آج اتنے برسوں بعد اس روش کی یاد تازہ کردی گئی۔شاہی دربار اور خواص کی محفلوں سے مشاعرہ کا سلسلہ رفتہ رفتہ عوام تک پہنچا تو مشاعرے کے افتتاح میں بھی تبدیلی واقع ہوئی۔

    تقریری دور کے بعد عالمی مشاعرہ کے خوبصورت دور کا آغاز ہوا ۔اس یادگار مشاعرے میںجن شعراو شاعرات نے اپنی شرکت درج کرائی ان میں دوحہ قطرسے تشریف لائے مہمان شاعرجناب افتخار راغب ‘جناب خورشید علیگ(بحرین)‘جناب دلشاد نظمی(دوبئی)‘جناب جلال عظیم آبادی(بنگلہ دیش)‘جناب فاروق عادل(لکھنؤ)‘جناب سلیم تابش(لکھنؤ)‘جناب خورشید دلدار نگری (غازی پور) ‘جناب حبیب ہاشمی‘ڈاکٹرامام اعظم‘ جناب جمال احمد جمال مروئی والا‘ جناب فراغ روہوی‘جناب ضمیر یوسف‘ جناب اکبر حسین اکبر‘ ڈاکٹرعاصم شہنواز شبلی‘جناب عمران راقم‘جناب ارشاد آرزو‘جناب نسیم فائق‘جناب نوشاد مومن‘ جناب ابوالکلام نامی‘ محترمہ ‘ریحانہ نواب‘ محترمہ شگفتہ

یاسمین غزل‘ محترمہ عروسہ عر شی‘جناب ارم انصاری‘ کے نام قابل ذکر ہیں۔

    اس عالمی مشاعرے میں پڑھے گئے کلام کے دو دو اشعار قارئین کے ذوق کی تسکین کے لئے پیش کئے جارہے ہیں:

ایک خواب ٹوٹا ہے‘ دوسرا ہے آنکھوں میں
پھر کوئی حسیں چہرہ آبسا ہے آنکھوں میں
آپ کی نظر پہنچے کس طرح صداقت تک
آپ کا تو اپنا ہی واہمہ ہے آنکھوں میں

 (صدرِ مشاعرہ ‘قیصر شمیم‘کولکاتا)

اندازِ ستم ان کا نہایت ہی الگ ہے
گزری ہے جو دل پر وہ قیامت ہی الگ ہے
پردیس میں رہ کر کوئی کیا پاؤں جمائے
گملے میں لگے پھولوں کی قسمت ہی الگ ہے

 (افتخار راغب ‘ دوحہ‘  قطر)

اپنے وطن سے دور عرب کے جہان میں
الفت کے گیت گائیں گے اردو زبان میں
ہم وہ نہیں جو اپنی تہذیب بھول جائیں
تہذیب گونجتی ہے ہماری اذان میں

 (خورشید علیگ ‘بحرین)

بھیگی پسینے میں بل کھاتی الھڑ اور متوالی دھوپ
سر پر بوجھ کو لادے پگڈنڈی سے چلی سنتھالی دھوپ
آنکھیں مل کر پٹ کھولا تو سڑک پہ پہلا منظر تھا
ہاتھ کے رکشے پر بیٹھی تھی سندر سی بنگالی دھوپ

 (دلشاد نظمی‘دوبئی)

ذرا دیر تک تو کھلی دکھئے آنکھیں
ذرا پیاس بجھتی رہے مئے کشوں کی
نظر چاند‘ سورج پہ جائے نہ ہرگز
اگر دیکھیے شکل ان مہ وشوں کی

(جلال عظیم آبادی‘ڈھاکہ‘بنگلہ دیش)

کچھ بھی نئے زمانے میں عنقا نہیں رہا
تن پر بس اک لباس حیا کا نہیں رہا

 (خورشید دلدار نگری‘یوپی)

جفا پر مسکرا دینا نہ مشکل ہے نہ آساں ہے
ستم سہہ کر دعا دینا نہ مشکل ہے نہ آساں ہے
ہمیں اسلاف کی تاریخ سے یہ درس ملتا ہے
کسی پر سب لٹا دینا نہ مشکل ہے نہ آساں ہے

 (فاروق عادل ‘لکھنؤ)

