donateplease
newsletter
newsletter
rishta online logo
rosemine
Bazme Adab
Google   Site  
Bookmark and Share 
mazameen
Share on Facebook
 
Literary Articles -->> Adbi Gosha
 
Share to Aalmi Urdu Ghar
Author : Arif Aziz, Bhopal
Title :
   Darul Mosannefeen Aur Bhopal, Sau Sala Rishta Ke Tanazur Me


دارالمصنفین اور بھوپال، سو سالہ رشتہ کے تناظر میں

 

عارف عزیز

(بھوپال)

     وسط ہند کی نسبتاً ایک چھوٹی ریاست بھوپال اپنے جائے وقوع اور چار نسلوں تک جاری رہنے والی بیگمات کی حکمرانی نیز اُن کی معارف نوازی کے باعث ہندوستان میں ایک منفرد مقام کی حامل رہی ہے۔ ریاست کی آخری بیگم نواب سلطان جہاں (۱۸۸۵ئ-۱۹۳۰ئ) نے بھی خاندانی علم دوستی کی اِس روایت کی توسیع کرتے ہوئے قومی و علمی اداروں کی اِس حد تک سرپرستی فرمائی کہ کوئی بڑا ادارہ ایسا نہ رہا، جو بیگم صاحبہ کے چشمِ فیض سے سیراب نہ ہوا ہو، وہ بانی دارالمصنفین اعظم گڑھ علامہ شبلی نعمانی (۱۸۵۷-۱۹۱۴ئ) کی عبقری شخصیت و علمی خدمات سے حد درجہ متاثر تھیں اور اُن کے ساتھ لطف و کرم کا سلوک اور علمی کاموں میں سرپرستی فرماتی تھیں۔ علامہ شبلی کی سلطان جہاں بیگم سے ۱۹۰۵ء میں پہلی ملاقات ہوئی تو شبلی اِتنے متاثر ہوئے کہ ’الندوہ‘ میں ان کی قومی خدمات پر ایک مضمون سپرد قلم کیا۔ عقیدت کا یہ تاثر اُس وقت مزید گہرا ہوگیا، جب شبلی نے ’سیرت النبی‘ کی تالیف کا عزم کرکے قوم سے اُس کے ماہانہ مصارف اور مآخذ کی کتب خریدنے کے لئے مالی امداد کی درخواست کی۔ سلطان جہاں کو یہ اطلاع ملی تو انہوں نے محکمہ تاریخ کے مہتمم منشی محمد امین زبیری (۱۸۶۸ئ۱۹۵۸ئ) کے مشورہ پر سیرت النبی کے جملہ مصارف کی ذمہ داری قبول کرکے دوسری تمام امدادوں سے شبلی کو بنے نیاز کر دیا اور حکم صادر فرمایا۔

    ’چونکہ اردو میں اِس وقت تک آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی کوئی مفصل اور مستند سوانح عمری موجود نہیں ہے، اِس لئے جب مجھے معلوم ہوا کہ شمس العلماء مولانا شبلی جو تاریخ اسلام کے ایک باکمال اور مستند مورخ ہیں، سیرت النبی مرتب کرنا چاہتے ہیں، لیکن مالی امداد سے مجبور ہیں اور انہوں نے امداد کی ایک اپیل شائع کی ہے، میں نے اس اپیل کو دیکھا اور افسوس ہوا کہ ایسی ضروری مذہبی تصنیف کے لئے پبلک سے اپیل کرنے کی نوبت پہنچی ہے۔ میں نے اُن کو مطلع کیا کہ فوراً کام شروع کردیں، جس قدر روپئے کی اپیل کی گئی ہے، وہ میں دوں گی، لیکن اپیل میں اُن کتابوں کا ذکر نہیں جو تالیف میں ضروری تھیں۔ جب حمید اللہ خاں (بیگم صاحبہ کے چھوٹے صاحبزادے) کو یہ ضرورت معلوم ہوئی تو انہوں نے اس ثواب میں حصہ لینے کے لئے فوراً دوہزار روپئے مزید کتب کے لئے مولانا کے پاس بھیج دیئے اور اجازت دی کہ جس قدر کتابوں کی ضرورت ہو وہ بھی خرید لی جائیں، اس کی قیمت ادا کر دی جائے گی۔‘

