donateplease
newsletter
newsletter
rishta online logo
rosemine
Bazme Adab
Google   Site  
Bookmark and Share 
mazameen
Share on Facebook
 
Literary Articles -->> Adabi Khabren
 
Share to Aalmi Urdu Ghar
Author : Press Release
Title :
   Mumtaz Adeeb Aur Shayar Syed Zameer Hasan Dehlavi Ki Rahlat Par Urdu Ghar Me Taziyati Nishist

ممتاز ادیب اور شاعر سیّد ضمیر حسن دہلوی کی رحلت پر

اردو گھر میں تعزیتی نشست

 

نئی دہلی:19؍مئی 2014 (جاوید رحمانی) اردو کے مشہور و ممتاز ادیب اور شاعر جناب سیّد ضمیر حسن دہلوی کی وفات پر انجمن ترقی اردو (ہند) کے مرکزی دفتر اردو گھر میں آج ایک تعزیتی نشست انجمن کے صدر پروفیسر صدیق الرحمن قدوائی کی صدارت میں منعقد ہوئی۔ انجمن ترقی اردو (ہند) کے جنرل سکریٹری ڈاکٹر اطہر فاروقی نے خراجِ عقیدت پیش کرتے ہوئے بتایا کہ سیّد ضمیر حسن دہلوی کا ۱۶؍مئی ۲۰۱۴ء کو مختصر علالت کے بعد انتقال ہوگیا۔ کچھ دنوں قبل اُن پر فالج کا اثر ہوا، جس سے وہ جانبر نہ ہوسکے۔ سیّد ضمیر حسن دہلوی ذاکر حسین دلّی کالج کے شعبۂ اردو سے طویل عرصے تک وابستہ رہے۔ ان کی مختلف موضوعات پر ایک درجن سے زیادہ کتابیں شائع ہوئیں جن میں ’دلّی سے دلّی تک‘ اور ’بہادر شاہ ظفر کی دلّی‘ کو بہت مقبولیت حاصل ہوئی۔جناب شاہد ماہلی نے کہا کہ سیّد ضمیر حسن دہلوی دہلی کے نمائندہ ادیب و شاعر تھے۔ انھوں نے دہلی کی تہذیب و تمدن کو بہت قریب سے دیکھا اور اسے قلم بند کیا ہے۔ وہ دہلی کے اُن چند ادیبوں اور شاعروں میں شمار ہوتے ہیں جنھوں نے دہلی کی تاریخ، ماضی، حال اور مستقبل کو غور سے دیکھا اور سمجھا ہے۔ اُن کے انتقال سے دہلی میں جو خلا پیدا ہوا ہے اس کو آسانی سے پُر کرنا ممکن نہیں ہے۔ خدا اُن کو جنت نصیب کرے اور اُن کے پس ماندگان کو صبر عطا کرے۔جناب سیّد شریف الحسن نقوی نے خراجِ عقیدت پیش کرتے ہوئے کہا کہ سیّد ضمیر حسن دہلوی دہلی کی تہذیب و تمدن کے نمائندہ ادیب اور شاعر تھے۔ حال ہی میں ان کی ایک کتاب ’بہادر شاہ ظفر کی دلّی‘ منظرِعام پر آئی جسے خاص طور پر پسند کیا گیا۔ اُن کے انتقال سے دہلی کے ادبی و تعلیمی حلقوں میں ایک ایسا خلا پیدا ہوگیا ہے جسے آسانی سے پُر نہیں کیا جاسکتا۔سہ ماہی ’اردو ادب‘ کے اڈیٹر ڈاکٹر اسلم پرویز نے کہا کہ سیّد ضمیر حسن دہلوی نہ صرف یہ کہ دہلی کے رہنے والے تھے بلکہ دلّی کی قدیم تہذیب اور دہلوی زبان کی ایک نمائندہ شخصیت تھے۔ انھوں نے پرانی دہلی کے گلی کوچوں میں ہی تربیت پائی اور یہیں انھوں نے اپنے ماحول، اپنے اجداد اور اپنے احباب کے ساتھ رہتے ہوئے دہلی کی زبان کو اپنی شخصیت میں انگیز کیا۔ وہ نثر بھی لکھتے تھے اور شعر بھی کہتے تھے اور نثر اور نظم دونوں میں ٹھیٹھ دہلوی زبان کا استعمال کرتے تھے۔ وہ دہلی ہی کے گلی کوچوں میں پل کر بڑے ہوئے تھے لیکن زندگی کے چند آخری برسوں میں دلّی شہر چھوڑکر نوئیڈا میں جابسے تھے جہاں ان کے بچوں نے ایک پُرآسائش مکان میں ان کے آرام سے رہنے کا بندوبست کردیا تھا، لیکن اس کے باوجود دہلی سے اپنا ناطہ انھوں نے کبھی توڑا نہیں۔ وہ دہلی کی تمام ادبی سرگرمیوں میں آخر دم تک شریک ہوتے رہے اور نظم و نثر میں برابر لکھتے رہے۔ اب دلّی میں اس طرح کے لکھنے والے شاید خال خال بھی نہیں ہیں، اس اعتبار سے وہ بہت دنوں تک یاد کیے جاتے رہیں گے۔ پروفیسر صدیق الرحمن قدوائی نے اپنے صدارتی کلمات میں کہا کہ سیّد ضمیر حسن دہلوی ہمارے زمانے کے ان ادیبوں میں تھے جنھوں نے دہلی کی ٹکسالی زبان کو اپنی تحریروں میں محفوظ رکھنے کی کوشش کی۔ انھوں نے دہلی کے پرانے ادیبوں خواجہ حسن نظامی وغیرہ کی روایت کو زندہ رکھا۔ ان کی کئی اہم کتابیں اور متعدد مضامین ہیں جو قدر کی نگاہ سے دیکھے جاتے ہیں۔ وہ اردو کے بہت اچھے اساتذہ میں تھے۔ انھوں نے تمام عمر ذاکر حسین دہلی کالج میں درس و تدریس کے ذریعے کئی نسلوں کو متاثر کیا۔ ان کے انتقال سے عہدِ حاضر کے اردو ادب کا ایک روشن گوشہ خالی ہوگیا۔ یہ میرا ذاتی دکھ بھی ہے۔ میں تمام احباب کے ساتھ ان کے خاندان کے دکھ میں شریک ہوں۔

    (جاوید رحمانی)
    میڈیا کورڈی نیٹر
     موبائل : 9811899684

*********************

 

 

 

 

Comments


Login

You are Visitor Number : 446