donateplease
newsletter
newsletter
rishta online logo
rosemine
Bazme Adab
Google   Site  
Bookmark and Share 
mazameen
Share on Facebook
 
Literary Articles -->> Adbi Gosha
 
Share to Aalmi Urdu Ghar
Author : Dr. Ahsan Alam
Title :
   Allama Iqbal Ki Islami Fikr


 علامہ اقبال کی اسلامی فکر


ڈاکٹراحسان عالم

رحم خاں، دربھنگہ


    اپنے اشعار سے مردہ دلوں میں اسلام کی روح پھونکنے والے شاعر علامہ اقبال کی پیدائش ۹ نومبر ۱۸۷۷ء میں ہوئی ۔ علامہ اقبال کا خاندانی سلسلہ راجپوتوں سے ہے ، ان کے مورث اعلیٰ پندرہ ویں صدی عیسوی کے وسط میں حلقہ بگوش اسلام ہوئے تھے ۔ علامہ کا خاندان اسلام کے سایہ امن میں اس وقت آچکا تھا جب ہندوستان میں مغلیہ سلطنت کی بنیاد بھی نہیں پڑی تھی۔ اس سلطنت کے بنیاد سے تقریباً ایک سوسال قبل ہی راج پوتوں کا یہ خاندان اسلام کی پاسبانی کیلئے اسلام کے سائے میں آچکا تھا ۔ علامہ اقبال کے دادا شیخ محمد رفیق کشمیررخصت ہوئے اور سیالکوٹ میں سکونت اختیار کرلی ۔ علامہ اقبال کے دادا او ران کے والد شیخ نور محمد او رعلامہ کی والدہ امام بی بی اپنے زمانے میں صلاح وتقویٰ او ردیانت کی وجہ سے شہرت او رمقبولیت رکھتے تھے ۔

    علامہ کی ابتدائی تعلیم سیال کوٹ ہی میں ہوئی ، انہوں نے شمس العلماء سید میر حسن جو سر سید احمد خاں کے رفقا میں تھے ، عربی فارسی کی تعلیم حاصل کی ، علامہ کے استاذ سید میر حسن دین کے معاملے میں بڑ ے سخت اور بڑے عابد او رزاہد بزرگ تھے ، ان کے تربیت کا اثر علامہ کے زندگی پر نکھر کر سامنے آیا ۔ علامہ اقبال سیال کوٹ میں میٹرک کے امتحان سے فراغت کے بعد ۱۸۹۵ء میں لاہور کالج میں داخل ہوئے ۔ ۱۸۹۷ء میں یہاں سے فراغت پائی ، ۱۸۹۹ء میں ایم فل کیا ۔۱۹۰۵ء میں کیمبرج میں داخل ہوئے ، ۱۹۰۸ء میں وہاں سے فراغت حاصل کی ،۱۹۰۵ اور ۱۹۰۷ کے درمیانی وقفہ میںعلامہ نے البانیہ کا سفر کیا او رفلسفہ میں ڈاکٹریٹ کی ڈگری حاصل کی، علامہ کو البانیہ کا سفر اس لئے کرنا پڑا کیونکہ ان دنوں برطانیہ کی یونیورسیٹیاں ڈاکٹریٹ کی ڈگری نہیں دیا کرتی تھیں ۔ علامہ نے فلسفہ میں پی ایچ ڈی کی تھی ۔

شروع کے دور میں علامہ اقبال پر وطن پرستی کا غلبہ تھا لیکن یورپ جاکر انہیں احساس ہواکہ وہ غلط فکر اختیار کرچکے ہیں۔وطنیت اورملت دونوں دو چیزیں ہیں اور ہم نے وطنیت کا جو تصور قائم کیاہے وہ بجائے خود غلط ہے اور اس غلط تصور کو صرف روحانی طاقت سے توڑا جاسکتاہے۔ چنانچہ اقبال کی زندگی کا یہی وہ ٹرننگ پوائنٹ تھاجہاں سے انہوں نے مذہب اسلام کو سمجھا، پیغمبر اسلام کو سمجھا اور پھر پورے جوش وولولہ کے ساتھ مذہب اسلام کے باہوش اور مخلص مبلغ بن گئے ۔مولانا مودودی نے لکھا ہے کہ:۔

