donateplease
newsletter
newsletter
rishta online logo
rosemine
Bazme Adab
Google   Site  
Bookmark and Share 
mazameen
Share on Facebook
 
Literary Articles -->> Adabi Khabren
 
Share to Aalmi Urdu Ghar
Author : Suhail Anjum
Title :
   Belgaum Me Karnatak Urdu Academy Ka Tareekh Saz Sahafat Seminar


بلگام میں کرناٹک اردو اکیڈمی کا تاریخ ساز صحافت سمینار


سہیل انجم


آج اردو زبان اور اردو صحافت نامساعد حالات سے دوچار ہیں۔ اہل اردو اپنی زبان کی بقا اور فروغ کے لیے برعکس حالات سے برسر پیکار ہیں۔ حکومتیں اردو کو اس کا جائز حق دینے کے وعدے تو کرتی ہیں لیکن ان کو پورا نہیں کرتیں۔ کئی ریاستوں میں اردو کو دوسری سرکاری زبان کا درجہ ملا ہوا ہے لیکن عملاً وہ دوسری کیا تیسری، چوتھی اور پانچویں زبان کے طور پر بھی موجود نہیں ہے۔ اردو کو دوسری زبان کا درجہ دینے والی ریاستوں کی حکومتیں بھی اس کو یہ حق نہ دے کر آئین کی خلاف ورزی کرتی ہیں۔ لیکن کوئی بھی ان سے یہ نہیں پوچھتا کہ آئین کی خلاف ورزی کیوں ہو رہی ہے۔

ان نامساعد حالات میں بھی اہل اردو مایوس نہیں ہیں۔ ان کی اپنی کوششیں جاری ہیں۔ اس کا ایک اہم ثبوت ملک کی جنوب مغربی ریاست کرناٹک کے دوسرے سب سے بڑے اور خوبصورت شہر بلگام میں کرناٹک اردو اکیڈمی کے زیر اہتمام تاریخ ساز اردو صحافت سمینار کے انعقاد کا واقعہ ہے۔ کرناٹک ہندی بولی والا صوبہ نہیں ہے۔ وہاں کنڑ، مراٹھی او رکونکنی زبانیں بولی جاتی ہیں۔ لیکن کرناٹک اردو اکیڈمی اور خصوصاً اس کی چیئرپرسن ڈاکٹر فوزیہ چودھری نے بلگام جیسے شہر میں اردو صحافت کے دو سو سالہ سفر پر انتہائی کامیاب سمینار کا انعقاد کرکے یہ دکھا دیا کہ اردو کو ختم نہیں کیا جا سکتا، اسے مٹایا نہیں جا سکتا۔ اردو ان علاقوں میں بھی اپنی موجودگی درج کرالیتی ہے جہاں اس کے لیے حالات سازگار نہیں ہیں۔ اس کامیاب سمینار کے انعقاد کا سہرا چیئرپرسن ڈاکٹر فوزیہ چودھری کے علاوہ اکیڈمی کے رکن اور سمینار کے کنوینر محمد اشفاق صدیقی کے سرجاتا ہے جنھوں نے بے حد غیر معاون حالات میں اس کا انعقاد کیا اور ملک کے مختلف حصوں سے صحافیوں کو مدعو کرکے اردو صحافت کی روشن تاریخ کو دنیا کے سامنے اجاگر کیا۔ اس کامیاب انعقاد میں اہل بلگام بھی برابر کے شریک رہے۔ انھوں نے بھی اس بات کا ثبوت دیا کہ وہ اردو سے محبت کرتے ہیں۔ سمیناروں میں صرف کھانے کے لیے نہیں جاتے بلکہ کھانے کے بعد بھی پوری دلجمعی کے ساتھ موجود رہتے ہیں۔ اس قومی سمینار میں نارتھ بلگام سے کانگریس پارٹی کے رکن اسمبلی فیروز نورالدین سیٹھ اور ان کے بھائی اور صدر سٹی بلگام ضلع کانگریس آصف راجو سیٹھ نے بھی اپنی بھرپور دلچسپی کا مظاہرہ کیا۔ انھوں نے پورے دن سمینار میں موجود رہ کر اردو کے ساتھ اپنی وابستگی کا مظاہرہ کیا۔ فیروز سیٹھ نے اس بات پر اظہار افسوس کیا کہ ہم لوگ اردو زبان کے فروغ کی بات تو کرتے ہیں لیکن اپنے گھروں میں اردو کو رائج کرنے کی کوئی کوشش نہیں کرتے۔ آصف راجو سیٹھ نے بھی اردو کی صورت حال پر اظہار خیال کیا اور اس بات پر زور دیا کہ ہمیں اپنی زندگی میں اردو تہذیب کو اختیار کرنے کی ضرورت ہے۔ دونوں رہنماؤں نے کامیاب سمینار کے انعقاد پر کرناٹک اردو اکیڈمی کی چیئرپرسن ڈاکٹر فوزیہ چودھری اور کنوینر محمد اشفاق صدیقی کو مبارکباد دی۔

