donateplease
newsletter
newsletter
rishta online logo
rosemine
Bazme Adab
Google   Site  
Bookmark and Share 
mazameen
Share on Facebook
 
Literary Articles -->> Adbi Gosha
 
Share to Aalmi Urdu Ghar
Author : Ahmed Jawed
Title :
   Suraj Hoon Zindagi Ki Ramaq Chhorh Jayunga


سورج ہوں زندگی کی رمق چھوڑ جائوںگا

 

از:  احمد جاوید،شیب پور، ہوڑہ

(مغربی بنگال)


  موبائل:9831516136

 

    اپنے ہونٹوں پر مسکراہٹ کی لکیریں سجائے حضور پاک کی سنتِ مبارکہ پر عمل پیرا کہ ’’مسکراہٹ سے ملنا بھی صدقہ ہے‘‘ تنکونا چپٹا نہ لمبا، گندمی ، رنگ ، کشادہ پیشانی ، چہرے کی مناسبت سے ناک ، کچھ بولتی ہوئیں متوسط دو گول آنکھیں، وفادار سپاہیوں کی طرح کھڑے کھڑے بال جنھیں دیکھتے ہی آگے بڑھ کر پہلے مصافحہ کرنے کی خواہش دل میں پیدا ہوجاتی تھی۔ شکل ایسی جس کو دیکھتے ہی مخلص ہونے کا یقیں ہوجائے۔ پہلی ملاقات میں ہی برسوں کی جان پہچان کا تصور پیدا کرنے والی شخصیت کوئی اور نہیں وہی محنتی طالب علم ہے جنھوں نے مضافاتی علاقہ کانکی نارہ سے ہائر سکنڈری کا امتحان پاس کرکے اسپورٹس کوٹا پر سرسید کے خوابوں کی تعبیر علی گڑھ مسلم یونیورسٹی میں داخل ہوئے۔ ایم اے (اردو ) کے امتحان میں فرسٹ کلاس سے سرفرازی حاصل کی۔ میرے مخلص رفیق معروف ملی و علمی شخصیت خواجہ احمد حسین کے چھوٹے بھائی خواجہ جاوید اختر ہیں۔ ایک ایسا روشن ستارہ جوبام عروج پر پہنچنے سے قبل ہی اپنی چمک سارے ہندوستان میں بکھیر کرروشنی لٹا رہا تھا۔بقول وسیم بریلوی:

جہاں رہے گا وہیں روشنی لٹائے گا
کسی چراغ کا اپنامکاں نہیں ہوتا

    13جولائی2013کا وہ وقت ہم سبھوں کے لیے منحوس ثابت ہوا ۔ جب افطار سے فراغت کے بعد کسی کو فون کرنے کی غرض سے میں نے اپناموبائل فون اٹھایا تو ایک میسیج کا سنبل میرے موبائل پر شو کررہا تھا۔ بڑی بیا عتنائی کے ساتھ حسب معمولی میں می میسیج کو ڈسپلے کیا۔ کسی ناآشنا نے جاوید اختر کے انتقال کی روح فرسا خبر مجھے میسیج کیا تھا۔ دل کو ایک جھٹکا لگا۔ خدا ان کا سایۂ شفقت ہمارے سروں پر تادیر قائم رکھے۔ میں نے سمجھا کہ فیل خانہ کے معتبر سبکدوش معلم معروف خوش فکر استاد شاعر جاوید اختر ہمیں داغِ مفارقت دے گئے جن کا شعری مجموعہ ’’غبار آسمان زمین‘‘کی رسم اجرا کچھ ہی دنوں قبل اقبال اکیڈمی مغربی بنگال نے بڑی شان و شوکت سے کیاتھا۔ مجھے کچھ تشویش لاحق ہوئی ۔ دوبارہ اس میسیج کو ڈسپلے کیا لفظ الٰہ آباد نظر آیا۔ میں نماز عشاء وتراویح سے فارغ ہوا۔ مجھ میں ہمت نہیں ہو رہی تھی کہ میں اس خبر کی تصدیق کروں پھر بھی جواں سال خوش فکر شاعر جاوید مجیدی کو فون کیا تاکہ اس خبر کی تصدیق کرسکوں کہ افقِ ادب کا کون سا ستارہ ٹوٹا ہے۔ خواجہ جاوید اختر ہوں یا خوش فکر معتبر شاعر جاوید اختر میرے لیے تو دونوں ہی عزیز ہیں۔ جاوید مجید نے مجھے بتایا کہ آپ کے مخلص و ہمدرد دوست خواجہ احمد حسین کے چھوٹے بھائی خواجہ جاوید اختر کا انتقال الٰہ آباد میں ہوا ہے۔ خواجہ احمد حسین الٰہ آباد کو روانہ ہوچکے ہیں فون پر ان سے ہماری بات ہوئی ہے ۔ انھوں نے اس خبر کی تصدیق کی ہے۔ اتنا سننا تھا کہ میرے دل کی حالت غیر ہوگئی جسے میں لفظوں کا پیرہن عطا کرنے سے قاصر ہوں بس نصر اللہ نصر کے اس شعر پر اکتفا کرتا ہوں:

