donateplease
newsletter
newsletter
rishta online logo
rosemine
Bazme Adab
Google   Site  
Bookmark and Share 
mazameen
Share on Facebook
 
Literary Articles -->> Adbi Gosha
 
Share to Aalmi Urdu Ghar
Author : Dr Izhar Ahmad Gulzar
Title :
   Wajoode Zan Se Hai Tasweer Kainat Me Rang



 وجود زن سے ہے تصویر کائنات میں رنگ

 

تحریر:۔ڈاکٹر اظہار احمد گلزار

 

    معاشرے کی بنیادی اکائی ایک فرد ہے نظام فطرت کے مطابق کوئی ایک فرد تنہا زندگی نہیں گزار سکتا۔لہٰذا وہ ایک گھرانے ،کنبے یا خاندان کی شکل میں رہتا ہے۔جس طرح کسی عمارت کی اکائی اینٹ ہوتی ہے اور اگر اس کی پہلی اینٹ ہی ٹیڑھی ہو تو یہ عمارت فلک تک ٹیڑھی ہی رہے گی۔اسی طرح اگر ایک گھرانے ،خاندان اور کنبے کا ماحول ناقص ،خراب اور بگڑا ہوا ہے تو وہ سارے معاشرے پر اثر انداز ہوتا ہے۔مثل مشہور ہے کہ گندی مچھلی سارے تالاب کو گندہ کر دیتی ہے اور یہ کہ خربوزے کو دیکھ کر خربوزہ رنگ پکڑتا ہے۔چناں چہ ٹیڑھی اور بگڑی ہوئی بنیاد پر کھڑا گھرانہ سارے معاشرے میں ٹیڑھا پن پیدا کر دیتا ہے۔

    اگر ہم ایک کنبے ،گھرانے یا خاندان کی بنیادی اکائی پر غور کریں تو وہ عام اصطلاح میں ایک فرد ہی ہے تا ہم قدرت نے نظام کائنات چلانے اور نسل انسانی کے ارتقا اور اس کے تسلسل کے لیے ایک فرد کو دو جہتوں کے ساتھ تخلیق کیا ہے یعنی عورت اور مرد چناں چہ انسانوں کی عائلی زندگی میں عورت اور مرد کا وجود ہی در اصل ایک کنبے ،گھرانے یا خاندان کی نین نقشہ بناتا ہے۔ خالق کائنات نے شرف انسانیت کے اعتبار سے ہر انسان کو یکساں عزت اور تکریم کے ساتھ پیدا کیا ہے۔دوسرے لفظوں میں یوں کہیے کہ اس دنیا میں آنکھ کھولنے والا ہر مرداور ہر عورت مساوی طور پر قابل احترام ہیں۔مگر چوں کہ اس کائنات کا نظام تنوع کے حسن سے آراستہ ہے اس لیے جسمانی ساخت میں فرق اور تنوع کے اعتبار سے ایک خاص دائرے میں عورت اور مرد میں کارگزاری کی انفرادیت بھی قائم کر دی۔یہی انفردیت عورت اور مرد کو ایک دوسرے کے لیے لازم و ملزوم بناتی ہے ۔

    انسانی زندگی گھرانے کو وجود بخشتی ہے۔عورت اور مرد کی ضرویات کی تکمیل کے لیے ضابطے اور رواج وضع کرتی ہے اور نسل انسانی کے ارتقا اور تسلسل کا اہتمام کرتی ہے۔اس حوالے سے ایک گھرانے میں منفی طور پر ایک مرد اور ایک عورت عائلی طور پر میاںاور بیوی کا درجہ پا لیتے ہیں۔یہاں تک کہ ایک خاندان اور نسل انسانی کے ارتقا کا مقدس سلسلہ خاندا ن شروع ہوتا ہے اور خاندان شوہر اور بیوی کے ساتھ ساتھ بیٹی ،بیٹے اور بہن بھائی جیسے رشتوں کی مہک سے آباد ہو جاتے ہیں جو ماہ و سال کی جولانیوں کے ساتھ کچھ نئے رشتوں کو جنم دیتے ہیں۔

