donateplease
newsletter
newsletter
rishta online logo
rosemine
Bazme Adab
Google   Site  
Bookmark and Share 
mazameen
Share on Facebook
 
Literary Articles -->> Adbi Gosha
 
Share to Aalmi Urdu Ghar
Author : Arif Aziz, Bhopal
Title :
   Urdu Me Bachchon Ke Rasayel, Azadi Se Qabal Aur Baad


 اردو میں بچوں کے رسائل، آزادی سے قبل اور بعد


عارف عزیز

(بھوپال)


  کہتے ہیں کہ بچوں کا ادب لکھنا کھیل نہیں، اِس کے لیے غیرمعمولی صلاحیت درکار ہوتی ہے، اِسی طرح بچوں کے رسائل مرتب کرنا بھی آسان کام نہیں، پھر بھی اردو زبان وادب کی تاریخ پر نظر ڈالیں تو معلوم ہوگا کہ ۱۸۵۷ء کی جنگ آزادی کے بعد بچوں کے ادب پر توجہ دی گئی، مرزا غالبؔ، مولانا محمد حسین آزاد اور ڈپٹی نذیر احمد نے بچوں اور نوجوانوں کے لیے قلم اُٹھایا، میر تقی میرؔ، مولانا الطاف حسین حالیؔ، نظیراکبرآبادی نے بچوں کے لیے نظمیں لکھیں، جن میں بہادری، بلندکرداری اور اتحاد واتفاق کا سبق دیا گیا ، بچوں کے لئے مستقل لکھنے والوں میں مولوی اسماعیل میرٹھی کا پہلا نام ہے، جنھوں نے نونہالوں کے لیے لکھنا اپنا مشن بنایا، یہ اِس لیے ممکن ہوا کہ اودھ اور بہار کے اسکولوں کے لیے اُنہیں نصاب مرتب کرنے کی ذمہ داری سونپی گئی تھی، کرنل ہالرائڈ نے صوبۂ پنجاب کے لیے یہ کام مولانا محمد حسین آزاد کے سپرد کیا تھا، مولوی ذکاء اللہ نے بھی زبان وادب کی خدمت کے ساتھ طلباء کی درسی کتب مرتب کرنے کے لیے خود کو وقف کررکھا تھا، مولانا حالیؔ، علامہ شبلی نعمانی اور ڈاکٹر اقبال کا شمار قوم کے مصلحوں میں ہوتا ہے، اُنھوں نے اپنی قلمی کاوش سے انسانیت کی فلاح وبہبود کا اہم کام انجام دیا لہٰذا فطری طور پر اُن کی توجہ کارآمد پندونصائح پر مشتمل ادبِ اطفال کی تخلیق پر مبذول ہوئی، پروفیسر احتشام حسین اردو میں بچوں کے ابتدائی ادب پر روشنی ڈالتے ہوئے لکھتے ہیں:

’’جہاں تک بچوں کے ادب کی ابتداء کا تعلق ہے تو ’خالق باری ‘اور اُس سے ملتی جلتی کتابوں کے علاوہ مرزا غالبؔ کے ’قادرنامہ‘ کا ذکر کیا جاسکتا ہے لیکن واقعتاً سب سے پہلے محمد حسین آزاد اور ڈپٹی نذیر احمد کے نام ذہن میں آتے ہیں، گو اُنھوں نے چھوٹے بچوں کے لیے کسی مخصوص اصول کے تحت کتابیں نہیں لکھیں لیکن آزاد کی ریڈرس میں ’قصصِ ہند‘ اور ’نصیحت کا کرن پھول‘ اپنے دلکش زور بیان کے لحاظ سے بڑی اہمیت رکھتی ہیں، بچوں کے ادب کے ذیل میں اور بھی نام آتے ہیں، جن میں غلام احمد فروغی کا ’قادر نامہ فروغی‘ ، عباس رفعت بھوپالی کا ’عباس نامہ‘، عبدالصمد بیدل کا ’حمدِ باری‘ ، محمد صابر کا ’چراغِ فوائد‘، میر تقی میرؔ کی ’موہنی بلی‘ اور علامہ راشدالخیری کی قلمی دل گدازی آج بھی ضرب المثل کی طرح مشہور اور چھوٹے بڑے دونوں کے لیے سبق آموز ہیں‘‘۔

