donateplease
newsletter
newsletter
rishta online logo
rosemine
Bazme Adab
Google   Site  
Bookmark and Share 
mazameen
Share on Facebook
 
Literary Articles -->> Adbi Gosha
 
Share to Aalmi Urdu Ghar
Author : Abdul Sattar
Title :
   Urdu Zaban Ki Toot Rahi Kamar


اردو زبان کی ٹوٹ رہی کمر


عبد الستار


یہ امر حقیقت ہے کہ اردو زبان کی کمر ٹوٹ رہی ہے جسے ہم اردو والے خود بھی توڑ رہے ہیں ۔آپ کو بھی مجھ سے اتفاق ہوگا کیونکہ اردو کا درد رکھنے والے کچھ نہیں کر پا رہے ہیں سوائے ماتم کرنے کے۔اردو کی خدمت(اپنے عہدوں کی بدولت)جو کر رہے ہیں وہ صرف اپنی تجوریاں بھر رہے ہیں۔وہ بھول بیٹھے ہیں کہ اگر ان کے استاد نے انہیں قلم پکڑاتے پکڑاتے اس مقام تک پہنچنے کا زینہ نہ بنے ہوتے، ان کے ساتھ استاد و شاگرد جیسا پاکیزہ و مشفقانہ رشتہ قائم نہ کیا ہوتا تو آج وہ ادب و شاعری کے اس مقام تک نہ پہنچ پاتے۔ وہ  بنیاد کی اینٹ بنے تھے مگر افسوس  !  آج کے حضرات بنیاد کی اینٹ کیا بنیںگے وہ تو ایک تنکا بھی بن کر نہیں دکھا رہے ہیں۔ہر ایک اپنے ارد گرد روز ہو رہے معاملات کو دیکھ کر آنسو بہا رہا ہے۔جنکی آنکھیں بند ہیں ان کا تو حال ٹھیک ویسا ہی ہے جیسا شتر مرغ کرتا ہے۔مگر جنکی آنکھیں کھلی ہوئی ہیں ان کا حال یہ ہے کہ وہ سبھی اس تباہی کے منظر سے لطف اندوز ہو رہے ہیں۔


میں نے آج جیسے ہی ریڈیو کھولا اس پر ایک ڈوئٹ چل رہا تھا۔گلوکار کی نقل اس نغمہ میں کلوکارہ کر رہی تھی یعنی جو الفاظ گلوکار ادا کر رہا تھا وہی الفاظ گلوکارہ گا رہی تھی۔نغمہ نگار (شاعر) نے بڑا ہی عمدہ کلام تیار کیا تھا موسیقی بھی بڑی پیاری تھی ، مغنیہ کا گلا بھی میٹھا اور نرم تھا مگر وہ ان اشعار کے الفاظ کو غارت کر رہی تھی۔نغمہ میں لفظ دُزدیدہ  دُزدیدہ ، خوا بیدہ  خوابیدہ  اور ایک جگہ خواب استعمال کئے گئے تھے جسے گلوکار صحیح صحیح ادا کر رہے تھے مگر گلوکارہ نے دُجدیدہ  دُجدیدہ  ،  کھابیدہ  کھابیدہ  اور  کھاب  بول کر میرے دل اور دماغ کو    شوریدہ  شوریدہ کر دیا تھا۔میں اور ز یا دہ برداشت نہ کر سکا اور ریڈیو کا سوئچ آف کر دیا۔

رسالے اخبار و دیگر جریدے آج کل ایسی غلطیوں سے بھرے پڑے ملتے ہیں۔ٹی وی چینلوں پر تو ایسے ایسے نمونے ملتے ہیں کہ دانتوں تلے انگلی دبا لینے کو جی چاہتا ہے۔ٹی  وی کا ایک مشہور اینکر تو اِ ج (is ) اور واج( was ) کے نام سے مشہور ہو چکا ہے۔اگر ان کا نام نہ لیکر صرف اتنا کہیں کہ اِج اور واج والے نے یہ کہا ہے تو کوئی بھی ان کا نام فوراً بتا دیگا ۔ اردو کاایک خالص اور آسان لفظ ہے پرخچے(پَرَ خ چے)   یعنی پُرزے پُرزے ہو جانا  جسے ٹی وی والوں(ہندی چینل) نے پرکھچ ّ  ے (پ َ  ر  کھ  چیّ) بنا کر عام کر دیا ہے۔


