donateplease
newsletter
newsletter
rishta online logo
rosemine
Bazme Adab
Google   Site  
Bookmark and Share 
mazameen
Share on Facebook
 
Literary Articles -->> Adabi Khabren
 
Share to Aalmi Urdu Ghar
Author : Tahir Azeem
Title :
   Aalmi Mushaitra 2013 Bayad Qabil Ajmeri

عالمی مشاعرہ 2013ء بیاد قابل اجمیری
 
جسارت میگزین, جهان ادب, میگزین | August 4, 2013
 
طاہر عظیم
 
انجمن فروغ ادب بحرین کے زیرِ اہتمام عالمی مشاعرہ ۲۰۱۳ء کا انعقاد گزشتہ دنوں سلمان کلچرل سینٹر بحرین میں کیا گیا،مشاعرے میں پاکستان سے رسا چغتائی،ڈاکٹر نکہت افتخار،شاہد ذکی،ہندوستان سے ڈاکٹر کلیم قیصر،عزم شاکری جبکہ قطر سے ندیم ماہر اور سید زوارحسین زائر شریک ہوئے۔
اس مشاعرے کو مشہور اور منفرد لب و لہجے کے شاعر قابل اجمیری کے نام منسوب کیا گیا تھا۔ عبدالرحیم قابل اجمیری ۲۷ اگست ۱۹۳۱ میں پیدا ہوئے اور ۱۹۶۲ میں صرف ۳۱ سال کی عمر میں ان کا انتقال ہوا اس مختصر زندگی میں جو شاعری انہوں نے کی وہ یقیناً اپنی مثال آپ ہے
 
انجمن فروغ ادب بحرین کا عالمی مشاعرہ’’بیادِقابل اجمیری‘‘ نہ صرف قابل اجمیری کو خراجِ تحسین پیش کرنے کے لیے تھا بلکہ اس بات کا بھی ثبوت ہے کہ ہم شعروادب کے لیے اپنا خونِ جگر صرف کرنے والے اپنے رفتگاں کو یاد رکھے ہوئے ہیں۔
 
صہیب قدوائی اور عدیل ملک کی سرپرستی میں منعقد ہونے والے اس مشاعرے کے منتظمین طاہر عظیم، مختار عدیل، محمدشمیر ، کاتب زہیر،
ظہیراحمد تھے جن کی شبانہ روز محنت سے اس شام کا کامیاب انعقاد ممکن ہوا۔
مشاعرے کی صدارت صدارتی ایوارڈ یافتہ استاد شاعر محترم رسا چغتائی نے کی،جبکہ مہمانِ خصوصی سفارت خانہِ پاکستان بحرین کے محترم اورنگزیب تھے ،نظامت کے فرائض ڈاکٹر کلیم قیصر نے خوش اسلوبی سے سرِ انجام دیئے۔
 
تقریب کا باقاعدہ آغاز تلاوتِ کلامِ پاک سے کیا گیا جس کی سعادت ظہیر احمد بابر نے حاصل کی،
تقریب کی کاروائی کی ذمہ داری ندیم ماہر کے سپرد کی گئی تھی،جنہوں نے نہایت خوش اسلوبی سے یہ ذمہ داری نبھائی۔ شرف خواجہ نوید نے قابل اجمیری کے فن اور شخصیت پر اظہارِ خیال کرتے ہوئے کہا
’’جس عظیم ادبی شخصیت کی یاد میں آج کی یہ محفل سجائی گئی ہے وہ قابل اجمیری ہیں،قابل سخنور،قابل شاعر،قابلِ صد تحسین اور اپنے ہم عصروں میں قد آور‘‘
 