    اِس فیاضانہ پیش کش کا علامہ شبلی نے بڑی مسرت کے ساتھ اپریل ۱۹۱۲ء کے ’الندوہ‘ میں ان الفاظ کے ساتھ اعلان کیا

    ’مجلس تالیف سیرتِ نبوی نے چندوں کی وصولی کرنے کی جن تدابیر کا اعلان کیا تھا، ایک زبیدۂ وقت نے اِن سب کو منسوخ کر دیا اور تمام وصول، شدہ چندے واپس کر دئے گئے۔‘‘

    ’بیگم بھوپال کی طرف سے دو سو روپئے ماہوار مقرر ہوئے تو مصارف کی جانب سے مطمئن ہوکر شبلی ہمہ تن سیرت کی تالیف میں مصروف ہوگئے۔‘

(مولانا شاہ معین الدین ندوی- ’دار المصنفین اور ریاست بھوپال‘، سہ ماہی ’فکر و آگہی‘ دہلی ’بھوپال نمبر‘ شمارہ ۱۰-۱۱ اور ۱۲- ۱۹۹۶ئ)

    درجِ بالا عبارت کی علامہ شبلی کے اِن اشعار سے بھی تصدیق ہوتی ہے    ؎

مصارف کی طرف سے مطمئن ہوں، میں بہر صورت
کہ ابرِ فیضِ سلطانِ جہاں بیگم زر افشاں ہے
رہی تالیف و تنقید، روایت ہائے تاریخی
تو اس کے واسطے حاضر میرا دل ہے، میری جاں ہے
غرض دو ہاتھ ہیں، اِس کام کے انجام میں شامل
کہ جن میں اِک فقیر بے نوا ہے، ایک سلطاں ہے

(’کلیاتِ شبلی‘ اردو صفحہ ۱۱۲)

    لکھنؤ کا ماحول و موسم شبلی کیلئے پرسکون نہیں تھا، اِس لئے سیرت کی تالیف کی خاطر بمبئی کے ایک گوشہ میں بیٹھ کر عزلت گزیں ہونا چاہتے تھے، انہیں یہ بھی اندازہ ہوا کہ خرچ تخمینہ سے زیادہ بڑھ جائے گا، مئی کے آخر میں بمبئی جاتے ہوئے راستہ میں بھوپال اتر پڑے اور مولوی عبدالرزاق مصنّف البرامکہ کا بیان ہے کہ بیگم صاحبہ سے ملاقات کرکے اپنا یہ قطعہ پڑھا   ؎

عجم کی مدح کی، عباسیوں کی داستاں لکھی
مجھے چندے مقیم آستانِ غیر ہونا تھا
مگر اب لکھ رہا ہوں سیرتِ پیغمبرِ خاتمؐ
خدا کا شکر ہے، یوں خاتمہ بالخیر ہونا تھا

    ’سرکار عالیہ اِس قطعہ کو سن کر بیحد متاثر ہوئیں اور فرمایا، آپ مطمئن رہیں، جو مصارف ہوں گے میں دوں گی اور اِس کے متعلق حکم صادر فرمایا اور مولانا سے کہا کہ میں نے اپنا فرض ادا کر دیا اور یقینا اس ثواب کی مستحق ہوگئی جو اِس نیک کام کا مجھے ملے گا۔آپ کی صحت تو اِتنی خراب ہے کہ دو وقت کھانا نہیں کھاتے۔ آپ نہ رہے تو کتاب کیونکر پوری ہوگی۔  مولانا نے جواب دیا کتاب ضرور پوری ہوگی۔ میں نے دو آدمی تیار کر لئے ہیں، حمید الدین اور سید سلیمان پوری کریں گے۔‘

