donateplease
newsletter
newsletter
rishta online logo
rosemine
Bazme Adab
Google   Site  
Bookmark and Share 
mazameen
Share on Facebook
 
Literary Articles -->> Adabi Khabren
 
Share to Aalmi Urdu Ghar
Author : Weqar Yahya
Title :
   S K Memorial Hall Patna Me Maulana Abul Kalam Azad Ki Yad Me Tareekhi Mushaira

رپورٹ


کرشن میموریل ہال،پٹنہ میں مولانا ابوالکلام آزاد کی یاد میں تاریخی مشاعرہ


 کامران غنی صباؔ کا شعری ڈکشن عصری معنویت کو نئی بلندیاں عطا کرنے کے لئے بیحد اہم ہے

: ڈاکٹر قاسم خورشید

    پٹنہ۔ گذشتہ روز بہار میں مشاعرے کی روایت کو جلا بخشنے اور نئی جہت عطا کرنے کی غرض سے یوم تعلیم ۲۰۱۴ئ؁ کے موقع پر پہلی بار ایک شاندار مشاعرے کا اہتمام بھی شری کرشن میموریل ہال، پٹنہ میں کیا گیا۔ سارا ہال بہار کے گوشے گوشے سے تشریف فرما سامعین سے کھچا کھچ بھرا تھا اور پوری سج دھج کے ساتھ ہال جگمگا رہا تھا۔ مشاعرے کے اہتمام کے لئے کبھی اتنا خوبصورت نظم پہلے نہیں دیکھا گیا۔ اس مشاعرے میں دنیا کے ایسے مشاہیر شعراء موجود تھے جن کا تعلق بہار سے ہے اور جن میں بیشتر عالمی سطح جانے پہچانے جاتے ہیں۔ اس مشاعرے میں درج ذیل تاریخ رقم ہوئی:

     جیسا کہ سبھی واقف ہیں کہ سب سے پہلے سرکاری سطح پر بہار میں ہی مولانا آزاد کے یوم پیدائش کو یوم تعلیم کے طور پر منانے کا فیصلہ کیا گیا تھا۔ اسی طرح یوم تعلیم کے موقع پر مشاہیر کی شمولیت سے پہلی بار مولانا آزاد کی اردو دوستی کو پیش نظر رکھتے ہوئے شاندار مشاعرے کا اہتمام کیا گیا۔
   عموماً عالمی یا قومی سطح کے مشاعروں میں متعلقہ مقام کے سامعین ہی شامل ہوتے ہیں مگر یہ پہلا موقع تھا کہ ہزاروں کی تعداد میں بہار کے گوشے گوشے سے سامعین اس مشاعرے کو سننے کے لئے وسیع ترین ہال میں حاضر تھے۔ 

    اس مشاعرے میں ۱۹؍ شعرائے کرام شامل تھے۔ جن میں ادبی سطح پر اگر بیشتر کا تعلق قومی یا بین الاقوامی سطح پر رہا ہے تو کچھ ایسے باکمال شاعروں کو بھی جگہ دی گئی جن کے ہاتھوں میں اردو کی وراثت یقینا محفوظ رہے گی۔ 

   اس مشاعرے میں تمام تر سامعین کے تاثرات کے پیش نظر یہ تاریخ بھی رقم ہوئی کہ مشاعرے کی نظامت کس طرح بیحد سحرزدہ ماحول میں کی جا سکتی ہے۔ ایسا معلوم ہو رہا تھا جیسے شروع سے اخیر تک ایک رواں نظم کی کیفیت جاری و ساری ہے۔ نظامت کا اتنا خوبصورت اور سحرزدہ روپ پہلے کبھی کسی مشاعرے میں محسوس نہیں کیا گیاتھا۔ 

    سبھی شعرائے کرام نے گرچہ مختلف موضوعات کو شعری متن میں ڈھالا لیکن کوئی بھی ایسا شاعر نہیں تھا جس کے افکاروخیالات کو باذوق سامعین نے نہ سراہا ہو۔ 

