donateplease
newsletter
newsletter
rishta online logo
rosemine
Bazme Adab
Google   Site  
Bookmark and Share 
mazameen
Share on Facebook
 
Literary Articles -->> Adbi Gosha
 
Share to Aalmi Urdu Ghar
Author : Ali Zaheer Naqvi, Delhi
Title :
   Inqilab Islami Iran Naye Sheri Rujhanat Ke Ayine Me



انقلاب اسلامی ایران


نئے شعری رجحانات کے آئینہ میں

علی ظہیر نقوی۔ دہلی


aliznaqvi@rediffmail.com

یہ سحر جو کبھی فرداہے کبھی ہے امروز
 نہیں معلوم کہ ہوتی ہے کہاں سے پیدا
وہ سحر جس سے لرزتا ہے شبستان وجود
ہوتی ہے بندۂ مومن کی اذاں سے پیدا


۱۱ ؍فروری ملت ایران کی آزادی کا قومی دن ہے۔۳۴؍سال پہلے ۱۹۷۹؁ میں ایرانی قوم نے آیت اللہ خمینی کی قیادت میں رضاشاہ پہلوی کے آمرانہ و جابرانہ نظام کے خلاف کامیاب انقلاب لاکر حکومت جمہوری اسلامی کی تشکیل کی تھی۔ ایرانی انقلاب کی کامیابی کے اثرات کی بازگشت دنیا میں آج بھی سنی جارہی ہے۔ ایرانی انقلاب کی کامیابی نے صیہونی استکباری طاقتوں اور شہنشاہیت کے ایوانوں کو لرزہ بر اندام کر دیاتھا کیونکہ ایرانی انقلاب نہ صرف ایران کے مظلوم عوام کی فتح و کامرانی کی داستان سنا رہا تھا بلکہ یہ ملوکیت پر جمہوریت کی فتح کا بھی اعلان تھا۔

ایرانی انقلاب چونکہ اسلامی و انسانی اقدار پر مبنی تھا۔ اس نے نہ صرف یہ کہ تہذیبی و اخلاقی، سماجی و معاشرتی طورپر زندگی کی سوچ و فکر کے زاوئیے بدل دئے بلکہ زندگی کے ہر شعبہ میں انقلاب برپا کردیا۔ ایرانی فنون لطیفہ زبان و ادب بھی انقلاب کے اثرات سے متاثر ہوئے بغیر نہ رہ سکے۔ یہاں کہ ادیبوں، شاعروں اور تخلیق کاروں نے براہ راست اس تبدیلی کے اثرات قبول کیے اور اپنی نگارشات میں عوامی جذبات اور بدلتی ہوئی اخلاقی و اسلامی اقدار کی بھرپور نمائندگی کی۔ کسی بھی قوم و ملک کا ادب اپنے سماج کا آئینہ دار ہوتا ہے اور ہمارا معاشرہ ہی ادبی تخلیقات کا مرہون منت ہوتا ہے۔

ایرانی انقلاب کی کامیابی پر انقلاب کے قائد عظیم الشان امام خمینی نے کہا تھا ’’ماہر چہ داریم از عاشورا داریم‘‘ ۔ ہم دیکھتے ہیں کہ ایام انقلاب میں جو نعرے عوام کی زبان پر تھے اس میں واضح طورپر کہا گیاتھا ۔

رہبر ماخمینی است
نہضت ماحسینی است

اس طرح ایسے ایرانی نغموں کی تعداد بڑی کثیر ہے جو فارسی ادب کے افق پر نئی تشبیہ و استعاروں کے ساتھ ابھرے ہیں۔ مثلا

گل برگ سرخ لالہ ہا
در کوچہ ہای شہر ما
بوی شہادت می دہد
برادرم برادرم

آج کا ایرانی شاعر اپنے کلام میں جب لفظ شہید استعمال کرتا ہے تو اس کی مراد شہید ناز جاناں سے نہیں بلکہ اس سے مراد شہید راہ حق سے ہوتی ہے۔انقلاب ایران کے بعد ایران میں جو فارسی ادب تخلیق ہوا ہے وہ وہاں کے دانشوروں، قلمکاروں، شعراء و ادباء کا استبدادی قوتوں کے خلاف حریت و آزادی کا نعرہ ہے تو کہیں ان کے قلم کی سیاہی شہدا کے خون میں لالہ زار نظر آتی ہے۔ آج کا فارسی ایرانی ادب خیالی رنگ آمیزیوں سے مبرا صداقت و حقائق کا آئینہ دار ہے۔ دل سے نکلی ہوئی بات دل پر لگتی ہے۔ یہاں نہ صرف نفس امارہ کی تسکین کا سامان  موجود ہے بلکہ دل و دماغ وروح کی تسکین کا سامان بھی ملتا ہے۔

