donateplease
newsletter
newsletter
rishta online logo
rosemine
Bazme Adab
Google   Site  
Bookmark and Share 
mazameen
Share on Facebook
 
Literary Articles -->> Adbi Gosha
 
Share to Aalmi Urdu Ghar
Author : Balraj Bakhshi
Title :
   Vaidic Adab Aur Urdu Aik Tahqiqi Challeng

 بلراج بخشی
 
۱۳ /۳ عیدگاہ روڈ، آدرش نگر،  اُدہم پور ۱-۱۸۲۱۰ (جموں و کشمیر)موبائیل:     09419339303
email : balrajbakshi1@gmail.com
 
’ویدک ادب اور اُردو ‘ ایک تحقیقی چیلینج
 
روئے زمین پر پہلی معلومہ کتاب اور شعری کاوش  رِگ ویدہے۔ ویدک دور کا آریائی معاشرہ کسی دوسری دنیا کے تصور سے فکرمندتو نہیں تھا جہاں اس کے اعمال کا محاسبہ کیا جائے گالیکن وہ ان غیر مرئی فطری قوتوں سے ضرور خایٔف تھاجن سے اس کا روز مرہ کا واسطہ تھا۔ جبکہ دروِڑوں کی تہذیب میں ایک متانت ، سنجیِدگی ، ٹھہراؤ اور  بلیغ النظری تھی وہیں آریائی مزاج میں بے چینی ، سرکشی ، جذباتیت اور تحرک کے عنصرات نمایاں تھے۔ موکشہ ، مُکتی اور نجات ان کا مسئلہ نہیں تھا۔ وہ خالص ارضی سطح پر جی رہے تھے۔ ان کی پرارتھنائیںپر جوش اور باحوصلہ تھیں جو  ان کے آوارہ خرام ماضی کے مصایٔب و آلام اور بقا کے لیے مسلسل کدوکاوش کے خوف سے مُنتِج تھیں۔ اسی لیے کہا جا سکتا ہے کہ ویدوں کی شعری کایٔنات زیادہ وسیع نہیں تھی اور مادی وسایٔل کا حصول ہی اس کا محور تھا۔ زمین ، بارش ، اچھی فصل ، صحتمند مویشی ، تنومند بیٹے ، دشمن پر فتح ، طویل عمر ، خوشحالی اور اخذِ لذت اُن کی اولین ترجیحات تھیِں۔ زراعت سے منسلک سرگرمیاں اور جان و مال کا تحفظ ہی حاوی جذبہ تھا۔ چنانچہ :
 
ع ہم جِئیں سو برس
سو برس تک اضافہ کریں گیان میں
سو برس تک طاقتور اور ثابت قدم رہیں
سو برس تک ہوتے رہیں لُطف اندوز
 
میرے بیٹے ہوں 
دُشمن کو تباہ کرنے والے
وہ جوان اور خوبصورت ہوں
اور ہم ان کے ساتھ 
حاصل کریں دشمن پر فتح
 
اے میرے معبود !
آپ طاقتور ہو ، مجھے طاقتور بناؤ
آپ زرخیزِ کامِل ہو ، مجھے بھی ویسا بناؤ
         (بارش کے دیوتا  پرجنیئہ کے بارے میں)
اُس کوچوان کی طرح
جو چابک سے اپنے گھوڑے کو آگے بڑھائے
وہ بارش کا یہ پیغام لانے والوں کو
سامنے لے آتا ہے
جب  پرجنیئہ بادلوں میں مینہہ بھرتا ہے
تو دُور سے شیر کے دہاڑنے کی آواز آتی ہے
 
