donateplease
newsletter
newsletter
rishta online logo
rosemine
Bazme Adab
Google   Site  
Bookmark and Share 
mazameen
Share on Facebook
 
Literary Articles -->> Adabi Khabren
 
Share to Aalmi Urdu Ghar
Author : Syeda Zahra Imran
Title :
   Lahore Me Tariq Aziz Ke Afsanwi Majmua Ki Taqreeb Ru Numayi

لاہور میں طارق عزیز کے افسانوی مجموعہ کرامت

کی تقریبِ رونمائی کا احوال


 سیدہ زہرہ عمران

دنیا کے باون سے زیادہ ممالک میں معروف و مقبول اردوکی ویب سائٹ’’ اردونیٹ جاپان ‘‘کی مدیرہ ہونے کی حیثیت سے مجھے کراچی و لاہور کی بے شمار ادبی و سماجی تقریبات میں شرکت کا موقعہ ملا ۔لیکن جس ادبی تقریب کا احوال میں آج بیان کر رہی ہوں وہ ہر لحاظ سے ایک منفرد اور ناقابل فراموش تقریب تھی۔لاہور کے باصلاحیت نوجوان افسانہ نگار طارق عزیز کے افسانے اردونیٹ جاپان کی زینت بنتے رہتے ہیں۔طارق عزیز کے افسانوں کے مجموعہ ’’کرامت ‘‘میں اردونیٹ جاپان کے مدیرِ اعزازی برائے ہندستان جناب کامران غنی کا تبصرہ بعنوان’’ معتدل بحروں کا شناور ‘‘ بھی شامل ہے ۔طارق عزیز نے اپنی کتاب کی تقریب رونمائی میں شرکت کرنے کے لئے انڈیاسے کامران غنی کو بھی مدعو کیا ،انہوں نے اس تقریب میں شرکت کرنے کے لئے اپنی سی تمام کوششیں کر ڈالیں لیکن ان کا پاکستان کا ویزہ نہ لگ سکا۔یوں کامران غنی کے ملا ل اور مایوسی کا ازالہ کرنے کے لئے میں نے اس تقریب میں ان کی نمائندگی کرنے کا فیصلہ کیا۔karamat book launching’’کرامت ‘‘ کی رونمائی کی تقریب لاہور میں الحمراء کی ’’ادبی بیٹھک ‘‘ میں ہونا قرار پائی تھی ۔دعوت نامے کے مطابق میں مقررہ مقام پر مقررہ وقت پر پہنچی تو طارق عزیز نے دیگر میزبانوں کے ہمراہ میرا پُرتپاک استقبال کیا اور تمام معزز مہمانوں سے میرا خصوصی طورپرتعارف کرایا۔مہمانوں میں ملک کے نامور دانشور ،تجزیہ نگاراور صحافی سجاد میر ،نامور سفرنامہ نگار سلمیٰ اعوان،معروف ادیبہ و شاعرہ ڈاکٹر عمرانہ مشتاق،معروف صحافی و کالم نگار ایثار رانا ،نامور صحافی کالم نگار سجاد النبی کے علاوہ دیگر معروف صحافی شہزاد فراموش،ناز اوکاڑوی اور میم سین بٹ شامل تھے ۔

