donateplease
newsletter
newsletter
rishta online logo
rosemine
Bazme Adab
Google   Site  
Bookmark and Share 
mazameen
Share on Facebook
 
Literary Articles -->> Adbi Gosha
 
Share to Aalmi Urdu Ghar
Author : Dr. Ahsan Alam
Title :
   Maulana Abul Kalam Azad Ka Taleemi Falsafa


ڈاکٹراحسان عالم

رحم خاں، دربھنگہ


مولاناابولکلام آزاد کا تعلیمی فلسفہ


    رب کائنات نے اس سرزمین پر بہت سے انسانوں کو پیدا کیا ہے ۔ان میں چند انسان ایسے نقوش چھوڑ جاتے ہیں جسے دنیا یاد کرتی ہے۔ ایسی ہی ایک شخصیت کا نام ہے مولانا ابوالکلام آزاد۔ مولانا آزاد نے زندگی میں جو کارنامے انجام دیئے خواہ وہ ایک عالم، ادیب، مفکر، دانشور، تحریک آزادی، صداقت و عدالت کے مجاہد کی حیثیت سے ان سب میں ان کی ایک شان تھی اور ایک خاص وقار ۔ اس طرح کی بہت ساری خوبیاں ایک انسان میں بہت کم ہوا کرتی ہیں ، اس لئے یہ کہنے میں کوئی دشواری نہیں کہ وہ خوبیوں کے انجمن تھے۔

    مولانا کی دانشوری یک رخی نہیں تھی ، وہ ہمہ گیر تھی ، وہ نجی مجلس میںہوں یا کسی انجمن میں، جب بھی کسی موضوع پر گفتگو کرتے ، خواہ ا س کا تعلق ادب سے ہو یا فلسفے سے، مذہب سے ہو یا سائنس سے ، مشرق سے ہو یا مغرب سے ، ایسی عالمانہ روشنی ڈالتے کہ سننے والے حیران رہ جاتے ۔ عربی ، فارسی اور اردو کے بے شمار اشعار ان کے حافظے میں تھے۔ ان کی دانشوری اور ادراک سے یہ محسوس ہوتا ہے کہ ان کا مطالعہ کتنا وسیع تھا۔ ان کی کتاب ’’تذکرہ‘‘ ، ’’غبار خاطر‘‘ اور تفسیر القرآن‘‘ کے مطالعہ سے ان کے گہرے مطالعہ کا بخوبی اندازہ ہوتا ہے ۔ ویسا شخص جس کے مطالعے میں گہرائی نہ ہو اس طرح کی کتابیں لکھنا ناممکن ہے۔

    مولانا ابوالکلام آزاد پر بہت لکھا گیا ہے اور ان کی حالات زندگی، شخصیت، مذہبی بصیرت، صحافت ، مکتوب نگاری،سیاسی افکار وغیرہ پر ہمیں بہت ساری معلومات فراہم ہوتی ہیں لیکن تعلیمی نظریات و افکار پر بہت کم لوگوں نے لکھا ہے۔ جہاں تک میرا نظریہ ہے کہ ان کے تعلیمی نظریات کو منظر عام پر لانا چاہئے، کیونکہ مولانا آزاد نے ایسے تعلیمی مشورے دیئے ہیں کہ اگر مسلمان ان پر عمل کرتے تو تعلیم سے وہ اتنے دور نہیں ہوتے۔ مولانا آزاد کے تعلیمی افکار کا جائزہ لینے پر یہ بات عیاں ہوتی ہے کہ ان کے جیسا اردو عالم اور تعلیم کا خدمت گار آج تک پیدا ہی نہیں ہواہے۔ ان کے بتائے ہوئے تعلیمی نظریات و افکار پر ہندوستانی نظام تعلیم آج بھی گامزن ہے۔ دیکھنے میں ایسا محسوس ہوتا ہے کہ کوئی نئی تعلیمی پالیسی بنی ہے لیکن جب ہم مولانا آزاد کے دور وزارت تعلیم پر نظر ڈالتے ہیں تو معلوم ہوتا ہے کہ یہ کوئی نئی پالیسی نہیں بلکہ یہ مولانا آزاد کی دین ہے جس پر عمل در آمد اتنے لمبے عرصے بعد ہورہا ہے۔