   یوم تعلیم کے کامیاب ترین اور دستاویزی پروگراموں میں یقینا اس تاریخی مشاعرے کا شمار کیا جائیگا۔ 

    ان نکات کو پیش نظر رکھتے ہوئے مجھے یہ کہنے میں تامل نہیں کہ جب بین الاقوامی شہرت یافتہ شاعر و فکشن نگار ڈاکٹر قاسم خورشید ڈائس پر تشریف لائے تو دیر تک ان کے استقبال میں سارا ہال تالیوں سے گونجتا رہا۔ ڈاکٹر قاسم خورشید نے تہہ دل سے تمامتر سامعین کا شکریہ ادا کرتے ہوئے اپنی بیحد پراثر نظامت کی شروعات مخصوص انداز میں شعرائے کرام کی گل پیشی سے کی۔ اس دوران انہوںنے جس طرح تمام شعرائے کرام کا تعارف پیش کیا وہ یقینا قابل تقلید اور قابل صد احترام تصور کیا جانا چاہئے۔ پورا ڈائس مشاہیر شعراء سے منور ہو چکا تھا۔ صدر مشاعرہ عالمی شہرت یافتہ شاعر سلطان اختر، تنگ عنایت پوری، شنکر کیموری، ابھے کمار بیباک، عالم خورشید،قاسم خورشید، سنجے کمار کندن، رضی احمد تنہا، شبیر سہسرامی، ناشاد اورنگ آبادی، آشا پربھات، تبسم ناز، معین گریڈیہوی، رمیش کنول، شاہد اختر، اثر فریدی، تبریز ہاشمی، سمیر پریمل، کامران غنی صبا اسٹیج پر رونق افروز ہو چکے تھے۔ ڈاکٹر قاسم خورشید نے پیش روی اور فضا آفرینی کے بعد دو ایسے نئے شاعر اور انتہائی باصلاحیت شعراء کو نہایت انہماک اور پورے اعتماد کے ساتھ پیش کرتے ہوئے کہا کہ میں عہد نو کے بیحد ذہین اور عصری حسیت کے نباض شاعر کامران غنی صباؔ کو اس بڑے منچ پر پیش کرتے ہوئے بیحد مسرور ہوں اور مجھے یقین ہے کہ ان کے ہاتھوں میں اردو کی معیاری وراثت محفوظ رہے گی۔ساتھ ہی کامران غنی کا جو شعری ڈکشن ہے وہ عصری معنویت کو نئی بلندیاں عطا کرنے کے لئے بیحد اہم ہے۔ اس عمر میں ایسے لب و لہجے کی ہمیں حفاظت کرنی چاہئے تاکہ نئے شعری محاسن کی زندہ تاریخ رقم ہو سکے۔ اسی طرح انہوں نے سمیر پریمل کے حوالے سے بتایا کہ اس گلوبل عہد میں غزل نے اپنا سفر بہت طویل کر لیا ہے اور اس سفر کے پیش رو نہ صرف اردو کے شعرائے کرام ہیں بلکہ ہندی سے وابستگی رکھنے والے اور نئے لب و لہجے کے شاعر سمیر پریمل بھی ایسا ہی اہم ترین نام ہے۔ اس مشاعرے کے حوالے سے یہ بات بتائی گئی کہ ہمارے مشاہیر شعرائے کرام چاہے وہ سلطان اختر ہوں، ابھے کمار بیباک، تنک عنایت پوری، سنجے کمار کندن، عالم خورشید، قاسم خورشید، ناشاد اورنگ آبادی، شنکر کیموری، شاہد اختر، رضی احمد تنہا، شبیر سہسرامی، آشا پربھات، رمیش کنول یا آگے چل کر تبسم ناز، تبریز ہاشمی،معین گریڈیہوی جیسے دوسرے شعراء نے اپنے ڈکشن اور مخصوص لب و لہجے سے نہ صرف یہ کہ ادبی منظرنامے پر زندہ شناخت درج کی ہے کہ بلکہ مشاعرے کے توسط سے بھی سامعین کے ہردل عزیز رہے ہیں۔ یوں تو یہ مشاعرہ گھنٹوں پوری آب و تاب کے ساتھ زندہ و تابندہ رہا جس پر تفصیلی گفتگو کے لئے ایک پوری کتاب بھی شاید کم ہو۔ لیکن جس طرح سامعین نے بھی اسے تاریخی بنایا اس کی مثالیں کم از کم عظیم آباد کی ادبی تاریخ میں شاید ہی ملے۔ ہم کہہ چکے ہیں کہ خندہ پیشانی سے اردو کے فروغ اور مشاعرے کی مقبولیت کے پیش نظر ایسے اقدام کی مثبت رویے کے ساتھ نہ صرف یہ کہ پذیرائی کی جانی چاہئے بلکہ وسعت قلبی کا بھی اظہار کرنا چاہئے تاکہ یہ زبان پوری آب و تاب کے ساتھ ہمارے ساتھ زندہ و تابندہ رہے۔ اس اقدام کے لئے محکمہ تعلیم کی بھی جتنی پذیرائی کی جائے  وہ کم ہے بلکہ ہم تو یہ کہیں گے کہ اردو سے محبت رکھنے والے صوبے بہار کے ایسے اقدام کی تقلید کرتے ہوئے اور بھی نئے تصورات سے اردو کے فروغ میں اپنی حصہ داری درج کرائیں۔ چونکہ اردو عالمی سطح پر ایک ایسی زبان ہے جو کبھی ختم نہیں ہو سکتی۔ ہاں ہماری بے راہ روی یا بے حسی سے منتقل ضرور ہو سکتی ہے۔ اس لئے بہتر یہ ہے کہ ہم اپنی عظیم ترین وراثت کو نہ صرف یہ کہ زندہ رکھیں بلکہ جہاں تک ممکن ہو اس کی توسیع بھی کریں۔ اگر بوند بوند ہم کوئی تعاون دیتے ہیں تو ایک روز یہی قطرہ سمندر کی شکل میں آنے والی نسلوںکے لئے پیغامِ عمل بھی ہوگا اور اپنی وسعت سے مزید استحکام بھی عطا کریگا۔ یوں تو شروع سے اخیر تک شعرائے کرام نے سامعین کی پرزور فرمائش پر اپنے کلام سے سبھوں کو محظوظ کیا لیکن چند اشعار ہی یہاں نقل کیے جا سکتے ہیں تاکہ یہ اندازہ لگایا جا سکے کہ ہماری شاعری کتنی دور تک کتنی دیر تک ہمارے دلوں کو منور کرنے کا حوصلہ رکھتی ہیں۔

