donateplease
newsletter
newsletter
rishta online logo
rosemine
Bazme Adab
Google   Site  
Bookmark and Share 
mazameen
Share on Facebook
 
Literary Articles -->> Adbi Gosha
 
Share to Aalmi Urdu Ghar
Author : Dr. Ahsan Alam
Title :
   Maulana Abul Kalam azad Bahaisiat Mofakkire Taleem


  ڈاکٹراحسان عالم

رحم خاں، دربھنگہ


مولانا ابوالکلام آزادبحیثیت مفکر تعلیم


     مولانا ابوالکلام آزاد ایک ہمہ جہت شخصیت کے مالک تھے ۔ وہ بیک وقت عالم دین، مفکر اور سیاست داں تھے۔بہت کم عمر سے ہی ہر موضوع پر اپنے خیالات کا اظہار کرنے لگے تھے۔ عمر کی پہلی منزل پر ہی ان کے خیالات بہت سے رسائل و جرائد میں چھپنے لگے تھے۔ وہ ایسی شخصیت کے حامل تھے جس میں کئی خوبیاں ایک ساتھ سما گئی تھیں۔وہ ایک ماہر تعلیم بھی تھے۔ وہ ایک ایسے تعلیمی مفکر تھے جو نہ صرف ماضی اور حال کے تعلیمی نظام پر نظر رکھتے تھے ، اس کے بارے میں فکر مند تھے بلکہ مستقبل کی بھی فکر انہیں جابجا ستاتی رہتی تھی۔حقیقت تو یہ ہے کہ ہندوستان میں مولانا آزاد جیسا اردو عالم اور تعلیم کا خدمت گار آج تک پیدا ہی نہیں ہوا ہے۔

    مولانا آزاد نے سیاست، صحافت، تعلیم اور مذہبیات کو اپنے تقریر اور تحریر کا موضوع بنایا۔ ان میدانوں میں انہوں نے جو کارہائے نمایاں انجام دیئے وہ جدید ہندوستان کی تاریخ کا سنہرا با ب بن چکے ہیں۔ ان کی فکر میں بڑی ہمہ گیری اور وسعت پسندی تھی۔ وہ جہاں سچے مسلمان تھے وہیں ایک خالص ہندوستانی بھی تھے۔ وہ ہندومسلم اتحاد کے سب سے بڑے علمبردار تھے اور انسانیت کے عظیم مبلغ تھے۔

    مولانا ابوالکلام آزاد کی تعلیم وتربیت قدیم مشرقی ماحول میں مذہبی انداز میں ہوئی لہٰذا وہ اس تعلیم کے تمام نشیب و فراز اور اس کے مثبت منفی پہلوئوں سے بخوبی واقف تھے اس لئے انہوں نے اس نظام تعلیم میں اصلاح و تبدیلی کی کوششیں کیں اور ساتھ ہی اپنے دور کے تمام دوسرے تعلیمی طریقوں کا بغور مطالعہ کرکے ملی تقاضوں اور عالمی حالات کے پس منظر میں ان کا تجزیہ بھی کیا۔مولانا آزاد روایتی اور اصطلاحی طور پر نہ تو معلم و مدرس تھے اور نہ ہی ماہر تعلیم ، اس کے باوجود تعلیم سے متعلق ان کے افکار و نظریات قابل توجہ ہیں اور انہیں کسی بھی قیمت پر نظر انداز نہیں کیا جاسکتا ہے۔ آزادی کے بعد ہندوستان کی تعلیمی پالیسی اور تعلیمی منصوبہ بندی میں جو رول انہوں نے ادا کیا وہ آج بھی قابل قدر ہے۔ انہوں نے تعلیم کے میدان میں ایسی راہیں دکھائیں جو ان سے قبل کسی نے نہیں دکھائی تھی۔ ان کی معنویت آج بھی ویسی ہی جیسی ان کے وقت میں تھی۔  مولانا اپنے دور کے بلکہ بیسویں صدی کے ایک ایسی نابغۂ روزگار شخصیت کے حامل تھے جو انسانی زندگی و سماج کے مختلف پہلوئوں پر ہمہ گیر اور ہمہ جہت نگاہ رکھتے تھے اور جن میں بہت ساری خوبیاں بیک وقت اس طرح جمع ہوگئی تھیں کہ یہ فیصلہ کرنا مشکل ہوگیا تھا کہ ان میں کون سی خوبی سب سے اہم اور سب سے زیادہ نمایاں ہے۔