۲۱ویں صدی کی دوسری دہائی میں بچوں کا ادب تین صدیوں پر محیط ہوگیا ہے، کیونکہ ۱۹ویں صدی کے آخر میں اِس کی ابتداء ہوئی، ۲۰ویں صدی میں اِس کو فروغ ہوا اور ۲۱ویں صدی میں اِس کا تسلسل جاری ہے، تاہم یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ مغرب کے معیار پر بچوں کا ادب ہمارے یہاں تخلیق نہیں ہوسکا، یہ ضرور ہوا کہ ۲۰ویں صدی میں تعلیم کا دائرہ وسیع ہونے پر تعلیم گھروں اور مدرسوں کے بجائے سرکاری اسکولوں میں دی جانے لگی، اخبار ورسائل کے مطالعہ کی طرف عوام کے ساتھ نئی نسل کا رجحان بڑھا تو بچوں کے لئے بڑے ادیبوں نے بھی لکھنا شروع کیا، امتیاز علی تاجؔ کے چچا چھکن کے کردار، ڈرامے اور انشایئے، حفیظ جالندھری کی ’عمر و عیار‘ ، خواجہ حسن نظامی کے انشایئے اِس سلسلے کی کڑیاں ہیں۔

۲۰ویں صدی میں جن اہلِ قلم نے بچوں کے رسائل کے لیے تحریر کیا، اُن کی فہرست طویل ہے۔ ڈاکٹر ذاکر حسین، علامہ محوی صدیقی، حامداللہ افسر، کرشن چندر، صالحہ عابدحسین، احمد ندیم قاسمی، سراج انور، یوسف انصاری، امین حزیں، فراغ روہلوی، ابن صفی تو چند نام ہیں، جنھوں نے بچوں کے لیے نثر کی محفل آراستہ کی، جن شعراء نے بچوں کے رسائل کے لیے قلم اُٹھایا اُن میں حفیظ جالندھری، تلوک چند محروم، راجہ مہدی علی خاں، شفیع الدین نیر، مظفرحنفی، محبوب راہی، حافظ شکارپوری ، متین نیاز، نعیم کوثر، احد پرکاش، ناوک حمزہ پوری وغیرہ شامل ہیں۔ خواتین قلم کاروں میں لیلہ خواجہ بانو، حجاب امتیاز علی، صالحہ عابد حسین، قرۃ العین حیدر، عصمت چغتائی، اے آر خاتون، عفت موہانی، رضیہ سجاد ظہیر، مسعودہ حیات، رفیعہ منظورالامین، جیلانی بانو، شفیقہ فرحت اور خالدہ بلگرامی کے نام قابل ذکر ہیں۔

جہاں تک بچوں کے رسائل کا تعلق ہے تو اُن کا مقصد ادب کے فروغ کے ساتھ ساتھ ذہن سازی بھی ہوتا ہے تاکہ کمسن قاری حالات وکوائف سے واقف اور سماج میں رونما ہونے والی تبدیلیوں سے آگاہ ہوسکیں، اِسی لیے اخبارورسائل کو ایک طرح کا سماجی ادارہ قرار دیا گیا ہے، جو معاشرہ کو آئینہ دکھانے کے ساتھ سماج کی تعمیر وتشکیل میں مددگار بنتے ہیں بالخصوص بچوں کے اخبارات ورسائل صرف مضامین، کہانیوں اور نظموں کا مجموعہ نہیں، اِن کے اوراق پر بچوں کے مشاغل کے تعلق سے مفید مواد فراہم کیا جاتا ہے، قلمی دوستی، پسندیدہ اشعار، لطائف، اقوال زرّیں، پندونصائح اور بچوں کے مستقل کالم دیئے جاتے ہیں، مصوری، فوٹوگرافی، سلائی، کڑھائی پر مضامین کے علاوہ دینی معلومات، ایجادات، سائنس کی پیش رفت، کہانی، ڈرامے، کارٹون ایسے سجادیئے جاتے ہیں کہ نونہال اُن میں کھو جاتے ہیں، سب سے بڑھ کر یہ کہ رسائل کے صفحات پر لکھنے کا اُن میں شوق پیدا ہوتا ہے اور کئی اِن رسائل کو پڑھ کر اچھے قلمکار بن جاتے ہیں۔