کنوینر اشفاق صدیقی نے سمینار کی غرض و غایت بتاتے ہوئے اردو صحافت کے تاریخی سفر پر اختصار کے ساتھ روشنی ڈالی اور بتایا کہ اس شہر کا اردو کے ساتھ ساتھ مجاہدین آزادی سے بھی گہرا رشتہ رہا ہے۔ یہاں کی صحافت نے بھی ملک و قوم کی ترقی میں بھرپور حصہ لیا ہے۔ انھوں نے بلگام میں قومی سمینار کرنے کی وجوہات پر روشنی ڈالتے ہوئے کہا کہ وہ یہ بتانا چاہتے تھے کہ اردو یہاں بھی موجود ہے اور پھل پھول رہی ہے۔ یہاں کے لوگ بھی اردو زبان سے محبت کرتے ہیں۔ اس شہر میں علی برادران بھی آئے ہیں اور گاندھی جی نے بھی یہاں کا دورہ کیا ہے۔ اس وقت بھی یہاں سے کئی اردو اخبار نکل رہے ہیں۔ لہٰذا بلگام کا بھی یہ حق ہے اسے اردو صحافت کے قومی سمینار کے انعقاد کی میزبانی کافریضہ ادا کرنے کا موقع ملے۔ اس کامیاب قومی سمینار کے انعقاد پر ڈاکٹر فوزیہ چودھری نے اشفاق صدیقی، اہل بلگام اور اہل اردو کو مبارکباد دے کر یہ جتا دیا کہ وہ بھی اردو زبان و صحافت کے فروغ میں برابر کی شریک ہیں۔