تقریب کا باقاعدہ آغاز تلاوت کلام پاک سے ہوا جس کی سعادت حافظ ریاض کو حاصل ہوئی ۔اس کے بعد نوجوان فہد حسن نے ہدیہ نعت پیش کیا ۔تقریب کی نظامت کے فرائض نوجوان صحافی و ادیب سید بدر سعید نے اپنے منفرد اور دھیمے انداز میں انجام دئے ۔انہوں نےنہایت ہی خوبصور ت اور دل آویز انداز میں تمام مہمانوں کا تعارف پیش کرتے ہوئے انہیں اسٹیج پر آنے کی دعوت دی اور تمام مہمانوں کا استقبال پھولوں کے گلدستوں سے کیا گیا۔اس تقریب کی صدارت تو اردو کے نامور ادیب مستنصر حسین تارڈ نے کرنا تھی لیکن کچھ نجی وجوہات کی بنا پر وہ تشریف نہ لاسکے اور ان کے کہنے پر معروف تجزیہ نگار و کالم نگار جناب سجاد میر نے یہ ذمہ داری احسن طریقے سے نبھائی ۔انہوں نے اپنے صدارتی خطاب میں کہا کہ چونکہ طارق عزیز ذرا ٹیڑھا آدمی ہے اسی لئے اس کے موضوعات بھی ٹیڑھے ہوتے ہیں ،اس کے یہاں پھوٹتی ہوئی کلیوں کی تازگی ہے ،انہوں نے مزید کہا کہ انہیں طارق عزیز کی ناپختگی پسند ہے کیونکہ ان کی اسی نا پختگی میں تازگی ہے انہیں افسانے لکھتے رہنے چاہئے حتیٰ کہ وہ افسانہ نگاری کے فن میں ماہر نہ ہو جائیں ۔سلمیٰ اعوان نے ’’کرامت‘‘ پر اظہار خیال کرتے ہوئے کہا کہ طارق عزیزسچا کہانی کاراور فن کار ہے اس نے اپنی تحریروں کو غیر ضروری افسانوی ٹچ نہیں دیا اس نے اپنے افسانوں میں کوئی فلسفہ نہیں جھاڑابلکہ معاشرے کی برائیوں کو بے نقاب کیا ہے ۔سجادالنبی نے بھی کرامت اور صاحب کرامت پر بڑے ہی شگفتہ انداز میں تبصرہ کیا ۔انہوں نے کہا کہ طارق عزیز نے ایسے افسانے تحریر کئے ہیں جن کی جڑیں ہمارے معاشرے میں ہیں ۔روزنامہ خبریں کے کالم نگار ایثار رانا نے کہا کہ طارق عزیز کے افسانے پڑھ کر ایسا لگتا ہے کہ ہمارے ملک کا ہر شعبہ خواہ وہ سیاست ہو یاصحافت طارق عزیز کے افسانوں کے کرداروں سے بھرا پڑا ہے ۔انہوں نے کہا کہ اچھا لکھنے والا وہی ہوتا ہے جو باتوں باتوں میں اپنی بات کرجائے ۔روزنامہ خبریں کی کالم نگار ڈاکٹر عمرانہ مشتاق نے کہا کہ طارق عزیز کی کرامت یہ ہے کہ اس نے اپنے افسانوں میں معاشرے کے پیچیدہ اور نازیبا کرداروں کے چہروں سے جس خوبصورتی سے نقاب سرکائی ہے اس سے ان کے مکروہ چہرے خود بخود بول اٹھے ہیں ۔


میں نے بھی طارق عزیز اور ان کی تصنیف پر اظہار خیال کرتے ہوئے کہا طارق عزیز کے افسانے اسلوب کے لحاظ سے سادہ ہونے کے باوجود ادب کی تمام ضروریات کو پورا کرتے ہیں ،ان کے کردار قاری کو نصیحت نہیں کرتے بلکہ افسانہ پڑھ کر قاری خود ہی نصیحت پکڑنے پر مجبور ہو جاتا ہے ۔مثلاََکرامت،جنت،اپنی اپنی گڑیااور مبارک دن نصیحت آموز کہانیاں ہیں ۔طارق عزیز کے افسانے کا ایک وصف یہ بھی ہے کہ اگر انہیں ڈرامائی شکل ی جائے تو یہ ڈرامے کے میدان میں بھی ایک کامیاب تجربہ ہوگا کیونکہ ان کے کردار بہت جاندار ہیں ۔میں نے طارق عزیز سے خصوصی گزارش کی کہ مکالمہ نگاری پر خصوصی توجہ دے کر اپنے افسانوں کو ڈرامائی شکل دینے کا اہتمام کریں ۔تقریب کے اختتام پر طارق عزیز نے بھی اپنے خیالات کا اظہار کیا ۔انہوں نے مہمانوں کا شکریہ ادا کرتے ہوئے کہا کہ میں نے یہ افسانے نہیں لکھے بلکہ میرے اندر جو کچھ بھی تھا وہ میں نے صفحہ قرطاس پر منتقل کر دیا ۔اب فیصلہ آپ کے ہاتھ میں ہے کہ میں کس حد تک کامیاب ہوا ہوں ۔


تقریب کے اختتام پر مہمانوں کے لئے لذت کام و دہن کا بھی بندوبست تھا ۔چائے نوشی کے دوران تمام مہمان ایک دوسرے سے خوش گپیوں میں مصروف ہوگئے ۔مجھے بھی مہمانوں اور میزبانوں کی طرف سے خوب محبت اور پزیرائی ملی اور طبعیت پر خوشگوار اثر ہوا۔


یہ تقریب اس لحاظ سے بھی دیگر ادبی تقریبات سے منفرد تھی کہ اس میں شرکت کر کے ایسا محسوس ہوتا تھا کہ جیسے یہ کوئی ہماری نجی تقریب ہے ۔تمام شرکاء ایک ہی خاندان کے افراد کی طرح محبت و خلوص سے مل رہے تھے ۔آخر میں شرکاء و دیگر مہمانوں کے گروپ فوٹو اتارے گئے اور یوں یہ خوبصورت شام خوبصورت یادوں کو سمیٹتے ہوئے ہم سے رخصت ہوئی ۔

******************

 

Comments


Login

You are Visitor Number : 475