    مولانا آزاد درس نظامیہ اور دینی تعلیم و مدارس اسلامیہ کی اہمیت سے نہ صرف واقف تھے بلکہ تعلیم کے میدان میں ان کے رول کو ہمیشہ سراہتے رہتے تھے۔ وہ کبھی کبھی علماء سے شکایت کرتے بھی نظر آتے کہ مدارس کے نصاب تعلیم کو پتھر کی لکیر کیوں بنا دیا گیا ہے۔ وہ نصاب میں جدید علوم کے حمائتی تھے۔ وہ چاہتے تھے کہ علمائے دین آگے بڑھیں اور موجودہ ضرورتوں کے تحت اپنے اندرتبدیلی پیدا کریں۔ مولانا کی یہ خواہش تھی کہ ہندوستان میں پھیلے ہوئے ہزاروں مدارس وقت کی نبض کو پہچانیں اور حالات حاضرہ کے ساتھ اپنے علم میں اضافہ کریں۔ نصاب میں تبدیلی کریں لیکن روایتی تعلیم کو بھی برقراررکھیں۔

    ۲۲؍فروری ۱۹۷۴ء کو لکھنؤ میں نصاب کمیٹی کا ایک جلسہ منعقد کیا گیا جس میں مولانا نے کہا :

’’میں یہ کہنے کی جرأت کروں کہ ان سے چند کتابوں کا علم حاصل ہوجاتا ہے اور علوم حاصل نہیں ہوتے ۔ آپ جانتے ہیں کہ چند کتابوں کا علم حاصل کرنے میں اور نفس علم حاصل کرنے میں بڑا فرق ہوتا ہے۔ نتیجہ یہ نکلا کہ اس تبدیلی سے روز بروز تمام تر اعتماد کتابوں پر ہوتا گیا اور جو پچھلا طریقہ املا کا تھا اور زبانی درس کا تھا وہ روز بروز ختم ہوتا گیا ‘‘

                        (خطبات آزاد صفحہ:۳۱۱، ساہتیہ اکادمی، دہلی)

    مولانا آزاد مشرقی تعلیم کی وجہ سے کسی احساس کمتری کے شکار نہیں تھے اور نہ ہی مغربی تعلیم سے آراستہ لوگوں سے متاثر تھے۔ ان کی شخصیت میں ایک علمی توازن تھا۔ یہ اس لیے پیدا ہوا تھا کہ وہ تعلیم کے سماجی انسلاکات اور انحصار کو سمجھتے تھے۔ اسلامی تعلیم کی جو سب سے بڑی خوبی ہے ، وہ یہی کہ یہاں علم و عمل پر بڑی تاکید ہے اور دونوں میں سے کسی ایک کے نہیں ہونے کو یک رخا قرار دیا جاتاہے۔ علم عمل کے بغیر باطل ہے اور عمل صالح کے بغیر ایک مہذب زندگی کی توقع نہیں کی جاسکتی ۔ تذکرے کا یہاں مقصود یہ ہے کہ مولانا کے تصورات علم میں جو ایک توازن ملتا ہے اور وسیع سماجی تناظر میں تعلیم کی خدمات طے کی جاتی ہیں، تو اس کے پس پشت اسلامی تعلیمات کا عرفان بھی ہے۔ ہندوستان کو جدید تعلیمی دور سے آشنا کرانے کی ذمہ داری وزیر تعلیم کے بہ طور مولانا کے ہی سپرد تھی ، اور انہوں نے یہ کام بخوبی انجام دیا، لیکن وہ اسلامی تعلیمات پر ہمیشہ فخر کرتے رہے اور اس کے نتائج سے عوام و خواص کو باخبر کرتے رہے۔ اسی جدید و قدیم کے تال میل نے مولانا کو متوازن طریقے سے تعلیمی پروگرام نافذ کرنے میں مزید سہولت پیدا کردی۔

    مولانا آزاد قدیم علوم سے وابستہ جماعت کے فرد تھے لیکن تلاش و جستجو ان کی فطرت میں تھی، اس لئے اس دائرے سے باہر کی دنیا سے بھی انہوں نے رابطہ رکھا۔ ہر چند کہ انہیں جو تعلیم ملی، وہ سراسر روایتی تھی لیکن انہوں نے اپنے علمی اکتسابات کو گونا گوں وسعت دی اور فکر و فلسفہ کی ان دنیائوں تک بھی گئے جہاں تک ایک روایت پرست کے لیے جانا نہایت دشوار تھا۔ مولانا کے مزاج کی یہ وسیع المشربی تھی جس کے سہارے وہ نئے سے نئے ذہن کے ساتھ چلنے میں ذرا بھی پریشانی محسوس نہیں کرتے تھے۔ مولانا اپنی تحریروں میں تعلیم کے سلسلے سے اس وسیع المشربی کی ہمیشہ تلقین کرتے رہے۔ انہوں نے ایک موقع پر لکھا تھا کہ ہم اپنی مادی دولت اور ساز و سامان کو جغرافیائی حد بندیوں میں قید کر سکتے ہیں لیکن علم و تہذیب کی دولت پر مہر نہیں لگا سکتے۔ وہ تو تمام انسانوں کی میراث ہیں ۔ تہذیب کے میدان میں تنگ نظری سے بڑھ کر کوئی جرم نہیں اور قوموں کی ترقی میں یہی سب سے بڑی رکاوٹ ہے۔

