donateplease
newsletter
newsletter
rishta online logo
rosemine
Bazme Adab
Google   Site  
Bookmark and Share 
mazameen
Share on Facebook
 
Literary Articles -->> Adbi Gosha
 
Share to Aalmi Urdu Ghar
Author : Dr. Ahsan Alam
Title :
   Maulana Abul Kalam Azad Ki Paidayish Aur Hindustan Wapsi


ڈاکٹراحسان عالم

رحم خاں، دربھنگہ


مولانا ابوالکلام آزاد کی پیدائش اور ہندوستان واپسی

 

    مولانا ابوالکلام آزاد کا خاندان ہر دور میں بہت ممتاز حیثیت کا حامل رہاہے۔ ا س خاندان میں ہر زمانہ اور عہد میں اصحاب فضل و کمال پیدا ہوتے رہے ہیں۔ بہت سے مواقع پر اس علمی ،روحانی اور فکری خانوادہ نے ملت اسلامیہ کی خدمت کی ہے۔ علم و ادب ، فکر و نظر، اور تہذیب وثقافت کے امانت کو اس خانوادہ نے بارہا طالبان حق کو سونپا ہے۔ یہ علمی خانوادہ مغلیہ سلطنت کے معمار شہنشاہ بابر کے عہد حکومت ۹۳۴ھ مطابق ۱۵۵۶ ء میں افغانستان کے شہر ہرات ہوتا ہواہندوستان آیا۔ ہندوستان کی کشادہ سرزمین نے اس خاندان کے فضل و کمال کا تہہ دل سے استقبال کیا۔ اس پورے خاندان نے پہلے آگرہ اور بعد کو دہلی میں سکونت اختیار کی ۔ دہلی اور اس کی حکومت نے اس خانوادے کا اس کے شایان شان استقبال کیا۔ بعض افراد بڑے بڑے حکومتی عہدے پر فائز ہوئے۔ مغلیہ دور حکومت کی ترقیوں کا آفتاب جس زمانے میں نصف النہار پر تھا؛ اسی دور میں اس خاندان کی حکومت سے بڑی قربت حاصل تھی۔ مولانا آزاد کے جد اعلیٰ ایک معروف بزرگ مولانا منورالدین کو شاہ عالم ثانی کے دور میں رکن المدرسین کا منصب عطا ہوا۔بہت کم لوگ اس منصب علمی عالی کو حاصل کرنے میں کامیاب ہوا کرتے تھے۔ جنہیں اس عہدے سے سرفراز کیا جاتا تھا انہیں بڑا ہی احترام و اکرام حاصل ہوجایا کرتا تھا او ربڑے بڑے اہل علم و فضل اس احترام و اکرام کو رشک کی نگاہ سے دیکھا کرتے تھے۔ مولانا منورالدین بڑے پائے کے عالم اور بزرگ صفت انسان تھے ۔ شاہ عالم ثانی ان کے فضل و کمال کا معترف اور ان کے ورع و تقویٰ سے ازحد متاثر تھا۔

    رکن المدرسین شعبہ تعلیم کا نگراں اور سربراہ ہوا کرتا تھا۔ گویا اس کی حیثیت وزیر تعلیم کی سی تھی۔ مولانا منورالدین جس وقت وزیر تعلیم بنائے گئے وہ وہی دور تھا جب شاہ جہاں برسر اقتدار آیا ۔ یہ مغلیہ دورکا زریں دور ہے۔ اورنگ زیب کے بعد اس سلطنت کا بتدریج زوال شروع ہوا۔ بہادر شاہ کے عہد تک اس حکومت کا تقریباً خاتمہ ہوچکا تھا۔ ملک اور ملت اسلامیہ کی کشتی منجدھار میں پھنسی ہوئی تھی ؛کہ مولانا کے دادا کا انتقال ہوگیا۔ مولانا کے والد اس وقت کمسن تھے ۔ والد کی وفات کے بعد ان کی کفالت کی تمام ذمہ داریاں نانا پر آگئیں۔ انہوں نے مولانا خیرا لدین کی تعلیم و تربیت شروع کی اور اپنے نواسے کو علوم ظاہر ی و باطنی ہر طرح کے زیور سے آراستہ کیا ،لیکن وائے افسوس کہ اب دہلی وہ دہلی نہیں تھی ،جس نے علوم معرفت کے سرتاج خاندان کا پرجو ش استقبال کیا تھا۔ دہلی بدل چکی تھی۔ ہر دن کا سورج تباہی و بربادی کا نیا پیغام لے کر آتا۔ ہر شام زخم سے چور ہوتی تھی۔ ہندوستان کا دل دہلی ٹوٹ پھوٹ رہی تھی۔ ہر شخص خود سراپا درد و غم تھا۔ کون کسے حال دل سنائے ، کون تھا جو درد کا درما لائے۔ دولت اسلامیہ کا شیرازہ بکھر چکا تھا۔ مولانا خیرالدین کے نانا محترم یہ تباہی برداشت نہ کرسکے او ریہ سوچ کرکے زندگی مستعار کے بقیہ ایام بیت اللہ کے جوار ہی بسر کریں گے دہلی کو خیر باد کہہ دیا ۔ اس سفر کی روداد بیان کرتے ہوئے ڈاکٹر عبدالمنعم لکھتے ہیں:

    ’’دہلی سے ان کا سفر شروع ہو ا ۔ وہ بمبئی کے ارادے سے چلے تاکہ وہاں سے جہاز پر جدہ چلے جائیں گے۔ وہ وسط ہند کی ریاست بھوپال سے گذرے ۔بھوپال اس وقت ایک آزاد اسلامی ریاست تھی۔ جس کی بنیاد ۱۷۱۷ میں دوست محمد خاں نے رکھی تھی ۔ اورنگ زیب کی وفات کے بعد یہ خود مختار ریاست بن گئی تھی۔ اس وقت وہاں کی رانی سکندر جہاں بیگم تھی جو ان چار خواتین میں سے ایک ہیں جن کے حصے میں زمام اقتدار آئی ۔ مشہور مصنف نواب صدیق حسن خاں کی اہلیہ شاہجہاں بیگم سکندر جہاں کے بعد تخت نشیں ہوئیں۔ ان کے بعد سلطان جہاں بیگم کا دور آیا ۔ اس اسلامی ریاست کے آخری فرماروا نواب حمید اللہ خاں تھے۔ بعد کو یہ ریاست ہندوستان کا حصہ بن گئی۔

 وہاں کی تاجدار سکندر جہاں بیگم نے انہیں روک لیا اور دو سال تک اپنے یہاں اپنا مہمان بنائے رکھا۔ بعد میں انہوں نے امیر سے اجازت چاہی اور اجازت ملتے ہی بمبئی روانہ ہوگئے۔ لیکن بمبئی میں ان کا آخری وقت آپہنچا۔ ان کی بیٹی کے صاحبزادے مولانا خیر الدین جو مولانا آزاد کے والد ہیں اس وقت پچیس سال کے تھے ۔۔۔وہ مکہ روانہ ہوئے۔ ‘‘

( ابوالکلام آزاد ایک مفکر ایک رہنما جلد:۱، ص:۳۶)


    مکہ پہنچ کر مولانا خیرالدین نے وہاں کے مشہور عالم دین شیخ محمد طاہر وطری کی صاحبزادی سے شادی کی ۔ اپنا مکان تعمیر کیا اور آرام کی زندگی گذارنے لگے۔ لیکن اللہ تعالیٰ کی مشیت کچھ اور تھی۔ خاندانی حمیت اور غیرت ایمانی کی وجہ سے غالباً اللہ تعالیٰ نے اس خاندان کو اپنے دین کی خدمت کے لئے پسند کرلیا تھا۔ چنانچہ ایک بڑی ذمہ داری آپ پر آن پڑی۔ واقعہ یوں ہے کہ عباسی خلیفہ ہارون رشید جن کی دینی غیرت و حمیت اور علوم اسلامی کی خدمت سے اہل علم ناواقف نہیں ہیں،کی اہلیہ زبیدہ نے مکہ مکرمہ میں پانی سپلائی کے لئے ایک نہر کھدوائی تھی۔ یہ نہر منہدم ہوگئی تھی؛ جس کا پانی خشک ہوچکا تھا اور نالیاں برباد ہوچکی تھیں ،جس کی وجہ کر مکہ مکرمہ کے باشیوں کو پانی کی قلت کا سامنا رہتا تھا ۔ آپ کی توجہ اس طرف ہوئی اور آپ نے اس کی تعمیر نو کا ارادہ کیا۔ عرب ممالک ، ترکی اورہندوستان کے مسلمانوں سے مدد طلب کی۔ مسلمانوں نے ان کی دعوت پر لبیک کہا۔ اور تقریباً دو میلین کا زر کثیر جمع ہوگیا۔ مولانا نے اس سے نہر زبیدہ کی از سر نو تعمیر کروائی اور بلد امین کے باشندگان پھر سے پانی سے سیراب ہونے لگے ۔ سلطان عبدالمجید ثانی نے اس خدمت کے اعتراف میں آپ کو چار اہم ایوارڈ دیئے۔
    مولانا ابوالکلام آزاد نہر زبیدہ کی تعمیر کے سلسلے میں اپنی والد کی کاوشوں کاذکر کرتے ہوئے تحریر فرماتے ہیں:


    ’’میرے والد نے اس نہر کی مرمت کرائی، انہوں نے ہندوستان ، مصر ، شام اور ترکی میں بیس لاکھ پونڈ جمع کیا اور نہر کے کنارے کو ایسا مضبوط کردیا کہ بدو اسے توڑ پھوڑ نہیں سکتے تھے۔ سلطان عبدالمجید اس وقت ترکی کے شہنشاہ تھے ۔ انہوں نے اس خدمت کے صلے میں میرے والد کو مجیدی تمغہ قسم اول عطاکیا‘‘۔

 ( ہماری آزادی ، ص:۵)

     مولانا کے والد نے خود کو صرف فلاحی اورسماجی کاموں کے لئے وقف نہیں کردیا تھا بلکہ انہوں نے لوح و قلم کی آبیاری بھی کی ۔ علم وفن کے گیسو بھی سنوارے ۔ متعدد کتابیں ان کے گوہر بار قلم سے نکلیں ۔ اہل علم و ادب اور شائقین دین مبین کے دل بستگی اور ہدایت کا سامان بنی۔ یہیں سے ان کے افکار کا آفتاب آسمان علم پر خورشید مبین بن کر چمکا ۔ ایک طرف انہوں نے قلم کی مجلس سجائی تو دوسری طرف الاللہ کی ضربیں لگائیں ۔روحانیت کا درس دیا ، مردہ دلوں کو زندگی بخشی ، زنگ آلود قلوب کو صیقل کیا۔ دعوت دین حنیف کی غرض ملک اور بیرون ملک کے اسفار ہونے لگے۔ معتقدین اور مریدوں کاسیلاب ہر اس جگہ امڈ پڑتا تھا جہاں آپ تشریف لے جایا کرتے تھے۔ ایک خلق تھی جو ٹوٹ پڑتی تھی۔ ہزاروں زندگی سے ناامید دلوں کو زندگی ملی۔ خود مولانا آزاد اپنے والد کی شہرت اور مقبولیت کا ذکر کرتے ہوئے لکھتے ہیں:

    ’’میرے والد بھی پوری اسلامی دنیا میں مشہور ہوگئے۔ جب مصر سے ان کی کتاب شائع ہوئی جو عربی زبان میں تھی اور د س جلدوں میں تھی۔ وہ کئی مرتبہ بمبئی اور ایک مرتبہ کلکتہ بھی آئے تھے اور ان دونوں جگہوں پر ان کے مداح او رمرید ہوگئے۔ عراق ، ترکی اور شام کے بھی انہوں نے کئی دور ے  کئے اور ان سے متعلق معلومات حاصل کئے۔‘‘

(کچھ ابوالکلام آزاد کے بارے میں ، ص:۲۹، مالک رام ، مکتبہ جامعہ دہلی، جون ۱۹۸۹ئ)