    بیٹی بیوی بن کر ایک اور گھرانے کو آباد کرنے کے سفر پر روانہ کر دی جاتی ہے اور یوں یہ سفر در سفر کا سلسلہ جاری ریتا ہے۔ایک گھرانے سے دوسرے گھرانے،دو سے تین،تین سے چار یہاں تک کہ معاشرہ اپنی تکمیل کے مراحل طے کرتا چلا جاتا ہے۔یوں تو معاشرے میں ایک عورت کے کئی عائلی اور خاندانی رشتے ہیں تا ہم آج کی نشست میں ہم بیٹی ،بہن بیوی اور ماں کے حوالے سے اس کے کردار کا جائزہ لیںگے کہ وہ ان رشتوں کے ذریعے ایک گھرانے اور ایک معاشرے کی تعمیرو ترقی اور توازن و اعتدال میں کیا خدمات انجام دیتی ہے۔

    عورت ہر روپ میں مجسم محبت ہے ماں ہے تو سراپا ممتا،بہن ہے تو بھائیوں کی آن،بیوی ہے تو شوہر کی دست راست و معاون ،بیٹی ہے تو باپ کی آنکھوں کی ٹھنڈک،غرض یہ کہ ہر کردارمیں محبتیں تقسیم کرتی اور گھرانوں کی شیرازہ بندی میں ہمہ وقت مصروف و کوشاں عورت اپنے فرائض سے کسی لمحہ غافل نہیں ہوتی۔

    ہمارے مذہب میں بیٹی اللہ کی رحمت سمجھی جاتی ہے یہ الگ بات ہے کہ بعض سماجی تعصبات اور فیوڈل کلچر کے زیر اثر بیٹی رحمت کے بجائے نحوست سمجھی جانے لگی ہے۔چوں کہ آبادی کے ایک بڑے حصے کو غربت اور جہالت نے گھیر رکھا ہے اس لیے بڑی ہو کر وہ کسی پیداواری عمل میں بھی حصہ نہیں لے پاتی۔یعنی گھرانے کی آمدنی میں اضافے کا سبب نہیں بنتی،اس لیے اسے بوجھ سمجھا جاتا ہے اور جوانی کی عمر کو پہنچنے تک یہ بوجھ پہاڑ بن جاتا ہے کہ والدین کے سامنے اس کی شادی کا معاملہ آن کھڑا ہوتا ہے ۔ چوں کہ غربت اور جہالت کا راج بھی ایسے گھرانوں میں پہلے سے موجود ہوتا ہے جس کے ساتھ فرسودہ رسومات کا طومار بھی نتھی ہوتا ہے جو آخر کار والدین کے لیے بیٹی کی شادی کو مالی طور پر ایک بہت بڑے بوجھ تلے دبا دیتی ہے۔

    چناں چہ ایسے گھرانوں میں بیٹی ایک ناپسندیدہ فرد بن کر رہ جاتی ہے مگر دوسری طرف ایک بیٹی کے کردار اور ظرف کا اندازہ کیجئے کہ اپنے ساتھ ہونے والی ہر قسم کی گھریلو اور سماجی نا انصافی کے باوجود وہ گھرانے کے اندر ایک جذباتی توازن پیدا کرنے کا کردار ادا کرتی ہے۔گھر کے اندر ایک بیٹی کا وجود انسانی محبت کے مقدس پہلو کو پروان چڑھانے کا باعث بنتا ہے۔یہی متوازن جذباتی فضا گھر کے دوسرے افراد بطور خاص مرد رشتے داروں کی شخصیت سازی میں انتہائی مثبت کردار ادا کرتی ہے اور یہ مرد حضرات گھر کی چار دیواری سے باہر آ کر جب معاشرے میں پھیلتے ہیں تو وہاں بھی صنف نازک کے لیے احترام کے ایک نرم گوشے کا ضرور مظاہرہ دکھاتے ہیں بعض نا پسندیدہ سرگرمیوں کو چھوڑ کر یہ بات وثوق سے کہی جا سکتی ہے کہ گھرانے میں ایک بیٹی اور بہن کا وجود معاشرے کی دوسری سینکڑوں ہزاروں بیٹیوں ،بہنوں کے لیے عزت و احترام کے متوازن جذبات کی نشو ونما کا باعث بنتا ہے اگر بالفرض یہ مقدس رشتے معاشرے میں موجود نہ ہوتے تو ماہرین نفسیات سمجھتے ہیں کہ مردوں کی بالا دستی کا یہ معاشرہ بہت زیادہ وحشت ناک ہو چکا ہوتا۔

