donateplease
newsletter
newsletter
rishta online logo
rosemine
Bazme Adab
Google   Site  
Bookmark and Share 
mazameen
Share on Facebook
 
Literary Articles -->> Adbi Gosha
 
Share to Aalmi Urdu Ghar
Author : Abul Fazal Mahmood
Title :
   Deeware Zandan

دیوار زنداں


ابو الفضل محمود


زمانے میں شہروں کے لوگوں کو قلعہ بند ہو کر رہنا پڑتا تھا کہ معلوم نہیں کب کوئی حملہ آور دھاوا بول دے اور مال تو جائے گا ہی، جان اور آبرو سے بھی ہاتھ دھونے پڑیں گے۔ شہر کے گرد فصیل کھینچ کر اس میں گرانڈیل قسم کے دروازے نصب کیے جاتے اور پھر ان دروازوں کی رکھوالی کے لیے حفاظتی حجرے اور ان میں پہرہ داروں کی گار د۔ دروازے سرِشام ہی بند کر دئیے جاتے اور پھر کوئی آزادانہ شہر میں داخل نہ ہو سکتا۔ قبائلی معاشروں کا اب بھی یہی حال ہے کہ مکان احاطوں میں ہیں اور احاطوں کے گرد اونچی اونچی دیواریں۔

تاہم نیا دور Suburbiaکا زمانہ ہے۔ کھلی فضائوں کا دور ہے۔ اونچی فصیلوں اور دیواروں کی گھٹن سے بیزار لوگ شہر سے الگ رہنے کو ترجیح دیتے ہیں۔ ہندوستان میں انگریز اپنی مصلحتوں کی وجہ سے شہروں سے الگ کوٹھیاں بنا کر رہتے تھے جہاں نہ صرف ان کے آپس کے میل جول میں سہولت رہتی تھی بلکہ دیسی لوگوں سے ’مناسب فاصلہ‘ بھی قائم رہتا تھا۔

ان کی دیکھا دیکھی ہماری دیسی اشرافیہ بھی محلے میں مکان کی بجائے مضافات یا دوسری کھلی جگہوں میں کوٹھیاں بنا کر رہنے لگے۔ جن کے گرد دیوار برائے نام یا سرے سے غائب ہوتی تھی۔ کیونکہ پرانی طرز کے مکانات تقسیم در تقسیم کی وجہ سے تنگ و تاریک ہو چکے تھے۔

جب کہ ان میں ہوا اور دھوپ کا گزر پہلے سے ہی نہ ہونے کے برابر تھا۔ اس وجہ سے ان میں مقید عورتیں اکثر بیمار رہتیں۔ چنانچہ شہروں کے آسودہ حال لوگ تنگ مکانوں سے نکل کر کوٹھیوں میں رہنے کو ترجیح دینے لگے جہاں کھلی ہوا کے علاوہ پھول پھلواڑی کی بھی گنجائش تھی۔

سنا ہے قیام پاکستان سے پہلے لاہور شہر میں نئی اور بہت خوبصورت بستی ماڈل ٹائون بسائی گئی تو اس کے مکینوں کو بائونڈری وال بنانے کی اجازت نہ تھی کہ اس سے ہوا رکتی ہے۔ دیوار کی جگہ پھول اور نباتاتی باڑیں لگانے کی تلقین کی جاتی تھی۔ اب اسی ماڈل ٹائون میں ڈھونڈے سے بھی شاید ایسا کوئی مکان ملے جس کی بائونڈری وال نہ ہو۔

عرصہ دراز کی بات ہے جب کراچی ابھی عروس البلاد سمجھا جاتا تھا، مجھے حکومت کینیا (افریقا) کے نہایت اعلیٰ مرتبہ افسر کو لانڈھی انڈسٹریل ایریا کا دورہ کرانے کی ذمہ داری ملی۔ ان دنوں ہماری کمپنی اس ملک کے چند شہریوں کی شراکت میں ممباسہ میں کارخانہ لگانے کے لیے گفت و شنید کر رہی تھی۔

ہم ایک کے بعد دوسرے کارخانے کے پاس سے گزرے جا رہے تھے کہ میرے مہمان کے ایک اچانک سوال نے چونکا سا دیا۔ پوچھنے لگا’’ان اونچی اونچی دیواروں کے پیچھے کیا ہے؟ ’’کارخانے‘‘ میں نے جواب دیا۔ تو یہ دیواریں کس لیے ہیں؟ اس نے پوچھا۔ تحفظ کے لیے ، میں نے حیران ہو کر جواب دیا، کیا آپ کے ہاں حفاظتی دیواریں نہیں ہوتیں؟ ’’نہیں! ہمارا ملک اتنا امیر نہیں کہ اس قسم کے اخراجات برداشت کر سکیں، نہ ان کی کوئی ضرورت ہے، ہمارے ہاں ایسی دیواروں کے بغیر بھی سب ٹھیک ہے۔‘‘