ہوا بِگڑ کر چنگھاڑتی ہے، 
بِجلیاں چمکتی ہیں، 
دھرتی سے رویئدگی پھُوٹتی ہے،
آسمان چھلک جاتا ہے
اورسب کو تازہ کھانا مِلتا ہے
جب پرجنیئہ 
دھرتی کو عطا کرتا ہے
بارش کی خیرات
(رِگ وید: اشلوک ۸۳)
تن آسانی کے ذرایٔع کی مسلسل جستجو، سامان تعیش کی دریافت و ایجاد اور لذت کوشی تہذیب انسانی کے ارتقا کے حاوی محرکات رہے ہیں ۔ ویدی دور کے آریہ بھی عصرحاضر کے انسان سے کچھ زیادہ مختلف نہیں تھے۔ مبالغہ آرائی نہ ہو گی اگر کہا جائے کہ ہر دور میں لذت کوشی اور تن آسانی انسانی فطرت کا اہم جُز رہی ہے۔ روئے ارض سے گہری وابستگی کے باعث آریاؤں کے اُس قدیم معاشرے میں عورت کا مرتبہ اہم تھا۔ عورت کی ساحرانہ دلکشی سے متعلق وہ نہ صرف ارضی تصورات رکھتے تھے بلکہ  تخیٔل آفرینی کے بھی حامل تھے۔ چنانچہ بھور کی دیوی اُوشا کے بارے میں وہ اِن خیالات کا اظہار کرتے ہیں : 
ع اُس حسین و جواں عورت کی طرح
جس کی آرایٔش و زیبایٔش
اُسکی ماں نے کی ہو،
ایک ایسی سجی سنوری رقاصہ، 
بھڑکیلے اور شوخ رنگوں میں ملبوس
جیسے ایک بیوی اپنے شوہر کے سامنے
آشکار ہو رہی ہو
اُس عورت کے مانند 
جو دمکتا بدن لے کر پانی سے باہر نِکلے 
اور 
اپنی ساحرانہ خوداعتمادی کے ساتھ
مسکراتی ہُوئی
وہ ہر دیکھنے والے کے سامنے
اپنی چھاتیوں کو عریاں کر دیتی ہے
(رِگ وید۔ اشلوک ۱۹۴)
ظاہر ہے کہ کسی قسم کی نظیر کی عدم موجودگی میں ، زندگی کی لا انتہا خلاؤںمیں غیر معروف پنہائیوں کی تفہیم کی انسانی ذہن کی یہ پہلی سلسلے وار کوشش واضع نہیں تھی اور اس کو شاعری کے عصری توضیح و معیار سے نہیں دیکھا جا سکتا لیکن وثوق سے کہا جا سکتا ہے کہ وید انسانی ذہن کے قدیم اور ارفع ترین خیالات  کے ترجمان ہیں۔ اور اُپنشد تو عالمی فلسفیانہ ادب میں بِلا شبہ لاثانی مرتبے کے حامل ہیں۔ 
 
ایرانیوں سے الگ ہونے سے پہلے مشترکہ طور پر دیوتاؤں کی تعداد ۳۳ ہی تھی:
ـ’’ ۔۔۔او  دیوتاؤ، جو سورگ میں ۱۱ ہو ، خلا میں ۱۱ ہو اور زمین پر بھی ۱۱  ہو،  تم سب ہمارے اس یگیہ (قربانی) پر خوش ہو جاؤ ۔۔۔  ‘‘
(رگ وید  1. 139. 11 )
دراصل آریاؤں کا ایک نام ہِندو ایرانی بھی ہے۔ آریہ اپنی ایک شاخ کو ایران میں چھوڑ آئے تھے۔ ان لوگوں میں بھی آریاؤں کی طرح چار ورنوں کا ذکر ہے۔ اویستا میں اُنہیں یوں بیان کیا گیا ہے :
   vkFkzou    ¼czkge.k½براہمن  ،  {kf=;½ jFkSLrkj  ¼ کھشتریہ  ،  ¼oS"k½ okL=;ks"k ویش  ، اور  ¼'kwnz½ gqrks{k  شوُدر 
 
یہ لوگ بھی ہندوستانی آریاؤں کی طرح فطری مظاہر جیسے کہ اگنی ، سُوریہ ، چندرما ، وایُو ، جل وغیرہ کی پوجا کرتے تھے۔ لیکن وہ یہ بھی مانتے تھے کہ ان سبھی مظاہرِ فطرت  سے پرے کوئی لطیف مگر ناقابلِ بیان ، افضل اورغیر مرئی عنصر ہے جسے وہ  اہُور  (ایشور) کہتے تھے۔ ایرانیوں کا قدیم صحیفہ زیند اویستاکی زبان بھی رِگ وید سے ملتی تھی۔ رِگ وید میں جن اُونچی صفات کو  رِتُو ¼_r½  کہا گیا ہے اُن گُنوں یعنی صفات کے لیے اویستا میں اشا  ¼v'kk½ کا لفظ استعمال کیا گیا ہے، آریہ ان صفات کے حامل آدمی کو ہی رِشی کہتے ہیں اور اسی طرح اویستا میں  میں بھی ان صفات کے حامل آدمی کو  رتو کہا جاتا ہے جو رِشی کے مماثل ہے۔ایرانیوں کے ۳۳ رتو ہیں ۔ لیکن بعد کو مزدک عقیدے کے تحت وہاں مشرکانہ اعتقاد کے خلاف ایک لہرچلی پر ہندوستان کی موسمی رنگارنگی ، فضا بندی اور سہولیات ِزندگی کی فراوانی کے پیشِ منظر میں دیوتاؤں کی تعداد بڑھتے بڑھتے ۳۳ کروڑ تک پہنچ گئی۔ آریہ جنیئو  ¼;Kksiohr½  کرتے تھے اور پارسی کُسٹی ¼dqLVh½ یعنی مقدس ٹوپی اور کُرتا پہننے کی رسم کرتے تھے۔ 
 