    معاشرہ میں ایک بیوی کا کردار گھرانے کی تکمیل توسیع اور تسلسل کا باعث بنتا ہے ۔میاں بیوی کا رشتہ انسانی قربت اور الفت کے جذبات کو فروغ دیتا ہے۔اپنے مزاج کی حلیمی اور عاجزی کے اعتبار سے اس فضا کی پرورش میں بھی زیادہ موثر حصہ عورت ہی کی طرف سے ہوتا ہے۔میاں بیوی کے کردار کی دوسری اہم ترین پہچان اس کی ماں کی حیثیت ہے ۔سچ تو یہ ہے کہ ماں کا رشتہ ہی وہ عظیم منصب ہے جو عورت کی ذات اور شخصیت کو پایہ تکمیل تک پہنچاتی ہے۔ایک ماں کی حیثیت سے وہ اللہ تعالیٰ کی عطا کردہ ایک نئی زندگی کی امانت کا بوجھ اٹھائے پھرتی ہے۔یہیں سے عورت کی فضیلت مرد کے مقابلے میں کیسی بڑھ جاتی ہے۔ ایک ماں کی حیثیت سے وہ نئی زندگی کی امانت کو اپنے وجود کے حسین گوشے میں پروان چڑھا تی ہے۔قرآن مجید میں اسے ’’رحم‘‘کہا گیاہے۔یاد رہے کہ رحمت کا مادہ بھی رحمت ہی ہے ۔گویا نئی انسانی زندگی جب تک ماں کے وجود میں پروان چڑھتی ہے تو وہ اللہ کی رحمت سے آراستہ ہوتی ہے۔

    ایک ماں کی حیثیت سے عورت کی یہ انفرادیت واقعتاًاسے غیر معمولی فضیلت عطا کرتی دیتی ہے اسی لیے جنت جیسا عظیم مقام بھی ماں کے قدموں تلے قرار دیا گیا ہے اور یہ بھی ایک بے مثل اور قابل احترام ماں ہی کی فضیلت ہے کہ وہ بی بی حاجرہ ؑکے روپ میں ایک بے آب و گیاہ سر زمین پر اپنے اکلوتے لخت جگر حضرت اسماعیل ؑ کو خانہ کعبہ کے پہلو میں لٹا کر خود ان کے لیے پانی کی تلاش میں صفاو مروی ٰ کی پہاڑیوں کے مابین بیتابی کے ساتھ دوڑتی بھاگتی رہیں۔اللہ تعالیٰ کو اپنی اس نیک بندی کی یہ ادا ایسی بھائی کہ اس نے تا قیامت حکم دے دیا کہ حج اور عمرہ کی سعادت پانے والا ہر مردو زن بی بی حاجرہ ؑ کی پیروی میں صفا و مرویٰ کے مابین ’’سعی‘‘ کرے گا بصورت دیگر اس کی عبادت قبول نہیں ہو گی۔