میں نے اس کی بات پر جتنا غور کیا اتنا ہی اس کی سچائی کا قائل ہوا۔ ہمارے ملک میں جتنا روپیہ اس مد (اونچی دیواریں اور آ ہنی گیٹ) میں لگا ہوا ہے، کھربوں سے کم کیا ہو گا۔ دیکھا جائے تو کیا اس سے سیکیورٹی کا معاملہ حل ہو گیا؟ آخر دوسرے ممالک ایسی دیواروں کے بغیر کام چلا ہی رہے ہیں اور ہمارے ہاں اس سب کے باوجود سیکیورٹی کی صورت حال ابتر ہے۔

اس مد میں لگے سرمایہ سے کتنے اور کارخانے، سڑکیں اور رفاہ عامہ کے ادارے قائم کیے جا سکتے تھے۔ لگتا یہ ہے کہ اس معاملہ میں دخل سیکیورٹی سے زیادہ ہماری نفسیات کو ہے۔ کیونکہ یہ دیواریں اور گیٹ اس وقت بھی تھے جب ہمارے امن و امان (یا یوں کہیے کہ بدامنی) کے حالات اب سے کہیں کم خراب تھے۔ ہمارا چوگردہ دیواروں کا کلچر بہت پرانا ہے۔

اگرچہ اس شخص سے بات ہونے سے پہلے کبھی اس نہج پر نہیں سوچا تھا۔ تاہم اب ایک طرف اس کی بات کی معقولیت اور دوسری طرف ہماری سطحی سوچ کھٹکنے لگی ہے۔ ہمارا معاشرہ اس سمت میں بہت دور جا چکا ہے۔

میرے ہمسایوں نے میرے اور اپنے درمیان صرف دیواریں حائل کرنے پر بس نہیں کی بلکہ ان دیواروں کو فلک تک لے گئے ہیں اور پھر ان پر ٹوٹی کانچ کا اضافہ مزید کر دیا ہے۔ یہ دیواریں اور کرچیاں ایک طرح سے ہمارے دلوں میں کھب رہی ہیں۔ جیسے ہندوستان نے اپنے اور ہمارے بیچ ایک برقایا ہوا سرحدی جنگلہ بصرف زرکثیر لگایا ہے۔

جیسے دیوارِ برلن مشرقی اور مغربی جرمنوں کے درمیان دیوارِ گریہ کی صورت حائل تھی۔ فرق یہ ہے کہ جرمنوں نے موقعہ ملتے ہی اس دیوار کا ایسا صفایا کیا کہ نشان تک باقی نہ چھوڑا۔ ہم ایسی دیواروں کو اور زیادہ اونچا کرنے کی دُھن میں رہتے ہیں۔

ہماری بستیوں نے اپنی گلیاں لوہے کے دیوہیکل، بھاری بھر کم گیٹ لگا کر بند کر رکھی ہیں۔ ان گیٹوں کے اندر مکان بھی قبائلی اور کابلی اسٹائل کے ہیں۔ اونچی فصیلوں والے قلعہ نما گھر، جناتی قسم کے گیٹ اور ان پر متعین ’سیکیورٹی گارڈ‘ لگتا ہے کہ ہماری سائیکی خول میں بند رہنے کی ہو چکی ہے۔ شہر پنجروں کے جھرمٹ لگتے ہیں۔

گویا ہم کھلی فضائوں سے خوف کھاتے ہیں اور تاریکیوں میں پناہ ڈھونڈنے کے عادی ہو چکے ہیں۔ ہماری مثال ایچ جی ویلز کی تصنیف ’ٹائم مشین‘ میں بیان کردہ اس جانور مخلوق کی سی ہے جو زیر زمین اندھیروں میں رہتی اور روشنی سے خوف کھاتی ہے۔ یہی تاریکی ہماری سوچ، ہمارے اخلاق اور زندگی کے بارے میں ہمارے مطمحِ نظر پر حاوی ہو چکی ہے۔

یہ سارا انتظام سیکیورٹی کے نام پر ہے۔ اس کا عُذر (بظاہر معقول) ڈاکے اور چوری کی وارداتوں سے تحفظ ہے۔ لیکن زمینی حقیقت کیا ہے؟ کیا یہ بندوبست وارداتیں روک سکا ہے؟ نہیں۔ تو کیا ان وارداتوں میں وقت کے ساتھ کچھ کمی آئی ہے؟ یہ بھی نہیں۔ تو کیا ان وارداتوں کے اضافہ میں کوئی ٹھہرائو آیا ہے؟ حقیقت یہ ہے کہ ان میں سے کوئی بھی بات نہیں ہوئی۔

اتنی تبدیلی البتہ آئی ہے کہ سیکیورٹی گارڈ ہماری زندگی اور رہن سہن میں ایک اہم عنصر بن چکے ہیں… ایسا عنصر جس کے فائدے ہوں نہ ہوں لیکن نقصان ضرور ظاہر ہونے لگے ہیں۔ پہلے تو گارڈ فقط وارداتیوں کو مدد دیتے تھے اب وہ خود وار داتی بن رہے ہیں بلکہ مالکوں تک کو قتل کرنے کی نوبت آچکی ہے۔

۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸

 

Comments


Login

You are Visitor Number : 785