جہاں تک بچوں کے لیے اردو کے رسائل کے آغاز کا تعلق ہے تو آزادی سے قبل بچوں کے لیے معدود چند رسائل ہی شائع ہوئے، جن میں حیدرآباد سے ۱۹۰۸ء میں منظرِ عام پر آنے والے ’اتالیق‘ میں سب سے پہلے مولوی عبدالرب کوکب نے بچوں کی کہکشاں سجائی، لہٰذا کوکب کو حیدرآباد میں بچوں کے رسائل کا باوا آدم کہا جاتا ہے، اِس کے بعد ’ادیب الاطفال‘ ۱۹۱۱ء میں، ’المعلم‘۱۹۱۶ء میں اور ’’نونہال‘، ۱۹۲۱ء میں شائع ہوئے، روزنامہ ’میزان‘ حیدرآباد، اِس لحاظ سے قابلِ ذکر اخبار ہے کہ اُس نے ۱۹۴۰ء کی دہائی میں ’بچوں کی لیگ‘ قائم کرنے میں سبقت حاصل کی، اِس لیگ کی شاخیں شہر حیدرآباد سے ریاست کے اضلاع تک پھیل گئیں، لیگ کے زیرِاہتمام ماہنامہ ادبی جلسے ہوتے تو اُن کی رپورٹیں ’میزان‘ کی زینت بنتیں، بچے اور بوڑھے اُنہیں پڑھتے،ا ِس کے ترتیب کار اظہر افسر تھے، جو بھائی جان کے نام سے مشہور ہوئے۔

’میزان‘ کے مثل روزنامہ ’رہبرِ دکن‘ میں جو بعد میں ’رہنمائے دکن‘ ہوگیا، ہردوشنبہ کو بچوں کا صفحہ ترتیب دیا جانے لگا، ’میزان‘ کی بھی ’ہماری لیگ‘ کے نام سے انجمن تھی، جس میں بچوں کے مکتوب شائع ہوئے، اُن کی تحریروں پر رائے اور لکھنے پڑھنے کے بارے میں مشورے دیئے جاتے، یہ صفحہ اِتنا مقبول ہوا کہ بچے ہفتہ بھر بے چینی کے ساتھ اِس کا انتظار کرتے تھے، اُسی زمانے میں محمود انصاری نے ’گلشن‘ جاری کیا، جس میں کہانیوں اور نظموں کے ساتھ ڈرامے بھی شامل ہوتے، یہ کتابی سائز میں رنگین سرورق کے ساتھ نکلتا تھا، حیدرآباد میں یہ بچوں کی صحافت کے عروج کا دور تھا، آزادی کے بعد یہ صورتِ حال قائم نہیں رہ سکی۔تاہم ’اتالیق‘ کے بعد جس رسالہ کو مقبولیت حاصل ہوئی وہ ’نونہال‘ تھا۔


سابق ریاست میسور موجودہ کرناٹک بچوں کے رسائل کے لحاظ سے ایک سنگلاخ ریاست اِس لئے شمار ہوتی ہے کہ آزادی کے ساٹھ سال بعد ۲۰۰۷ء میں یہاں سے پہلا دوماہی رسالہ ’غبارہ‘ ڈاکٹر فوزیہ چودھری نے نکالا، جو پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا پر دستیاب ہے اور نقش اوّل ہوتے ہوئے بھی نقشِ ثانی کی مثال پیش کررہا ہے، دوسرا رسالہ ’صدائے اطفال‘ کرناٹک اردو اکادمی کا ترجمان ہے، اپنی عمر کے چار سال مکمل کرچکا ہے اور ریاست میں اردو میڈیم کے طلباء میں مادری زبان کا ذوق پروان چڑھانے میں مددگار ہے، اِسے ادبِ اطفال تحریک کے پیش رو حافظ کرناٹکی اور مرزا عظمت اللہ نکال رہے ہیں۔