    اب تک ہم نے عورت کے مختلف عائلی اور خاندانی رشتوں مثلاً بیٹی ،بہن، بیوی اور ماں کے کردار کا جائزہ لیا ہے اس سے جو حقیقت واضح ہوکر سامنے آتی ہے وہ یہ ہے کہ عورت گھر کی سطح پر مختلف مقدس رشتوں کے حوالے سے ایک متوازن ،جذباتی اور نفسیاتی کلچر پیدا کرتی ہے۔یہ اس کلچر کی برکت ہے کہ گھریلو چار دیواری کے باہر سوسائٹی اور معاشرہ کئی بد اعمالیوں اور جرائم سے محفوظ رہ جاتا ہے۔یہ صورت حال معاشرے کی تعمیرو ترقی میں بالواسطہ طور پر انتہائی اہم کردار ادا کرتی ہے۔تا ہم آج کے جدید دور میں زندگی کو در پیش معاشی جبر اور اعلیٰ تعلیم تربیت اور ہنر مندی نے عورت کو مرد کے شانہ بشانہ روٹی روز گار کی سرگرمیوں میں بھی مصروف کر دیا ہے ۔

    آج کی عورت گھر کی چار دیواری کے اندر اپنا انتہائی مثبت کردار ادا کرنے کے ساتھ معاشرے اور ملک کی ترقی و خوش حالی میں بھی اپنی متنوع خدمات پیش کر رہی ہے۔آج ہماری سوسائٹی کے اہم ترین شعبوں مثلا ً انجینئر،ٹورازم ،درس و تدریس ،تحقیق اور حتیٰ کہ خلائی سائنسزمیں بھی اپنی محنت ،ریاضت اور صلاحیت کے جھنڈے گاڑھ رہی ہے۔آج عالم یہ ہے کہ افواج پاکستان میں عورت جنرل کے عہدے تک جا پہنچی ہے ۔درس و تدریس کے میدان میں وہ ’’وائس چانسلر‘‘بنکوں کی سربراہ ،شپ بریکنگ کی انڈسٹری کی ماہر ،سفارت کار اور پارلیمنٹرین کی حیثیت سے خدمات انجام دے رہی ہیں۔ اس وقت بلدیاتی اداروں اور سینٹ ،قومی و صوبائی اسمبلیوں میں عورت کی ایک بڑی تعدادبہترین خدمات انجام دے رہی ہے۔

    پاکستانی سماج میں عورتوں نے اپنی صلاحیتوں ،محنت اور ذہانت سے اپنا ایک مقام منوا لیا ہے اور اسی حوالے سے انھوں  نے معاشرہ کی بنیادی اکائی یعنی گھر،کنبے اور خاندان سے لے کر سوسائٹی کی وسعتوں میں پھیلے ہوئے کم و بیش شعبوں کی ترقی اور فروغ میں غیر معمولی خدمات انجام دی ہیں۔ تا ہم اس کے باوجود ابھی انھیں اپنے معاشرے کے استحکام اور خوش حالی کے لیے مزید کام کرنا ہے۔معاشرہ جوں جوں عورت کے متعلق تعصبات اور ناروا امتیازی سلوک ختم کرتا جائے گا اس کی ترقی و خوش حالی میں عورت کے کردار میں بھی مزید وسعت آتی چلی جائے گی۔بقول نورمحمد نور کپور تھلوی:
ہمارا دین زن کی عزت و حرمت سکھاتا ہے

بڑا بے شرم ہے جو ایک عورت کو ستاتا ہے
یہ ماں ہے ،بہن ہے بیٹی ہے عورت گھر کی ہے رانی

اسی کے پیار کا ہر مرد اکثر بھرتا ہے پانی
وجود زن سے ہی اے نور یہ رنگین ہے دنیا
بغیر اس کے اگر سوچو تو پھر غمگین ہے دنیا

 

٭٭٭٭٭


ڈاکٹر اظہار احمد گلزار 

گلزار ہاؤس۔گلی ۱۱
گرونانک پورہ ۔فیصل آباد۔پاکستان
Email:Izhargulzar786@gmail.com
Cell.00923007632419

Comments


Login

You are Visitor Number : 1739