    مولانا کے والد محترم کی یہ کتاب جس کا تذکرہ مولانا نے کیا ہے اور جو دس جلدوں میں تھی، معلوم نہیں کس موضوع پر تھی اور نہ معلوم اس کتاب کا کیا نام تھا۔ افسو س کے مولانا نے بھی اس کا ذکر نہیں کیا ہے۔ اور نہ ہی مولانا کے دیگر تذکرہ نگار نے۔ کاش کو ئی مرد جفاکش اسے تلاش کر دوبارہ شائع کردیتا تو بڑے مزے کی علمی چیز ہوتی۔

    مولانا کی والدہ محترمہ عالیہ عربی النسل تھیں ۔ وہ مفتی مدینۃ الرسول ﷺ شیخ طاہر وطری کی صاحبزادی تھیں۔ یہ خاندان مراکش سے ہجرت کرکے مدینۃ الرسول آبسا تھا۔ مراکش میں اس خاندان کو علمی روحانی سیادت و قیادت حاصل تھی۔ ارشاد و سلوک کا مرکز، خلائق مرجع تھا۔ مولانا کی والدہ مدینہ منورہ میں پیدا ہوئی تھیں۔ گھر کا ماحول دینی و علمی تھا۔ آپ کو کسب علم کا شوق ہوا او رکمال پیدا کیا۔ آپ مدینہ کی باعمل اور صاحب علم خاتون تھیں۔ عربی زبان و ادب سے خاصی دلچسپی تھی۔ دیگر اسلامی علوم وفنون سے بھی اچھی واقفیت تھی۔ زندگی کا بیشتر حصہ مدینہ منور میں گذرا۔اخیر عمر میں ہندوستان آئیں اور چند ہفتوں بعد ہی اپنے خالق سے جاملیں۔ اس لئے اردو زبان نہ آتی تھی یا بہت کم آتی تھی۔ یہی وجہ ہے ہندوستانی خواتین جب ایام حج میں آپ سے ملاقات کے لئے جاتیں، تو گفتگو مترجم کے توسط سے ہوتی تھی۔ مسائل بھی مترجم کے توسط سے سمجھا پاتی تھیں۔ مولانا آزاد نے اپنے والدہ کے دینی علوم پر دسترس کا ذکر یوں کیا ہے:

    ’’ایک مرتبہ ایک عورت جو ملتان سے آئی تھی فرائض یعنی تقسیم ورثہ کا ایک نہایت پیچیدہ سوال کیا ۔آپ نے ایک منٹ کے اندر غور کرکے اس کا جواب دے دیا۔ وہ جواب مجھے یاد ہے اور میں محسوس کرتا ہوں کہ آج اگر مجھ سے کوئی اس نوعیت کا سوال کرے تو بغیر کاغذ پر اس کا حساب کئے اس کا جواب نہیں دے سکتا۔

 ( آزاد ی کی کہانی ، ص:۱۷ )

    علم کے ساتھ اللہ تعالیٰ نے انہیں دست فیاضی سے نواز ا تھا ۔ عرب کی سخاوت تو یوں بھی بہت مشہور ہے پھر کیونکر ممکن تھا کہ جس خاندان کو اللہ تعالیٰ نے دینی عزت و عظمت ،ایمانی حمیت و غیرت اور اسلامی علوم و فنون سے وافر حصہ عطا فرمایا تھا۔ اس کو سخاوت جیسی صفت سے نہ نواز ا جائے۔  مولانا آزاد کی والدہ کی سخاوت و فیاضی کا ایک عبرت خیز واقعہ خود مولانا سے سنئے:

    ’’ان کے اخلاقی اوردماغی سیرت پر اب بھی جس قدر غور کرتا ہوں مجھے محسوس ہوتا ہے کہ وہ ہر اعتبار سے بلند درجہ کی تھیں۔ وہ نہایت فیاض اور سیر چشم تھیں۔ مفلس اور مصیبت زدہ لوگوں کی تکلیف ان سے دیکھی نہیں جاتی تھی۔ والد مرحوم نے ایک مرتبہ نہایت قیمتی دوشالہ ان کے لئے منگوایا جس دن انہوں نے اوڑھا اسی دن امّ حبیب ان سے ملنے کے لئے آئیں۔ یہ غریب بیوہ تھیں جو ہمارے گھر کے قریب رہتی تھیں۔ اس نے قیمتی دوشالہ کبھی نہیں دیکھا تھا۔ اس کا پلہ ہاتھ میں لے کر نہایت طامع نگاہ سے دیکھنے لگیں اور بار بار کہنے لگیں کہ ایسی چیز ہم غریبوں کو کہاں نصیب ہوسکتی ہے۔ والدہ نے فوراً دوشالہ کاندھے سے اٹھایا اور ان کے کاندھے پر ڈال دیا۔