جولائی ۱۴ء کا مقتدر ماہنامہ (دہلی)  ’  ایوانِ اردو  ‘ کے ایک مضمون کے مطالعہ میں یہ دیکھ کر میںدنگ رہ گیا کہ چار صفحات کے مضمون میں ۳۰ غلطیاں ہیں جسے طباعت سے پہلے کئی مرحلوں سے گذر نے کے دوران اصلاح کر دی جا سکتی تھی مگر پریس سے گذر کر ہم سب کے ہاتھوں میں آگیا۔ ’ آج کل‘ جسے بین الاقوامی جریدہ گردانا جاتا ہے مگر ان دنوں یہ بھی غلظیوں سے پاک نہیں ہے۔

ہمارے دانشوران لاکھ دعویٰ کر لیں کہ اردو زبان کا مستقبل تابناک اور روشن ہے مگر حالات بالکل الٹے ہیں۔آج ہم جس دور سے گذر رہے ہیں وہ بتا رہا ہے کہ معدود چند جنکا نام انگلیوں پر گنا جا سکتا ہے جو اپنی عمر کے آخری پڑائو پر ہیں ان کے ہی دم خم سے سلیس اردو زبان قائم و دائم ہے ورنہ وہ بات کہاں۔پرانے شاعر ،پرانے ادیب ، پرانے دانشوروں نے اپنی قیمت اتنی اونچی کر لی ہے کہ انکی تخلیقات و تحقیقات بڑی اونچی قیمت پر دستیاب ہیں۔ایک شخص نے بتلایا کہ فلاں شاعر  ۵۰   ہزار روپیہ لیتے ہیں،آنے جانے کا ایر پیسیج

   air passage)) کے علاوہ کم سے کم  پانچ ستارہ اے سی ہوٹل میں قیام و طعام کا پکا انتظام ہونے پر ہی وہ نقل مکانی کرتے ہیں۔ایک شخص نے تو اپنی ایک کتاب میں بھی اس کا ذکر کیا ہے۔وہ لکھتے ہیں ’’  میں کئی بار کے بلانے کے بعد بھی اُس پروگرام میں شامل نہ ہو سکا۔ ‘‘   اگر کوئی صدر جلسہ یا مہمان خصوصی بنائے جاتے ہیں تو اسکی فیس الگ۔یہی لوگ ہیں جو بیان دیتے رہتے ہیں کہ اردو کا مستقبل بڑا ہی تابناک اور روشن ہے۔اب آئیں دوسری جانب۔کئی ریاستی حکومتوں  ( جموں کشمیر ،اتر پردیش ،بہار ،دہلی ، آ ندھرا پردیش)نے اردو زبان کو اپنی ریاست میں دوسری سرکاری زبان کا درجہ دے دیا ہے مگر حقیقت یہ ہے کہ اردو کسی درجے میں نہیں ہے۔حکومتوں کو تو یہ کرنا چاہئے تھا کہ اِس شیریں زبان کی تعلیم کو درجہ اول ہی سے ہر ایک اسکول میں ضروی کر دینا تھا تاکہ ا سکی چاشنی سے نئی نسل سرفراز ہو سکے اور نسل در نسل یہ سلسلہ جای رہے مگر حکومتوں نے در پردہ اِس زبان کی پشت میں چھرا گھونپ کر اسے مرغ بسمل بنا دیا ہے۔یہ زبان بس چھٹپٹا رہی ہے۔اس کے پڑھنے اور پڑھانے والے اگر کہیں ہیں تو وہ خود اس زبان سے بالکل نابلد ہیں۔نہ انہیں قواعد یا گرامر کا علم ہے کہ جان سکیں کہ کسی لفظ کی ساخت کیا ہے اس کا تلفظ کس طرح ہے۔یہی وجہ ہے کہ انہیں یہ نہیں معلوم ہے کہ حقیقت ہے  یا ہکیکت۔روح ہے یا روہ۔خدا ہے یا کُھدا۔غم ہے یاگم (gum)۔شام ہے یا سام۔ پھل ہے یا فَل۔پیغام ہے یا پیگام۔ مرغوب ہے یا مرگوب۔داغ (دھبہ) ہے یا داگ۔زنجیر ہے یا جنجیر۔جلیل ہے یا ذلیل۔ رقیق ہے یا رکیک ۔مزاج کو تو ہمیشہ مجاز سنتے سنتے اب کان پک چکے ہیں لیکن آج جو سنا وہ اب تک کسی نے نہیں سنا ہوگا  ’  گُجِشتہ  ‘  (گذشتہ)۔ اب یہ سب ہم روز سنتے ، پڑھتے اور لکھتے ہیں ۔اگر انکی ایک فہرست تیار کر دی جائے تو ایک کتاب مرتب ہو جائے مگر میں اپنے تمام صحافیوں ،رپورٹروں، بزرگوں عزیزوں کو بہار شریف کے نور سرائے اور بیگوسرائے کے نور پور لکھتے وقت اپنے قلم کو مضبوطی سے تھام کر تحریر کر نے کی گذارش کرونگا۔ اگر غلطی ہو گئی تو کم سے کم وہاں کا ہر خواص و عام نہ جانے کیا کر بیٹھے۔اب قارئین کو چند نمونوں سے روشناس کرانا ہی اس مضمون کا مقصد ہے اس لئے سامع خراشی کے لئے معذرت چاہتے ہوئے ذیل میں کچھ تحریر کرنا چاہتا ہوں۔


