donateplease
newsletter
newsletter
rishta online logo
rosemine
Bazme Adab
Google   Site  
Bookmark and Share 
mazameen
Share on Facebook
 
Literary Articles -->> Adbi Gosha
 
Share to Aalmi Urdu Ghar
Author : Abu Nasar
Title :
   Is Sara Me Nahi Qayam Bahut

اِس سَرا میں نہیں قیام بہت


Abu Nasar

مشفق خواجہ صاحب بنیادی طور پر ایک محقق اور نقاد تھے۔ مگر 1970-71ء میں ملک کے اندر جواسلام اور سوشل اِزم کی ایک نظریاتی جنگ شروع ہوئی ، اُس نے خواجہ صاحب کو مزاح نگاری کی طرف مائل کردیا۔اپنے کالموں میں اُنھوں نے ترقی پسندوں کی وہ خبر لی اور اس انداز سے خبر لی کہ اُن کا ہدف بننے والے لوگ تلملا اُٹھے۔ تلملاتے تو تھے مگر تلملانے کے سوا کچھ کر نہیں پاتے تھے، کچھ کہہ نہیں پاتے تھے او ر اُن سے کچھ جواب بھی بن نہیں پڑتا تھا۔

اُنھوں نے اپنی مزاحیہ کالم نگاری کا آغازکیاتو کالم کا عنوان منتخب کیا ۔۔۔’اندیشۂ شہر‘۔۔۔ جو اس پُر مزاح محاورے سے ماخوذ تھا:

’’ قاضی جی دُبلے کیوں؟ شہر کے اندیشے میں!‘‘
کالم نگار نے اپنے لیے قلمی نام ’غریبِ شہر‘ انتخاب کیا جو اس مشہور مصرع سے مشتق تھا کہ:’’ غریبِ شہر سُخن ہائے گُفتنی دارد‘‘

یہ کالم سیاسی ، سماجی ، ادبی ہر قسم کے موضوعات کا احاطہ کرتا تھا۔اور خوب پڑھا جاتا تھا۔ اُن کے کالموں کے قارئین عامۃ الناس ہی نہیں بڑے بڑے مزاح نگار، ادیب ، دانشور،شاعر اور سیاسی رہنما ہوا کر تے تھے۔

ہمیں بھی کالم نگاری کی وادئ خارزار میں اُنھی کے کالم اور وہ خود کھینچ کر لائے تھے۔ ہم تو اُس زمانے میں روزنامہ ’جنگ‘اور روزنامہ ’ جسارت‘ کے بچوں اور طالب علموں کے صفحات پرچھوٹے چھوٹے مزاحیہ مضامین لکھا کرتے تھے۔

جس زمانے میں جوشؔ ملیح آبادی کی خودنوشت تازہ تازہ شایع ہوئی تھی ،اُسی زمانے میں مشفق خواجہ صاحب (’غریبِ شہر‘) نے ’یادوں کی برات‘ پر انتہائی دلچسپ کالم لکھا تھا۔ اُس کا ایک فقرہ ہمیں آج بھی یا د ہے:

’’یادوں کی برات میں براتوں کی یاد شامل نہیں‘‘۔

وہ کالم پڑھ کر ہمیں بھی شوق چرّایا۔ ہم نے بھی ’ یادوں کی برات‘ پر ایک مزاحیہ مضمون لکھ مارااورطلبہ کے صفحے کے لیے دے آئے۔ مضمون دینے کے دوسرے تیسرے روز ہم نے پہلے تو یہ دیکھا کہ’اندیشۂ شہر‘ کا نام ہی بدلا ہوا ہے۔ اُس دن کالم کے مستقل عنوان کی جگہ چھپا ہوا تھا:’’ غریبِ شہر کے نام‘‘

اور کالم کا موضوعاتی عنوان تھا:’’ حضرتِ جوش کے بارے میں ایک طالبِ علم کے نوٹس‘‘
نیچے نام ہمارا چھپا ہوا تھا۔ خوشی کی کوئی انتہا نہ رہی۔تب ہم پر انکشاف ہوا کہ :

’’اچھا! ہماری تحریریں بھی اِدارتی صفحہ کی زینت بن سکتی ہیں‘‘۔
اس کے بعد ہم نے اپناپہلاکالم ، جودیوار نویسی کے موضوع پر تھا، بعنوان:’نوشتۂ دیوار پڑھ لیجیے‘راست مدیرِ ’جسارت‘ صلاح الدین صاحب کو دیا اور وہ اداریہ کے دو کالموں کے برابر والے تیسرے کالم میں پورے صفحے کی لمبائی میں اُسی شان سے شایع ہوا جس شان سے اُس زمانے کے اخبارات میں کالم شایع ہو ا کرتے تھے ۔یوں مشفق خواجہ صاحب کی ایک ذرا سی توجہ کی بدولت ہم بھی کالم نگار بن گئے!