(سہ ماہی ’فکر آگہی‘ ایضاً)

    ’ایک طرف علامہ شبلی کا یہ عزم بالجزم تھا، دوسری جانب اُن کے روایتی حریف سرگرم تھے کہ سیرت کو کسی صورت چھپنے نہیں دیں گے لہٰذا سیرت کی پہلی جلد مکمل ہوگئی تو اُس کے چھپنے کے مشورے ہونے لگے، اِسی درمیان میں سیرت کا مقدمہ قلم بند ہوگیا۔

    ’ مولانا ابوالکلام آزاد کو اِسے مطالعہ کے لئے بھیجا تو اُنہوں نے ’الہلال‘ کلکتہ میں چھاپ دیا تاکہ اہلِ نظر دیکھ سکیں کہ کتاب کس درجہ تحقیق و تدقیق سے لکھی گئی ہے، لیکن بعض مخالفین، جن کو یہ گوارہ نہ تھا کہ سرکارِ عالیہ کی سرپرستی میں سیرت النبی لکھی جائے، انہوں نے اعتراضوں کی بوچھار کر دی اور ایڈیٹر ’’النجم‘‘ لکھنؤ نے اس پر نہایت سخت تنقید شائع کر دی، جو سرکارِ عالیہ تک پہنچائی گئی اور معاملہ نے اتنا طول پکڑا کہ علامہ شبلی بددل ہوکر وظیفۂ بھوپال سے خود دستبردار ہونے پر تیار ہوگئے۔ اس قضیہ کا یہ اثر مرتب ہوا کہ سیرت کی ابتدائی دو جلدیں مکمل ہونے کے باوجود علامہ کی زندگی میں شائع نہیں ہوسکیں اور وہ سیرت کی ناتمامی کا داغ دل میں لیکر ۱۸ نومبر ۴ا۱۹ء کو دنیا سے رخصت ہوگئے۔ ‘

(سید سلیمان ندوی ’’حیاتِ شبلی‘‘ صفحہ ۷۱۶-۷۱۷)

    اِس سانحہ کی خبر ملی تو بیگم صاحبہ نے بہ حسرت فرمایا کہ ’فقیر بے نوا تو چل بسا، سلطان باقی ہے‘ علامہ کی وفات کے بعد جب اُن کے تجویز کردہ نقشہ کے مطابق سیرت اور دوسرے علمی منصوبوں کی تکمیل کے لئے دارالمصنفین قائم ہوا تو ریاست بھوپال کی طرف سے سیرت کی اشاعت کے لئے ملنے والی مالی امداد دارالمصنفین کو منتقل ہوجائے، اس کے لئے ادارہ کے ناظم مولانا سید سلیمان ندوی (۱۸۸۴-۱۹۵۳ئ) نے سلسلہ جنبانی شروع کیا، بھوپال ریاست کے پولیٹکل ایجنٹ لفٹننٹ کرنل سی اِی لوارڈ (LUARD) امداد جاری کرنے پر اس لئے معترض تھے کہ دارالمصنفین شبلی اکادمی کے ناظم مولانا سید سلیمان ندوی اور منیجر مولوی مسعود علی خلافت تحریک سے وابستہ ہیں اور ادارہ کے ترجمان ’معارف‘ میں خلافت تحریک پر مضامین کی اشاعت ہورہی ہے۔