 لوگ یورپ جاکر وہاں کے ظاہری رنگ و بو میں ایسا ڈوبتے ہیں کہ مذہب سے اس کا رشتہ ہی منقطع ہوجاتاہے مگر اقبال مغربی تعلیم وتہذیب کے سمندر میں قدم رکھتے وقت جتنا مسلمان تھا اس کے منجدھار میں پہنچ کر اس سے زیادہ مسلمان پایا گیا اس کی گہرائیوں میں جتنا اترتا گیا اتنا ہی زیادہ مسلمان ہوتا گیایہاں تک کہ اس کی تہہ میں جب پہنچا تو دنیا نے دیکھا کہ وہ قرآن میں گم ہوچکا ہے اور قرآن سے الگ اس کا کوئی فکری وجود باقی نہیں رہا ۔ وہ جو کچھ سوچتا ہے قرآن کے دماغ سے سوچتا ہے ،جوکچھ دیکھتا ہے قرآن کے دماغ سے دیکھتا ہے۔  

(جوہر اقبال ،مولانا موددی ، ص ۳۷)

چنانچہ مذہب کا ان پر ایسا رنگ چڑھاتھا اور قرآن سے ایسی گہری محبت ہوئی تھی کہ بغیر تلاوت قرآن کے ان کے دل ودماغ کو راحت نہیں ملتی۔چنانچہ وہ صبح کے وقت روزانہ پابندی سے قرآن پاک کی تلاوت کیا کرتے ۔اقبالؔ کے اس ذوق کو دیکھ کر ان کے والد نے وصیت کی تھی کہ تم جب قرآن پڑھو تو یہ سمجھ کر پڑھو کہ یہ قرآن تم پر ہی اتراہے یعنی اللہ تعالیٰ خود تم سے ہمکلام ہے۔اقبال نے وصیت یوں قبول کی کہ پھر اس عمل سے دانستہ کبھی رابطہ ٹوٹا۔

    علامہ اقبال نے فلسفہ میں پی ایچ ڈی کی تھی لیکن انہوں نے اپنے فلسفیانہ انداز فکر کا رخ اسلامی فلسفہ کی طرف موڑدیا۔ اقبال کی شاعری کے بیشتر حصہ کا تعلق ملت اسلامیہ ہے۔علامہ کو اللہ تعالیٰ نے ادب ، فلسفہ اور علوم دین سے قابل ذکر حصہ عطا کیا تھا ۔ علامہ عصری علوم ، مشرقی او رمغربی میخانہ علم وادب کے ایسے میخوار تھے جن پر اسلامی نشہ پورے طور پر حاوی تھا ۔ علامہ ادب اسلامی ، سیاست ، اقتصادیات اور مسلمان قوموں کی بیداری کے تحت ہمیشہ فکر مند رہے ، ان کا ہر فکر کا تانا بانا  اسلام سے جاکر ملتا ہے ، انہو ںنے اپنے فکر کی نشر واشاعت کیلئے اردو ، انگریزی دونوں ہی زبانوں میں متعدد کتابیں لکھیں ۔اپنے اشعار کے ذریعہ انہو ں نے فکر اسلامی کو مسلمانوں کے دلوں میں گھر کرنے کی کوشش کی ،اقبال کے اشعار ان کے فکر کی بہترین عکاسی کرتے ہیں ۔ان کی تصنیفات فکر اسلامی کی دعوت دیتی ہیں ، تو ان کی اصلاحی کوششیں اسلام کے محور کے ارد گرد گھومتی ہیں ۔

