donateplease
newsletter
newsletter
rishta online logo
rosemine
Bazme Adab
Google   Site  
Bookmark and Share 
mazameen
Share on Facebook
 
Literary Articles -->> Adabi Khabren
 
Share to Aalmi Urdu Ghar
Author : Reyaz Azimabadi
Title :
   Tariq Ki Walda Bilqees Jahan Ka Inteqal



طارق کی والدہ بلقیس جہاںکا انتقال


میری دوسری والدہ بھی مالک حقیقی سے جا ملیں

=ریاض عظیم آبادی 


موت بر حق ہے لیکن جب کسی اپنے کا انتقال ہو جاتا ہے تو اسکا درد شدت کے ساتھ محسوس ہوتا ہے۔۲۵ دسمبر کو فیس بک پر دیکھا کہ سابق مرکزی وزیرطارق انورایم پی  کی والدہ ICUمیں بھرتی ہیں میں نے گھبرا کر طارق کو فون کیا تواس نے  بتایا کہ صبح ۶ بجے وہ اپنے مالک حقیقی سے جا ملیں ۔دل کو ایک جھٹکا لگا،اشکوں کی مچل رہی دھار کو نہ روک سکا۔بے ساختہ رونے لگا۔جو کیفیت۱۸ جون۲۰۰۵ کو اپنی والدہ کے  انتقال کی خبر سنکر ہوئی تھی ویسا ہی احساس اپنے اندربرپا ہو چکا تھا۔۱۹۶۰ سے۱۹۶۶ تک  جو ماں جیسی محبت بلقیس خالہ  نے دی اسے کیسے فراموش کر سکتا تھا۔ 