    عہدِ سلطانی کی اِس کارروائی پر مشتمل ۱۹۲۲ء کی ایک فائل پولیٹیکل ڈپارٹمنٹ بھوپال ریاست نمبر ۱۰۳ بنڈل نمبر ۷۵ برائے دریافت حالات شبلی اکادیمی بمقام اعظم گڑھ کے حوالہ سے نیشنل آرکائیوز ریجنل آفس بھوپال میں محفوظ ہے، جس کے مطالعہ سے معلوم ہوتا ہے کہ پولیٹکل ایجنٹ ریاست بھوپال سے دارالمصنفین کو مالی امداد کی فراہمی کے حق میں نہیں تھا، اُس نے ۱۷ مارچ ۱۹۲۱ء کو ریاست کے چیف سکریٹری حمید اللہ خاں کو خط لکھ کر دارالمصنفین کی مالی امداد کے بارے میں تفصیلات طلب کیں، اِس کے جواب میں بھوپال ریاست کے مہتمم تاریخ منشی امین زبیری نے وضاحت کی کہ اکادمی کی مجلس کو ملک کے سیاسی امور سے کوئی تعلق نہیں ہے، یہ ایک خالص علمی ادارہ ہے، جس کے ارکان علمی تصنیفات و مقالات خصوصاً سیرت النبی صلعم کی تکمیل میں مصروف ہیں۔ اس کے ساتھ سالِ گزشتہ (۱۹۲۱ئ) کی دارالمصنفین سے موصول تفصیلی رپورٹ بھی پیش کی گئی، جس میں درج ہے کہ

    ’مذکورہ مجلس کو سیاسی معاملات سے کوئی تعلق نہیں ہے، البتہ مسئلہ خلافت کی تاریخی و مذہبی حیثیت پر بعض اصحاب نے مضامین شائع کئے ہیں اور مولوی سید سلیمان صاحب ناظم ذاتی طور پر گزشتہ سال (۱۹۲۰ئ) خلافت ڈپوٹیشن کے ممبر کی حیثیت سے یوروپ گئے تھے اور مولوی مسعود علی صاحب خلافت کمیٹی کے سکریٹری ہیں، اُن چند اصحاب نے جن کا تعلق دارالمصنفین سے ہے مسئلہ خلافت میں جس قدر تحریر و تقریر کے ذریعہ حصہ لیا، وہ اپنی پرائیوٹ پوزیشن میں ہے، دارالمصنفین شبلی اکادیمی کے لحاظ سے نہیں اور نہ ادارہ کا اِن تحریکات سے کوئی تعلق ہے۔ ادارہ کے ارکان میں زیادہ ایسے اصحاب ہیں، جو گورنمنٹ کے مقاصد کے برخلاف کسی قسم کی تحریک میں دلچسپی نہیں رکھتے، مثلاً نواب عماد الملک سید حسین بلگرامی، مولوی حبیب الرحمن خاں شیروانی صدر الصدور امور مذہبی حیدرآباد، مولوی ضیاء الحسن علوی انسپکٹر مدارس عربیہ، مولوی مہدی حسن تحصیلدار منصف کانپور، منشی امین زبیری مہتمم تاریخ بھوپال۔‘

(فائل نیشنل آرکائیوز سے)

    اِس کے ساتھ روداد مجلس دارالمصنفین (پروگریسیو رپورٹ) بابت ۱۹۲۰ء منسلک کی گئی، جس میں یہ عذر بھی شامل ہے:

    ’اِس سال ناظم کے ملک سے باہر رہنے سے علمی کام کی رفتار تیز نہیں رہی تاہم سیرت النبی کی دوسری جلد کی اشاعت کا کام ہوا اور تیسری جلد جس میں معجزات کا حصہ ہے، جلد مطبع جانے کے لئے تیار ہے اور حصہ چہارم منصبِ نبوت قریب تکمیل ہے، ’تاریخ اسلام‘ کا کام بدستور جاری ہے۔ امسال خلفائے عباسیہ کے زمانے تک کا حصہ مکمل ہوگیا ہے، مولوی سعید انصاری اِس خدمت کو انجام دے رہے ہیں۔ ’شعرالہند‘ کے لئے بہت سے قلمی تذکروں اور شعراء کے دواوین کی ضرورت ہے، جو لوگوں کے پاس متفرق طور پر موجود ہیں۔ اس کا بڑا حصہ مولوی عبدالسلام نے مرتب کیا ہے اور تھوڑا حصہ زیر تحریر بھی لاچکے ہیں، ’رقعاتِ عالمگیری‘میں جمع و ترتیب کی پیش رفت جاری ہے۔‘