اِنہی لوگوں نے ایران میں وہ سامراج قایٔم کیا جو  رومن سامراج کا جواب تھا۔ سکندر نے ۳۳۱ ق م میں ایران پر حملہ کیا تھااور مسلمانوں نے ۵۵۱ ء میں۔ عیش و عِشرت میں ڈوبا ایران دو تین سو برسوں میں مسلمان ہو گیا۔ ۹۳۶ ء میں کچھ بچے کھچے لوگ ہندوستان میں آ گئے اور بمبئی کے شمال میں اُدواد   ¼mnokn½جگہ پر اپنا مندربنایا۔ گُجرات کے راجہ یادو رانا نے انہیں گُجرات میں بسنے کے دعوت دی۔ شیریں اور فرہاد مسلمان نہیں پارسی تھے۔ شیریں ایرانی بادشاہ خسرو پرویز کی بیوی تھی اور فرہاد ایران کا ایک سنگتراش۔ 
 
بات سے بات نکلتی چلی جاتی ہے اور رو میں بہنا ناگزیر ہو جاتا ہے۔ بہر حال ڈاکٹر اجے مالوی نے اپنی تصنیف  ’ویدک ادب اور اُردو ‘ میں بلاواسطہ اختصار کے ساتھ اُردوکے قاری کوویدک ادب سے متعارف کروایا ہے ۔اُنہوں نے بتایا ہے کہ ویدک ادب کے چار حصے ہیں : سنہِتا ، براہمن ، آرنیٔکا اور اُپنشد۔ ڈاکٹر مالوی نے بڑی آسان زبان میں بتایا ہے کہ چار ویدوں کے چار ذیلی وید بھی ہیں : رِگ وید کا آیوروید ، یجروید کا دھنُر وید ، سام وید کا گاندھروَ وید اور اتھروَ  وید کا شِلپ وید یا شِلپ کرم شاستر۔ 
انہوں نے بتایا کہ  رِگ وید کو دو طرح تقسیم کیا جاتا ہے : 
 
۱)   پہلی تقسیم کے مطابق اس میں ۱۰ منڈل ، ۸۵  انوُواک  اور ۲۰۰۸  ورگ ہیں۔ 
ٍٍ ۲)  دوسری تقسیم کے مطابق اس میں ۱۸  اشٹک ،  ۶۴  ادھیائے ،  ۱۰۲۸  سُوکت ہیں۔ 
یجروید رِچاؤں سے بنا ہے۔ اس کی دو سنہِتائیں ہیں :  تیتریۂ  اور واجسنئی جنہیں بالترتیب کرشن سنہِتا ¼d`".k lafgrk½ ا ور شُکل سنہِتا  ¼'kqDy lafgrk½ بھی کہا جاتا ہے ۔ سام وید میں۱۵۴۸ منتر ہیں اور اس کے دو حصے ہیں :  پُورو  ¼iwoZ½  سنہِتا ، جس کے ۶ پرپاٹھک ہیں۔ اس کے چھند کو آرچک اور  سپت بھی کہا جاتا ہے (۲) اُتّر  ¼mRrj½سنہِتا،  جسے اُترارچک  یا  آرنیٔہ گان بھی کہا جاتا ہے۔ 
اسی طرح  اتھروَ  وید کو برہم وید بھی کہتے ہیں اس میں ۲۰  کانڈ ، ۷۳۱  سُوکت ،  ۵۹۷۷ منتر ہیں ۔ 
اردو کے قاری کے لیے ڈاکٹر مالوی کی یہ کوشش اردو ادب میں گرانقدر اضافہ ہے۔ 
 