ابوالکلام آزاد ایک مفکر ایک رہنما ، ص:۳۷۔۳۸)


    سچ ہے’’کہ سونے اور چاندی کے کانوں سے سونے اور چاندی ہی نکلتے ہیں‘‘جس خاندان کی عورتوں کا کردار بھی اتنا بلند اور بالا ہو اسی خاندان میں آزاد جیسے افراد پیدا ہوتے ہیں یا ہوسکتے ہیں۔ جن گھروں میں روحانیت ، علم و اخلاق کی بودباش نہ ہو اس گھروں سے ایسے افراد کی توقع کرنا محض حماقت ہے۔ کیونکہ کوئلے کی کان سے سونے نکلنے کی توقع بیجا ہے اور سڑکوں پر پڑے کنکڑیوں میں ہیرے کی تلاش فضول ہے۔

مولانا کی ولادت اور ہندوستان واپسی

    دیکھئے قدرت کا کرشمہ ساز ہاتھ کیسے کیسے کرشمے کرتا ہے، کہاں تو ہندوستان پر انگریزی تسلط کی آہٹ سن کر آزاد فطرت یہ خاندان بیت اللہ ہجرت کرجاتا ہے ۔ اس خاندان کے غیور طبیعت قائد کو غلامی کی فضا میں ایک سانس لینی بھی گوارا نہیں ہوتی، اور کہاں مکہ مکرمہ میں شہرت کے آسمان پر چمکنے کے بعد اس بلد امین مکہ مکرمہ کو چھوڑ کر وہی غلام ہندوستان کا رخت سفر باندھتا ہے۔ مکہ کی سرزمین ہلائی جاتی ہے اور وہاں سے ہجرت اور دین حنیف کی امانت کی سنت کو پھر زندہ کرنے کے لئے انہیں اٹھایا جاتا ہے ،ہندوستان کی اسی سرزمین پر جہاں ظلم و بربریت کا طوفان بلاخیز امڈا ہوا تھا لاپھینکا جاتا ہے۔ کہنے کو تو مولانا کے والد محترم کی پنڈلی کی ہڈی ٹوٹ گئی اورعلاج کے لئے کلکتہ چلے آئے۔ لیکن کون جانتا ہے کہ ہڈی ٹوٹی یا قدرت کے ذریعہ تڑوائی گئی، جدہ گو کہ اس وقت کے جدہ سے بہت مختلف تھا، لیکن پھر بھی وہاں علاج و معالجہ کی پوری سہولت موجود تھی ۔ لیکن اس کے باوجود وہاں کے علاج سے شفا نہ ہوئی  یا شفا دینے والے نے شفا نہ دی اس کا فیصلہ کون کرسکتا ہے؟ میر اتو خیال ہے کہ مسبب الاسباب قد م قدم پر ایسے اسباب پیداکرتا ہے تاکہ جس بچے کو اس نے پید اکیا اسے مکہ مکرمہ کی سرزمین سے نکال کر ہندوستان لایا جائے کیونکہ اس نے اس مولود -جس کی عمر ابھی دو ہی سال تھی- کو اس لئے پیدا نہیں کیا تھا کہ مکہ کی سرزمین پر گوشہ نشیں ہوکر رہ جائے یا پھروہاں کسی درسگاہ میں بیٹھ کر داد تحقیق دے۔ اسے تو اس لئے پید ا کیا گیا تھا کہ اس کے ہاتھوں ہندوستان اور ملت اسلامیہ کی تقدیر سنورنی تھی۔ کون جانتا ہے کہ جس خدائے واحد نے موسیٰؑ کے دشمن سے موسیٰؑ کی پرورش کروائی اسی خدا کی کرشمہ سازی تھی کہ ایک باعزت مشہور اور آرام کی زندگی بسر کررہے خاندان کی امیر کی ہڈی توڑ دی گئی۔ اسے ہندوستان جانے پر مجبور کیا گیا۔ اسے بیت اللہ کے جوار سے ہندوستان میں لابسایا گیا۔ اللہ تبارک و تعالیٰ اپنے کاموں کی حکمت خود ہی جانتا ہے ۔غرض کہ مولانا آزاد کا خاندان مکہ مکرمہ سے ہندوستان آبسا۔ خود مولانا آزاد اپنی ولادت اور ہجرت کی کہانی سناتے ہیں :