 دہلی سے آل انڈیا اردو ایڈیٹرس کانفرنس کے چیئرمین، سابق ممبرپارلیمنٹ، سابق سفیر ہند اور آل انڈیا کانگریس کمیٹی کے ترجمان م۔افضل، معروف صحافی اے یو آصف ، یہ خاکسار (سہیل انجم) اور جامعہ ملیہ اسلامیہ کے شعبہ اردو کی ریسرچ اسکالر صبیحہ ناہید نے شرکت کی۔ سمینار میں اس پر بحث ہوئی کہ اردو کا پہلا اخبار کون تھا۔ ’’جام جہاں نما‘‘ تھا یا ’’اردو اخبار‘‘ تھا۔ جام جہاں نما کو 1822 میں کلکتہ سے ہری ہر دت اور سدا سکھ لعل نے جاری کیا تھا جبکہ اردو اخبار کو مولوی اکرم علی نے 1810 میں کلکتہ میں واقع اپنے ہندوستانی پریس سے جاری کیا تھا۔ تاریخی شواہد کی روشنی میں جام جہاں نما کو اردو کا پہلا اخبار کہا جاتا ہے۔ ہندوستان کے اخبارات کی پہلی غیر سرکاری ڈائرکٹری اختر شاہنشہی میں ادو اخبار کا ذکر کیا گیا ہے۔ اس کی بنیاد پر نادم سیتاپوری نے یہ خیال پیش کیا کہ اردو اخبار ہی اردو کا پہلا اخبار ہے۔ معروف صحافی اور اردو صحافت کی تاریخ پر گہری نظر رکھنے والے جی ڈی چندن نے، جن کا حال ہی میں انتقال ہوا ہے، اپنی کتاب جام جہاں نما میں لکھا ہے کہ اردو اخبار کی کوئی فائل کہیں موجود نہیں ہے۔ لیکن سینئر صحافی اے یو آصف، جنھوں نے سمینار کی کامیاب نظامت کی، کہتے ہیں کہ انھوں نے کلکتہ کے آرکائیو میں بچشم خود اس فائل کا مشاہدہ کیا ہے۔ بہر حال یہ بات تحقیق طلب ہے کہ اردو اخبار اردو کا پہلا اخبار تھا۔ اگر اس کی فائل موجود ہے تو اسے سامنے لانا چاہیے اور اردو صحافت کی تاریخ کی غلطی کو درست کیا جانا چاہیے۔

م۔ افضل نے پہلے اپنے کلیدی خطبہ اور پھر صدارتی خطبہ میں اردو صحافت کی تاریخی خدمات پر تفصیلی روشنی ڈالتے ہوئے یاد دلایا کہ ملک کی آزادی میں کلیدی کردار ادا کرنے اور دہلی اردو اخبار کے مدیر مولوی محمد باقر اور دیگر صحافیوں کی شہادت کا نذرانہ پیش کرنے سے لے کر حصول آزای اور اس کے بعد سے ہنوز سیاست، معاشرت، معیشت، روزگار، تہذیب و تمدن، شعر و ادب، مذہب، سائنس اور فلم و تھیٹر میں اہم و غیر معمولی کردار ادا کرنے کے سبب اردو صحافت کا مقابلہ برصغیر کی کوئی اور زبان نہیں کرسکتی۔ انہو ںنے یہ شکوہ کیا کہ ان تمام خدمات کے باوجود آزاد ہندوستان میں اردو صحافت کو اس کا صلہ نہیں ملا اور اشتہارات و دیگر سہولیات و مراعات میں انگریزی و دیگر زبانوں کے اخبارات و رسائل کے بالمقابل اردو کے تئیں سرکاری و غیر سرکاری رویہ اچھا نہیں ہے۔ انھوں نے توقع ظاہر کی کہ اردو صحافت کا یہ سفر ہمیشہ جاری رہے گا۔انہوں نے یہ بھی کہا کہ اس قومی سمینار میں بلگام کے انجمن اسلام ہال کا کھچا کھچ بھرا رہنا اور اس میں مرد و خواتین کا بڑی تعداد میں شرکت کرنا اس بات کی دلیل ہے کہ اردو زبان اور اردو صحافت سے اس جنوب مغربی ریاست میں زبردست محبت پائی جاتی ہے۔ اے یو آصف نے نظامت کے فرائض انجام دیتے ہوئے اردو صحافت کے دو سو سالہ سفر پر اظہار خیال کیا اور صحافت کے آغاز سے لے کر اب تک کے نشیب و فراز پر روشنی ڈالی۔