الیکٹرانک میڈیا اور پرنٹ میڈیا میں آپ کو اکثر سننے ، پڑھنے اور دیکھنے کو مل جاتا ہوگا جن سے قبل آپ اس نئے انداز سے آشنا نہ ہوئے ہونگے۔مثال کے طور پر’  مخالفت   ‘  کے بدلے خلافت کا خوب استعما ل ہو رہا ہے جبکہ دونوں کے معنی میں آسمان اور زمین کا فرق ہے۔بارش برستی ہے جب کہ اردو والے یہ جانتے ہیں کہ بارش ہوتی ہے۔مہارت مگر آج    مہارتھ بولا جاتا ہے۔

اب آئے چند نمونے اخباروں میں شائع ہو چکے جملوں اور عبارت کو پیش کردوں۔ایک اخبار میں یہ خبر شائع ہوئی  ’’  جینت نے شادی رچائی  ‘‘۔میں نے اس کے رپورٹر، جو  اپنے نام کے پہلے

ڈاکٹر لکھتے ہیںسے دریافت کیا تو وہ کہنے لگے ’ اس میں کیا غلط ہے۔ میں نے غالب کا یہ شعر پڑھتے ہوئے اپنا سر پیٹ لیا    ؎   

’’  کوئی  بتلائو  کہ  ہم بتلائیں  کیا  ‘‘

دوسری خبر میں نامہ نگار نے تحریر کیا کہ فلاں فیڈر  ۵  گھنٹے  ’  سٹ ڈائون ‘ ( شٹ ڈائون) رہی  ،  تیسری خبر ’  فلاں احمد ہمراہ گلناز بابو رشتہ ازدواج سے منسلک( یہ عنوان تھا) خبروں میں بھی گلناز بابو ہی تحریر کیا گیا تھا۔میرے خیال میں یہ شادی شاید ہم جنسوں کے درمیان ہوئی ہوگی۔سوچ تو سونچ بن گیا ہے۔غزہ(فلسطین) کو گاجا بھی پڑھنے کو ملتا ہے ۔مقولات و محاورے بھی ان نَو سِکھوئوں کے ہتھے چڑھ کر برباد ہو رہے ہیں۔مثلاً  ’  حواس  باختہ  ‘  اب حواس فاختہ بنتا جا رہا ہے۔آغاز شروع ہو گیا ہے جو در اصل آغاز ہو گیا ہے جس کے معنی ہی شروع ہونے کے ہیں۔ایک کالم نگار نے ایک محفل میں دانشوروں سے مخاطب ہو کر کہا کہ  ’’  اب آپ اس میدان میں جن لوگوں کی خدمات ہیں ان کے نام نوش فرمائیں۔وللہ کیا نام کو چائے سمجھ کر نوش کروایا ہے۔حفظانِ صحت کو اگر کوئی یہ کہہ دے کہ حفظانُ صحت تو آپ اسے دو لفظ نہ سمجھ بیٹھیں بلکہ اس کی اصلاح خود ہی کر لیں کہ کہنے والے حضر ت حفظانِ صحت کہہ رہے ہیں۔یہاں یہ بتانابے محل نہ ہوگا کہ میں ایک  پی  ایچ  ڈی  کا طبع شدہ مقالہ کی ورق گردانی کر رہا تھا تو اس میں جا بجا نئی نئی اصطلاحات سے دوچار ہوا ( میں کس حیثیت سے غلطی کہہ سکتا ہوں) ۔ایک جگہ ڈاکٹر صاحب نے لکھا تھا  ’  باورچی کھانا  ‘ میں نے اس کی تشریح کی تو مجھے یہ بھی صحیح معلوم ہوا کہ حضرت نے جہاں باورچی ،کھانا بناتا ہے وہ باورچی کھانا ہی تو ہوا۔مان لیا کہ انہوں نے بالکل صحیح لکھا۔آگے وہ تحریر کرتے ہیں رکشا وان۔یہ شاید گاڑی وان ،کوچ وان ، اور فیل (یا پیل) وان کے برابر میں سمجھ کر استعمال کیا گیا ہوگا جبکہ یہ انگریزی کا لفظ رکشہ پولر یعنی رکشہ کھینچنے والا ہے نہ کہ رکشہ وان۔مگر دوسری جگہ دوسری تحریر میں  ’  کھتنا  ‘ پڑھ کر تو کچھ بھی سمجھ میں نہیں آیا کہ یہ کون سانیا لفظ ہے۔ذہن پر بہت زور دینے اور لغت ڈھونڈنے کے بعد سمجھ میں آیا کہ ارے یہ تو ختنہ ہے جسے مصنف نے کھتنا لکھا تھا۔