قوموں کے ادبی تخلیقات کے پس منظر میں یقینا تاریخی و اقعات کی کوکھ سے ادبی شہ پارے عالم وجود میں آتے ہیں۔ جب منگولوں کے حملے سے لوگوں کے دلوں پر دنیا کی بے ثباتی نے جنم لیا تو صوفیانہ ادب ظہور پذیر ہوا اور قاجاریوں کے ظلم و استبداد کے بعد جب ایران میں انقلاب مشرطیت آیا تو اس وقت وہاں کے فارسی ادب میں بے جا چاپلوسی پر مبنی قصائد کی جگہ حب الوطنی اور قومی جذبات کی عکاسی کرتی ہوئی شاعری کے وجود کا باعث قرار پائی۔

۲۰؍ ویں صدی میں اسلامی انقلاب کی شمع جب ایران میں روشن ہوئی تو اس کی تابناک شعائوں نے فارسی ادب کی ہر صنف سخن کو منور کردیا۔ یہاں حرف ومعنی نے نئی نئی کروٹیں بدلیں۔ اب عشق مجازی کی جگہ عشق حقیقی نے لے لی۔ مستضعفین، استکبار، استعمار، طاغوت جیسے الفاظ و اصطاحیں اپنی معنویت کے ساتھ فارسی ادب میں جلوہ گر ہوئیں۔ عصر حاضر کا ایرانی ادب اعلی انسانی اقدار، اسلامی افکار اور حکمت و دانش کا پر تو نظر آتا ہے جس کی بنیاد اسلامی عقائد، قرآن کریم اور احادیث پیغمبر اسلام نیز آئمہ معصومین کے اقوال و تعلیمات سے وابستہ ہیں۔

ایران  میں انقلاب اسلامی کے بعد جو ادب تخلیق ہوا ہے اس کی روح میں چونکادینے والی تبدیلیاں نظر آتی ہیں۔ انقلاب کے بعد کی غزل کا سفر اپنی مخصوص شناخت کے ساتھ جاری ہے۔ جس میں رومانیت کی جگہ روحانی احساسات و جذبات نے لے لی ہے اور قومی و رزمیہ مضامین نے بھی جگہ پائی ہے مثلا

اذان عشق بہ بام ستارہ می خواند
کسی کہ سورئہ خون در شرارہ خواند

انقلاب کے بعد ایرانی فارسی ادب میں رباعیاں بھی خوب لکھی گئی ہیں جس میں اب دنیا کی بے بضاعتی اور شراب انگور کی مستی کا ذکر نہیں بلکہ قومی معاملات کے ساتھ زندگی جاوداں اور تاریخی لمحات کو ضبط تحریر میں لایا گیا ہے۔ انقلاب کے بعد کی مثنویوں کا بھی اگر جائزہ لیا جائے تو اس میں حماسہ سرائی کا رنگ اپنے نئے افکار کے ساتھ خوبصورت پیراے میں ظاہر ہوا ہے۔ اس ضمن میں سپیدہ کا شانی اور نصر اللہ مردانی کے نام قابل ذکر ہیں۔ اسی طرح شعر انقلاب کے شعراء کا بڑا حصہ حماسی افکار کا ترجمان ہے جن کے موضوعات ، ایران پر مسلط کردہ جنگ، شہادت، بین الاقوامی سیاسی کشمکش، فلسطینی آزادی، بیت المقدس اور عاشورہ رہے ہیں۔ ڈاکٹر غلام رضا رحمدل نے شعر انقلاب میں حماسہ نگاری کے تعلق سے لکھا ہے۔ ’شعر انقلاب کے حماسی موضوعات میں سر فہرست موضوع عاشورہ اور عاشورائی فکر و نظریہ ہے جس میں عاشورائی علامات اور جنگ آزمائوں کی علاماتی تشبیہ ہے جس نے شہادت چاہنے والے اور اس مقصد کی طلب میں بڑھنے والے نوجوانوں کو جوش دلانے اور ان کے حوصلے بڑھانے میں بنیادی کردار ادا کیا ہے۔ پیشانی پر سرخ و سبز پٹیاں باندھنا، حضرت امام حسین کی طرح شہید ہونا اور حضرت زینب کی طرح زندہ رہنے کی علامات ہیں اسی طرح علم، بے سوار گھوڑا سینہ زنی اور دوسری علامات جنگی محاذوں کے روحانی اور حماسی عناصر کے طورپر استعمال ہوئے ہیں۔ عاشورہ اور عاشورائی اقدار جیسے زیارت کربلا، مرگ شہادت ، عدم موافقت، ظالم سے انکار بیعت کے عاشورائی جلوے شعر انقلاب کے بنیادی محور ہیں‘‘۔