    علامہ اقبال نے انگریز ی او راردو میں متعدد کتابیں تصنیف کی ، تاہم ان کی سب سے پہلی کتاب ۱۹۰۳ء میںعلم اقتصاد کے نام سے قارئین کے ہاتھوں میںپہنچی ، جبکہ ان کا پہلا دیوان اسرار خودی ہے ، جو ۱۹۱۵ء میں زیور طبع سے آراستہ ہو کر شعر وادب کی انجمن میں پہنچا ۔ اس کے فوری بعد اقبال کا ایک دوسرا دیوان رموز خودی ۱۹۱۷ء میں منظرعام پر آیا ، اقبال کے دیگر دیوانوں کا ذکر کریں تو ان میں پیام مشرق (۱۹۲۳ئ) ، زبور العجم (۱۹۲۷ئ) ، جاوید نامہ( ۱۹۳۲ء )،ارمغان حجاز( ۱۹۳۸ئ) ، میں منظر عام پر آیا ۔ علامہ کے یہ تمام دیوان فارسی زبان تھے ۔ ڈاکٹر رفیع الدین ہاشمی علامہ کے یہ تمام شعری مجموعے کو کلیات اقبال( فارسی) کے شکل میں منظر عام پر لائے ۔ جہاں تک اردو شاعری کا تعلق ہے تو اردو میںعلامہ کا پہلا شعری دیوان بانگ درا ۱۹۲۴ء میںمنظر عام پر آیا۔اس کے بعدبال جبرئیل ۱۹۳۵ء اور ضرب کلیم ۱۹۳۶ء میں قارئین کے سامنے پیش ہوا ۔ ان تمام شعری مجموعے کو کلیات اقبال کی شکل میں شائع کیا گیا۔

    علامہ اقبال نے اپنے تمام تر شاعری میں اسلام کو موضوع بنایا ، ان کا شاعری کا موضوع عام طور پر اسلام ، مسلمانوں کی تعلیم وتربیت او رعورت اوراسلام ، اداب واخلاق ،سیاسی افکار وغیرہ ہیں ۔ علامہ اقبال اپنے اشعار کے ذریعہ اسلام سے برگزشتہ دلوں کو اسلام کی طرف کھینچنے کی کوشش کرتے ہیں ، مغربی افکار پر تنقید کرتے ہیں ، ان کی خامیاں اجاگر کرتے ہیں ، مغرب زدہ افراد کوردس عبرت سناتے ہیں ۔فیشن پرست خواتین کو ان کی اصل منزل بتلاتے ہیں ،مفاد پرست سیاست دانوں کو اسلامی سیاست کے آداب سکھلاتے ہیں ،ادب کی گتھیاں سلجھا تے ہیں ، فنون لطیفہ کے جوہر دکھلاتے ہیں ، مشرق ومغرب کی سیاست پر اپنی فکری بصیرت سے مشعل دکھلاتے ہیں ،انسان کو اپنی خودی کو پہنچاننے کا سبق دیتے ہیں ، عظمت اسلام کا ترانہ گنگنا تے ہیں ، وطن کی محبت دلوں میں پیدا کرتے ہیں ، وطنیت کی بت شکنی کرتے ہیں ، آفاقیت کا سبق دیتے ہیں تو فرماتے ہیں:۔

 مسلم ہیںہم وطن ہیں ، سارا جہاں ہمارا

    اور جب ہندوستان کی عظمت کا پرچم لہراتے ہیں تواپنے مخصوص لے میں حدی خوانی کرتے ہوئے کہتے ہیں :

سارے جہاں سے اچھا ہندوستاں ہمارا
ہم بلبلیں ہیں اس کی یہ گلستاں ہمارا

    اور جب مغرب پر تنقید کے نشتر چلاتے ہیں تو فرماتے ہیں :

دیار مغرب کے رہنے والوں خدا کی بستی دکاں نہیں ہے
کہرا جسے تم سمجھ رہے ہو وہ آب زر کم غبار ہوگا

    تو کبھی صاف صاف لفظوں میں پوری قوت کے ساتھ فرماتے ہیں :۔

تمہاری تہذیب اپنے خنجر سے آپ ہی خود کشی کرے گی
جو شاخ نازک پر آشیاں بنے گا ناپائیدار ہوگا

