donateplease
newsletter
newsletter
rishta online logo
rosemine
Bazme Adab
Google   Site  
Bookmark and Share 
mazameen
Share on Facebook
 
Literary Articles -->> Adabi Khabren
 
Share to Aalmi Urdu Ghar
Author : Shams Tabrez Qasmi
Title :
   Mashhoor Seyasi Rahnuma Maulana Fazlur Rahman Saheb Ka Darae Hind

 

مشہورسیاسی رہنما مولانا فضل الرحمان صاحب کا دورہ ہند 


شمس تبریز قاسمی


جمعرات کی شب تھی ‘گھڑی رات کے ساڑھے گیارہ بجا رہی تھی،میرے ہاتھوں میں ماہنامہ ’’دی فری لانسر‘‘کا تازہ شمارہ تھا،اچانک میرے موبائل کی گھنٹی بجنے لگی،اسکرین پہ دیکھا تو میرے رفیق درس عادل رشید کا نمبر ڈسپلے ہو رہا تھا،میںنے فون ریسیو کیا ،سلام و کلام کے بعد انہوں نے کہا کہ آپ کو مولانا شاہ عالم صاحب یاد کر رہے ہیں لہذا فورا شعبہ کمپوٹر کی کلاس میں آجا ئیں،میں مولانا کے حکم کی تعمیل کرتے ہوے اپنے کمرے سے چند قدم کے فاصلے پر احاطہ مولسری میں واقع شعبہ کمپوٹر کی کلاس میں پہنچا ،وہاں حضرت مولانا شاہ عالم صاحب گورکھپوری نائب ناظم شعبہ تحفظ ختم نبوت دارالعلوم دیوبند،حضرت مولانا عبدالسلام صاحب قاسمی ناظم شعبہ کمپیوٹر دارالعلوم دیوبند،حضرت مولانا سلمان صاحب بنجوری استاذ حدیث دارلعلوم دیوبند اور دیگر اسااتذہ موجود تھے۔مولانا شاہ عالم صاحب نے مجھ سے کہا کہ ابھی آدھے گھنٹے میں پاکستان کے مشہور سیاسی و مذہبی رہنما حضرت مولانا فضل الرحمان صاحب صدر جمیعۃ علماء اسلام پاکستان تشر یف لا رہے ہیں ۔ان کے  ساتھ  ۳۰ آ دمیو ں کا وفد ہے۔مؤقر مہمانان کرام کا پر تپاک استقبال کرنا ہے ،اور آپ کو اس استقبالیہ کمیٹی کا ذمہ داری سنبھالنی ہے،یہ استقبال جی ٹی روڈ سے شروع ہو گا اور مہمان خانہ تک جاری رہے گا۔لہذا آپ طلبہ کو جمع کرلیں اور مہمانو ں کے استقبال کی تیاری کریں۔میرے دوش ناتواں پر یہ ذمہ داری بہت مشکل معلوم ہورہی تھی۔لیکن دوسری طرف مجھے بے پناہ مسرت و شادمانی بھی ہو رہی تھی کیوں کہ علماء کرام کے قافلے کا استقبال کرنا تھا وارثین انبیاء کا خیر مقدم کرنا تھانیز ان تمام علماء کرام کا تعلق پاکستانی کی سرزمین سے تھااس لئے میری دل چسپی میں بے پناہ اضافہ ہو گیا۔میںنے  اپنوں دوستوں کو فون کیااور  آدھے گھنٹے میں تقریبا سینکڑوں طلبہ کی تعدادجمع ہوگئی۔جی ٹی روڈ سے مدنی گیٹ تک ایک طویل قطار لگ گئی ۔تقریبا ۱۲ بجے حضرت مولانا آمد ہوئی ۔سب سے آگے مو لانا فضل الرحمان صاحب کی گاڑی تھی ۳۰ علماء کرام کا قافلہ ۱۲ گاڑیوں پر مشتمل تھا۔گیٹ پر مولانا کی گاڑی رکی وہا ں پر موجود اسانذہ نے مولانا سے ملاقات کی ۔اس کے بعد میری اور میرے رفیق درس فہیم اختر صاحب کی  مولاناسے رو برو  ملاقات ہوئی ۔پھر فلک شگاف نعروں سے مہمامان کرام کا استقبال شروع ہو گیا۔پوری فضا میں یہ  آواز گونجنے لگی  ’’نعرہ تکبیر اللہ اکبر  دارالعلوم زندہ باد جمیعۃ علماء  زندہ با،د علماء حق زندہ باد، تحفظ ختم نبوت زندہ باد، امن پسند غیرت مند ،‘‘ایک گھنٹے تک یہ سلسلہ جاری رہااور۳ منٹ کی مسافت طے ہو نے میں ایک گھنٹے کا وقت گذر گیااس استقبال کو کامیاب بنانے میں میرے بہت دوستوں نے میرا تعاون کیا جن میں ثاقب قمر  عیسی زاہد محمد نوشاد اور سعید قمر پیش پیش تھے۔