    مولانا آزاد کے عہد سے تقریباً پچھتر سال قبل ہندوستان کا تعلیمی نظام درہم برہم ہوچکا تھا ۔ انگریزوں کا قائم کردہ نظام تعلیم ہندوستانیوں کے مزاج سے میل نہیں کھاتا تھا۔ مسلمانوں میں تعلیم جیسی اکائی میں دین و دنیا کی تفریق پیداہوچکی تھی اور تعلیم کئی خانوں میں بٹ چکی تھی۔ مولانا آزاد کے سامنے مسلمانوں کی پوری تعلیمی تاریخ تھی ، تعلیم کے معاملے میں ان کے افکار و نظریات بالکل واضح تھے۔ وہ ماضی کے تعلیمی حالات کا ادراک بھی رکھتے تھے۔ اپنے عہد کی کمزوریوں اور خامیوں پر گہری نظر تھی ۔ ان کے خیال میں انگریزوں کے دور میں جو تعلیمی نظام رائج تھا اس کے اندر کوئی ایسا فلسفۂ حیات نہیں تھا جس کے باعث اس نظام تعلیم کو متحرک اور فعال بنایا جاسکے۔ وہ ایک ایسے نظام تعلیم کو رواج دینا چاہتے تھے جو نئے نسل میں اپنا جوہر دکھا سکیں اور نئی نسل میں حوصلہ مندی ، جرأت و بے باکی اور آزادانہ سوچ کو فروغ مل سکے۔ وہ سائنس کو ایسی قوت سمجھتے تھے جس سے اس درد و غم سے پوری دنیا کو بھی جنت بنایا جاسکتا ہے۔ ان کا یہ بھی خیال تھا کہ مذہب کو سائنس کی تعلیم کے ساتھ ساتھ ہماری عملی زندگی میں بھی مرکزی اہمیت ملنی چاہئے۔ وہ سائنس کو مذہب اور مذہب کو سائنس کا مخالف تصور نہیں کرتے تھے ۔ان کا خیال تھا کہ سائنس سے حاصل کی ہوئی طاقت کو خیر کے مقاصد کے لئے استعمال کیا جانا چاہئے۔

    مولانا آزاد ایک ایسا طریقۂ تعلیم رائج کرنا چاہتے تھے جس میں خود کاری کی صلاحیت ہو۔ نئی امنگوں اور عزائم کی آمیزش ہو تاکہ انسانوں کی مادی اور روحانی ترقیوں کے سارے امکانات کی در کھولنے کی اہل ہو۔ وہ تعلیم کو زندگی کا وسیلہ بناکر عملی زندگی کے لئے کارآمد بنانے پر زور دیتے تھے اور تعلیم کو تربیت کا اصل ذریعہ مانتے ہیں۔ ان کے نزدیک ہماری غریبی ، تنگ نظری ، تعصب اور دیگر سماجی اور معاشرتی خرابیوں کی اصل وجہ بڑی تعداد میں لوگوں کا انپڑھ ہونا ہے۔ اگر لوگوں میں تعلیم ہوگی تو یہ چیزیں اپنے آپ دور ہوجائیں گی۔ دیکھنے میں یہ چیزیں محض ایک فلسفہ معلوم ہوتی ہیں لیکن یہ کسی قوم و ملک کی ترقی کا پہلا زینہ ہے۔ مولانا آزاد نے اپنے دور وزارت میں تعلیمی ترقی اور سائنسی فروغ کا جو خاکہ تیار کیا تھا اسی میں رنگ بھرتے رہے اور تعلیمی و سائنسی ترقی کے منصوبوں پر عمل در آمد کرکے ملک کی ہمہ جہت تعلیمی و سائنسی ترقی کے لئے فضا تیار کرنے میں لگے رہے چنانچہ وہ خود فرماتے ہیں:

’’وزارت تعلیم کا جائزہ حاصل کرتے ہی پہلا فیصلہ جو میں نے کیا وہ یہ تھا کہ ملک میں اعلیٰ فنی تعلیم کے حصول کے لئے سہولتیں فراہم کی جائیں تاکہ خود ہم اپنی اکثر ضرورتوں کو پورا کرسکیں ہمارے نوجوانوں کی ایک بڑی تعداد اعلیٰ تعلیم کے حصول کے لئے جو ملک سے باہر جاتی تھی تعلیم کی سطح اتنی بلند ہوجائے کہ باہر سے لوگ ہندوستان اس غرض سے آئیں کہ اعلیٰ سائنسی اور فنی تعلیم و تربیت حاصل کریں۔ ‘‘

