donateplease
newsletter
newsletter
rishta online logo
rosemine
Bazme Adab
Google   Site  
Bookmark and Share 
mazameen
Share on Facebook
 
Literary Articles -->> Adabi Khabren
 
Share to Aalmi Urdu Ghar
Author : Press Release
Title :
   Sachchar Committee Ki Safarshat Lagu Karne Ke Liye Nazia ILahi Khan Ka Mutalba

سچر کمیٹی کی سفارشات پر کارروائی اور نفاذ کا مطالبہ


مسلمانوں کے تعلق سے مرکز کی بے عملی پر ایڈوکیٹ نازیہ الہیٰ خان برہم


کولکاتا

(پریس ریلیز)


مسلم مسائل پر اپنی بے لاگ رائے رکھنے اورمسلمانوں کے حقوق کی بازیابی کیلئے ایوان صدر اور پی ایم او کی فصیل بندمحلات تک آوازاٹھانے والی ایڈوکیٹ نازیہ الہیٰ خان نے اس بار سچر کمیشن کی سفارشات پر حکومت کی بے عملی کو نشانہ بنایا ہے ۔

کل ہفتہ 28نومبر کو انہوں نے پی ایم او تک ایک عرضی پہنچائی ہے جس میں کہا گیا ہے کہ انتخابی وعدوں کی تکمیل اورعوام کے امنگوںاور خواہشوں کے برخلاف مرکز ی حکومت ملک کی دوسری سب سے بڑی اکثریت کو الگ تھلگ کرنے کاکام کررہی ہے ۔

انہوں نے گزشتہ 31اگست کومسلم مجلس مشاورت کی گولڈن جبلی تقریبات میں نائب صدر جمہوریہ حامد انصاری کی تقریر کے حوالہ سے اپنی بات کاآغاز کیا اور کہا ہے کہ انصاری نے برملا ایک حق کا اظہار ایسے وقت میں کیاتھا جب سچر کمیٹی کو قصہ پارینہ بنانے کاآغاز کیاجاچکاہے ۔ 2006میں آنے والی سچر کمیٹی رپورٹ کے حوالے سے انصاری نے کہی ہے کہ مسلم کمیونٹی کی حالت کو بہتر بنانے کیلئے حکومت کو مثبت اقدام کی ضرورت ہے۔ حامد انصاری  یہ تقریر قابل لحاظ اور قابل قدر ہے۔ مرکزی حکومت کا بلند بانگ نعرہ ’سب کا ساتھ سب کا ویکاس‘اس وقت بے معنی ہوکر رہ جاتا ہے جبکہ ہر مذہبی اکائی یکساں طور پر ترقی نہیں کرتی۔ حامد انصاری نے بجا طور پر یہ بات بیان کی ہے کہ دستور میں ہر ایک کو ترقی کے یکساں مواقع فراہم کئے گئے ہیں تو پھر کوئی وجہ نہیں کہ ایک فرقہ کی طرف داری کی جائے اور دوسرے طبقہ کو محروم رکھا جائے۔

اس تمہید کے بعد فورم فار آرٹی آئی ایکٹ کی چیئرپرسن و معروف سماجی کارکن ایڈوکیٹ نازیہ الہیٰ خان نے اپنی عرضی میں وزیراعظم نریندر مودی کو مخاطب کرکے لکھا ہے کہ انصاری کے فرمودات اس حقیقت کی طرف اشارہ کررہے تھے کہ سچر کمیٹی کی سفارشات کے نفاذ سے پہلو تہی کی وجہ سے مسلمان آج بھی سماجی سیاسی اور معاشی طور پرپسماندگی کی اسی دلدل میں ہیں۔ جان بوجھ آبادی کے ایک قابل لحاظ حصہ کو نظرانداز کرکے ملک کی ترقی کاسوچنا حماقت ہے ۔سچر کمیٹی نے اپنی سفارشات میں دوٹوک الفاظ میں کہہ دیا ہے کہ مسلمانوں کی حالت ہندستان میںدلتوں سے بھی زیادہ خراب ہے یہ مرکزی حکومت کی ذمہ داری ہے کہ فلاحی اسکیمیں مسلمانوں تک پہنچیں ۔

 انہوں نے کہا ہے کہ یہ بات اب کسی ثبوت کی محتاج نہیں ہے کہ فلاحی اور رفاہی اسکیموں کے فائدے مستحقین تک بالخصوص مسلم مستحقین نہیں پہنچتے ہیں ایسے میں مرکزی حکومت پہلے قدم کے طور پر مذہب کی بنیاد پرہندستان کی آبادی کا ڈاٹا اکٹھاکرے اور نشاندہی کرے کہ کن مستحقین تک فائدے پہنچ رہے ہیں ۔

