donateplease
newsletter
newsletter
rishta online logo
rosemine
Bazme Adab
Google   Site  
Bookmark and Share 
mazameen
Share on Facebook
 
Literary Articles -->> Adbi Gosha
 
Share to Aalmi Urdu Ghar
Author : Ahmad Hatib Siddiqui
Title :
   Yeh Sharabi--Yeh Sharabi

 

یہ شرابی۔۔۔۔یہ شرابی


احمد حاطب صدیقی


شراب پینے والے شراب پینے کو اتنا بُرا نہیں جانتے، جتنا اس بات پر بُرا مانتے ہیں کہ کوئی اُن کو’شرابی‘ کہہ دے۔ ہمارے کالم نگار بھائیوں میں سے بھی کچھ بھائی ایسے ہی بھائی ہیں۔ آئینہ اُن کو دکھایا تو برا مان گئے۔ اُن کو شاید یہ ڈر لگا رہتا ہے کہ کہیں محلے کے لونڈے لپاڑے تالیاں پیٹتے ہوئے پیچھے ہی نہ پڑ جائیں… اگر عزیز میاں قوال کی گائی ہوئی ایک قوالی میں تحریف کرتے ہوئے… ’’یہ شرابی، یہ شرابی… یہ شرابی، یہ شرابی‘‘… کی رٹ لگاتے ہوئے پیچھے لگ گئے تو یہ لونڈے لُولُو بناکر ہی چھوڑیں گے۔ اس ڈر کے سوا شاید انھیں کوئی اور ڈر نہیں ہے۔ مگر یہ معاملہ صرف ’’اُمُّ الخبائث‘‘ کے ساتھ مخصوص نہیں۔ اگر آپ چور کو چور کہہ دیں، لُٹیرے کو لُٹیرا، خائن کو خائن، زانی کو زانی، پولیس کو رشوت خور حتیٰ کہ ہمارے وہ سیاسی رہنما جو حکومت بدلنے کے ساتھ ہی پارٹی بدل کر ’لوٹا‘ بن جانے میں کوئی عار نہیں سمجھتے، اُنھیں بھی اگر آپ سرِ عام یا سرِ اسمبلی بزبانِ پنجابی بھی ’لوٹاای اوئے!‘ کہہ دیں تو علی الترتیب یہ سب کے سب مرنے مارنے پر تُل جائیں گے۔ ایک دفعہ ایک محترمہ کو دوسری محترمہ نے اسمبلی کے اجلاس کے دوران میں ’لُٹیا‘ کہہ کر پُکار لیا تھا تو اوّل الذکر نے ثانی الذکر کی چُٹیا پکڑ کر ثالث الذکر کو خاصی دیر تک کھینچا۔


بات یہ ہے کہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ہر انسان کے اندر جو ایک ’نفسِ لوّامہ‘ یا ضمیر نام کی شے رکھ دی ہے، اُس کی وجہ سے بُرے سے بُرے انسان کو بھی:
ہر بُری بات، بُری بات نظر آتی ہے!

ضمیر کے کچوکوں کے متعلق کسی تجربہ کار نے اپنا تجربہ بیان کیا ہے کہ:
’’یہ وہ چیز ہے جو آپ کو گناہ کرنے سے روک تو نہیں سکتی، مگر اُس سے لطف اندوز بھی نہیں ہونے دیتی‘‘۔

شراب کے متعلق عام تصور یہ ہے کہ اسے پینے والا اس کو پی کر آپے میں نہیں رہتا، ہوش و حواس کھو بیٹھتا ہے۔ اور یہ تصور عالمی و آفاقی ہے۔ مغرب میں بھی، جہاں شراب پانی کی طرح پی جاتی ہے، بلکہ بات بات پر اسی طرح پی جاتی ہے، جس طرح آج کل وطن عزیز کے ہر شہری کو قدم قدم پر غصہ پینا پڑتا ہے، تو اگر مغرب میں بھی کوئی ہوش و حواس سے عاری بات یا

حرکت کرے تو اُس سے یہی پوچھا جاتاہے کہ:
"Are you drunk?"
اِسی بات کو ہمارے یہاں اِس طرح پوچھتے ہیں:
’’میاں! پیے ہوئے تو نہیں ہو؟‘‘

مگر بعض اہم شخصیات ایسی ہوتی ہیں، جن سے غیر اہم لوگ یہ اہم سوال نہیں کرسکتے۔ پچھلی حکومت میں ہمیں ایک ’محرمِ رازِ درونِ مے خانہ‘ نے ایک دل چسپ واقعہ سنایا تھا۔ کہنے لگے کہ ایک انتہائی اہم شخصیت نے رات کو ڈھائی بجے اپنے سیکرٹری کو بلا کر حکم دیا:
’’فوراً ایک فٹ بال لے کر آؤ‘‘