ایک اخبار میں ایک رپورٹ شائع ہوئی تھی کہ کسی محفل کے مہمان خصوصی ( چیف گِسٹ) فرمارہے تھے کہ اردو زبان کی بقا کے لئے شادی بیاہ کے کارڈ (دعوت نامہ)کو اردو میں ہی چھپوائے جائیں۔آج اگر کسی کی نگاہ اردو میں چھپے شادی کے دعوت نامے پر پڑتی ہے تو پتہ چلتا ہے کہ اس میں صرف نقل نویسی ہو رہی ہے۔پرانے کارڈ میں نام پتہ اور تاریخ بدل کر حرف بہ حرف نقل ہو رہی ہے۔کبھی کبھی تو تاریخ ٹھیک ہے تو دن غلط ہو گیا ہے یا وقت غلط ہو گیا ہے۔اس لئے کہ دن اور وقت پر قلم نہیں پھیرا گیا تھا۔کبھی کبھی تو پریس والے کہہ دیتے ہیں کہ میرے پاس ایک عمدہ کارڈ کا نمونہ میرے کمپیٹر میں محفوظ ہے اسے ہی فِٹ کر دونگا۔اب ذرا غور کیجئے اگر ان کے کمپیوٹر میں save   کئے ہوئے مضمون میں شادی ہونا قرار پایا ہے تو آپ کے کارڈ میں بھی ہونا قرار پائی ہے ہرگز نہیں چھپے گا۔اس طرح ہو گئی اردو زبان کی حفاظت۔

ایک اور خبر آئی ہے کہ پرانے دستاویز جو اردو زبان میں تحریر ہوئے تھے اسے کوئی پڑھنے والا نہیں ہے۔اگر کسی کو ان دستاویزوں کو پڑھوانا ضروری ہو گیا ہے تو وہ مدارس کا رخ کر رہے ہیں جہاں وہ اونچی فیس لیکر اسے دوسری زبان میں تحریر کر رہے ہیں۔کیا اب اس میں کوئی گنجائش باقی رہ گئی ہے کہ اردو کی کمر نہیں ٹوٹ رہی ہے۔

اس وقت صرف مدارس ہی ایک ایسا تعلیمی قلعہ بچا ہے جہاں اردو زبان کی تعلیم ہو رہی ہے۔اس کے تلفظ پر توجہ دی جا رہی ہے۔ اس زبان کی تحریر پر توجہ دی جا رہی ہے۔ یہی مدارس
 ہیں جو اردو زبان کو نہ صرف زندہ رکھنے بلکہ اس کے مستقبل کو تابناک و روشن بنانے میں کامیابی کے ساتھ لگے ہوئے ہیں مگر خود مدارس کی حالت بہت خستہ ہے۔

آئے ہم سب مل کر اردو زبان کو زندہ رکھیں۔خود بھی پڑھیں اور اپنے بچوں کو بھی پڑھائیں۔


 ٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭


 عبد الستار

 ولی مینشن ، سعد پورہ قلعہ ، مظفرپور

 9835666622/9852953733
 

 

Comments


Login

You are Visitor Number : 1202