مو لانا فضل الر حمان صاحب مملکت خداد پاکستان کلے مشہور مذہبی و سیاسی رہنما ہیں۔آپ  کی پیدائش ۱۹ جون ۱۹۵۳ ء کو صوبہ خیبر پختواں خاں کے خیبر ضلع میں ہوئی۔عالمیت کی تعلیم پشاور کے ایک مدرسے میں حاصل کی۔۱۹۸۳ء میں جامعہ ازہر مصر گئے اور وہاں جاکر اپنی علمی تشنگی بجھائی۔۱۹۸۷ء میں فضیلت کی تکمیل کے  بعد وطن واپس آئے  اورملک کی سیاست میں شریک ہو گئے۔وطن واپسی کے ایک سال بعد ۱۹۸۸ء میں ہونے والے عام انتخابات کے آپ ایک اہم تریں حصہ تھے۔


مولانا جمیعۃ علماء اسلام کے سابق سر براہ اور صوبہ سر حد کے سابق وزیر اعلی مفتی محمود صاحب کے صاحب زادے ہیں ۔اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ حضر ت مولانا پاکستان کی قومی سیاست کے رکن رکین ہیں۔وہاں آپ کے لاکھوں کے عقیدت مند موجود ہیں جو دیوانہ وار آپ کو چاہتے ہیںجمیعۃ علماء اسلام پاکستان کے صوبہ خیبر پختواں خاں اور بلوچستان میں بہت زیادہ اثر و رسوخ ہے۔بلوچستان میں کوئی بھی پارٹی ان کے اتحاد کے بغیر حکومت بنانے میں کامیاب نہیں ہوسکی ہے۔صوبہ خیبر میں اس وقت بھی اپوزیشن لیڈر جمیعۃ علماء اسلام کے لیڈر جناب محمد اکرم خاں صاحب ڈرئی ہیںجو گذشتہ دنوں میں وہاں کے وزیر اعلی بھی رہ چکے ہیں۔


جمیعۃ علماء اسلام پاکستان کی مذہبی اور سیاسی دونوں طرح کی تنظیم ہے۔اس تنظیم کا خاکہ ہندوستان کی سب سے بڑی  مذہبی تنظیم جمیعۃ علماء ہند سے ملتا جلتا ہے بلکہ یہ اسی کے طرز پر ہے جس کاقیام ۱۹۱۹ء میں مفکراسلام حضرت مولانا ابولمحاسن محمد سجاد رحمۃاللہ علیہ اور مفتی اعظم حضرت مولانا کفایت اللہ صاحب دہلوی  رحمۃ اللہ علیہ کی جد و جہد سے عمل میں آیا تھا۔اور اب اس طرح کی تنظیم دنیا کے مختلف ممالک میں قائم ہو چکی ہے۔پاکستان میں جمیعۃ علماء اسلام کا قیام ۱۹۴۵ء میں مفتی شبیر احمد صاحب کی زیر قیادت عمل میں آیا تھا۔اس کے قیام کا پس منظر یہ تھاکہ جب جمیعۃعلماء ہند نے تقسیم ہند کے حوالے سے انڈین نیشنل کانگریس کے مو قف کی حمایت کی تو پاکستان  حامیوں نے جمیعۃ علماء اسلام پاکستان کی بنیاد ڈال کر اس پلیٹ فارم سے انڈین نیشنل کانگریس کے موقف کی مخالفت کی اور قیام پاکستان کا مطالبہ کیا۔جمیعۃعلماء اسلام ،پاکستان میں دیوبندی مسلک ایک نمائندہ تنظیم کہلاتی ہے ۔۱۹۶۰ء تک اس تنظیم کی حیثیت صرف ایک مذہبی جماعت کی تھی،ملکی سیاست میں اس کی کوئی حصہ داری نہیں تھی ،لیکن جب جنرل ایوب خان کے دور میں جدیدیت اور لا دینیت حد سے تجاوزکر گئی، مشرقی تہذیب کے سامنے مغربی تہذیب ماند پڑگئی تو پھر یہ جماعت بھی سیاسی سرگرمیوں میں شریک ہو گئی ۔۱۹۶۰ء کی دہائی میں پاکستان کے پہلے آمر جنرل ایوب خان کی حکومت کاخاتمہ ہونے کے بعد۱۹۷۰ء عام انتخابات میں پہلی مرتبہ اس پارٹی نے مولانا فضل الرحمان صاحب کے والد گرامی مفتی محمود صاحب کی قیادت میں الیکشن لڑی۔