ان تغیرات کاا ثر فارسی مرثیہ میں بھی نمایاں طور پر نظر آتا ہے جس میں اب شہیدوں کی مظلومیت اور بے کسی نے حماسہ کی شکل اختیار کرلی۔ اب ایرانی شعرأ  امام حسین کو اپنے مرثیوں میں اس طرح خراج عقیدت پیش کرتے ہیں۔

تو کوہِ صبری و دریای ظرف ایمانی
تو سرخ لالہ عشقی، گل یگانۂ عشق
توئی تجسم اسلام و معنی قران
تو شاہ میوہ باغی زبذر و دانۂ عشق

اس کے ساتھ ہی بے شمار کربلائی مضامین عصرحاضر کی ایرانی شاعری کا خاص موضوع نظر آتے ہیں جن میں شہادت ، سرفروشی،علقمہ،فرات،مرگ سرخ، مقاومت وغیرہ خاص طور سے قابل ذکر ہیں۔ عصرحاضر کے ایرانی شعراکے ہاں جذبہ ایمانی، وطن دوستی، سیاسی واجتماعی شعور اور عرفانی دریافتوں کے بعد جدید شاعری کے انقلاب آفریں پیکرتراش کرفارسی شاعری کو ایک نئی سمت سفردی ہے۔ان میں قیصر امین پور، یوسف علی میر، محمدرضا ملکیان، فاطمہ راکہی، صدیقہ وسمقی، رفشین سرفراز، اکبر بہاروند، علی رضا قزوہ،محمد علی بہمنی، پرویزعباس داکائی، عبدالجبار کاکائی، سلمان ہراتی، نصر اللہ مردانی، احمد غزیزی، سہیل محمودی ،صابرامامی، عبد الحمیدضیائی، علی ہوشمند ،رضا امیرخانی، مصطفی رحمان دوست، ناصر فیض، حسن حسینی، عباس باقری اور عباس خوش عمل جیسے شعرا کے نام اس قبیل کے شعرامیں سرفہرست نظر آتے ہیں۔

اسی طرح زہرہ نارنجی جن کا شمار شعرانقلاب کے نوواردشعرامیں سے ایک اچھی شاعرہ کے طور پر ہوتا ہے انہوں نے اپنی ایک غزل جس میں شہید وشہادت کی حقیقی تصویر کو خوبصورت آہنگ میں پیش کیا ہے۔ اس میں راہ حق پر قربان ہونے والے شہداکی تعریف کی گئی ہے ۔ ملاحظہ ہو۔

باز صحرا را چراغان کردہ اند
لالہ ہایاد شہیدان کردہ اند
ابرہای روشن دریا بہ روشن
دشت راآئینہ باران کردہ اند
رہروانِ عشق رفع تشنگی
درپناہ ابر مژگان کردہ اند

    شاعر مشرق علامہ اقبالؔ نے ایران میں انقلاب کی تحریک کی پیشن گوئی کی تھی۔ ان کی وفات کے چالیس سال بعد ان کی شاعری میں ایران سے متعلق پیشن گوئیاں حقیقت بن گئیں انہوں نے’ پیام مشرق ‘ میں کہا تھا۔

افسرپادشہی رفتہ وبہ یغمای رفت
نی اسکندری و نغمۂ دارابی رفت

اقبالؔ کی نگاہ عرفانی ایران میں اس مردحق آگاہ مجاہد کوڈھونڈرہی تھی جن کے فلسفیانہ اورعرفانی شعروں میں انسانوں کی امید کے اس مردکامل اور افتخار بشریت مرد مومن کو اپنی امیدوں کے خضروقت کی آمدکی بشارت اس طرح دی گئی تھی جو ایران میں حضرت روح اللہ امام خمینی کی شکل میں ابھرتی ہے جس نے نہ صرف سلطانی جمہور کا احیأکیا بلکہ ایران میں اسلامی اقدار وتہذیب کی تجدیدنوکی۔ علامہ اقبالؔ نے ایرانی انقلاب کے قائدعظیم الشان امام خمینی کے لیے کہا تھا۔


می رسد مردی کہ زنجیر غلامانِ بشکند
دیدہ ام از روزن دیوار زندان شما

(یو این این)

*****************************

 

 

 

 

Comments


Login

You are Visitor Number : 804