    غرض کے اقبال کے تمام تر اقول کا محور اللہ کی کتاب او راس کے رسول کی سنت ہے ، انہوں نے جو کچھ سمجھا پوری دیانت داری کے ساتھ قوم تک پہنچا دیا ۔

    علامہ اقبال کے بہت سے اشعار مکمل حدیث کی روشنی میں ہیں ۔ اس کی وضاحت کرنے پر یہ بات مکمل طور پر عیاں ہوجاتی ہے کہ اسلام کا گہرا مشاہدہ کرنے والا ہی اس طرح کی شاعری کر سکتا ہے ۔ ان کی مشہور نظم ’’خضر راہ‘‘ کا ایک شعر یہ واضح کرتا ہے کہ ان کے خیالات میں کتنی وسعت ہے:۔

کشتیٔ مسکیں و جان پاک و دیوارِ یتیم
علم موسیٰؑ بھی ہے تیرے سامنے حیرت فروش

    اقبال نے انگریزی زبان میں بھی متعدد کتابیں لکھیں ہیں، یہ کتابیں ان کی فکرکی عکاس ہے ، ان کتابوں میں بھی انہوں نے اسلامی تہذیبی وتمدن کی روح بھر دی ہے ، اس کا اسلوب نہایت شاندار اور انداز بیان دلنشیں ہے ۔ ان کتابوں کے علاوہ اقبال نے متعدد کتابچے بھی اردو ،انگریزی میں لکھے ، یہ تمام کتابچے اقبال کے فکر کی آئندہ دار ہے ، اسلامی سیاست وثقافت ، مسلمانوں کے اسلام سے برگشتگی ، مغرب پرستی اور پوری دنیا میں مسلمانوں کی حالت زار کا اقبال نے نقشہ کھینچا ہے ، انہیں فکر کی روشنی دکھلائی ہے او رپوری قوت سے مسلمانوں کو اپنے محور کی طرف اور اپنے نبی کی سنت کی طرف لوٹنے کی دعوت دی ہے ۔

    اقبال کی کتابوں اور ان کے موضوعات ، ان کی خوبیوں پر تبصرہ کرتے ہوئے پروفیسر محمد منور لکھتے ہیں:۔

    اقبال ایک مشہور فلسفی اسلامی شاعر تھے ، ان کی تمام تر کتابیں ادبی حسن وجمال اور اسلامی ہمیت سے پر ہیں ۔ انہو ںنے اپنے اچھوتے اور منفر د اسلوب میں اسلامی شریعت کے اسرار ورموز اور عطر کو انوکھے انداز میں جمع کردیا او ر وہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی کی سوانحی خاکہ ہے جس میں اقبال نے اپنے قلم کا جوہر دکھلایا ہے ، اس کا اسلوب انوکھا او رمنفر دہے ، اور انہوں نے ثابت کیا ہے کہ نبی کریم ﷺ کی ذات ہی ہمارے لئے ایسی ذات ہے جو ہمارے دو جہان کی بھلائیوں کا منبع ہے ۔      

 (حیات اقبال عربی ، ص:۷)

    اقبال جن دنوں لندن یونیور سیٹی میں فلسفہ کی تعلیم حاصل کررہے تھے ، انہیں دنوں انہوں نے مسلم لیگ کی رکنیت اختیار کرلی تھی ۔ لندن میں رہتے ہوئے انہوں نے مغربی افکار اور تہذیب وتمدن کا گہرائی سے مطالعہ کیا اور اپنے اشعار میں مغربی افکار ، تہذیب وتمدن اور ثقافت کا نشانہ بنایا ، علامہ کے اشعار جہاں ان کی مغربی تہذیب سے برگشتگی او ر بیزاری کو دکھلاتے ہیںوہیں ا ن کی فکر کی طرف رہنمائی بھی کرتے ہیں۔ علامہ اقبال نے مارچ ۱۹۰۷ء میں ایک غزل کہی تھی یہ غزل علامہ کی تمام غزلوں میں ممتاز حیثیت کے حامل ہیں ،کیونکہ اس سے علامہ کی اسلامی فکر سے محبت او ر مغربی افکار سے نفرت مترشح ہوتی ہیں۔ذوق کے طبع کے لئے علامہ کے اس مشہور غزل کے چند اشعار حاضر خدمت ہیں :۔