    ۱۳؍دسمبر ۱۹۲۰ء کو مولانا آزاد نے مدرسہ اسلامیہ کولکاتا کی افتتاحی تقریب میں ایک مختصر سی تقریر کی تھی جس میں انہوں نے سرکاری نظام تعلیم پر تنقید کی تھی ۔ اس تقریب میں گاندھی جی نے شرکت فرمائی تھی۔ آزا دکی تقریر کا یہ حصہ ملاحظہ ہو:

’’ہندوستان میں سرکاری تعلیم نے جو نقصانات ہمارے قومی خصائل و اعمال کو پہنچائے ہیں ان میں سب سے بڑا نقصان یہ ہے کہ تحصیل علم کا مقصد ہماری نظروں سے اوجھل ہوگیا ہے۔ اس لئے ہمیں اسے ڈھونڈنا چاہئے۔ سرکاری یونیورسٹیوں نے ہم کو ایک دوسری راہ بتلائی ہے ۔ وہ علم کا اس لئے شوق دلاتی ہے کہ اس کے بغیر سرکاری نوکری نہیں مل سکتی۔ پس اب ہندوستان میں علم کو علم کے لیے نہیں بلکہ معیشت کے لیے حاصل کیا جاتا ہے۔ ‘‘

            (’’خطبات آزاد‘‘، مرتبہ:مالک رام، شائع کردہ ساہتیہ اکادی)

    مولانا آزاد کی یہ تقریر بہت ہی مختصر ہے لیکن بہت ہی جامع اور معنی خیز ہے ۔ انہوں نے اس میں علم اور معیشت کے ارتباط کا مسئلہ چھیڑا ہے جو تعلیمی اخلاقیات کے اعتبار سے بہت ہی نازک ہے اور عملی اعتبار سے بے حد پیچیدہ ہے۔ لیکن افسوس کہ آج کا تعلیم کا محور ہی معیشت کے گرد چکر لگاتا ہے اور تعلیم یافتہ انسان بھی اسی گرد ناچتے نظر آتے ہیں۔

    مولانا نے اپنے تعلیمی فلسفے میں اسی اصول کو بنیادی اعتبار بخشا ہے۔ اس میں بین الاقوامیت کے رجحانات فطری طور پر شامل ہیں۔ اس لئے یہاں ایک اور موضوع زیر بحث آجاتا ہے۔ مشرق و مغرب کے آپسی تعلقات اور امتیازات ۔ مولانا نے جس طرح علم و تہذیب کے معاملات کو تمام انسانوں سے جوڑا ہے اور جغرافیائی حد بندیوں سے گریز کرنے کی تنبیہ کی ہے اس سے یہ پریشانی ہوسکتی ہے کہ مشرق و مغرب کے فرق کا شاید وہ ان دیکھا کر رہے ہیں جس کے نتیجے میں بہت سارے معاملات میں مشکل تر مسئلے بھی پیدا ہوسکتے ہیں۔ مولانا کی دوسری تحریروں کو دیکھنے سے یہ اندازہ ہوتاہے کہ ان مسائل سے وہ کماحقہ واقف ہیں اور ان کے حل کے لیے ان کی ایک خاص رائے ہے۔ ان کا ماننا ہے کہ مشرق و مغرب میں جو بُعدِ مشرقین ہے، اسے تو ضرور دور کیا جانا چاہئے۔ دونوں کو ایک دوسرے کے قریب آنا چاہئے ۔ وہ یہ بھی مانتے ہیں کہ دونوں فلسفوں میں کوئی خاص بنیادی فرق نہیں ہے اور نہ ہی کسی کو کسی پر فضیلت حاصل ہے۔ لیکن وہ یہ بھی کہتے ہیں کہ انسانی فطرت کی تفسیر و تعبیر کے مختلف دھاروں پر توجہ دی جائے تو کہیں کہیں مشرق و مغرب کے رجحانات میں حد فاصل بھی مل جائے گی۔ اب آدمی کو چاہئے کہ ایک تال میل کا سلیقہ اپنائے اور روشن تر امکانات کی جانب متوجہ رہے۔