سیکرٹری بے چارا یہ احمقانہ حکم سن کر دنگ رہ گیا۔ اوپر دیے گئے انگریزی یا اُردو سوالات میں سے ایک بھی نہ پوچھ سکا۔ وہ جو کہتے ہیں کہ … ’’حکمِ حاکم مرگِ مفاجات‘‘ … توبے چارا مرتا کیا نہ کرتا، فٹ بال فراہم کرنے کی فکر میں پڑ گیا۔ ہمارے وفاقی دارالحکومت میں تو رات گیارہ ساڑھے گیارہ بجے ہی بازاروں میں سنّاٹا چھا جاتا ہے۔ ڈھائی بجے رات کو فٹ بال تلاش کرنے سے کہیں زیادہ آسان کام یہ تھا کہ وہ خود ہی دو پیگ چڑھا کر فٹ بال بن جاتا۔ خیر کسی طرح اُس نے ایک دکان دار کے گھر کا اتا پتا معلوم کیا اورسرکاری اختیارات استعمال کرتے ہوئے اُسے  گھر سے بلا کر تین ساڑھے تین بجے رات کو دُکان کھلوائی۔ دُکان سے صاحب کے شایانِ شان فٹ بال نکلوائی۔ مگر جب انتہائی کامیابی کے ساتھ فٹ بال لے کر حجلہ خواب میں پہنچا تو ’صاحب‘ اُس وقت تک خوابِ خرگوش میں مدہوش ہو چکے تھے۔ فٹ بال اُن کے سرہانے رکھ کر چلا آیا۔ صبح سویرے ایک ہنگامہ برپا ہوگیا۔ سیکرٹری طلب کیا گیا۔ اُس گستاخ کا نام جاننے کی کوشش کی گئی جس نے صاحب کے بالیں پر ایک فٹ بال رکھ دی تھی۔ سیکرٹری کا یہ کہنا اور بھی غضب ہوگیا کہ:

’’صاحب! آپ ہی نے تو رات کو منگوائی تھی!‘‘
(صاحب نے اس کے جواب میں جو فقرہ کہا وہ ناقابل اشاعت ہے)

پرویز مشرف کے دور میں بھی ایک لطیفہ مشہور ہوا تھا کہ آرمی ہاؤس سے ایک سرکلر جاری کیا گیا ہے:

’’صدر صاحب اگر رات ساڑھے آٹھ بجے کے بعد ٹیلی فون پر کوئی حکم جاری کریں تو اُس پر عمل نہ کیا جائے‘‘۔

شراب خانہ خراب نے جو ستم ہمارے وطن پر ڈھائے ہیں، اُس کا خلاصہ برادر جاوید ہاشمی کے دور کے، اسلامی جمعیت طلبہ لاہور کے ایک شاعر نے تین اشعار میں کیا تھا:


زمیں بیچ ڈالی، زمن بیچ ڈالا
لحد بیچ ڈالی، کفن بیچ ڈالا
کیا میرے گلشن کی ہر شے کا سودا
شجر بیچ ڈالے، چمن بیچ ڈالا
میں روٹی میں، کپڑے میں اُلجھا رہا
اُس شرابی نے میرا وطن بیچ ڈالا

(اب آپ اندازہ لگاتے رہیے کہ دو شرابیوں میں سے کس شرابی کا ذکر ہے؟ شاید دونوں کا ہے۔) چوں کہ شراب اُمُّ الخبائث ہے، چناںچہ جو شرابی ہوتا ہے وہ خبث اور خبائث کے علاوہ بھی بہت سی علتوں میں مبتلا ہوجاتا ہے۔ اِشارہ کافی ہے۔ اُسی زمانے کا ذکر ہے، جامعہ کراچی میں معلوماتِ عامہ کے مقابلے میں ایک سوال پوچھا گیا:

’’وہ کون سا جرنیل تھا جسے اپنے سپاہیوں کے نام زبانی یاد تھے؟‘‘
حالاتِ حاضرہ کے واقعات سے تیاری کرکے آنے والے طالب علم سوچتے رہ گئے۔ پنڈال سے فی البدیہہ جواب آیا:

’’جنرل رانی!‘‘

شرابیوں کی اِس سے زیادہ کچھ پذیرائی نہیں کہ دُنیا بھر میں اُن کے لطیفے مشہور ہیں۔ اُس دُنیا میں بھی جو شرابیوں کی دُنیا ہے۔ ایک بار مشہور شاعر میرا جی ایک مے خانے میں داخل ہوئے تو وہاں شاعروں کے دو گروہ بیٹھے اِس سوال پر جھگڑ رہے تھے کہ:
’’شیفتہ، غالب کے شاگرد تھے یا میر کے؟‘‘

میرا جی کو دیکھا تو دونوں گروہوں نے اُنھیں حَکَم بنا لیا کہ میرا جی جو فیصلہ کریں گے ہم اُسے قبول کرلیں گے۔ میرا جی کو معلوم تھا کہ دونوں گروہ نشے میں دھت ہیں۔ جس کے مؤقف کے خلاف فیصلہ کریں گے وہ دُند مچاتے ہوئے اُنھیں پکڑ کر مارے گا۔ آخر اُنھوں نے درمیان کی راہ نکالی اور کہا:
’’دونوں کے شاگرد تھے!‘‘

اب تو دونوں گروہ اُن کو مارنے کھڑے ہوگئے کہ… ’’ہمیں پاگل بناتے ہو؟‘‘…
میرا جی نے جان بچاتے ہوئے کہا:

’’سنو تو سہی… سنو تو سہی… غالب کے شعر سے سند پیش کرتا ہوں‘‘۔
دونوں تھم گئے اور بیک زبان بولے:    ’’پیش کرو سند!‘‘
میراجی نے سند پیش کی:

شیفتہؔ کے تمہی اُستاد نہیں ہو غالبؔ
کہتے ہیں اگلے زمانے میں کوئی میرؔ بھی تھا
یہ کہہ کر میراجی وہاں سے دوڑ لیے۔ دونوں گروہ ایک دوسرے کا منہ تکتے رہ گئے۔

 

 
۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸

 

Comments


Login

You are Visitor Number : 898