ریاست مہاراشٹر میں بھی بچوں کے ادب پر آزادی کے بعد توجہ دی گئی، یہاں سے ۱۹۶۵ء کے بعد ہفت روزہ، پندرہ روزہ، ماہنامے اور سہ ماہی رسائل شائع ہوئے، جن میں ’سب رس‘، ’نوخیز‘، ’ننھا‘، ’بچوں کا ساتھی‘، ’ہیرا‘، ’بچوں کا نونہال‘، ’بچوں کا باغ‘، ’گلاب کی مہک‘ وغیرہ قابل ذکر ہیں، مالیگاؤں سے ’دوست‘، ’اردو کامکس‘ ، ’جل پری‘ اور ناگپور سے ’چاند‘ ، ’کرنیں‘ وقتی طور پر روشنی بکھیرکر معدوم ہوگئے، بچوں کا واحد ہفت روزہ ’خیراندیش‘ ، ماہنامہ ’’گلشن اطفال‘‘ دونوں مالیگاؤں سے اور ماہنامہ ’گل بوٹے‘ ممبئی، بائیس سال سے پابندی کے ساتھ نکل رہے ہیں اور بچوں کی ذہنی و اخلاقی نشوونما کے نقیب ہیں۔ اس کے ایڈیٹر فاروق سید کی کوشش سے رسالہ کی تعداد اشاعت، ۲۵ہزار ہوگئی ہے۔

حیدرآباد اور مہاراشٹر سے نسبتاً کم بچوں کے رسائل بھوپال سے شائع ہوئے، آزادی سے قبل منظرعام پر آنے والا سلیمان آرزو کا ماہنامہ ’معصوم‘ پہلا رسالہ ہے جو ۱۹۴۶ء میں نکلا، بعد میں ’طفلستان‘ عباس انصاری نے اور ’بچوں کا پاکستان‘ گوہر جلالی و سلمان الارشد نے نکالے، لیکن چیف کمشنری راج نے نام پر اعتراض کرکے ’بچوں کا پاکستان‘ بند کردیا تو گوہرجلالی نے ہی ’معصوم‘ کا اجرأ کیا اور یہ تینوں رسالے ۱۹۴۷ء میں نکل کر بند ہوگئے، جاوید محمود نے ’بچوں کی دنیا‘ ۱۹۵۶ء میں اور نعیم کوثر نے ’جگنو‘ ۱۹۶۱ء میں شروع کئے لیکن یہ بھی جاری نہیں رہ سکے۔

ریاست کشمیر کے معروف اشاعتی ادارے ’رنبیر‘ نے دسمبر ۱۹۳۴ء میں ریاست کا اوّلین بچوںکا پرچہ ماہنامہ ’رتن‘ جاری کیا، جو طلباء کے لئے وقف اور ملک گیر سرکولیشن کا حامل تھا، بزرگ صحافی گربچن چندن کی تحقیق کے مطابق ۱۹۴۵ء میں اِس کی تعداد اشاعت ۲۵ ہزار تھی ۔ اِس کے بعد ۱۹۴۷ء میں جموں سے منظرعام پر آنے والا ریاست کا دوسرا بچوں کا رسالہ اوم صراف اور کندن لال کا ماہنامہ ’کندن‘ بھی پورے ملک میں پڑھا جاتا تھا ۔