کیا دکھائوں جو دل کے اندر ہے
درد کا بیکراں سمندر ہے

    خواجہ جاوید اختر کی شاعری کو میں مستند اس وقت سے تسلیم کرتا ہوں جب شہر ہوڑہ میں ان کا کوئی شناسا نہ تھا ان کی شاعری کی دھوم نہیں مچی تھی۔ ایک دفعہ جب مجھے کانکی نارہ جانے کا اتفاق ہوا۔ سوچا کانکی نارہ آیا ہوں تو خواجہ احمد حسین سے ملتا چلوں۔ خواجہ کے گھر گیا۔ میری خوش بختی تھی کہ خواجہ جاوید احمد بھی ان دنوں الہ آباد سے اپنے گھر کانکی نارہ آئے ہوئے تھے ۔ انہوں نے مجھے اپنے کچھ منتخب اشعار اورگیت سنائے ۔ ان کیا شعار اور گیتوں میں وہ ساری خوبیاں مجھے نظر آئیں جو اچھی اور معتبر شاعری کے لیے ضروری ہے۔ میں نے اپنے دوست خواجہ احمد حسین سے کہا۔ یار جاوید اتنی اچھی شاعری کررہا ہے یہ تومجھے معلوم نہ تھا۔ کیوں نہ اس کے اعزاز میں ایک شعری نشست کی جائے۔ نشست کی تاریک طے پائی میں نے اپنی رہائش گاہ شیب پور ، ہوڑہ میں پہلی بار معروف و معتبر شاعر الحاج نور قریشی کی صدارت میں ایک نشست رکھی جس میں شہر ہوڑہ کے مشاہیر شعراء کرام نے اپنی شرکت سے اس اعزایہ نشست کو وقار بخشا۔ اس نشست میں جاوید نے اپنی کئی غزلیں، نظمیں اور گیت پیش کیے جسے شعرائے کرام نے بے حد پسند کیااور انہیں دادو تحسین سے نوازا۔ اس نشست کے بعد ہوڑہ اور شہر کلکتہ کے متعدد مشاعروں میں جاوید کی شرکت کا سلسلہ شروع ہوا۔

    اردو ادب میںصنف شاعری کی مقبولیت ثقیل و غیرمانوس الفاظ کے ذریعہ نہیں ہوئی بلکہ اس کی مقبولیت کا راز سہلِ اور چھوٹی بحروں میں مضمر ہے۔ خواجہ جاوید احمد اس ہنر میں پوری طرح طاق تھے ۔ دلوں کو چھو لینے والے ان کے کچھ اشعار ملاحظہ فرمائیں:

ہاتھ میں جب ہنر نہیں ہوتا
سرچھپانے کو گھر نہیں ہوتا

————

اگر دیکھئے تو تماشا ہے دنیا
اگر سوچئے تو تماشا نہیں ہے

————

بھروسہ بہت ہے مجھے زندگی پر
مگر زندگی کا بھروسہ نہیں ہے

    خواجہ جاوید اختر کی شاعری میں محبت کی لوتیز ہے۔ بزرگوں کے دلوں میں اپنے بچوں کے لئے جودرد نہاں ہے اس کی بھرپور عکاسی ان کے ذیل کے اشعار سے ہوتی ہے:

نونہالوں کی فکر ہے شاید
گھر کا بوڑھا شجر نہیں ہوتا

————

روشنی بانٹنے کی چاہت میں
اک دیا رات بھر نہیں سوتا

    خواجہ جاوید اختر ایک اچھے فٹ بالر تھے۔ اپنی محنت اور لگن کے ذریعہ اسکول سے لے کر یونیورسٹی کی منزل تک فٹ بال ٹیم کے بہت ہی کامیاب کپٹن رہے اور جب دنیائے ادب میں قدم رکھا تو ایسے ایسے اشعار خلق کیے ،اچھے اچھے نقاد ، محقق اور استاد شاعروںنے انہیں گلے سے لگایا اورحلقۂ تلامذہ میں شامل ہونے کی ترغیب دی۔ اردو ادب کی دو معروف شخصیتیں شہر یار اور شمس الرحمن فاروقی انہیں دل سے عزیز رکھتے تھے۔

    شہر الٰہ آباد کی دو چیزیں صرف ہندستان میں ہی نہیں بلکہ پوری دنیا میں مشہور ہیں ایک الٰہ آباد ہائی کورٹ اور دوسرا الٰہ آبادی امرود۔ میرے لیے دو چیزوں کا اور اضافہ ہوا جس نے اس شہر کی عظمت کے سکے میرے دل میں سدا کے لیے بیٹھا دئیے ایک میرا سسرال اور دوسری خواجہ جاوید اختر کی تاقیامت مستقل قیام گاہ۔

موت اس کی ہے کرے جس کا زمانہ افسوس
یوںتو دنیا میں سبھی آئے ہیں مرنے کے لیے

٭٭٭

 احــمــد جـــاویــد
 شیب پور، ہوڑہ
 موبائل:9831516136
Email: ahmedjawed15@gmail.com

 

Comments


Login

You are Visitor Number : 1080