    مجھے یاد ہے ۱۹۵۹ میں جب میرا داخلہ  پانچویں کلاس میں پٹنہ کے رام موہن رائے سمینری میںہوا تو میرا سب سے پہلا دوست مختار بنا جو آج کینسر جیسے مرض کا مقابلہ بہادری کے ساتھ کر رہا ہے۔اسکے  کچھ دنوں کے بعد میری دوستی طارق،مجاہد عرف مجن ،معروف صحافی انجم عالم  سے ہوئی اور دوستوں کا ایک گروپ تیار ہو گیا۔سی بی آئی کا حال ہی میں رہا  ڈائرکٹررنجیت سنہا بھی ہمارے ہی کلاس میں تھا۔طارق اور انجم مجھ سے سینیر تھے۔طارق رشتہ داروں سے ملنے پاکستان چلا گیا ،لوٹا تو میرا کلاس فیلو بن گیا۔اسکول جب مارننگ ہو جاتا تو طارق بھنور پوکھر  سے میرے گھر آ جاتا اور ہم دونوں  چائے روٹی کھا کر ساتھ اسکول جاتے ۔میری والدہ طارق کو بیٹا کی طرح مانتیء تھیں۔ہفتہ میں ایک یا دو روزطارق کے گھر جاتا جہاں طارق کی والدہ بلقیس خالہ محبت سے پیش آتی تھیں۔طارق کے نانا منظر امام صاحب مرحوم کو بھی مجھ سے اسنسیت تھی اور وہ کار آمد تاریخی اور سبق آموز قصے سنایا کرتے تھے۔طارق کے والد شاہ مشتاق اپنے ہی دھن میں رہتے تھے بچوں کو کم لفٹ دیا کرتے تھے۔میرا نانہال بہارشریف ہے اور طارق کا رشتہ بھی بہار شریف کے مرداد محلے سے ہے۔انکی والدہ نے ہی بتایا تھا کہ میری والدہ  رشتے میں انکی بہن لگتی ہیں۔میں نے تفصیل میں جاننے کی کوشش نہیں کی۔میری اور طارق کی دوستی کے درمیان چونکہ کوئی غرض نہیں تھی  اس لیے آج  ۵۶ سال کے بعد بھی ویسی بنی ہوئی ہے۔میں انہیں بلقیس خالہ نہ  پکار کر بلقیس امی ہی پکارتا تھا۔ وہ سراپہ محبت تھیں ،انکی ڈانٹ سے بھی محبت کی چاشنی کا احساس ہوتا تھا۔نہال بھائی طارق کے بڑے بھائی ہیں لیکن وہ دوستوں کی طرح آج بھی پیش آتے ہیں۔نصف صدی کی مدت گذر چکی ہے لیکن آج بھی جب اسکول کے دوست ملتے ہیں تو کسی طرح جھجھک ہمارے درمیان نہیں رہتی ۔طارق انجم،مجن،ریاض،زبیر ،شاہ جہاں کی ایک ٹولی تھی  جسمیں شاہ جہاں اور زبیر دنیا مین نہیں رہے۔اس گروپ کی خاصیت یہ تھی کہ ہم  نے کبھی بھی آوارگی نہیں کی۔غلط حرکتوں سے احتناب برتتے  رہے۔اسکول میں ہاف پینٹ پہننا لازمی ہو گیا تو ہم نے اسکول کے ۷۰ مسلم طلباسے درخواست لکھوائی کہ جمع کے روز نماز پڑھنے کے لیے پاجاما پہننے کی اجازت دی جائے۔کلیان کمار پدار اسکول کے پرنسپل تھے۔انہوںنے لیڈری کرنے کے لیے میری اور طارق جم کر پٹائی کی ۔یہ میری اور طارق  کی پہلی جدوجہد تھی ۔میں کمیونسٹ پارٹی میں شامل ہو گیا اور اسٹوڈنٹ لیڈر بن گیا۔طارق کو وراثت  میں کانگریس کی سیاست ملی۔  اسکے دادا شاہ زبیر احمد،شاہ حمیر احمد،شاہ ظہیراحمد اور والد شاہ مشتاق احمدایم ایل اے،ایم ایل سی رہ چکے ہیںاور پوتا طارق  مرکزی وزیر بنائے گئے اورممبر پارلیا منٹ کئی ٹرم رہے اور وہ حیثیت آج بھی برقرار ہے۔در اصل ہمارے دوستوں میں خلوص اور ایک دوسرے کے ساتھ تعاون کرنے کا جذبہ بھرا پڑا ہے،ہم نے رشتہ داری سے زیادہ دوستی کو اہمیت دی !    طارق طارق کی والدہ کی جنازے کی نماز نوری مسجد میں ادا کی گئی، وہاں پر بھی عجیب سا احساس میرے اندر موجود تھا۔آنکھ کی روشنی کم ہو جانے کی وجہ ہ سے بغیر سہارا کے چل نہیں سکتا۔زمین پر بیٹھنا میرے لیے خواب ہو چکا ہے اس لیے قل میں میںنہیں  جا سکتا،کیونکہ کرسی پر بیٹھنے سے کلام مجیڈ کی بے ادبی کا خطرہ رہتا ہے۔ میرے دوستوں کی فہرست طویل ہے۔لیکن ویسے دوست جن سے اپنا دکھ درد  شیر کریں ان میںطارق ،انجم، ،اعجاز علی ارشد،مشتاق نوری،اشرف فریدی ،اخلاق  احمد،رنجیت،پروفیسر سنیل،پریم چندر اہ جھا جیسے دوست ہیں جنمیں اسکولیا یار زیادہ ہیں۔ہم نے کسی سوال پر جھگڑا بھی ہوا ہے لیکن باہمی دوستی نے پھر ایک کر دیا۔میرے اور طارق کے درمیان جذباتی رشتہ ہے اب وہ شمائل بھائی کا داماد بھی ہے۔اتفاق کی بات ہے کہ طارق کی موجودہ دلہن کو  میں چھوٹی عمر سے دیکھ رہا  ہوں۔شمائل بھائی سے میرا رشتہ بھی نصف صدی سے برقرار ہے۔

    طارق اپنے بھائیوں میں سب سے چھوٹا ہے اسلیے وہی  ما ں باپ کی آنکھوں کا تارا تھا۔اسنے اپنی والدہ کی خدمت کا ثواب بھی حاصل کیا ۔ والدہ کے انتقال کا اثر طارق پر کیا ہوا ہے اسکا احساس مجھے ہے۔حالات اور مجبوری کی وجہہ سے میں طارق کو سینے سے لگاکر دلاسہ نہیں دے سکا۔بلقیس ممی ایک عظیم ماں تھیں،سراپہ محبت تھیں۔ وہ صرف طارق ،نہال بھائی،اور میری دوسری ماں نہیں تھیں بلکہ وہ سب کی ماں تھیں۔انکی موت سے محبت کے ایک دور کا خاتمہ ہو گیا۔خدا سے دعا ہے انکی مغفرت فرما ئے اور انکی نیکیوں کے صدقے جنت الفردوس میں اعلیٰ سے اعلیٰ مقام عطا فرمائے(آمین) اور طارق،انکے بھائیوں اور پورے خاندان کو صبر جمیل عطا فرمائے۔

( رابطہ9431421821)



 

 

 

 

Comments


Login

You are Visitor Number : 541