donateplease
newsletter
newsletter
rishta online logo
rosemine
Bazme Adab
Google   Site  
Bookmark and Share 
mazameen
Share on Facebook
 
Literary Articles -->> Adabi Khabren
 
Share to Aalmi Urdu Ghar
Author : Reyaz Azimabadi
Title :
   Dr. Nargis Jahan BarwiKe Afsanvi Majmuye Ka Ijra


 خواتین کو دہلیز سے باہر نکلکر جدوجہد کے لیے تیار کرنا ہوگا

 

خواتین کے حقوق کی علمبردار ڈاکٹر نرگس جہاں باروی کے

افسانوی مجموعے کا اجرا

پٹنہ۔۴ اپریل ۔ڈاکٹر نرگس جہاںباروی کے ۱۲ افسانوںکے مجموعہ’ دہلیز‘کا اجرا کینیڈا سے تشریف لائے پروفسرسید احمد،ڈاکٹر شکیل احمداور ڈاکٹر احمد عبدالحئی نے مشترکہ طور ایک باوقار تقریب میں  کیا۔جلسے کی صدارت ڈاکٹر پروفسر علیم اللہ حالی نے کی۔تقریب میں عظیم آباد کے دانشوران ادیب اور شعراء موجود تھے۔تین مقالے پڑھے گئے۔مظہرالحق عربی و فارسی یونیور سیٹی کے وائس چانسلر اور اردو اکادمی کے نائب صدر ڈالٹر اعجاز علی ارشد اور معروف سرجن ڈاکٹر احمد عبدالحئی مہمان ذی وقار کی حیثیت سے شریک تھے۔
    احتشام کٹونوی،ڈاکٹر قیصر زاہدی اور پروفیسر نورلہدیٰ شمسی نے نرگس جہاں کی افسانوی کاوش پر اپنے مقالے سنائے۔
    سابق مرکزی وزیر ڈاکٹر شکیل احمد،ڈاکٹر اعجاز علی ارشد،اردو اکادمی کے سکریٹری مشتاق احمد نوری،پٹنہ یونیور سیٹی کے صدر شعبہ اردو ڈاکٹر جاوید حیات ،معروف صحافی ریاض عظیم آبادی ، معروف افسانہ نگار شوکت حیات، ڈاکٹرطٰحہ یٰسین ،ڈاکٹر محسن رضا رضوی،رابطہ کمیٹی سیکریٹری افضل حسین، نسیم اختر،فضل رب ، کلیم الرحمٰن ،کہکشاں پروین،زرنگار یٰسمین،گلنار بیگمایڈوکیٹ  نے اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے نرگس جہاں کو مبارک باد دی اور انکے افسانوںکو معاشرے کی دکھتی رگوں کو بے نقاب کرنے والا بتا یا۔انہیں دہلیز سے باہر نکل کر خواتین کے درد پر مزید لکھنے کی گزارش کی۔
    ڈاکٹر نرگس جہاں باروی ایڈوکیٹ ہونے کے ساتھ ساتھ بہار کی معروف سماجی کارکن بھی ہیں۔وہ تہذیب کے دائرے میں خواتین کی آزادی کی علمبردارہیں۔یہ انکی دوسری کتاب ہے۔۲۰۰۶ میںالپنچ کے ایک ذہین نوجوان شاعر فوق مفتی گنجی پر ایک تحقیقی مقالہ شائع ہوکر مقبول ہو چکا ہے جسے بہار اردو اکادمی کا انعام بھی مل چکا ہے۔نرگس جہاں کو اس بات کا احساس ہے کہ معاشرے میں عورتوں کے حقوق پامال کیے جا رہے ہیں ۔وہ روشن خیال ہوتے ہوے بھی مذہبی مزاج کی حامل ہیں۔ در اصل وہ مسلم خواتین کے لیے ایک نمونہ کی حیثیت رکھتی ہیں۔انہیں عورتوں کی عریانیت سے نفرت ہے۔وہ حد درجہ حساس ہیں،انکے افسانوں کا موضوع ارد گرد پھیلے ہوئے کردار ہیں۔خواتین پر کیے جا رہے معاشرتی و سماجی ظلم و ستم  کا درد انکے افسانوں کی خصوصیت ہے  جو پڑھنے والوں کی آنکھیں  بار باربھگو دیتی ہیں۔ان کا تعلق بارو کے معزز خاندان سے۔انکے  خاوند سید نہال حسین  مرحوم مرکزی حکومت کے وزارت داخلہ میں  اسسٹنٹ ڈائرکٹرتھے ۔انکا ایک ہی بیٹا ڈاکٹرسید طا رق حسین امریکہ میں ہارٹ سرجن ہے اور بیٹی  نصرت دہلی ہائی کورٹ  میں ایڈوکیٹ ہیں۔مسلم معاشرے میں شادی اور اسکے مسائل،شادی کے بعد بڑھتی تلخیاں،مسلم خواتین کا کرب اور انکے لرزتے آنسو نرگس جہاں کے افسانوں  کے جیتے جاگتے کردار ہیں۔وہ افسانوں کے جزئیات کو افسانوی چابکدستی کے ساتھ لیکر سفر طے کرتی ہیں،دراصل انکے افسانوں کے موضوعات انکے ارد گرد بکھری زندگی کے شاخسانے ہیں۔انہیں اس بات احساس شدت کے ساتھ ہے کہ انکے ارد گرد جو کچھ ہو رہا ہے وہ ٹھیک نہیں ہے اور اپنے افسانوں کے ذریہ ان زخموں کو زبان دیتی ہیں اور قاری کو جھنجھوڑنے کا کام کرتی ہیں۔ان کے افسانوں میں دہی اور شہری زندگی کا درد نمایا ہے۔وہ خود کہتی ہیں…’میں نے تصورات و خیالات کے افق پربکھرے لفظوں کو چن چن کرسمیٹ کر انہیں لفظ لفظ سطر سطراکٹھا کیا ترتیب دیا۔پھر انہیں نیا پیرہن،نئی تراش خراش نئے ڈھنگ کے لباس زیب تن دے کر افسانے کا روپ دیا تب میرے  افسانے وجود میں آئے۔‘  نرگس جہاں کے افسانوں پر ڈاکٹر علیم اللہ حالی، ڈاکٹر قیصر زاہدی اورڈاکٹر نورالہدیٰ شمسی کے خیالات اس کتاب کی اہمیت میں اضافہ کرتے ہیں۔
    یہ کتاب ۲افسانوں  اور ۱۰۸ صفحات پر مشتمل ہے۔اس تقریب میں ڈاکٹر احمد عبدالحئی اپنی بیگم کے ساتھ تشریف لائے،انہوں کتاب کی اشاعت پر مبارک باد دی۔تقریب کا انعقاد رابطہ کمیٹی کے دفتر میں کیا گیا تھا۔پروفیسرسید احمد نرگس جہاں کے مامو ہیں جو اس تقریب شریک ہونے کے لیے کینیڈا سے تشریف لائے تھے،
    کتاب کے ملنے کا پتہ۔۔ڈاکٹر نرگس جہاں باروی ایڈوکیٹ،شاہ ارزاں کالونی،سلطان گنج پٹنہ ۸۰۰۰۰۶،اور بک امپوریم سبزی باغ پٹنہ۔                    
                                                    
                                                    (ریاض عظیم آبادی)

 

Comments


Login

You are Visitor Number : 640