اردو صحافت کے فروغ میں جہاں مختلف شعبہ ہائے حیات کے لوگوں نے بھرپور حصہ لیا وہیں علمائے کرام نے بھی اس میدان میں ناقابل فراموش رول ادا کیا ہے۔ اگر مولوی اکرم علی کے اخبار کو اردو کا پہلا اخبار مانا جائے تو کہنا پڑے گا کہ اردو صحافت کی داغ بیل ہی علمائے کرام نے ڈالی ہے۔ اس حوالے سے راقم الحروف نے ’’اردو صحافت کے فروغ میں علمائے کرام کی خدمات‘‘ کے عنوان پر ایک تفصیلی مقالہ پیش کیا۔ جس میں مولوی اکرم علی اور مولانا محمد باقر سے لے کر مولانا ابوالکلام آزاد، مولانا ظفر علی خاں، مولانا محمد علی جوہر، مولانا ثناء اللہ امرتسری وغیرہ سے لے کر عہد حاضر تک کے عالم صحافیوں کی خدمات کو اجاگر کیا۔ موجودہ دور میں بھی بے شمار علمائے کرام صحافت سے وابستہ ہیں۔ زوالِ اردو کے اس دور میں جبکہ اردو کی سب سے زیادہ حفاظت اور خدمت مدارس اسلامیہ کر رہے ہیں نئے صحافیوں کی کھیپ انہی مدارس کے فارغین پر مشتمل ہے۔ قابل ذکر بات یہ ہے کہ سمینار کے کنوینر اشفاق صدیقی نے یہ اعلان کیا کہ وہ اردو صحافت کے فروغ میں علما کے کردار والے مقالے کو کتابی شکل میں شائع کریں گے۔ اگر یہ کام ہو جاتا ہے تو اسے اہل اردو اور اہل وطن کے لیے بلگام سمینار کا ایک تحفہ قرار دیا جائے گا۔

سمینار میں جہاں صحافت سے متعلق مختلف موضوعات پر مقالے پیش کیے گئے وہیں ’’بلگام میں اردو صحافت کی تاریخ‘‘ پر ع صمد خانہ پوری نے مقالہ پیش کیا گیا۔ بلگام میں اردو صحافت کا آغاز 1924 میں  ہفت روزہ ناظم دکن کے اجرا سے ہوا جسے مولانا محمد نظام الدین جنیدی نے جاری کیا تھا۔ انھیں بلگام میں اردو صحافت کا باوا آدم کہا جاتا ہے۔ اس کے بعد مجلہ افشاں،  ہفت روزہ جوہر گفتار،  ہفت روزہ بلگام سن، ایس ایس ایل سی رہنما، روزنامہ نمودار، ماہنامہ صدائے فطرت، ماہنامہ روپ رس،  ہفت روزہ نیوز فلاش،  ہفت روزہ جوہر صحافت، ماہنامہ اپنا گلستاں (بچوں کا رسالہ)، بلگام ایکسپریس اور جسارت ٹائمز نامی اخبارات و رسائل جاری ہوئے۔ جن میں سے کچھ بند ہو گئے اور کچھ نکل رہے ہیں۔ اس قومی سمینار میں مہاراشٹرا اور حیدرآباد کے علاوہ مقامی صحافیوں نے بھی بطور مقالہ نگار اور بطور سامعین بڑی تعداد میں شرکت کی۔ ان میں سرفراز آرزو ایڈیٹر روزنامہ ہندوستان ممبئی، خالد ملا ایڈیٹر انچارج ای ٹی وی اردو حیدرآباد، سید تنویر احمد ایڈیٹر انگریزی اخبار کرناٹکا مسلمس، م، فاروق حنان ایڈیٹر جوہر صحافت بلگام، حامد اکمل مدیر ایقان، ع صمد خانہ پوری راشٹریہ سہارا اردو، ڈاکٹر آفاق عالم صدیقی قابل ذکر ہیں۔ اس موقع پر جہاں  ہفت روزہ جسارت ٹائمز نے شاندار اردو صحافت نمبر شائع کیا وہیں جوہر صحافت نے اپنے تازہ شمارے میں بلگام کی اردو صحافت پر بھی مضمون شائع کیا۔

(یو این این)


sanjumdelhi@gmail.com


*************************

 

 

Comments


Login

You are Visitor Number : 574