لکھنے کا فن ۱۸۰۰ ق م  میں شروع ہوا تھا۔  وید جن سنہِتاؤں میں ملتے ہیں انہیں کرشن دوپائین ویاس نے ، جو مہابھارت کے زمانے میں ہوا تھا اور مہابھارت کی جنگ ۱۴۰۰ ق م  میں ہوئی بتائی جاتی ہے اور اس سے ۴۰۰ سال قبل وید تیار کیے جانے لگے تھے۔اس لئے کہا جا سکتا ہے کہ منتر ۲۵۰۰ ق م  میں بننے لگے تھے اور ۱۸۰۰ ق م  کے قریب لکھے جانے لگے۔ پروفیسر میکس مُلر   ( Max Muller  )  کی ویدک منتروں کی توضیحات اور ہڑپہ کی تہذیب کے بارے میں سر جان مارشل کی تشریحات کے مطابق آریہ بدوی قسم کے جنگجو لوگ تھے جو تین ہزار قبل مسیح  شمال مغربی ہندوستان میں تب وارد ہوئے جب سندھ اور ہڑپہ کی تہذیبیں ارتقا پذیر تھیں۔ لیکن جرمن عالموں نے ویدوں کی عمر ۶۵۰۰ سال لگائی ہے۔بہر حال یہ اب بھی بحث طلب مسئلہ ہے۔
 
سرزمین ہندوستان میں آکراور یہاں چار الگ الگ موسموں کی زائیدہ روئیدگی سے فیضیاب ہو کر آریاؤں کا آوارہ خرام معاشرہ جب یہاں مستقلاً استقامت پذیر ہو گیا تو  زندگی اور کایٔنات سے متعلق اپنے ابداعی خیالات کے بارے میں انہوں نے پہلی بار سنجیدگی سے سوچنا شروع کیا۔جیسا کہ پہلے بیان کیا جا چکا ہے کہ دنیا کے سبھی معاشروں کی طرح یہ معاشرہ بھی مظاہر فطرت سے خایٔف تھااور یہی وجہ ہے کہ ویدوں کا ایک بڑا حصہ دیوتاؤں کی شبیہہ میں دکھائی گئی فطری لیکن غیر مرئی قوتوں کی ثنا خوانی میں مختص ہے اور ایک چھوٹے سے حصے میں ذات و کایٔنات کی موشگافیاں کی گئی ہیں۔ لیکن یہ چھوٹا سا حصہ ہر لحظ پھیلتی ہوئی کایٔنات کی طرح بیکراں ہے جس میں کسی قسم کے عقیدے کے اطلاق و نفاذ کے برعکس ذات و کایٔنات کی تفہیم کی انسانی ذہن کی 
 
کوشش ہے۔  ویدوں میں بیان کیے گئے مکاشفاتی خیالات کسی انسانی ذہن کا کارنامہ نہیں دکھائی دیتے۔ خیالات اتنے ارفع اور اتنے لطیف ہیں کہ وہ زمان و مکان کی قید سے ماؤرا لگتے ہیں۔ فطری مظاہر کا تجزیاتی مطالعہ کر کے کسی خالقِ کُل کی جستجو ویدوں میں صاف دکھائی دیتی ہے۔ چنانچہ رِگ وید کے پہلے منڈل کا پہلا سُوکت  (1:1:1) اس طرح ہے : 
ع اگنِم ایِلے پُروہِتم یگیہ اسیئہ دیوَمہ رِتوِجمہ ہو تارمہ رتنٰ دھتکمہ  
(vfXuebZys iqjksfgre~ ;KL; nsoe~ _fRote~ gksrkje~ jRu /kkrde~)
 