وقت کرتا ہے پرورش برسوں
حادثہ ایک دم نہیں ہوتا
 
اس کے بعد انہوں نے قابل اجمیری پر لکھے گئے مختلف ادباء کے مضامین کے اقتباسات پیش کیے۔
ندیم ماہر نے تمام مہمان اور مقامی شعراء کوفرداً فرداً اسٹیج پر آنے کی دعوت دی، مقامی شعراء میں خورشیدعلیگ،رخسارناظم آبادی،شرف خواجہ نوید،مختارعدیل اور طاہر عظیم کا انتخاب کیا گیا تھا۔
انجمن فروغ ادب بحرین ہر سال عالمی مشاعرہ کی مناسبت سے ’’اظہار‘‘ کے نام سے ایک مجلہ کا اجراء کرتی ہے، جس کی رسمِ اجراء کے لیے مہمانِ خصوصی اورنگزیب صاحب کو اسٹیج پر آنے کی دعوت دی گئی اس موقع پر مہمان و مقامی شعراء کے لیے انجمن فروغ ادب کے سرپرست عدیل ملک اور مجلہ کی تزئین و آرائش کے ذمہ دار کاتب زہیر بھی موجود تھے،تقریب کے اختتام کے ساتھ ہی جنابِ ندیم ماہر نے مشاعرے کے باقاعدہ آغاز کے لیے مائیک ڈاکٹر کلیم قیصر کے حوالے کی،جنہوں نے ان اشعار اور کلمات سے نظامت کا آغاز کیا
’’کام سب غیر ضروری ہیں جو سب کرتے ہیں
اور ہم کچھ نہیں کرتے ہیں غضب کرتے ہیں
آپ کی نظروں میں سورج کی ہے جتنی عظمت
ہم چراغوں کا بھی اتنا ہی ادب کرتے ہیں
بعض شخصیتیں میخانے میں جا کر پیتی ہیں بعض جہاں پی لیتی ہیں وہیں میخانہ بن جاتا ہے ،جناب قابل اجمیری کی شخصیت ان میں سے ایک تھی،۳۱،۳۲ سال میں عمر میں غزل کے لیے اتنا کچھ کام کردیا کہ بہت سے تنقیدنگاروں کی بتیسی باہر آگئی،قابل ‘قابلِ احترام شاعر تھے‘‘
مشاعرے کے پہلے شاعر طاہر عظیم تھے
میرے احساسات کا مطلب سمجھ
بات سن اور بات کا مطلب سمجھ
مجھ کو اس کے شور نے مارا خاموشی سے
دل نے جب جب تجھ کو پکارا خاموشی سے
یہ جو اچانک شور مچانے لگ جاتے ہیں
مل جاتا ہے کوئی اشارا خاموشی سے
نوجوان شاعر مختار عدیل نے خوبصورت کلام پیش کیا اور داد حاصل کی
آج شامل ہو جس قطار میں تم
میں بھی شامل اسی قطار میں تھا
آنے والے کل کے سورج کے لیے
روشنی سے بر سرِ پیکار ہیں
چپ ہے کیوں؟لب کھول کے یہ شب کٹے
اے اداسی ہم ترے غم خوار ہیں
شرف خواجہ نوید کے چند اشعار جنہیں کافی سراہا گیا
شبِ تاریک کی پھر ابتدا ہے
نجانے اب کے اس کی طول کیا ہے
سدا دیتے رہے ہم خود کو دھوکا
ہمارے ساتھ یہ دھوکا ہوا ہے
نوید اب باز آئے شاعری سے
بہت سا کام دفتر میں پڑا ہے
مقامی شعرا میں ایک اہم نام رخسار ناظم آبادی کاہے جنہیں ہمیشہ احترام اور توجہ سے سنا جاتا ہے،ان کے چند اشعار ملاحظہ ہوں
پیٹ پالے، دکھ سہے، سجدہ کرے
اک اکیلا آدمی کیا کیا کرے
آج کل پینسل سے کاغذ پر
دھوپ میں روٹیاں بناتا ہوں
میں کبھی دشمنی نہیں کرتا
اور ہو جائے تو نبھاتا ہوں
خورشید علیک نے ’’دل پہ جو گزری بیاں کرتے رہے‘‘ کے مصداق ایک غزل پیش کی
سوائے زخم کے وہ میرے دل کو کیا دے گا
مری وفا کا مجھے بس یہی صلہ دے گا