    مولانا آزاد نے تعلیم کو زندگی کی تیاری سے تعبیر کیا ہے۔ یہ حقیقت ہے کہ مولانا کے نظریہ حیات اور فلسفۂ تعلیم سے آزاد ہندوستان کا تعلیمی نظام بہت حد تک متاثر ہوا ہے۔ انہوں نے اپنے تدبر سے اس نظام تعلیم سے ایک ایسا پس منظر عطا کیا ہے کہ جس میں سچی دین داری، عقائد کی پختگی ، انسان دوستی، عدل و ضبط جیسی اقدار عالیہ کی پاسداری موجود ہے۔

    ۱۵؍جنوری ۱۹۴۷ء کو مولانا نے آزاد ہندوستان کے پہلے وزیر تعلیم کی حیثیت سے عہدہ سنبھالا اور گیارہ سال تک ملک کے سب سے اہم شعبے کی خدمات انجام دیں۔ ۲۲؍ فروری ۱۹۵۸ء کو عہدے سے دست بردار ہونے سے پہلے مولانا نے تعلیمی میدان میں ملک کو ایک ایسی پالیسی عطا کی جس پر عمل کرکے ملک آج بھی ترقی کے منازل طے کر رہا ہے۔ آج ہمارے ماہرین تعلیم یہ زور دیتے ہیں کہ بچوں کی تعلیم کا ذریعہ ہماری مادری زبان ہو ۔ مولانا آزاد نے آج سے تقریباً ۶۵ سال قبل ۱۹۴۹ء میں اس بات پر زور دیا تھا کہ تعلیم کا ذریعہ مادری زبان ہونا چاہئے۔ انہوں نے کہا تھا کہ’’اب وقت آگیا ہے کہ ملک میں ہر قسم کی تعلیم دیسی زبانوں میں دی جائے ۔ یہ پسندیدہ امر ہے کہ ہر ہندوستانی دیوناگری اور اردو دونوں رسم الخط سیکھے۔ تعلیم کسی بھی قوم کی شہ رگ ہوتی ہے۔ اس لئے آپ سے بڑھ کر اس عہدے کا مستحق غالباً کوئی نہیں تھا۔ انہوں نے اپنے دور وزارت میں ایک ایسا جامع تعلیمی نظریہ پیش کیا جس سے ان کی علمی بصیرت، تدبر و فراست اور دانشوری کا اظہار ہوتا ہے۔ بلکہ ہندوستان میں جدید تعلیمی انقلا ب مولانا کا مرہون منت ہے۔مولانا بحیثیت وزیر تعلیم جو کارنامے انجام دیئے اس کی مختصر تفصیل اس طرح ہے:

    ۱۔ ٹیکنیکل ایجوکیشن کو فروغ دیا    ۲۔ تعلیم بالغان کا منصوبہ بنایا اور اس پر عمل کیا        ۳۔ یونیورسٹی گرانٹ کمیشن کی تشکیل دی

    ۴۔ تعلیم نسواں پر توجہ دی     ۵۔ کلچرل ریلیشنس کونسل قائم کی            ۶۔ ساہتیہ اکادمی قائم کی

    ۷۔ عربی سہ ماہی رسالہ ’’ثقافۃ الہند‘‘ جاری کیا۸۔ آل انڈیا ریڈیو کے شعبہ عربی کو فعال بنایا    ۹۔ انسٹی ٹیوٹ آف ٹکنالوجی قائم کی

    ۱۰۔ انجمن ترقی اردو کو تحفظ دیا    ۱۱۔ علی گڑ ھ مسلم یونیورسٹی کی بقا             ۱۲۔ دارالمصنفین اعظم گڑھ کو امداد

    ۱۳۔ مدرسہ عالیہ کلکتہ کی حفاظت    ۱۴۔ جامعہ ملیہ اسلامیہ دہلی کی ترقی

    مولانا رسمی طور پر وزیر تعلیم تھے لیکن ان کی خدمت کا دائرہ تمام محکموں تک وسیع تھا ۔ وہ آزاد اور جدید ہندوستان کے سب سے بڑے معمار تھے ۔ان کے تعلیمی کارناموں کاجائزہ لینے پر یہ بات ظاہر ہوتی ہے کہ اگر ان سارے منصوبوں پر عمل ہونے لگے تو ہندوستان تعلیم کے میدان میں بہت آگے نظر آئے گا۔

                                (مطبوعہ :روزنامہ قومی تنظیم، پٹنہ، ۷؍جون ۲۰۱۳ئ)

    *****************************

 

 

Comments


Login

You are Visitor Number : 1086