اسکا مطلب ہے: 
’’۔۔۔۔۔۔ اے قادرمطلق خدائے تعالیٰ، آپ جو سب دیوتاؤں میں افضل و اکبر ہو ، تمام قربانیوں کے قبول کرنے اور           
ان کا اجر دینے والے رحیم و کریم ہو ، تمام قربانیوں کے جاذب اور تمام اعلیٰ و ارفع اوصاف کے حامل ہو(ہم آپ
کی عبادت کرتے ہیں)
کچھ وثوق سے نہیں کہا جا سکتا کہ کتنے سو مفکروں ، رِشیوں نے کتنے سو یا ہزار برسوں میں اُن خیالات کو متعدد بار کشید کیا ہے ،مقطر کیا ہے اور اس حد تک کہ وہ ارفع سے ارفع تر ہوتے گئے اور الہامی کہلانے لگے۔ اور شاید اسی لیے کہا جاتا ہے کہ خُدا نے اگنی کو رِگ وید، وایُو کو یجروید ، آدِتیہ کو سام وید اور انگرا رِشی کو یجروید کی تعلیم دی، اُنہوں نے برہما کو سنایا اور برہما نے وید ویاس کو۔  
کتاب کے مطالعے سے ظاہر ہوجاتا ہے کہ ڈاکٹر اجے مالوی کا پیش نامہ ویدوں کی شرح یا تفسیر نہیں تھی بلکہ اس حقیقت کا احاطہ اور احیا کرنا تھا کہ اُردو زبان میں ویدوں پر خاصہ کام ہو چکا ہے اوریہ خوشگوار حقیقت اردو کے سیکیولر کردار کا ایک اور ثبوت ہے۔ سچ تو یہ ہے کہ ڈاکٹر مالوی نے انتہائی عرق ریزی کے ساتھ ان کتابوںکی تلاش و جستجو کی ہے جو  اب صرف لائیبریریوں میں دھول چاٹ رہی ہیں ۔ایک بڑی بات ڈاکٹر اجے مالوی نے یہ کی ہے کہ انہوں نے ویدک ادب پر لکھی گئی ان کتابوں کے مختصر تعارف کے ساتھ نہ صرف فہرست سازی کی ہے بلکہ بڑی تندہی اور محنت سے ان لایٔبریریوں کے پتے اور کتابوں کے نمبر بھی حوالے کے طور پر دیئے ہیں جہاں یہ نادر کتب دستیاب ہیں اور جہاں سے محققین استفادہ کر سکتے ہیں۔ مستقبل کے محققین کے لیے یہ سمت نمائی قابل تحسین ہے۔ 
لیکن  ڈاکٹر اجے مالوی کی اس تصنیف کا سب سے اہم پہلو یہ ہے کہ انہوں نے لفظ ’ اردو ‘  ابتدا تلاش کرنے کی سعی کی ہے۔
 
دراصل ترکوں اور مغلوں کے ساتھ ترکی ، فارسی اور عربی الفاظ کا ایک بہت بڑا ذخیرہ یہاں آیا جو بُندیلی ، قنوجی ،  برج بھاشا،  بانگرو ،  کھڑی بولی (ہِندوستانی یا دہلوی) ------اودھی ،  بگھیلی ،  چھتیس گڑھی،  راجستھانی ،  پنجابی ،  مگھئی ،  بنگالی ،  مارواڑی ،  دکنی اور سریانی وغیرہ جیسی ہند آریائی زبانوں کے الفاظ سے تملغم کرتا  رہا۔  
 
دسویں صدی عیسوی کے قریب کھڑی بولی نے اپنے آپ کو مدھیہ پردیش کی بولیوں سے الگ کر لیا۔ یہ گنگا کے بالائی دوآبے اور اس کے گردونواح کی بولی تھی۔ چونکہ ہندوستانی یا کھڑی بولی اس زمانے میں بول چال کی عام زبان تھی اور اس کے ساتھ ہی کیونکہ مسلمانوں کے ساتھ معاشرتی و تہذیبی اختلاط بھی ایک طویل عمل تھا ، اس لئے کھڑی بولی نے بارہویں صدی عیسوی کے اوآخر تک ترکی، فارسی اور عربی الفاظ کے اس ذخیرے کو اپنے اندر جذب کرنا شروع کر دِیا جو مسلم فاتحین اپنے ساتھ لائے تھے۔ یہ ایک فطری مگر غیر ارادی عمل تھا۔چنانچہ دو قوموں ،  دو تہذیبوں کے امتزاج سے اردو مُنتج ہوتی گئی۔ پہلے سنسکرت تھی، پھر پالی ، پھر پراکرتیں تھیں ، جیسے شورسینی ، ماگدھی ،  مہاراشٹری ،  پھران میں سے اپ بھرنشیں نکلیں، پھر کھڑی بولی،  ہندی ، ہندوی، زبانِ ہندوستان اور زبان دہلوی کے بعد لفظ ’’  ریختہ  ‘‘  استعمال کیا جانے لگا۔ ریختہ کا مطلب گری پڑی ، شکستہ چیزوں سے ہے۔ چونکہ اُردو میں ترکی ، فارسی ، عربی ، پشتو اور انگریزی سمیت کئی ہند آریائی بولیوں 
 