جس طرح جنوبی ہند میں مسلم ضیائی کا ’تارے‘ اور بچیوں کا رسالہ ’آپا‘ سے لکھنے والوں اور پڑھنے والوں کا ایک حلقہ تیار ہوا، اُسی طرح شمالی ہند کے رسالے ’پھول‘ اور اُس سے قبل ’پیسہ‘ سے ادبی ماحول کی استواری میں مدد ملی لیکن اِس رجحان کو ایک سمت دینے میں ’پیامِ تعلیم‘ نے اہم کردار ادا کیا، جو ۱۹۲۶ء میں ڈاکٹر ذاکر حسین کی تحریک پر مکتبہ جامعہ نئی دہلی سے جاری ہوا تھا، اُس وقت بچوں کی نظمیں تو لکھی جارہی تھیں، نثر پر توجہ نہیں تھی۔  ’پیامِ تعلیم‘ کے اجرأ سے بچوں کے لیے نثری تخلیقات لکھی گئیں اور بچوں کی ذہن سازی کے ساتھ ساتھ بطورِ حوصلہ افزائی اُن کی تحریروں کی اشاعت بھی ہوئی۔ ’پیامِ تعلیم‘ کے ایڈیٹروں میں ڈاکٹر عابد حسین خاں، غلام ربانی تاباں، شاہد علی خاں اور لکھنے والوں میں ڈاکٹر ذاکر حسین، شفیع الدین نیر، ڈاکٹر مشیرالحق، خلیق انجم، رشید حسن خاں کے نام شامل ہیں۔ لیکن بچوں کے جس رسالہ نے پوری اردو دنیا میں دھوم مچادی، وہ ۱۹۴۰ء کی دہائی میں شائع ہونے والا ماہنامہ ’کھلونا‘ نئی دہلی ہے، جسے کئی حیثیتوں سے تاریخ ساز اور مقبول عام رسالہ قرار دیا جاسکتا ہے کیونکہ اِس نے اردو میں بچوں کے ادب کو فروغ دینے میں تاریخ ساز کردار ادا کیا ہے، شمع اشاعتی ادارے کے مالک یوسف دہلوی نے اِسے جاری کیا اور اُن کے چھوٹے بیٹے الیاس دہلوی ایڈیٹر تھے، جن کی تگ ودو سے اُس عہد کے بیشتر بڑے ادیبوں اور شاعروں نے بچوں کی دلچسپی کے موضوعات پر’کھلونا‘ کے لئے قلم اُٹھایا، اِس کے سالنامے بھی بڑے طمطراق سے شائع ہوتے اور اُن میں مشہور اہلِ قلم کی بھرپور نمائندگی ہوتی تھی، ۱۹۶۳ء میں شائع ’کھلونا‘ کے ’قہقہہ نمبر‘ میں عصمت چغتائی، کنہیا لال کپور، قتیل شفائی، عادل رشید، حسرت جے پوری، واجدہ تبسم، جیلانی بانو، نریش کمار شاد، سلام مچھلی شہری، نیاز حیدر، کوثر چاندپوری، فرقت کاکوروی جیسے معروف قلمکاروں کی تخلیقات شامل تھیں۔ ’کھلونا‘ کہنے کو بچوں کا رسالہ تھا لیکن اِس میں ایک سطر نمایاں طور پر شائع ہوتی تھی کہ ’آٹھ سے اسّی سال کے بچوں کا رسالہ‘، یہ تحریر اِس لئے حسب حال تھی کہ ’کھلونا‘ کے دیوانوں میں بچے ، بوڑھے دونوں شامل تھے، اِس رسالہ کو پڑھ کر بے شمار نوجوانوں میں لکھنے کا شوق پروان چڑھا، چالیس سال بعد ۱۹۹۰ء میں اِس کی اشاعت مسدود ہوئی تو بچوں اور بڑوں کو بیک وقت اپنی قیمتی کسی شئے سے محروم ہونے کا احساس ہوا تھا۔