ہرا شجر نہ سہی خشک گھاس رہنے دے
زمین کے جسم پہ کچھ تو لباس تو رہنے دے

 -   سلطان اختر

وفاداری نبھانے میں اداکاری نہیں کرتا
وہ احمق ہے جو غداروں سے غداری نہیں کرتا

-  تنگ عنایت پوری

ہمارے ارادے نیک تھے، نیک ہیں اور نیک ہی ریںگے
ہم ایک تھے، ایک ہیں، ایک ہی رہیں گے

-  شنکر کیموری

جب کوئی دیا دل میں جلایا جائے
سورج سے ضروری نہیں پوچھا جائے

 -  ابھے کمار بیباک

وہ جملے جو لب تک آکر چپ ہو جاتے ہیں
اندر اندر برسوں شور مچاتے رہتے ہیں

-  عالم خورشید

وہ ایک گھر ہے کہ جو بار بار ٹوٹا ہے
وہی مکان تو دل کے مکاں سے ملتا ہے

 -  قاسم خورشید

نئے لباس کی چاہت میں برہنہ ہیں شجر
اس انتظار میں کیا ابد تک رہیں جاناں

-  سنجے کمار کندن

میرے اشعار میں جدت بھی روایات بھی ہیں
دل کی باتوں کو بہ انداز غزل کہتاہوں

 -  ناشاد اورنگ آبادی

قاتل کا یہ مرید تو مقتول کا وکیل
دونوں سے میل رکھتا ہے اخبار مت پڑھ

-  رضی احمد تنہا

کوئی تو وصل کا سکہ اچھالنے آئے 
فقیر بیٹھے ہیں پچھلے پہر سے خالی ہاتھ

 -  شاہد اختر

تیری خوداری کے قائل بھی ہیں لوگ مگر 
مجھ سے اب تیرے بہانے نہیں دیکھے جاتے

 -  اثر فریدی

یہ زمیں محبت کی، لوگ بھولے بھالے ہیں
اک طرف مساجد ہیں اک طرف شوالے ہیں

 -  تبریز ہاشمی

یہ دنیا کانچ کی چوڑی ہے جو پہنے سہاگن ہے
مگر ہے شرط یہ کتنی لچک ہے کس کی کلائی میں

 -  تبسم ناز

اگر حوصلہ ہوتا تو کنارے بھی بہت تھے
طوفان میں تنکوں کے سہارے بھی بہت تھے

-  آشاپربھات

تیرگی کا حصار ٹوٹا تو
روشنی سے فریب کھائوگے

 -  شبیر سہسرامی

ہر ایک سمت سے طوفان تھا تعاقب میں 
سو، ناخدا نے ڈبو ہی دیا سفینۂ غم

 -  کامران غنی صباؔ

    اس طرح اس انتہائی کامیاب ترین مشاعرے میں شروع سے اخیر تک بتدریج مشاعرے کا ارتقاء بھی محسوس کیا گیا اور مختلف افکار و خیالات سے مزین یہ مشاعرہ بہت ہی بلندی پہ جاکر اختتام پذیر ہوا۔ اس موقع پر شہر کے اہم ترین مشاہیر کی بھی کثیر تعداد سامعین میں جلوہ افروز تھی۔ جن شکچھا کے ڈائرکٹر ڈاکٹر خورشید عالم نے اظہار تشکر کے دوران خصوصی طور پر فرمایا کہ ہمارے تصور سے کہیں زیادہ اس مشاعرے کو کامیاب ترین تصور کیا جانا چاہئے۔ اگر ہمارا حوصلہ اتنا بلند ہوا ہے کہ ہم کوشش کریں گے کہ جہاں کہیں ایسی محفلوں کا انعقاد ہوگا، ہم یقینا اپنی موجودگی درج کرانا چاہیں گے تاکہ ہماری بھی معیار سازی ہو سکے۔ انہوںنے بہار کے گوشے گوشے سے آئے کثیر تعداد میں موجود ہزاروں سامعین کا بھی خصوصی طور پر شکریہ ادا کیا اور فرمایا کہ ان کی موجودگی سے بھی یہ مشاعرہ تاریخی نوعیت کا بن سکا ہے۔ جناب سلطان اختر، جناب قاسم خورشید، جناب تنگ عنایت پوری، جناب شنکر کیموری، جناب سنجے کمار کندن، جناب ابھے کمار بیباک، جناب عالم خورشید، جناب ناشاد اورنگ آبادی، محترمہ آشا پربھات، محترمہ تبسم ناز، جناب رضی احمد تنہا، جناب شاہد اختر، جناب رمیش کنول، جناب تبریز ہاشمی، جناب اثر فریدی، جناب معین گریڈیہوی، شبیر سہسرامی، جناب سمیر پریمل، جناب کامران غنی کا انہوںنے نہ صرف یہ شکریہ ادا کیا بلکہ پورے اعتمادکے ساتھ کہا کہ ان کی شمولیت سے بہار نے مشاعرے کی نئی تاریخ رقم کی ہے۔ اس طرح یہ یادگار مشاعرہ پوری آب و تاب کے ساتھ اختتام پذیر ہوا۔

 رپورٹ:-  وقار یحییٰ، پٹنہ


**********************

Comments


Login

You are Visitor Number : 597