donateplease
newsletter
newsletter
rishta online logo
rosemine
Bazme Adab
Google   Site  
Bookmark and Share 
mazameen
Share on Facebook
 
Literary Articles -->> Adbi Gosha
 
Share to Aalmi Urdu Ghar
Author : Dr. Ahsan Alam
Title :
   Maulana Abul Kalam azad Bahaisiat Wazeer Taleem


مولانا ابوالکلام آزاد بحیثیت وزیر تعلیم


ڈاکٹر احسان عالم

رحم خاں، دربھنگہ

 

    مولانا ابولکلام آزاد کی بے پناہ صلاحیتوں کو دیکھتے ہوئے ۱۵؍ جنوری ۱۹۴۷ء کو انہیں وزیر تعلیم بنایا گیا ۔ اس عہدے پر وہ ۲۲؍ فروری ۱۹۵۸ء تک فائز رہے۔ ۱۹۵۵ء میں وزیر تعلیم کے دوران آپ نے یورپ اور مغرب ایشیائی ملکوں کو دورہ کیا۔ مختلف انجمنوں کی دعوت پر آپ نے کئی تقریریں کیں جس کے بہت بہتر اثرات رونما ہوئے۔

    مولانا آزاد حقیقت معنوں میں ایک علمی اور تعلیمی انسان تھے۔ وہ جدید و قدیم علم کی ہر شاہرانہ سے بخوبی واقف تھے۔ انہیں یہ اچھی طرح معلوم تھا کہ علم و تعلیم کیا ہے؟ موجودہ دور میں دنیا کی علمی اور تعلیمی ضرورتیں کیا ہیں؟ ان کی عظمت کی شہادت ہندوستانی ماہرین تعلیم ڈاکٹر ذاکر حسین نے دیا ۔ ڈاکٹر ذاکر حسین وہ شخصیت تھے جنہوں نے جامعہ ملیہ کی فضا سے نکل کر ہندوستان کی صدارت کے عہدہ کو سنبھالا ۔ وہ بنیادی طور پر ایک ماہر تعلیم تھے۔ ان کے تعلیمی خطبات سے ان کی علم کی گہرائیوں کا اندازہ ہوتا ہے۔ انہوں نے مولانا آزاد کے انتقال پر اپنے تعزیتی تقریر میں فرمایا:

’’مولانا ایک ہمہ گیر شخصیت تھے ۔ میں نے اپنی زندگی کی پہلی بتی مولانا کے دیئے سے ہی جلائی تھی۔ کبھی کبھی ان سے ملتا تھا تو ان سے روشنی اور گرمی پاتا تھا۔ انہوں نے آخری دم تک علم کو نہیں چھوڑا۔ ‘‘

(ابوالکلام آزاد، شورش کاشمیری، ص:۲۰۷، ۲۰۱۳ئ)

    خواجہ غلام السیدین ایک ماہر تعلیم کی حیثیت سے عالمگیر شہرت کے مالک تھے۔ مولانا آزاد نے آپ کومرکزی حکومتمیں وزارت تعلیم کے سکریٹری کے عہدہ پر رکھا تھا۔ آپ مولانا کی وفات تک ان کے ساتھ رہے۔ خواجہ صاحب نے مولانا آزاد کے تعلیمی فلسفہ پر کئی مضمون قلم بند کئے۔ ۱۹۵۰ء میں حکومت کاشمیر نے آزادپر ایک سیمینار کرایا۔ اس میں خواجہ صاحب نے بڑا پر مغز مقالہ پیش کیا۔ اس میں انہوں نے بیان کیا کہ ماہر تعلیم کا لفظ دو معنوں میں استعمال ہوتا ہے ۔ ایک تو وہ لوگ جو تعلیم کے اصولوں اور نظریوں کا مطالعہ کرتے ہیں اور اس کا عملی تجربہ اسکولوں اور کالجوں میں کرتے ہیں۔ ان کو تعلیم کا فنی ماہر سمجھا جاتا ہے ۔ دوسرے وہ لوگ جن کو قدرت نے ایک خاص فکر دی ہے جو فلسفہ، مذہب، سیاست میں ایک خاص نظر رکھتے ہیں اور یہ سمجھتے ہیں کہ دنیا میں انسان کا مقام کیا ہے۔ ان کے ذہن میں زندگی کی ایک حسین تصویر رقص کرتی ہے۔ مولانا آزاد کا شمار انہیں ماہرین تعلیم میں تھا۔ جنہوں نے تعلیم کی اہمیت اور ضرورت کو سمجھا تھا۔

    مولانا آزاد نے تعلیم و تربیت کے ہر پہلو کو اپنے فکر کے نقش سے پروان چڑھانے کی کوشش کی۔ صرف اتنا ہی نہیں اس نازک دور میں جس ہنر مندی اور مہارت کے ساتھ راہنمائی فرمائی وہ قابل احترا م ہے۔ انہوں نے اپنے دور وزارت میں بالغوں کے تعلیم کا تصور پیش کیا ہے۔ یہ اسکیم آج بھی جاری ہے۔ تعلیم نسواں کا ایک مستحکم نسخہ دیا۔ موجودہ سرکاریں تعلیم نسواں کا ڈھنڈورا پیٹتی ہیں۔ لیکن یہ مولانا آزاد کے دل و دماغ کی پیداوار ہے۔ جس میں انہوں نے کہا تھا کہ قوم کی عورتوں کو تعلیم یافتہ ہونا لازمی ہے لیکن ایک محدود دائرے میں رہ کر۔ آج عورتوں کی آزادی کا جو تصور وہ وہ ان کے تصور تعلیم سے بالکل میل نہیں کھاتا ہے۔