(فائل نیشنل آرکائیوز سے)

    اس روداد میں دارالمصنفین کے علمی ترجمان ماہنامہ ’معارف‘ اعظم گڑھ، جس کو مولوی عبدالماجد دریابادی ایڈٹ کر رہے تھے، اُس کی تفصیلات بھی درج کی گئیں، اِس کے علاوہ دارالمصنفین کے شعبے دار الاشاعت، دارالکتب، تعمیرات، مجلسِ انتظامی کی صورت حال سے بھی روشناس کرایا گیا۔ رپورٹ میں ادارہ کے عہدیداران و ارکان کے نام اور مشاہرہ کی تفصیل بھی دی گئی ہے۔

    اِس کے ہمراہ تین صفحات کا ایک خوش خط عریضہ مہتمم دفتر تاریخ منشی محمد امین زبیری کے قلم سے تحریر بیگم صاحبہ کی خدمت میں پیش کرکے دارالمصنفین کے علمی کاموں کا مزید تعارف کرایا گیا، نیز یہ بھی وضاحت کی گئی کہ سیاسی امور سے ادارہ کو کوئی نسبت نہیں اور جن ارکان نے خلافت تحریک میں حصہ لیا، وہ نجی حیثیت سے تھا، جولائی ۱۹۲۱ء سے فروری ۱۹۲۲ء تک ’’معارف‘‘ میں شائع مضامین کی فہرست پیش کرکے وضاحت کی گئی کہ ان میں مسئلہ خلافت پر چند مضامین ضرور ہیں، لیکن صرف تاریخی واقعات کو بیان کیا گیا ہے۔

    آرکائیوز میں محفوظ دارالمصنفین کے بارے میں دستاویز کی اس فائل میں بیگم صاحبہ کے صاحبزادے حمید اللہ خاں کا ایک خط ۸ جون ۱۹۲۲ء کا پولیٹکل ایجنٹ کے نام ہے، جس میں صراحت کی گئی کہ دارالمصنفین کے بارے میں مالی امداد کا فیصلہ ابھی زیر غور ہے، اس کے بعد ۱۵ جولائی ۱۹۲۲ء کو بیگم بھوپال کا صادر کیا ہوا وہ حکم نامہ ہے، جس میں سرکار عالیہ نے دارالمصنفین کو وظیفہ جاری کرنے کے ساتھ پابند کیا کہ بھوپال ریاست سے ملنے والا وظیفہ دوسرے مقاصد میں استعمال نہیں ہوگا، صرف سیرۃ النبی کی تیاری میں صرف ہوگا۔ یہ مکمل فائل ۹ صفحات پر مشتمل ہے۔

    مالی امداد کے فیصلہ کے بعد بیگم صاحبہ نے مولانا حمید الدین اور سید صاحب کو بھوپال بلا کر فرمایا کہ اطمینان کے ساتھ کام جاری رکھا جائے، جس امداد کی ضرورت ہوگی دی جائے گی، اِس طرح سیرت کی امداد دارالمصنفین کی جانب منتقل ہوگئی۔ بعد کی ملاقات میں سید صاحب نے سلسلہ سیرت کی دوسری کتابیں بالخصوص ’سیرت عائشہ‘، ’سیر الصحابہ‘ اور ’سیر الصحابیات‘ کے بارے میں بیگم صاحبہ کو بتایا کہ یہ لکھی جاچکی ہیں، لیکن طباعت کا سامان نہ ہونے سے نہیں چھپ سکتیں، اس کے لئے پریس کی ایک مشین کی ضرورت ہے، جو تین ہزار میں ملے گی، بیگم صاحبہ نے جواب میں فرمایا :