    مولانا ابوالکلام آزاد نے آزاد ہندوستان میں تعلیم کے عام فروغ اور سائنسی فکر و نظر کے رواج، سائنسی تعلیم کے حصول کی ترغیب اور تکنیکی و فنی علوم کے اشاعت کی جو انقلاب آفریں کوشش کی تھی وہ تاریخی حیثیت کی حامل رہی ہیں اور موجود ہ ہندوستان کی تعلیمی اور سائنسی ترقی میں بنیادی حیثیت رکھتی ہیں۔ انہوں نے فنی تعلیم کی کل ہند مجلس کی تنظیم جدید یونیورسٹی گرانٹس کمیشن(UGC)کا قیام کونسل فار سائنٹیفک اینڈ انڈسٹریل ریسرچ (CSIR)کو فعال بنایا ۔ اس طرح کے ادارے کوئی معمولی اہمیت کے حامل نہیں تھے۔ بلکہ اس کا اثر آج بھی ہندوستانی نظام تعلیم پر موجود ہے۔

    تعلیم کے سلسلے میں مولانا آزاد کا نقطۂ نظر کافی وسیع اور آفاقی اہمیت کا حامل تھا۔ وہ عصری اور روایتی تمام قسم کی تعلیم کی اہمیت و افادیت اور اس کے تمام روشن اور تاریخی پہلوئوں پر عمیق اور ماہرانہ نظر رکھتے تھے اور مشرقی و مغربی تعلیم کے امتزاج سے ایسی تعلیم کو فروغ دینا چاہتے تھے جس کے حصول سے ملک کے نوجوان اچھے اور ذمہ دار شہری بن سکیں۔ انہوں نے انگریزی نظام تعلیم کابغور مطالعہ اور تجزیہ کرتے ہوئے اپنی رائے ’’ترجمان القرآن‘‘ کے پہلے ایڈیشن کے دیباچے میں بعنوان ’’قرآن حکیم کی تعلیم و اشاعت ‘‘ کے تحت اظہار خیال کرتے ہوئے بڑی صفائی اور وضاحت سے تحریر کیا ہے:

’’ہندوستان میں سرکاری تعلیم نے جو نقصانات ہمارے قومی خصائل و اعمال کو پہونچائے ہیں ان میں سب سے بڑا نقصان یہ ہے کہ تحصیل علم کا مقصد اعلیٰ ہماری نظروں سے محجوب ہوگیا ہے۔ علم خدا کی ایک پاک امانت ہے اور اس کو صرف اس لئے ڈھونڈنا چاہئے کہ وہ علم ہے لیکن سرکاری یونیورسٹیوں نے ہم ک وایک دوسری راہ بتلائی ہے۔ وہ علم کا اس لئے شوق دلاتی ہیں کہ بلا اس کے سرکاری نوکری نہیں ملتی۔ پس اب ہندوستان میں علم کو علم کے لئے نہیں بلکہ معیشت کے لئے حاصل کیا جاتا ہے یہ بڑی بڑی تعلیمی عمارتیں جو انگریزی تعلیم کی نو آبادیاں ہیں کس مخلوق سے بھری ہوئی ہیں۔ ‘‘

    مولانا آزاد تعلیم کی اہمیت و افادیت اس کی وسعت اور اس کے مختلف شعبوں کے حسن و قبح کا بخوبی ادراک رکھتے تھے اور ہندوستان جیسے ملک جس میں مختلف مذہب، تہذیب و تمدن اور زبان کے بولنے والے لوگ رہتے ہیں میں ایسی تعلیم کے رواج کے حق میں تھے جو سب کے لئے مفید و کارآمد ہو ۔ اس لئے انہوں نے تعلیم کے ہر شعبہ میں اصلاح کی کوشش کی ، اس کے لئے سرکاری پالیسی کو معاون بناکر ایسے ضروری اقدامات کئے جس سے ہر علاقے ہر طبقے اور ہر گروہ کو تعلیمی سہولیات میسر ہوسکیں۔