کے الفاظ شامل ہو گئے تھے اس لئے اسے ریختہ کہا جانے لگا۔ چودہویں صدی عیسوی میں امیر خسرو نے فارسی ترک کر کے ریختہ کو اپنے شعری اظہار کی زبان بنا لیا۔ 
           ۱۵۹۰ ء میں فرشتہؔ کی ترتیب دی ہوئی  ’’  تاریخ کی کتاب  ‘‘  ،   ۱۶۳۵ ء میں وجہی کی تحریریں اور ۱۶۵۴ ء میں  عبدالحمید لاہوری کی کتاب  ’  بادشاہ نامہ  ‘ میں اسے زبان ہندوستان کہا گیا۔ بیجا پُور سے علی عادل شاہ دویٔم (  ۱۴۷۳ ء  - ۱۴۵۶ ء )  کے درباری شاعر نصرتی نے اپنے کلام کی زبان ہندی بتائی۔ دراصل دکن میں فروغ پانے والی شاعری کو جب مغلوں نے مربیانہ تحفظ دینا شروع کیا تو دہلی کے شعرا جو اس وقت فارسی سے رجوع رکھتے تھے ،  اسے ہندی یا ہندوی ہی کہتے تھے۔ پھر اٹھارہویں صدی عیسوی تک وجود میں آ جانے والی زبان کو ریختہ کہا جانے لگا۔
 
         ۱۷۰۷ ء میں مغل  بادشاہ اورنگ زیب کی وفات کے بعد ریاستوں میں تعینات مغل صوبیدار نیم خود مختار ہوتے گئے اور اس طرح اگلے ایک سو برسوں میںمغل تاجداروں کا دایٔرۂ اقتدار دہلی اور نواحات تک سکڑتا گیا۔ ۱۷۳۹ ء میں فارس ( Persia)  سے وارد ہونے والے حملہ آور نادر شاہ  اور احمد شاہ ابدالی (۱۷۶۷ ء  - ۱۷۴۷ ئ) نے دہلی کی اینٹ سے اینٹ بجا دی اور قتل و غارت کا وحشیانہ مظاہرہ کیا تو دہلی کے مغل تاجداروں کا رہا سہا وقار بھی جاتا رہااور اس کے شاخسانے میں فارسی زبان اور ایرانی تہذیب و ثقافت بھی اپنا مرتبہ تیزی سے کھونے لگی۔ عوام الناس کی نظروں میں جب مغل دربار کی قدرومنزلت ہی رو بہ زوال تھی تو فارسی زبان و ادب سے وابستگی بھی کوئی باعث افتخار نہیں رہ گیا۔ ویسے بھی کئی چھوٹے چھوٹے مقامی سرخیلوں نے مغل بادشاہوں کی طرز پر چھوٹے چھوٹے دربار سجا لیے تھے۔ ہندوستان کے فارسی گو شاعرایران کے فارسی گو شعرا کے سامنے یوں بھی احساس کمتری ہی میں مبتلا رہتے تھے۔ ان مایوس کن اور انحطاط پذیر تہذیبی ،  معاشراتی ،  تواریخی ،  نفسیاتی اور ادبی محرکات و اسباب کے پیش نظرفارسی کا غلبہ ختم ہو گیا اور  شعرأ کرام مقامی زبان ریختہ ہی میں طبع آزمائی کرنے میں زیادہ راحت اور آسودگی محسوس کرنے لگے۔ 
 
         امیر خسرو سے لے کر میرؔ اور سوداؔ کے زمانے تک اردو کو ریختہ ہی کہا جاتا رہا۔ شاہ سعداللہ گُلشن نے ولیؔ دکنی کو ریختہ میں شعر کہنے کی ترغیب دی اور ولیؔ کی دہلی میں آمد کے بعدجو بہت سے فارسی گو شعرا نے ریختہ کی طرف ر اجع ہوئے ان میں مرزا عبدلقادر بیدل ؔ سر فہرست تھے۔ امیر خسرو نے اردو یا ریختہ کے ابتدائی دور میں معیاری شعریات کی تخلیق کی اور شاہ سعداللہ گُلشن اور خان آرزوؔ نے ریختہ گوئی کی باقاعدہ تحریک شروع کر کے ریختہ گوئی کو فروغ دینے کی کوشش کی۔خان آرزوؔ  ،  سوداؔ  ،  میرؔ ، خواجہ میر دردؔ اور کئی دوسروں نے ریختہ گوئی کو فروغ دیا۔ اس دور کے شعرا کے اجتماعات  ،  جن میں شعرا ایک دوسرے کا کلام سن کر تحریک حاصل کرتے اور اپنے فن کو دوسروں کے مقابلے میں بہتر بنانے کی کوشش کرتے ، کے لئے دو اصطلاحیں رایٔج تھیں:  مشاعرہ ، جہاں فارسی میں شعر خوانی کی جاتی تھی ، اور مراختہ ، جہاں ریختہ یا اردو میں کلام سنایا جاتا تھا۔ ظاہر ہے مراختہ کی اصطلاح ریختہ کی مناسبت سے اختراع کی گئی تھی۔ 
 