’کھلونا‘ بند ہونے کے بعد اُس کی شاندار روایت کو جاری رکھنے کا کام کسی حد تک ’پیامِ تعلیم‘ اور دہلی اردو اکادمی کے ترجمان ’اُمنگ‘ نے انجام دیا، جو ۱۹۸۷ء سے شائع ہورہا ہے اور بچوں کا معیاری رسالہ ہے، اِس میں بچوں کی دلچسپی کے متعدد کالم جیسے آپ نے لکھا، دنیا رنگ برنگی، میرا پسندیدہ شعر، اب ہنسنے کی باری ہے وغیرہ شائع ہوتے ہیں۔ مکتبہ الحسنات کے ماہنامے ’نور‘ اور ماہنامہ ’ہلال‘ کا پرانا معیار اور انداز آج بھی برقرار ہے، ’نور‘ کے خصوصی شمارے بھی اہتمام سے شائع ہوتے ہیں،مکتبہ ’الحسنات‘ کے مذکورہ رسالوں کا امتیازی پہلو یہ ہے کہ ان میں بچوں کی ذہنی سطح کو ملحوظ رکھ کر (ہلال) کمسن بچوں اور ’نور‘ بڑے بچوں کے لئے مرتب ہوتے ہیں۔ بجنور سے کبھی بچوں کا محبوب رسالہ ’غنچہ‘ نکلتا تھا، اب چوبیس برس سے سراج الدین ندوی اپنے دم پر ماہنامہ ’اچھا ساتھی‘ شائع کررہے ہیں، اترپردیش وہی ریاست ہے جہاں سے نسیم انہونوی کا ماہنامہ ’کلیاں‘ ، معظم جعفری کا ماہنامہ ’ٹافی‘ نکلے، اِن میں سے کئی تو وقتی چمک دمک دکھاکر جلد بند ہوگئے لیکن ’کلیاں‘ ، ’نور‘اور’ہلال‘ وہ رسائل ہیں جنہیں پڑھ کر کئی نسلیں جوان ہوئیں، یہ رسالے زائد از چالیس سال بچوں کے لئے تفریح کا سامان مہیا کرنے کے ساتھ ملک گیر سطح پر اُن کی ذہنی تربیت کا کام بھی انجام دیتے رہے ہیں ۔ ماہنامہ ’چندانگری‘ کو پیتل کی نگری مرادآباد سے شکیل انور نے شروع کیا تھا، جو خود بھی آرٹسٹ تھے، اِس کے علاوہ ’نرالی دنیا‘، ’پھلواری‘، ’ہونہار‘ بھی بند ہوگئے ہیں، ’سائنس کی دنیا‘ ضرور سرکار کی سرپرستی میں دہلی سے شائع ہورہا ہے۔ ایک اور رسالہ ’سائنس‘ بھی نئی دہلی سے نکل رہا ہے۔


مغربی بنگال اردو صحافت کے قومی منظرنامے میں ایک اہم ریاست شمار ہوتی ہے لیکن یہاں سے بچوں کا کوئی قابل ذکر رسالہ شائع نہیں ہوا، شانتی رنجن بھٹاچاریہ کی تحقیق کے مطابق دو ماہی ’ساتھی‘ کلکتہ ، بچوں کا پہلا رسالہ ہے جو آزادی سے قبل نکلا اور چار پانچ شمارے شائع ہوئے، دوسرا رسالہ ماہنامہ ’غنچہ‘ کلکتہ ۱۹۶۸ء سے ۱۹۷۵ء تک خورشید رشید شیدائی کی ادارت میں منظرعام پر آیا ، اِسی طرح ۱۹۷۰ء میں پہلے ماہنامہ بعد میں دوماہی ’گلدستہ‘ کلکتہ سے خضردانش شمسی نے نکالا لیکن اِسے بھی استحکام نہیں ملا، ۱۹۶۸ء میں ایک اور رسالے ماہنامہ ’طالب علم‘ ہوڑہ ایڈیٹر عنبر شمیم کا سراغ ملتا ہے جس کے صرف دو شمارے منظرعام پر آئے ۔
ریاست بہار اردو صحافت کا اہم مرکز رہی ہے، لیکن ملک کی آزادی تک یہاں سے بچوں کے کسی باضابطہ رسالہ کی نشاندہی نہیں ہوتی، صحافی ضیاء الدین غوثی کا دعویٰ ہے کہ اُنھوں نے حاجی پور ویشالی سے ۵۰۔۱۹۴۹ء میں بچوں کا ایک قلمی رسالہ ’کہکشاں‘ نکالا تھا، مدرسہ احمدیہ سلفیہ دربھنگہ کے طلباء نے بھی مدرسہ کا رسالہ سہ ماہی ’شگوفہ‘ جاری کیا تھا، جس کی تجدید ۵۹۔۱۹۵۸ء میں پٹنہ سے اعجاز علی ارشد اور ناصرزندی نے کی، اِس کے نو شمارے شائع ہوئے لیکن رجسٹرار آف نیوز پیپرس آف انڈیا میں اِس کا ریکارڈ نہیں ملتا ، لہٰذا بہار سے بچوں کا پہلا باضابطہ رسالہ ۱۹۶۶ء میں ضیاء الدین غوثی کا ’مسرت‘ پٹنہ ہی شمار ہوتا ہے، یہ اِس لئے بھی اہم ہے کہ بہار کے معروف ادیبوں اور شاعروں کے ساتھ ڈاکٹر ذاکر حسین اور اندرا گاندھی جیسی بڑی شخصیات کی اِسے سرپرستی حاصل ہوئی، لیکن غوثی صاحب نے سرکاری ملازمت میں قدم رکھنے کے بعد ’مسرت‘ کو ساڑھے تین سال نکال کراچانک بند کردیا بعد ازاں سید فصیح الدین کی ادارت میں ’قہقہہ‘ اور رضوان رضوی کی ادارت میں ’بچوں کا ڈائجسٹ‘ ۱۹۶۸ء میں پٹنہ سے نکلے لیکن جاری نہیں رہ سکے۔