ضیاء صاحب کے دور کی بات ہے۔ ’ظلم کی داستانیں‘ پاکستان ٹیلی وژن سے نشر ہورہی تھیں، جن میں بھٹو صاحب کی طرف سے خواجہ خیرالدین صاحب کو سمندر میں ڈبونے کی کوشش کرنے کی داستان بھی شامل تھی۔اس داستان گوئی کے بعد خواجہ خیرالدین صاحب کی مسلم لیگ نے پیپلز پارٹی ہی سے اتحاد کر لیا۔ اس خبر پر پیر پگارا نے بیان دیا:’’ خواجہ خیر الدین کا انجام بھی مولانا کوثر نیازی جیسا ہوگا‘‘۔
پیر صاحب کے اس بیان پر خواجہ خیرالدین بھڑک اُٹھے، اُنھوں نے جوابی بیان داغا:’’ پیر پگاراسیاست دان نہیں، نجومی اور مسخرے ہیں‘‘۔

اس بیان کے دونوں حصوں پر تبصرہ کر تے ہوئے’غریبِ شہر‘ نے اپنے کالم میں وضاحت کی :
’’ خواجہ صاحب نے پیر صاحب کو نجومی تو اس وجہ سے قرار دیا ہے کہ اُنھوں نے خواجہ صاحب کے مستقبل کی پیش گوئی کی ہے۔ اور مسخرا اس لیے کہا کہ اُنھوں نے مولانا کوثر نیازی کا نام لیا تھا‘‘۔
خواجہ صاحب کی مولانا کوثر نیازی سے بڑی نوک جھونک چلتی تھی۔ مولانا کوثر نیازی اُس زمانے میں ’جنگ‘ میں کالم لکھنے لگے تھے ، جس کے ساتھ مولانا کی کوٹ اور ٹائی کے ساتھ تصویر چھپتی تھی۔اُس تصویر کا ’غریبِ شہر‘ نے اتنا ریکارڈ لگایاکہ اُن کا کالم چھپنے کے بعد مولانا نے اپنی تصویر بدلوا کر شیروانی پہنی ہوئی تصویر لگوادی۔

ادبی صفحہ پر بھی مشفق خواجہ نے ایک مزاحیہ کالم’سخن در سخن‘ کے عنوان سے شروع کیا اور اس کے لیے اپنا قلمی نام’ خامہ بگوش‘ اختیار کیا۔جو غالباً غالب کے اس شعر سے اخذ کیا گیا تھا کہ:

مگر لکھوائے کوئی اُس کو خط تو ہم سے لکھوائے
ہوئی صبح اور گھر سے کان پر رکھ کر قلم نکلے

یہ کالم اور یہ نام اتنا مقبول ہوا کہ ہندوستان اور پاکستان کے ادبی حلقوں میں دھوم مچ گئی۔’خامہ بگوش‘ ملک بھر کے تمام کالم نگاروں کے پسندیدہ ترین کالم نگاربن گئے۔ بھارت کے ادیب اور کالم نگار بھی اُن کے کالموں کے منتظر رہا کرتے تھے۔ اُن کے کالموں کا پہلا انتخاب بھی بھارت ہی سے شایع ہوا تھا۔وہ ایک فقرہ میں چومکھے وار کرتے تھے۔ مثلاً مرحوم جمیل اختر صاحب پر (اُن کی زندگی میں)لکھا ہوا اُن کا یہ فقرہ ملاحظہ فرمائیے:

’’ جمیل اختر صاحب ہر محفلِ ادب میں ایک ادیب کے طور پر بُلائے جاتے ہیں، مگر آج تک اُنھوں نے کوئی نظم کہی ،نہ غزل کہی، نہ افسانہ لکھا، نہ کسی اور صنفِ ادب میں خامہ فرسائی کی۔اُن کا یہ احسان اُردو ادب کی گردن پر ہمیشہ رہے گا، بشرطے کہ اُردو ادب کی گردن صہبااختر کی شاعری سے بچ رہی‘‘۔
اسی طرح جب سلیم احمد صاحب نے اپنے گھر ہونے والی ادبی نشستیں ختم کردی تھیں تو’خامہ بگوش‘ نے ایک فرضی مکالمہ تخلیق کیا:

’’ جب ہم نے سلیم احمد صاحب سے یہ نشستیں ختم کردینے کا سبب پوچھا تو اُنھوں نے کہا کہ میں ادب کی بے حرمتی ہوتے نہیں دیکھ سکتا۔ اس پر احمد ہمیش نے کہا کہ ہم تو دیکھ سکتے ہیں، یہاں نہیں تو کہیں اور جا کر دیکھیں گے‘‘۔

ایک باراُنھوں نے اپنے دوست منظر ؔ ایوبی کا ایک قصیدہ لکھا ،جو شروع تو یوں ہوتا تھا :’’اے منظرِ ایوبی۔۔۔اے پیکرِ محبوبی۔۔۔اے شاعرِ صد خوبی۔۔۔‘‘مگراِسی طرح کی بہت سی تعریفوں کے بعد ختم اس شعر پر ہوتا تھا کہ:’’ناموسِ ادب لیکن ۔۔۔ شعروں سے ترے ڈوبی‘‘۔

انتقال سے قبل وہ کئی ماہ صاحبِ فراش رہے۔ اُن کی اولاد کوئی نہیں تھی۔ اپنے زمانۂ علالت میں وہ اپنی بہن’بی بی آپا‘ کے گھر سی ویو اپارٹمنٹ منتقل ہوگئے تھے، اور اپنا کام رُک جانے پر قلق کا اظہار کرتے تھے۔

اُن کے ناظم آباد والے گھر کے دروازے پر اُنھی کے ایک شعرکا خوش خط طُغریٰ لگا ہوا تھا:

اِس سَرا میں نہیں قیام بہت
زندگی مختصر ہے، کام بہت

******************************

Comments


Login

You are Visitor Number : 765