نظریاتی طور پر یہ تنظیم اسلامی جمہوری قوانین کی حامی ہے۔اپنی خدمات کی بناپر یہ ملک طول و عرض میں بے پنا ہ مقبول ہے۔پورے پاکستان میں مدارس و مکاتب کا قیام سب سے زیادہ اسی تنظیم نے کیا ہے۔متحدہ مجلس عمل سے اس کا اتحاد ہے۔۲۰۰۲ء کے قومی اسمبلی اتنخابات میںجمیعۃ علماء کو۳ ۵  نششتیں ملی تھیںاور  ملنے والے ووٹوں کی کل تعداد۳،۱۱ فی صد تھی۸۔۲۰۰ء کے عام انتخابات میں متحدہ مجلس عمل کی اہم پارٹی جماعت اسلامی الیکشن کا بائیکاٹ کرنے کی بناپر انتحابات میں حصہ نہیں لی تھی جس کی بنا پر جمیعۃ علماء اسلام کو صرف ۶سیٹیں ملی تھیں صوبائی اسمبلی میں صرف ۴ سیٹیں ملی تھیں ۱۳۔۲۰ء کے  عام انتخابات میں بھی جمیعۃ علماء اسلام خاطر خواہ کامیابی سے ہم کنار نہیں ہوسکی تاہم خیبر پختواں خواں نواز شریف کی حکومت اسی تنظیم کے سہارے چل رہی ہے۔


جمیعۃ علماء اسلام پاکستان کے قومی صدر مو لانا فضل الر حمان صاحب کئی سرکاری عہدوں پر سر فراز رہ چکے ہیں۔پرویز مشرف کے دور صدارت میں اگست۲۰۰۴ء سے۲۰۰۸ء تک قومی اسمبلی میں اپوزیشن لیڈر تھے۔بے نظیر بھٹو کی وزارت عظمی کے زمانے میں قومی اسمبلی کشمیر کمیٹی کے چیئرمین تھے۔نیز ۲۰۰۲ء کے عام انتخابات کے کچھ مہینوں کے وزارت خارجہ کے ترجمان بھی بنائے گئے تھے۔


مولانا فضل الر حمان صاحب متعدد بار ہندوستان کا دورہ کر چکے ہیں جن میں ان کا سب سے اہم دورہ۲۰۰۳ء کا مانا جاتا ہے جب آپ  وزارت خارجہ کے ترجمان کی حیثیت سے اٹل بہاری واجپئی کی دور حکومت میں آئے تھے۔اس سفر میں کشمیر معاملے پر بھی بات چیت ہوئی تھی لیکن کوئی حل نہیں نکال سکا تھا۔ہندوستانی میڈیا سے خطاب کر تے ہوئے آپ نے اپنا یہ تاریخی جملہ کہا تھا کہ کشمیر ایک حکومتی معاملہ ہے مذہبی ایشوز سے اس کا کو ئی تعلق نہیں ہے۔۲۰۰۳ء کے سرکاری دورہ میں مولانا نے آر ایس ایس کے اراکین کے ساتھ بھی ایک خفیہ میٹنگ کی تھی جس میں مولانا نے کہا تھا کہ تجارت معاشی رشتے کی بحالی سے ہی دونوں ملکوں کے درمیان تعلقات میں مظبوطی پیدا ہو گی


مولانا کی دارالعلزم میں تقریبا یہ چوتھی مرتبہ  آمد ہوئی ہے۔مولانا اس مرتبہ حضرت شیخ الہند رحمۃ اللہ علیہ کی تحریک ریشمی رومال کے سو سال مکمل ہونے پر جمیعۃ علماء ہند کے زیر اہتمام منعقد ہو نے امن عالم کانفرنس میں شرکت کی غرض سے تشریف لائے تھے۔مولانا کی آمد پر دار العلوم نے بھی انہیں استقبالیہ پیش کیا ہے نیز ۱۳دسمبر۲۰۱۳ء بروز جمعہ کو مولانا نے طلبہ دارالعلوم سے مسجد رشید میں نمازجمعہ کے بعد خصوصی خطاب کیا تھا۔


مولانا عصر حاضر میں اسلامی سیاست کے علمبردار ہیں اور پاکستان کو سیاسی بحران سے نکالنے کی صلاحیت سے سرشار ہیں لیکن یہ اسی وقت ممکن ہے جب پاکستان کی عوام جمیعۃ علماء اسلام کو حکومت سازی کا موقع فراہم کرے گی۔


Email:stqasmi@gmail.com

Mob:9557264795 

*******************

 

Comments


Login

You are Visitor Number : 860