اور اس طرح شاہ حاتم سے لے کرغالبؔ اور سر سیّد احمد خان تک کم و بیش ہندوی ، زبان، دہلوی یا ریختہ ہی کا چلن رہا  جِس کے لئے مصحفیؔ نے پہلی مرتبہ لفظ اردو استعمال کیا۔ ۱۷۵۲ ء میں میرؔ کی  ’نکات الشعرا ‘ کی زبان کے سلسلے میں زبان اردوئے معلی کی اصطلاح استعمال کی گئی۔ ۱۷۵۴ ء میں قایٔم کی تصنیف ’  مخزن ِنکات ‘ میں بھی اردوئے معلی کی اصطلاح برتی گئی۔  ۱۷۷۲ ء میں دکن کے باقر آغا نے لفظ اردو اِستعمال کیا۔ ۱۷۹۰ ء کے قریب ’  تذکرۂ گُلزار ابراہیم  ‘  کے مصنف عطا حسین تحسین نے اسے زبان اردوئے معلی کہا اور ۱۸۰۱ ء میں میر امن ؔ نے اپنی کتاب  ’  باغ و بہار  ‘  کی زبان کو ٹھیٹھ ہندوستانی یعنی اُردو کہا۔ بہر حال یہ  بھی نہیں بھولنا چاہیے کہ لفظ اُردو تو پہلے پہل دہلی شہر کے لئے بھی بولا جاتا تھا۔  
 
ایک اور مفروضہ ہے کہ ’’۔۔۔ ۷۱۲  ء  میں عربوں کے قبضے سے قبل سندھ میں لفظ ’  اُردو  ‘  اشیاکے ذخیرے یا انسانی اجتماع کے معانی میں مُستعمل تھا۔ لیکن یہ لفظ نہ تو ہندوی ہے ،  نہ ہی سندھی ۔ لِند المانی ( LINDOZE ERAMANIE )  زبانیں بولنے والے لفظ  ’ اُردو ‘ کو اسکینڈی نیویا ،  ایران اور 
ہندوستان میں بہ یک وقت موجو دیکھتے ہیں۔ قدیم  Nordic  اسطور میں  URD  یا   URTH  تقدیر کی دیوی کو کہتے ہیں ۔ ایران کے آتش  پرستوں کے مذہبی صحیفے  اویستا  میں اُرد بل کا شہر اور بادشاہ  اُردشیر بھی اُردو کی یاد دلاتا ہے۔ لیکن جدید سندھی اور فارسی میں اُردو کا مطلب ہے فوج ، چھاؤنی بازار ۔۔‘‘
(-اردو  دُنیا  ،  جُولائی ۲۰۰۱ ء صفحہ ۱۴)
سوال تو یہ ہے کہ لفظ ’ اُردو  ‘  آیا کہاں سے ؟ 
 
یہ ڈاکٹر اجے مالوی کی محققانہ فطانت ہے کہ انہوں نے لفظ ’  اُردو  ‘  کو ویدوں سے ماخوذ بتاکر دنیائے اردو کو چونکا دیا ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ لفظ اُردو نہ تو تُرکی نژاد ہے اور نہ ہی اسے لشکر یا بازار کے معانی میں لیا جانا چاہئے۔ اُن کا دعویٰ ہے کہ یہ لفظ سنسکرت کے دو الفاظ کا مرکب ہے :  ’ اُر  ‘ یعنی دل اور ’  دُو  ‘  یعنی جاننا۔ یعنی دل کو جاننا ۔ دل میں روح کا بھی بسیرا ہے  اور روح  کا بلاواسطہ تعلق چونکہ خدا سے لیا جاتا ہے اس لیے اسے بلا مبالغہ خدا کو جاننا بھی کہا جا سکتا ہے۔ 
 