مجھے امید ہے خورشید ایک دن مجھ کو
مرے خلوص کا بدلہ مجھے خدا دے گا
مقامی شعرا کا دور ختم ہوا ،مہمان شعرا میں سے سب سے پہلے قطر سے تشریف لائے ہوئے نوجوان شاعر سید زوراحسین زائر کو زحمتِ کلام دی گئی،زائرنے نہایت خوبصورت اورمعیاری کلام پیش کیا،سامعین کے ساتھ ساتھ شعرا سے بھی داد و تحسین حاصل کی،ان کے چند اشعار
دل،دل تھا نہ بہل سکا جھوٹی کہانیوں کے ساتھ
میں نے تجھے بھلا دیا تیری نشانیوں کے ساتھ
آئنہ تو مطمئن تھا عکس دکھلانے کے بعد
میں پریشاں تھا حقیقت سامنے آنے کے بعد
بیچ تو بویا تھا زائر ہم نے سائے کے لیے
اس نے دیواریں گرا دیں پرورش پانے کے بعد
یہ بھی ممکن ہے کہ ساقی کو پلانے ہی نہ دے
یہ بھی ممکن ہے کہ وہ ہوش میں آنے ہی نہ دے
یہ بھی ممکن ہے کہ میں لوٹ کے پھر آجائوں
یہ بھی ممکن ہے کہ وہ روک لے جانے ہی نہ دے
قطر سے آئے ہوئے دوسرے مہمان شاعر ندیم ماہر تھے،جنہوں نے خوبصورت کلام سے مشاعرے کی کامیابی میں اپنا کردار ادا کیا ۔
تپتے آکاش پہ برفیلی زمیں رکھ آئے
پیاس اتنی تھی کہ ہونٹوں کو وہیں رکھ آئے
دیکھ کر تجھ کو نہیں تاب نظر آنکھوں میں
ایسا لگتا ہے نگاہوں کو کہیں رکھ آئے
اس قبیلے میں سارے گونگے تھے
ہم جہاں پر زبان چھوڑ آئے
اس کا دروازہ بند پایا تو
دستکوں کے نشان چھوڑ آئے
روٹی کپڑے مکان کی خاطر
روٹی،کپڑا مکان چھوڑ آئے
نسائی لب و لہجے کی خوبصورت شاعرہ ڈاکٹر نکہت افتخار کراچی سے تشریف لائیں تھیں،مشاعرے کی واحد شاعرہ،انہوں اپنے بہترین کلام سے داد و تحسین حاصل کی اور مشاعرے کی کامیابی میں اہم کردار ادا کیا۔
کیوں تجھے ڈر ہے کہ موت آئی تو مر جائوں گی
میں تو نکہت ہوں فضائوں میں بکھر جائوں گی
میں کوئی چاند نہیں ہوں کہ چھپالوں چہرہ
میں ہوں ہمراہیِ شب تابہ سحر جائوں گی
ہم ہی نہیں ہیں آپ بھی اک مشتِ خاک ہیں
اونچا اڑیں گے اور بکھر جائیں گے جناب
ہم کو خدا نہ کردہ اگر پا لیا کبھی
خود اپنے آپ کو بھی ترس جائیں گے جناب
عزم شاکری نے تحت اللفظ اور ترنم سے کلام پیش کرکے سامعین کو محظوظ کیا۔
نہ کسی دوست،نہ ہمدرد،نہ غم خوار سے پوچھ
مری حالت مرے گھر کے درودیوار سے پوچھ
زندگی کیسی گزاری ہے یہ اب پوچھتی ہے
رات ٹوٹے ہوئے تاروں کا سبب پوچھتی ہے
تو اگر چھوڑ کے جانے پہ تلا ہے تو جا
جان بھی جسم سے جاتی ہے تو کب پوچھتی ہے
زندگی یوں بھی گزاری جارہی ہے
جیسے کوئی جنگ ہاری جارہی ہے
وقت رخصت آبدیدہ آپ کیوں ہیں
جسم سے تو جاں ہماری جارہی ہے
شاہد ذکی پاکستان میں نوجوان شعراء کے نمائندہ شاعروںمیںسے میں ایک ہیں،ان کا کلام ان کا لہجہ،ان کی لفاظی،ان کے تشبیعات و استعارات انہیں دوسروں سے منفرد کردیتی ہیں،وہ پہلی بار بحرین آئے تھے،سامعین ساتھ ساتھ انہوں نے شعراء سے بھی داد وصول کی،مشاعرہ لوٹ لیا،ان کے کلام کی تازگی ابھی تک احساسات پہ چھائی ہوئی ہے