بچوں کے اردو رسائل کے اِس تذکرہ کے بعد اردو روزناموں میں شائع ادبِ اطفال کے گوشوں پر نظر ڈال لینا ضروری ہے۔ جس سے واضح ہوتا ہے کہ ۲۰ویں صدی کے آغاز سے آج ۲۱ویں صدی کی دوسری دہائی تک جنوبی و شمالی ہند کی مختلف ریاستوں سے شائع ہونے والے روزناموں نے بچوں کو کبھی فراموش نہیں کیا، اُن کے اوراق پر نونہالوں کے لئے نعت، دعا، مذہبی و اصلاحی نظمیں اور اخلاقی ومعلوماتی مضامین آج بھی شائع ہورہے ہیں، حیدرآباد کے ’میزان‘ اور ’رہنمائے دکن‘ کا ذکر گزرچکا ہے، انھوں نے بچوں کی لیگ قائم کی، روزنامہ ’سیاست‘ حیدرآباد، اِس حیثیت سے نمایاں ہے کہ اُس میں بچوں کے لئے ہفتہ میں ایک سے زیادہ بار مواد شائع ہوتا ہے، جب کہ روزنامہ ’منصف‘ میں بچوں کے لئے چار صفحات کا ضمیمہ پیر کو ’گلدستہ‘ کے عنوان سے پیش ہوتا ہے، روزنامہ ’ملاپ‘ حیدرآباد کی ’بال کتھا‘ کا ایک زمانے میں بڑا شہرہ تھا، ۱۹ویں صدی کے اہم روزنامے ’قومی آواز‘ لکھنؤ اور دہلی کا سنڈے ایڈیشن بہت مقبول ہوا، اُس میں ادب، فلم اور کھیل کے ساتھ بچوں کا گوشہ اِسی عنوان سے ۶۴سال تک شائع ہوتا رہا۔ بھوپال سے بھاسکر گروپ کا اردو روزنامہ ’آفتابِ جدید‘ طلوع ہوا تو اُس میں بھی دس برس تک اور قدیم روزنامہ ’ندیم‘ بھوپال میں گذشتہ تیس برس سے بچوں کا صفحہ شائع ہورہاہے۔ دونوں اخباروں میں خالدہ بلگرامی اِسے مرتب کرتی تھیں، روزنامہ ’انقلاب‘ کے جملہ ایڈیشنوں میں ’نئے ستارے‘ اور اردو ٹائمز میں ’گلدستہ‘ کے زیرعنوان بچوں کے گوشے کافی مقبول ہیں، روزنامہ ’راشٹریہ سہارا‘ کے ضمیمہ ’اُمنگ‘ میں بھی بچوں کے لئے ایک گوشہ مخصوص ہے، اِسی طرح کلکتہ، دہلی اور رانچی سے بیک وقت شائع ہونے والے ’اخبارِ مشرق‘ اور کلکتہ کے قدیم اخبار ’آبشار‘ اور پٹنہ ورانچی سے نکلنے والے ’قومی تنظیم‘ میں بچوں کے لئے ہرہفتے مضامین اور شعری تخلیقات پیش کی جاتی ہیں، ’اورنگ آباد ٹائمز‘میں بچوں کے اِس صفحہ کا نام ’’تتلیاں‘‘ ہے ، جب کہ لکھنؤ کے روزنامہ ’آگ‘ ، جالندھر کے ’ہند سماچار‘ ، نئی دہلی کے ’پرتاپ‘ اور بنگلور کے ’سالار‘ اور ’پاسباں‘ میں بھی بچوں کے گوشے شائع ہورہے ہیں، بہار اردو اکادمی کے ترجمان ماہنامہ ’زبان وادب‘ ، پٹنہ میں ’بچوں کا زبان وادب ‘کے زیرعنوان چار اوراق پر معیاری گوشہ طویل عرصہ سے مرتب ہورہا ہے۔