    ’’ایسے کام کے لئے تین ہزار کیا چیز ہے اور اُسی وقت حکم صادر فرمایا۔ تین ہزار روپئے مولوی سید سلیمان ندوی کو بشکریہ سیرت النبی دئے جائیں تاکہ ایسے کتب ہائے خیر کا سلسلہ جاری رہے اور قوم اِس سے استفادہ کرے، اِس رقم سے مشین خریدی گئی اور معارف پریس قائم ہوا، جس سے کتابوں کی طباعت میں بڑی سہولت پیدا ہوگئی، اس طرح بیگم صاحبہ کی فیاضی سے دارالمصنفین کی بنیاد پڑی۔ اُن کے صاحبزادے نواب حمید اللہ خاں نے بھی اپنے عہد میں یہ امداد جاری رکھی جو ریاست کے خاتمہ تک ملتی رہی۔

(سہ ماہی ’’‘فکر و آگہی‘‘ دہلی ایضاً)

    مذکورہ تفصیلات سے واضح ہوتا ہے کہ علامہ شبلی نعمانی اور مولانا سید سلیمان ندوی کی زندگی کے بڑے اور بیش قیمت حصے کی تحقیقی و علمی کاوشوں کا نچوڑ سیرت النبی کی چھ جلدیں اور سلسلہ سیرت کی دوسری کتابیں شائع نہیں ہوتیں اگر ریاست بھوپال فراخ دلی کے ساتھ ۳۵ برس تک مالی امداد فراہم نہ کرتی۔ یہ وہ کارنامہ ہے جو علمی حلقوں میں ہمیشہ یاد رکھا جائے گا اور اِس سے ثابت ہوتا ہے کہ سیرت النبی کی تکمیل اور دارالمصنفین کی تاسیس میں بھوپال کا خصوصی حصہ ہے۔

    دارالمصنفین اور بھوپال کے اِس تعلق کو استحکام بخشنے والی دوسری شخصیت نواب سید علی حسن خاں (۱۸۶۶-۱۹۳۶ئ) فرزند نواب صدیق حسن خاں ہیں، علامہ شبلی، سرسید علیہ الرحمہ کے ہمراہ  ۱۸۹۱ء میںپہلی مرتبہ بھوپال آئے تو نواب علی حسن کے مہمان بنے۔ وقت کے ساتھ یہ تعلق اتنا مستحکم ہوگیا کہ علامہ متعدد بار نواب صاحب کی دعوت پر بھوپال تشریف لائے۔ تحریک ندوہ کے دوران نواب علی حسن کا لکھنؤ میں قیام تھا، اُس وقت بھی دونوں کی ملاقاتیں جاری رہیں، نواب صاحب نے علامہ شبلی کے ’حادثہ گزند پاپر‘ ایک قطعہ بھی لکھا، دارالمصنفین کے قیام کے بعد جب مجلس تاسیسی تشکیل پائی تو نواب صاحب اُس کے رکن بنائے گئے۔

    بھوپال کی تیسری شخصیت منشی محمد امین الدین زبیری (۱۸۶۸-۱۹۵۸ئ) کی ہے، جو مہتمم محکمہ تاریخ کی حیثیت سے ریاست بھوپال میں شائع ہونے والی تصانیف کے بارے میں شبلی سے مشورہ لیتے تھے، وہ بیگم بھوپال اور علامہ شبلی کے درمیان سفارت کی خدمت بھی انجام دیتے تھے، شبلی سے اُن کے تعلق کا اندازہ اُن اکتیس خطوط سے ہوتا ہے، جو اُن کے نام تحریر کئے گئے۔ یہ بھی دارالمصنفین کے رکن رہے۔ لیکن علامہ شبلی کے انتقال کے بعد اُن کے بارے میں ایک غیر شائستہ مضمون لکھنے کے بعد منشی زبیری کی رکنیت مسترد کر دی گئی۔