ڈاکٹر مالوی نے انکشاف کیا ہے کہ رگ وید میں ۶۴ ، یجروید میں  ۲ ،  سام وید میں  ۲ ،  اور اتھرو  وید میں ۲ بار ، یعنی کل ۷۰  اشلوکوں میں   ’ اُر ‘ اور ’  دُو  ‘  کے مصدر اور مشتق استعمال کیے گئے ہیں۔ اپنی تصنیف ویدک ادب اور اردو میں ڈاکٹر مالوی نے ان ۷۰  اشلوکوں کا باقاعدہ حوالہ دیا ہے اور اسی بنیاد پر انہوں نے یہ دعویٰ کیا ہے کہ لفظ اردو تُرکی نژاد نہیں بلکہ یہ ویدوں سے ماخوذ ہے ۔ ڈاکٹر مالوی کا یہ دعویٰ قرین قیاس بھی لگتا ہے کیونکہ کہ یہ لفظ ایران کی پہلوی زبان میں بھی مستعمل تھا اور ایران جانے سے قبل آریہ ترکستان بھی گئے تھے ۔ ڈاکٹر مالوی رقمطراز ہیں : 
 
’’ ۔۔۔۔اور وہ  اُردو کو اسی رفیع ترین معنی میں استعمال کرتے تھے اور یہ اُردو لفظ رگ ویدی عہد سے دسویں صدی
تک مسلسل بغیر کسی تغیر کے استعمال  ہوتا رہا ہے اور آج بھی ہو رہا ہے۔ ہندوستان کی تمام جدید زبانیں مختلف
لسانی تبدیلیوں کے ساتھ دسویں صدی میں وجود میں آئیں لیکن ویدک ادب میں استعمال کردہ لفظ اردو اور امن
(ماؤرائے دماغ آشتی اور اسلام کے معنی میں)  متواتر اکیسویں صدی تک ہو بہو استعمال ہو رہے ہیں۔۔۔۔  ‘‘
بہر حال انیسویں صدی میں کسی حد تک فارسی آمیز ہندوستانی کے لیے قبولیتِ عام حاصل کرلینے والے لفظ ’ اُردو ‘ کے بارے میں ڈاکٹر اجے مالوی کے اس حیرت انگیز انکشاف کو نظرانداز نہیں کیاجا سکتااور ان کا دعویٰ مزیدسنجیدہ  توجہ چاہتا ہے۔ 
 
سنسکرت کے بارے میں یہ مفروضہ غلط ہے کہ یہ عام بول چال کی زبان نہیں تھی اور یہ کہ پانِنی  ¼o##phکے کسی معجزے سے یہ خلا سے نمودار ہو گئی۔ اسی طرح مشتاق صدف نے بالکل صحیح کہا کہ اُردو اچانک خلا سے وجود میں نہیں آ گئی بلکہ اس کا ایک اپنا وسیع و بسیط ثقافتی منظر رہا ہے اور یہ کہ اردو کے ابتدائی آثار آج بھی ویدک ثقافت میں محفوظ ہیں ۔ لیکن صفحہ ۲۲ پر ڈاکٹر مشتاق صدف نے شمس الرحمٰن فاروقی کے سرقے اور ان کے معافی ناموں کا حوالہ دے کر انہیںنہ صرف تشکیک کے دایٔرے میں لا کھڑا کر دیا بلکہ ان ہی کی ساخت شکنی کر ڈالی ہے۔ 
 
 یہ جان کر واقعی حیرت ہوتی ہے کہ ویدک ادب کے بارے میں اردو میں نہ صرف اتنا کچھ لکھا جا چکا ہے بلکہ  ۶۴ کتابیں بھی شایٔع ہو چکی ہیںلیکن یہ کُتب ایک غیر معینہ عرصہ سے کتب فروشوں کے پاس دستیاب نہیں ہیں ۔ اردو کے نام پر اتنے ادارے ہیں کسی نہ کسی ادارے کو ان کتابوں کی اشاعتِ نو کی ذمے داری لینا چاہیے تاکہ یہ کتابیں شایٔقین کی دسترس میں آ سکیں۔  
 
بُرہانِ قاطع کے طور پرمیں یہاں کہنا چاہوں گا کہ عالمگیر شہرت یافتہ پروفیسر گوپی چند نارنگ نے بھی ڈاکٹر اجے مالوی کو اس اہم موضوع کا ماہر کہا ہے ،  اس لئے بلا شبہ کہا جا سکتا ہے کہ ڈاکٹر اجے مالوی کی تصنیف  ’ ویدک ادب اور اردو ‘  نہ صرف ایک معلوماتی دستاویز ہے بلکہ ایک تحقیقی چیلینج بھی ہے۔
 
***************************
Comments


Login

You are Visitor Number : 1019