    سائنس کی اصطلاحیں بنانے کا کام بڑے پیمانے پر کیا۔ یونیورسیٹیوں کی آزادی کا تحفظ کیا۔ انہوں نے کئی سائنسی مضامین بھی قلم بند کئے جن کو پڑھنے کے بعد یہ محسوس ہوتا ہے کہ ان کی دلچسپی سائنس سے کس قدر تھی۔ انہوں نے سائنس پڑھنے کی ترغیب بھی دی لیکن یہ بھی نشاندہی کی کہ اس پر مذہب کا کنٹرول لازمی ہے۔

    مولانا کی تعلیمی بصیرت اور علمی وجاہت پر ڈاکٹر رادھا کرشنن نے دو مقالے تحریر کئے۔ داکٹر رادھا کرشنن ہندوستان کے صدر ہوئے لیکن اصل میں وہ عالمی شہرت یافتہ معلم اور نامور فلسفی ، عالم تھے ۔ انہوں نے مولانا آزادکی وفات پر کہا:

                 ’’مولانا آزاد جدید و قدیم علمی ذہانتوں کے سنگم تھے۔‘‘

    مولانا آزاد نے تعلیم کو ترقی دینے کے مسئلہ پر اظہار خیال کیا اور فرمایا کہ تعلیم بالغان ایک سماجی ضرورت ہے اور تعلیم اطفال ایک بنیادی ضرورت ہے۔ آپ تعلیم کے موضوع پر کئی بصیرت افروز تقریریں کیں۔ اس کے علاوہ آزادی اور تعلیم ، مذہب اور آزادی ، تہذیب و ثقافت، ہندوستانی قومیت، تعلیم اور نوجوان، تعلیم اور ٹکنالوجی، یونیورسیٹوں کا معیار تعلیم، فطرت اور انسان، زندگی اور ادب، جنگ آزادی کی نئی تاریخ کے موضوع پر اپنے خیالات کاا ظہار کیا ۔ ان کی تقاریر کو دیکھ کر دماغ یہ سوچنے پر مجبور ہوجاتا ہے کہ وہ شخص جس نے اپنی زندگی کا زیادہ تر حصہ سیاست کی پرپیچ وادیوں میں گذارا ، وہ علم و ادب اور تہذیب و ثقافت کے مسائل پر اتنا وسیع تخلیقی نگاہ کس طرح رکھ پایا۔ یہ باتیں ان کی علمی لیاقت کی شاہد ہیں۔

    مولانا آزاد نے ۲۱؍ فروری ۱۹۴۷ء کولکھنو میں عربی ، فارسی نصاب تعلیم کی اصلاحی کمیٹی کے اجلاس کی صدارت فرمائی۔ اس موقع پر ایک پر مغز تقریر کی ۔ وہ ان کے علمی صلاحیت کی عمدہ مثال ہے۔ ان کے اس تقریر سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ انہیں عربی زبان سے کس قدر محبت تھی۔ جنوری ۱۹۵۱ء میں مولانا آزاد دارالعلوم دیوبند تشریف لے گئے اور وہاں طلبہ سے خطاب کرتے ہوئے فرمایا:

’’تمہار ا علم مقصد ہے وسیلہ نہیں،مسلمانوں نے علم کو علم کے لئے سیکھا اور اس کا حصول فرض ہے۔ جو علم تم حاصل کر رہے ہو، میں تمہیں یقین دلاتاہوں کہ آسمان کے نیچے اس سے اونچا عزت کا اور کوئی مقام نہیں۔ ‘‘

    مولانا آزاد کو مذہب سے گہرا لگائو تھا۔ وہ ایسے نظام تعلیم کو انسان کے لئے بے کار اور خطرناک مانتے تھے جو مذہب سے دور ہو۔ وہ اکثر فرماتے کہ مذہب ہی انسان کو دماغی سکون بخشتا ہے۔ انہوں نے سائنس کے تعلیم کی بھی پرزور وکالت کی لیکن یہ اکثر کہا کرتے تھے کہ سائنس صرف ثبوت دیتا ہے جب کہ مذہب عقیدہ دیتا ہے۔ مولانا کے نزدیک انسانیت کا حرف آخر مذہب ہے۔

    مولانا ابوالکلام آزاد نے اپنے وزارت کے دوران بہت سے کارنامے انجام دیئے ۔ چند اہم کارنامے اس طرح ہیں:۔

    (۱)عربی ، فارسی اور اردو کی قومی ضرورت اور مستقبل کو دیکھتے ہوئے اسے نصاب تعلیم میں برقرار رکھا ۔

    (۲) ٹیکنیکل ایجوکیشن کو فروغ دیا۔

     (۳) تعلیم بالغان کا منصوبہ بنایا اور اس پر عمل کیا۔

     (۴) یونیورسٹی گرانٹس کمیشن کی تشکیل کی۔

     (۵) تعلیم نسواں پر زور دیا ۔

    (۶) کلچر ل ریلشنز کونسل قائم کی۔

     (۷) ہندوستان (ساہتیہ ) اکادمی قائم کی۔

     (۸) ایک عربی سہ ماہی رسالہ ’’ثقافۃ الہند‘‘ جاری کیا۔

     (۹)آل انڈیا ریڈیو کے شعبہ عربی کی جو اس وقت وزارت تعلیم کے تحت نئی اور بہتر تنظیم کی۔

     (۱۰) انسٹی ٹیوٹ آف ٹکنالوجی قائم کیا۔ 

    (مطبوعہ روزنامہ ’’راشٹریہ سہارا‘‘ پٹنہ، ۱۱؍ نومبر ۲۰۱۴ئ)

٭٭٭

Ahsan Alam,

Moh: Raham Khan,

Darbhanga
Mob: 9431414808

 

Comments


Login

You are Visitor Number : 981