    دارالمصنفین اور بھوپال کے روابط میں مولانا سید سلیمان ندوی نے بھی علامہ شبلی کے شاگرد رشید اور ناظم دارالمصنفین کی حیثیت سے ایک اہم کڑی کا کام انجام دیا۔ ریاست کے آخری حکمراں نواب حمید اللہ خاں بھی سید صاحب کی صلاحیتوں کے بڑے معترف تھے، چنانچہ اُن کے پیہم اصرار پر سید صاحب نے جون ۱۹۴۶ء میں بھوپال کے قاضی القضاۃ اور جامعہ احمدیہ کے امیر کا عہدہ سنبھالا، لیکن یہ سیاسی عدم استحکام کا زمانہ تھا ملک کی آزادی کے بعد ریاست حکومتِ ہند میں ضم ہوگئی تو بادلِ نا خواستہ سید صاحب کو اکتوبر ۱۹۴۹ء میں پاکستان کے لئے رختِ سفر باندھنا پڑا، تاہم اُن کے قیامِ بھوپال کا یہ نتیجہ ضرور نکلا کہ یہاں جامعہ احمدیہ کی قائم مقامی کے لئے دارالعلوم تاج المساجد کی بنیاد رکھی گئی اور اُس کے لئے تاج المساجد جیسی تشنۂ تکمیل لیکن عظیم مسجد کی تعمیر دوبارہ شروع ہوگئی۔

    دارالمصنفین سے بھوپال کے رشتہ کو قائم و دائم رکھنے والی چھٹی شخصیت مولانا محمد عمران خاں ندوی ازہری (۱۹۱۳-۱۹۸۶ئ) کی ہے، جو ۱۹۴۷ء میں ادارہ کے رکن منتخب ہوئے اور ’سید سلیمان ندوی صدی تقریبات‘ کے موقع پر ستمبر ۱۹۸۵ء میں ’بزم سلیمانی‘ کے عنوان سے ایک وقیع سیمینار کا دارلعلوم تاج المساجد میں انعقاد کرکے اپنے استاد کے تئیں عقیدت و محبت کا اظہار کیا۔مقالات کا مجموعہ ’مطالعہ سلیمانی‘ مرتبہ پروفیسر مسعود الرحمن ندوی شائع کیا سید صاحب بھی انہیں بہت محبوب رکھتے تھے، دارالمصنفین کی تعمیر وترقی میں ہمیشہ پیش پیش رہے۔ ۱۹۶۵ کے جشن طلائی کے موقع پرگیارہ ہزار کی رقم مولانا کی توجہ سے ادارہ کو بھوپال سے ملی ، مکاتیب مشاہیر دارالمصنفین بنام مولانا محمد عمران خاں ندوی کے نام سے شائع کتاب سے بھی مولانا کے دارالمصنفین سے گہرے رشتوں کا ثبوت ملتا ہے۔ کیونکہ اس میں مشاہیر کے مولانا کے نام دوسو خطوط موجود ہیں۔  دارالمصنفین کے ناظم جناب صباح الدین عبدالرحمن نے بھی اِس میں شرکت کی اور کلیدی مقالہ پیش کیا۔ بھوپال سے دارالمصنفین کے ایک اور رکن خاندانِ مجددیہ کے چشم و چراغ مولانا محمد سعید مجددی (پیدائش ۱۹۳۸ئ) ہیں، جو الحمدللہ حیات ہیں اور دارالعلوم تاج المساجد بھوپال کے امیر کی خدمت انجام دے رہے ہیں۔اسی طرح پروفیسر خالد محمود کیلئے بھوپال وطن ثانی کی حیثیت رکھتا ہے، ان کی تعلیم بھوپال میں ہوئی اور وہ دارالمصنفین کے رکن منتخب ہوئے ہیں۔