سچائیوں کے بیچ حوالے تلاش کر
سقراط ہے تو زہر کے پیالے تلاش کر
بلندیوں پہ پہنچنے والے نگاہ پستیوں پہ رکھنا
تجھے یہ شاید خبر نہیں عروج کیا ہے زوال کیا ہے

 (سلیم تابش‘لکھنؤ)

مس کر گئی بدن سے مرے مخملی سی کچھ
اک ایک رگ میں دوڑ گئی سنسنی سی کچھ
کچھ اس ادا سے مجھ پہ ندی مہرباں ہوئی
ہونٹوں پہ رقص کرنے لگی تشنگی سی کچھ

 فراغ روہوی

وہ میرے ساتھ چل پڑتا تو رستے بھی نکل آتے
زمیں تھوڑی سی نم ہوتی تو سبزے بھی نکل آتے
کسی مقام پہ قبلہ الگ بھی ہوتا ہے
ذرا سا پانی ہے پیاسے کو دے وضو مت کر

 (اکبر حسین اکبر‘کولکاتا)

رہ حیات پہ اکثر پکارتا ہے مجھے
ہر ایک حسن کا منظر پکارتا ہے مجھے
رہِ جنوں سے تعلق مرا پرانا ہے
کبھی لہو‘ کبھی خنجر پکارتا ہے مجھے

 (ضمیر یوسف‘کولکاتا)

بڑے وہ نہیں تھے بڑے ہوگئے
جو ایڑی اٹھا کر کھڑے ہوگئے
مبصر نے ایسا کیا تبصرہ
الٹ پھیر سب آنکڑے ہوگئے

 (عمران راقم‘کولکاتا)

نہ پوچھ کس طرح میری حیات گزری ہے
بنا چراغ کے جیسے کہ رات گزری ہے
وہ ہے خفا تو مجھے یہ بھی سوچنا ہوگا
کہ ناگوار اسے کوئی بات گزری ہے

 (ارشاد آرزو‘کولکاتا)

ایٹمی تجربے اب کتنے سہے گا پانی
بڑھ کے بے نام جزیروں سے ملے گا پانی
ہم ہیں پانی کی طرح ہم کو نہ بانٹو فائق
نہ کٹا ہے نہ کسی سے یہ کٹے گا پانی

 (نسیم فائق‘کولکاتا)

ہر ایک کہنہ روایت کو یوں روا رکھنا
کسی سے جنگ بھی کرنا تو قاعدہ رکھنا

 (نوشاد مومن‘کولکاتا)

ہوئے ہیں جب سے ممبر’’ ہم نوا ‘‘کے ہمیں سر پر بٹھایا جارہا ہے
دکھا کر مرغیاں اپنے گھروں سے ہمیں مرغا بنایا جارہا ہے

 (ارم انصاری‘کولکاتا)

ابھی اندھیرے میں ہوں روشنی سے ملنا ہے
جو مجھ کو بھول گیا ہے اسی سے ملنا ہے
سجا لیا ہے گلابوں کے ساتھ اپنا وجود
تصورات کی اس چاندنی سے ملنا ہے

 (ریحانہ نواب‘کولکاتا)

ادب کی سرزمیں بنگال میں شاداب ہوتی ہے
صحافی سے محقق سے مدبر سے سخنور سے
غزل کی شاعری کا وصف ہے سب سے جداگانہ
ادا سے فکر سے اسلوب سے جدت سے تیور سے

 (شگفتہ یاسمین غزل‘ کولکاتا)

ہر ایک دور میں ہم ہی رہے قتیل یہاں
کوئی عدیل ہی باقی نہ اب وکیل یہاں
کریں جو سینکڑوں فریاد‘ لاکھ سر پیٹیں
ہمارے کام نہ آئی کوئی دلیل یہاں

 (عروسہ عرشی‘کولکاتا)

    یہ شاندار عالمی مشاعرہ 10بجے شب کو کامیابی کے ساتھ اپنے اختتام کو پہنچا۔اخیر میں ادارہ ’’ہم نوا‘‘ کے جوائینٹ کنوینر جناب سید عثمان جاویدنے تمام حاضرین کا شکریہ ادا کیا۔


 رپورٹ :  عمران راقم

 

Comments


Login

You are Visitor Number : 601