عالمی ادارہ یونیسیف نے ۱۹۷۹ء میں بچوں کا سال منایا تھا، اِس موقع پر ماہنامہ ’آج کل‘ نئی دہلی نے ادبِ اطفال پر دو شمارے جنوری ۱۹۷۹ء اور اگست ۱۹۸۰ء میں شائع کئے ۔ سرکاری ترجمان ماہنامہ ’نیادور‘ لکھنؤ اور آل انڈیا ریڈیو کا آرگن پندرہ روزہ ’آواز‘ نئی دہلی کے بھی بچوں کے ادب پر خصوصی شمارے شائع ہوئے ہیں، روزنامہ ’ندیم‘ بھوپال نے بچوں کے ادب پر دو شمارے ۲۶؍ نومبر اور ۳؍دسمبر ۱۹۸۹ء میں شائع کئے، انہیں حبیب احمد نے مرتب کیا تھا۔  ہندوستان میں بچوں کے اردو رسائل کا ایک خوش آئند پہلو یہ ہے کہ آزادی کے بعد سے آج تک ترسٹھ رسالے منظر عام پر آچکے ہیں، لیکن تاریک پہلو یہ ہے کہ ان میں سے بیشتر نکل کر بند ہوچکے ہیں۔
فی الحال ملک میں بچوں کے  پندرہ رسالے ماہنامہ ’پیام تعلیم‘ نئی دہلی، ماہنامہ ’نور‘ رام پور، ماہنامہ ’ہلال‘ رامپور، سہ ماہی ’سائنس کی دنیا‘ نئی دہلی، ماہنامہ ’امنگ‘ نئی دہلی، ہفت روزہ ’خیراندیش‘ مالیگائوں، ماہنامہ ’اچھا ساتھی‘ بجنور، ماہنامہ ’سائنس‘ نئی دہلی، ماہنامہ ’گل بوٹے‘ ممبئی، ماہنامہ ’گلشن اطفال‘ مالیگائوں، ماہنامہ’ گلدستہ تعلیم ‘  نئی دہلی، ماہنامہ ’فنکار‘ حیدرآباد، دو ماہی ’غبارہ‘ بنگلور، ماہنامہ ’صدائے اطفال‘ بنگلور، ماہنامہ ’بچوں کی دنیا‘ نئی دہلی شائع  ہورہے ہیں جو ملک کی وسعت وہمہ گیری اور اُردوداں آبادی کے لحاظ سے نہایت  محدود تعداد ہے، اِن رسائل میں بچوں کی فکرونفسیات کو مدنظر رکھ کر ایسی کہانیاں، مضامین، نظمیں اور گیتوں کی شمولیت ہونا چاہئے جو بچوں کی معلومات میں اضافہ اور اُن میں تخلیقی و اختراعی صلاحیتوں کے فروغ کا باعث بنیں، بچوں کے رسائل صرف مضامین، کہانیوں اور نظموں کا مجموعہ نہ ہوں، اُن میں بچوں کے فرصت کے اوقات کے مشاغل بھی شامل کئے جائیں تبھی بچوں کی شخصیات کو نکھارنے اور صلاحیتوں کو اُبھارنے میں یہ مددگار ثابت ہوں گے۔


ماخذ:

(۱)  مضمون ’اردو میں بچوں کا ادب‘ از پروفیسر احتشام حسین۔ روزنامہ ’آبشار‘ کلکتہ ۷؍ مارچ ۲۰۰۴ء

(۲)  مضمون ’جموں وکشمیر میں اردو صحافت ‘ از گربچن چندن‘ سہ ماہی ’فکروتحقیق‘ نئی دہلی۔اکتوبر، نومبر، دسمبر ۲۰۰۰ء

(۳)  کتاب ’بنگال میں اردو صحافت کی تاریخ از شانتی رنجن بھٹاچاریہ۔ مغربی بنگال اردو اکادمی، کلکتہ

(۴)  کتاب ’بہار میں بچوں کا ادب‘ از ضیاء الدین غوثی۔ ۲۰۰۵ء

 

******************************************

 

 

Comments


Login

You are Visitor Number : 1871