سنا دیا گوشہ منتظر کو حجاز کی خموشی نے آخر
جو عہد صحرائیوں سے باندھا گیا تھا پھراستوار ہوگا
نکل کے صحرا سے جس نے روما کی سلطنت کو الٹ دیا تھا
سنا ہے قدسیوں سے میں نے وہ شیر پھر ہوشیار ہوگا
دیار مغرب کے رہنے والوں خدا کی بستی دکاں نہیں ہے
کہرا جسے سمجھ رہے ہو وہ آب زر کم غبار ہوگا
تمہاری تہذیب اپنے خنجر سے آپ ہی خود کشی کریگی
جو شاخ آشیاں پر بنے گا ناپائیدار ہوگا
سفینہ بر گ گل بنا لیگا قافلہ مور ناتواں کا
ہزار موجوں کی ہو کشا کش مگر یہ دریا سے پار ہوگا
میں ظلمت ِ شب میں لے کے نکلوں کا اپنے درماد کارواں کو
شرر فشا ں ہوگی آہ میری ،نفس میرا شعلہ بار ہو گا

    علامہ اقبال کے یہ اشعار ان کی دینی حمیت ، ایمانی قوت او رمومنا نہ بصیرت کا پتہ دیتے ہیں ۔علامہ نے اپنے افکار کا اظہار ۱۹۰۷ء میں کھلے لفظوں میں اس وقت کیا جب انہوں نے کیمبرج میں محاضرہ دیتے ہوئے فرمایا :۔

    ’’میں اس مناسبت سے میں اپنے ان نوجوان دوستوں کو جو یہاں کیمرج میں زیر تعلیم ہیں یہ وصیت کرتا ہوں کہ وہ اپنے زندگی کو الحاد او رمادیت سے بچا کر رکھیں ۔سب سے بڑا جرم جو مغرب کررہا ہے وہ یہ ہے کہ اس نے دین او رحکومت کو الگ الگ خانوں میں بانٹ دیا ہے ۔ یہ یورپین تہذیب کا سب سے گمراہ کن نظریہ ہے ، اس تہذیب نے انسانی روح کو مادیت پرستی کی دعوت دی اور مادیت پرستی نے انسانیت کو تباہ وبرباد کرکے رکھ دیا ۔                                   

 (حیات اقبال عربی، ص:۹)  

     اس طرح ہم دیکھتے ہیں کہ علامہ اقبال نے اپنی زیادہ تر شاعری میں اسلام کو موضوع بنایاہے۔ ان کی شاعری کا موضوع مسلمانوں کی تعلیم وتربیت، آداب واخلاق ،سیاسی افکار پر محیط ہے ۔ علامہ اقبال نے اپنی شاعری کے ذریعہ مسلمانوں کے سوئے دلوں کو جگانے کی بھرپور کوشش کی ہے ۔مفاد پرست سیاسی رہنمائوں پر طنز کے تیر چلاتے ہوئے انہیں آداب سکھانے کی کوشش کرتے ہیں۔ سب سے اہم بات یہ کہ علامہ اقبال انسان کو اپنی خودی کو پہنچاننے کا درس دیتے ہیں ۔

(مطبوعہ: سہ روزہ ’’دعوت‘‘ ۲۲؍ دسمبر ۲۰۱۳ئ,روز نامہ پندار پٹنہ، ۱۸؍ جنوری ۲۰۱۴ء


٭٭٭

Ahsan Alam
Moh: Raham Khan, Lalbagh, Darbhanga
Mob: 9431414808
E-mail: ahsanalam16@yahoo.com

 

Comments


Login

You are Visitor Number : 1374