چند اشعار دیکھیے
راز اندر ہی سہوتا تو سمندر ہوتا
دل کوئی روز نہ روتا تو سمندر ہوتا
تری ضد نے تجھے تالاب بنا رکھا ہے
تو مرے پائوں بھگوتا تو سمندر ہوتا
بہار آئے گی اور میں نمو نہیں کروں گا
خزاں کو اب کے برس سرخرو نہیں کروں گا
دکھائوں گا تری بے چہرگی تجھے اک دن
اور آئنہ بھی ترے روبرو نہیں کروں گا
مجھے نشان زدہ کوئی شے پسند نہیں
وہ زخم ہو کے تبسم رفو نہیں کروں گا
آرزو ترک نہ کرتا تو یہ گھر کٹ جاتا
میں اگر شاخ بچاتا تو شجر کٹ جاتا
یہ مرا دل یہ مری راہ کا پتھر شاہد
میری رستے میں نہ آتا تو سفر کٹ جاتا
نیک لوگوں میں مجھے نیک گنا جاتا ہے
اور گنہہ گار گنہہ گار سمجھتے ہیں مجھے
پائوں میں خار لیے باغ میں بیٹھا ہوا ہوں
پھول خوشبو کا گرفتار سمجھتے ہیں مجھے
ڈاکٹر کلیم قیصر اپنی خوبصورت اور متوازن نظامت سے اب تک سامعین کو محظوظ کر رہے تھے ،انہوں نے اپنے کلام سے بھی سامعین کو محظوظ کیا،تحت الفظ اور ترنم سے پڑھتے ہوئے انہوں نے مشاعرہ کے معیار کو برقرار رکھا۔
پہلے نقطے کو بنایا دائرہ،پھر تل کیا
اس نے میرے حال کو ماضی سے مستقبل کیا
شہر میں تو رخصتی دہلیز تک محدود ہے
گائوں میں پکی سڑک تک لوگ پہنچانے گئے
زندگانی کا ہے فلسفہ مٹی
آگ پانی ہے اور ہوا مٹی
تیرے دکھ کا علاج ہے سونا
میرے ہر درد کی دوا مٹی
جس کو غم تھا مرے نہ ہونے کا
سب سے پہلے وہ دے گیا مٹی
اک غزل زندگی بھی ہے قیصر
جس کا انتھم ہے قافیہ مٹی
مشاعری کامیابی سے صدر تک پہنچا،رسا چغتائی کسی تعارف کے محتاج نہیں،ادبی دنیا کا ایک بہت بڑا اور معتبر نام،جو کسی بھی ادبی محفل کی کامیابی کی ضمانت ہو سکتے ہیں ان کی موجودگی سے مشاعرہ باوقار رہا،ان کو بہت توجہ اور احترام سے سنا گیا ۔
آنا یارِ جانی کا
کھلنا رات کی رانی کا
پہلی آندھی موسم کی
پہلا سال جوانی کا
گرمی اس کے ہاتھوں کی
چشمہ ٹھنڈے پانی کا
باہر ایک تماشا ہے
اندر کی حیرانی کا
شہر کا شہر سیلِ آب میں ہے
راہ میں مجھ غریب کا گھر کیا
میرے اٹھنے سے جاگ اٹھے گا
کوئی سویا ہوا مقدر کیا
اس کہانی کا مرکزی کردار
آدمی ہے کہ آدمیت ہے
نیند آرام کر رہی ہے ابھی
تیری پلکوں کے سائبان میں کیا
پوچھتا ہے مکاں کا سناٹا
میں ہی رہتا ہوں اس مکان میں کیا
وہ جو کھڑکی کھلی سی رہتی ہے
جھانکتی ہے مرے مکان میں کیا
اچھے لگتے ہیں آن بان کے لوگ
جانے ہوتا ہے آن بان میں کیا
کیا ہوئے میری خاندان کے لوگ
ایک میں ہی تھا خاندان میں کیا
انجمن فروغ ادب بحرین کے زیر اہتمام عالمی مشاعرہ ۲۰۱۳’’ بیادِ قابل اجمیری‘‘ کا اختتام ہو گیا اور یادگار بن گیا۔
۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸
 
Comments


Login

You are Visitor Number : 933