    ’’میں مکہ مکرمہ میں ۱۸۸۸ ء میں پیدا ہوا ۔ میرے والد ۱۸۹۰ء میں اپنے خاندان کے ساتھ کلکتہ لوٹ آئے۔ ہندوستان آنے کی وجہ یہ ہوئی کہ جدہ میں ایک مرتبہ گر پڑنے کی وجہ سے ان کی پنڈلی کی ہڈی ٹوٹ گئی تھی اور وہاں کوئی معالج ایسا نہ ملا جو ہڈی کو اپنی جگہ جما دیتا ، ان کے دوستوں نے مشورہ دیا کہ کلکتہ کے معالجین اس کا علاج کرسکیں گے۔ علاج کی نیت سے ہندوستان کا سفر اختیارکیا۔ وہ علاج مکمل ہونے کے بعد مکہ واپسی کا ارادہ رکھتے تھے لیکن ان کے دوستوں اور مریدوں نے اصرار کرکے ان کو ٹھہرنے پر مجبور کردیا ۔ پھر ان کے واپس جانے کی نوبت نہ آئی۔ ہماری کلکتہ واپسی کے بعد ۱۸۹۱ء میں میری والد ہ کا انتقال ہوگیا اور یہیں سپرد خاک ہوئیں ۔

(ابوالکلام آزاد ایک مفکر ایک رہنما ، ص:۳۷۔۳۸)

    ان کے مریدوں کے اصرار نے نہیں بلکہ تقدیر الہٰی نے انہیں مکہ واپس جانے نہیں دیا۔ کیونکہ اگر وہ مکہ چلے جاتے تو شاید محی الدین ابوالکلام آزاد نہیں بنتے۔ ڈاکٹر عبدالمنعم کے اس قول کے ساتھ میں اپنی بات ختم کرتا ہوں کہ:

    ’’ایک خاص کام کے لئے اللہ تعالیٰ نے اس نومولود بچے کا انتخاب کرلیا تھا ۔ جو کچھ ان کے والد کے معاملہ میں پیش آیا کہ معتقدوں اور مریدوں نے ان کو مکہ جانے کا مشور ہ نہیں دیا۔ وہی بات تقدیر الہٰی اس بچے کے لئے مقدر کرچکی تھی۔ اگر وہ مکہ لوٹ جاتے اور وہیں اقامت اختیار کرتے ، چھوٹا بچہ پرورش پاکر بڑا ہوجاتا اور اسی طرح زندگی بسرکرتا جس طرح بہت سے ہندوستانی مکہ میںزندگی بسر کررہے ہیں۔ تو آج یہ نوبت نہ آتی کہ ہم مولانا آزاد کے لئے یہ صفحات پیش کرسکتے اور نہ ایسے عظیم و جلیل اور عبقری مجاہد اور مصلح دین کی گفتگو کا موقع پاتے جو پیدا مکہ میں ہوا لیکن اس کی پرورش ہندوستان میں ہوئی اور اس نے اپنے دین او راپنے وطن کی آزادی کے لئے مجاہدانہ زندگی بسر کی یہاں تک کہ اس کا وطن آزا دہوا اور اسی سرزمین میں آسودئہ خاک ہوا۔ اس نے اپنے عمل اور اپنے جہاد کے ثمرات اپنی آنکھوں سے دیکھے ۔ تقدیر الہٰی نے یہ کار عظیم اس کے لئے  مقدر کررکھا تھا۔

(مولانا آزاد کی کہانی ، ص:۹۔۱۰)

 ٭٭٭

Ahsan Alam
Raham Khan, P.O.: Lalbagh, Darbhanga

 

Comments


Login

You are Visitor Number : 1030