    ہندوستان ایک زرعی ملک ہے یہاں کی تقریباً اسی فیصد آبادی دیہاتوں میں رہتی ہے لہٰذا گائوں میں تعلیم کی سہولیات پھیلانے اور زراعت کے پیشے کو تعلیم سے جوڑنے کے لئے انڈین کونسل فار ایگرکلچرل اینڈ سائنٹیفک ریسرچ اور طب کے فروغ کے لئے انڈین کونسل فار میڈیکل ریسر چ جیسے اہم ادارے قائم کئے اس طرح ملک میں تعلیم کی چوطرفہ ترقی کے لئے مولانا آزاد نے جو اقدامات اٹھائے اس کے نتیجے میں آج ہندوستان میں ۲۰۰ سے زائد یونیورسٹیاں ، ہزاروں اہم تعلیمی ادارے اور کالج قائم ہیں اور ان کی تعداد میں روز بروز اضافے ہورہے ہیں۔

    مولانا آزاد نے ہندوستان جیسے ملک میں تعلیم کی توسیع اور فروغ کے لئے جو اپنے پانچ مفکرانہ بنیادی اصول بنائے تھے اس کو ہندوستان کے تعلیمی نظام میں جاری و ساری کرنے کی عملی اور کامیاب کوششیں بھی کی تھیں وہ درج ذیل تھے:

    ٭’’ہندوستان کا اپنا ایک کلچر ہے جس میں اختلاف کے باوجود ایک وحدت اور تبدیلی کے باوجود ایک تسلسل پایا جاتا ہے۔ ‘‘

    ٭’’ہندوستان کے کلچر کو معاشی عناصر سے سمجھوتہ کرنا چاہئے۔ اس صورت میں تعلیمی نظام میں ’’عمل‘‘ کی افادیت کو سمجھنا ہوگا ۔ ہمارے کلچر پر ایک اعتراض یہ ہوتا ہے کہ اس میں تصنع اور بے عملی زیادہ گنجائش ہے گو یہ صحیح نہیں ہے لیکن ہمارے جاگیردارانہ نظام کی وجہ سے ایسے عناصر کو اپنا رنگ دکھانے کا موقع ملا تھا اس لئے ضروری ہے کہ ہمارے فعل و عمل کو معاشی عناصر سے سمجھوتہ کرنا ہوگا۔ ‘‘

    مولانا ابوالکلام آزاد کی فکر وسیع المذہبی اور اسلامی آفاقیت کا ایسا آئینہ تھی جس میں رب کائنات صرف مسلمانوں تک محدود نہیں رہتا بلکہ رب العالمین ہوتا ہے جس کا اکرام بے پایاں ، لامحدود اور ساری انسانیت کے لئے یکساں نظر آتا ہے چنانچہ وہ فرماتے ہیں کہ رب العالمین میں خدا کی عالمگیریت اور ربوبیت کا اعتراف ہے جو ہر فرد جماعت ہر قوم، ہر ملک ، ہر گوشہ وجود کے لئے ہے اور اس لئے یہ اعتراف ان تمام نظریوں کا خاتمہ کردیتا ہے جو دنیا کی مختلف قوموں اور نسلوں میں پیدا ہوگئی تھی۔اس طرح مولانا سارے بنی نوع انسان اور انسانیت کے خیر خواہ تھے اور جس طرح مسلمانوں کی زبوں حالی کو دیکھ کر بے چین ہوجاتے تھے اسی طرح ہندوئوں اور دیگر مذاہب کے ماننے والوں کے لئے بھی ویسی ہی تڑپ اور بے چینی رکھتے تھے اور مسجد جیسی خالص عبادت گاہ کو بھی ساری انسانیت کی بھلائی کا نہ صرف مرکز بنانا چاہتے تھے بلکہ عملی طور پر ایسا کرکے دکھایا بھی کہ جس طرح خدا سب کا ہے اسی طرح اس کا گھر بھی سب کا ہے ، اسے سارے بندوں کے لئے یکساں کھلا رہنا چاہئے۔


                                (مطبوعہ : ’ماہنامہ زبان وا دب، پٹنہ‘‘ نومبر ۲۰۱۳ئ)

Ahsan Alam
Moh: Raham Khan, Darbhanga
Mob: 9431414808


********************************

 

Comments


Login

You are Visitor Number : 1055