    معروف ناقدو محقق پروفیسر عبدالقوی دسنوی (۱۹۳۰-۲۰۱۱ئ) کا بھی دارالمصنفین سے گہرا رشتہ ہے۔ انہوں نے ادارہ کے جشن طلائی ۱۹۶۵ء میں نواب ساجدہ سلطان بیگم آف بھوپال اور مولانا عمران خاں ندوی کے ساتھ شرکت فرمائی۔ بھوپال میں ’بزم سلیمانی‘ کے انعقاد میں بھی پروفیسر دسنوی کا سرگرم تعاون رہا، آل انڈیا اسلامک اسٹڈیز کانفرنس کا ۱۹۶۹ء میں دارالمصنفین کی دعوت پر اعظم گڑھ میں انعقاد ہوا، اُس میں بھوپال کے ممتاز اسکالر پروفیسر مسعود الرحمن ندوی نے مقالہ پیش کیا، سیمینار کی روداد میں بھوپال کے ایک اور اسکالر پروفیسر محمد زبیر صدیقی کا نام اِس حیثیت سے درج ہے کہ سیمینار کے لئے اُن کا مقالہ موصول ہوا، وہ خود شرکت نہیں کرسکے۔ ’اسلام اور مستشرقین‘ کے موضوع پر ۱۹۸۲ء میں دارالمصنفین نے ایک شاندار سمینار کی میزبانی کی، اِس میں بھوپال سے مولانا محمد عمران خاں ندوی، مولانا محمد سعید مجددی اور ڈاکٹر محمد حسان خاں نے شرکت کی جبکہ اِس کے انتظام و انصرام میں رفیق دارالمصنفین کی حیثیت سے مولانا حافظ منصور نعمانی ندوی (بھوپالی) شریک رہے۔دارالمصنفین کے رفقاء میں دو اور شخصیتیں ہیں، جن کا بھوپال سے گہرا رشتہ ہے، مولانا عبید اللہ کوٹی ندوی کا عہد طفولیت اور تعلیم کا اہم دور بھوپال میں گزرا، انہوں نے اپنے مادرِ علمی دارالعلوم تاج المساجد میں تدریس کی خدمات بھی انجام دیں۔ دوسرے مولانا عُمیر الصدیق ندوی ہیں، موصوف کی تعلیم بھی ندوہ سے پہلے دارالعلوم بھوپال میں ہوئی، اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ دارالمصنفین اور بھوپال کے رشتہ کی ایک کڑی دارالعلوم تاج المساجد بھی ہے، جس کے بانی و امیر مولانا محمد عمران خاں ندوی ۴۰ سال دارالمصنفین کے رکن رہ کر اُس کی ترقی و بہبود میں سرگرم رہے۔ دوسری جانب دارالمصنفین کے تین ناظم مولانا شاہ معین الدین ندوی، سید صباح الدین عبد الرحمن اور مولانا ضیاء الدین اصلاحی اور ایک مہتمم مولانا مسعود علی ندوی دارالعلوم کی مجلس شوریٰ کے رکن بنائے گئے، ’معارف‘ کے موجودہ ایڈیٹر مولانا عمیر الصدیق ندوی بھی مجلسِ شوریٰ میں شامل ہیں۔

(ماخذ از کلیم صفات اصلاحی ’دارالمصنفین کے سوسال‘)

    دارالمصنفین اور بھوپال کے تعلق سے شخصیات اور جہات کے یہی پہلو ہیں، جن سے اندازہ ہوتا ہے کہ اعظم گڑھ اور لکھنؤ کے بعد اور حیدرآباد سے پہلے بھوپال ہی وہ شہر ہے جس نے علامہ شبلی اور اُن کی مہتم بالشان یادگار دارالمصنفین کے قیام و استحکام میں ناقابلِ فراموش کردار ادا کیا ہے اور آج اِس رشتہ کو سوسال مکمل ہورہے ہیں۔

(یو این این)


www.arifaziz.com
E-mail:arifazizbpl@rediffmail.com
Mob.09425673760


*******************************

 

Comments


Login

You are Visitor Number : 1316