نازیہ الہیٰ خان نے یہ بھی کہا ہے کہ انتخابی وعدوں کو صرف وعدہ ہی نہیں رہنے دیاجائے اسے عوام کی امنگوں کے مطابق عمل اور نفاذ کے سانچے میں ڈھالاجائے ‘مسلمانوںاور اقلیتوں کیلئے روزگار کے موقع پیدا کئے جائیں ۔ ورنہ عوام یہ سوچنے پر مجبور ہیں کہ حکمراں جماعت کے انتخاب کے وقت کئے گئے وعدے صرف انتخابی وعدے تھے گزشتہ15برسو ں میں ان پر کوئی کام نہیں ہوا ہے ۔

ایڈوکیٹ نازیہ الہیٰ خان نے آخر میں وزیراعظم نریندر مودی سے مطالبہ کیا ہے کہ مسلمانوں کے مسائل کے حل کیلئے پوری ایمانداری کے ساتھ سچر کمیٹی کی سفارشات کی روشنی میں کارروائی کا آغاز کیا جائے اور اس کے نفاذ کی ایماندارنہ کوشش کی جائے ۔ نازیہ الہیٰ خان نے اپنی عرضی کی نقل راشٹرپتی بھون میں صدر جمہوریہ پرنب مکھر جی کو بھی دی ہے ۔

پی ایم او میں اپنی عرضداشت پیش کرنے کے بعد نازیہ الہیٰ خان نے مسلمانوں کے تعلق سے مرکزی حکومتوں کی بے عملی کی شکایت کرتے ہوئے کہا کہ 2006میں اس وقت کی منموہن سنگھ کی قیادت والی یو پی اے حکومت نے مسلمانوں کے سماجی اقتصادی اور تعلیمی صورتحال کا جائزہ لینے کیلئے سچر کمیٹی تشکیل دی تھی۔دلچسپ تماشہ یہ بھی ہوا کہ سچر کمیٹی نے ملک میں مسلمانوں کے سماجی اقتصادی حالت کا جائزہ لینے کے بعد رپورٹ میں جو سفارشات پیش کی تھیں ان کو رو بہ عمل لانے پر غور کیلئے ایک اور کمیٹی تشکیل دی گئی تھی۔ اس وقت کے مرکزی وزیر مملکت برائے انسانی وسائل علی اشرف فاطمی کی قیادت میں13ممبروں والی اس کمیٹی کی رپورٹ بھی سردخانہ میں چلی گئی ۔ مسلمانوں کے تعلق سے پھر2014میں کنڈو کمیٹی نے رپورٹ پیش کی وہ بھی طاق نسیاں بن گئی ۔

نازیہ الہیٰ نے کہا کہ غورکرنے کامقام ہے کہ جسٹس راجندرسچرنے اپنی جورپورٹ پیش کی ہے اس رپورٹ میں بحیثیت مجموعی مسلمان اس ملک میں انتہائی پسماندہ ہیں،نہ تومعاشی طورپرمضبوط ہیں، اورنہ ہی سماجی طورپردیگرقوموں کے مقابلہ میں اچھی پوزیشن میں ہیں،رہامسئلہ تعلیم کاتوتعلیم کے علمبردارہونے کے باوجودوہ اس میدان میں بھی پسماندہ ہیں۔ مسلمانوں کے تئیں عوام کا ایک عام رجحان یہ ہے کہ وہ بنیادپرست ہیں اورقدامت پرست ہیں،اسی لیے یہ اپنے بچوں کوصرف اورصرف مذہبی تعلیم دیتے ہیں،لیکن سچر رپورٹ نے اس سوچ کی بھی قلعی کھول کر رکھ دی ہے کہ مسلمانوں کے صرف 4فیصد بچے ہی مدارس میں تعلیم حاصل کرتے ہیں۔بقیہ 66 فیصد سرکاری اسکولوں میں جب کہ 30فیصد پرائیویٹ اسکولوں میں ہیں۔

ایڈوکیٹ نازیہ الہیٰ خان نے کہا کہ سچرکمیٹی کی رپورٹ سے یہ اندازہ ہوتا ہے کہ اسکولوں،کالجوں اوریونیورسیٹیوں میں بھی مسلمانوںکی  تعداد انگلیوں پر گنے جانے کے لائق ہے۔ جہاں ہندستان کی مجموعی شرح خواندگی 2001  کی مردم شماری کے مطابق 65فیصد ہے وہیں مسلمانوں میں یہ شرح 59فیصدہی ہے،جب کہ ہندو 65فیصد، عیسائی80 فیصد، سکھ69 فیصد، بدھ 72 فیصداور 94 فیصدکے ساتھ جین مذہب سب سے اوپر ہے۔ مسلمانوں میں مرد کی شرح خواندگی67 فیصد اورعورت50 فیصد ہے۔

نازیہ الہیٰ خان نے کہا کہ اس افسوسناک صورت حال کو بدلے گئے مسلمانوں کی ترقی ممکن نہیں ہوپائے گی اوراس کیلئے مرکزی حکومت آگے آناہوگا ۔

()()()

 

Comments


Login

You are Visitor Number : 646