donateplease
newsletter
newsletter
rishta online logo
rosemine
Bazme Adab
Google   Site  
Bookmark and Share 
mazameen
Share on Facebook
 
Literary Articles -->> Adbi Gosha
 
Share to Aalmi Urdu Ghar
Author : Dr. Ahsan Alam
Title :
   Maulana Azad : Aik Azeem Aalime Deen


ڈاکٹر احسان عالم

شریف پور، سیتا مڑھی

 

مولانا آزاد  : ایک عظیم عالم دین


    اسلام ایک زندہ مذہب ہے ، اس میں یہ طاقت ہے کہ وہ زمانہ کے رفتار کے ساتھ بلکہ زمانہ کے رفتار سے بہت تیز گامی سے اپنا سفر کرتا ہے۔ اسلام ایک عہد ایک زمانہ اور ایک تمدن کے لئے نہیں بلکہ اللہ تعالیٰ نے اس مذہب کو ابدیت اور دوام عطا کیا ہے ۔ یہ قیامت تک کے لئے ہے اور اللہ تعالیٰ بحیثیت دین صرف ’’اسلام ‘‘ سے ہی راضی ہے۔ اسلام کو اسی ابدیت نے اسے ہر عہد اور زمانہ کے لئے موزوں ترین دین بنایا ہے۔ اس کا کوئی حکم فرسودہ اور آئوٹ آف ڈیٹ نہیں ہے۔ اس میں آج سے تقریباً چودہ سو سال پہلے جتنی معنویت ، عقلیت اور جدت تھی آج بھی اتنی ہی عقلیت اورمعنویت موجود ہے۔ اگر غور کیا جائے تو ٹکنالوجی کی ترقی اور سائنس کے حیر ت انگیز انکشافات نے اسلامی احکام کی معنویت اور زندگی کو مزید بڑھا دیا ہے۔

    مولانا ابوالکلام آزاد نہ تجدد پسند عالم تھے اورنہ ہی قدامت پسند مفکر، وہ ایک روشن دماغ عالم دین تھے۔ ان کی نظروں سے اسلام کے احکامات کی معنویت اس کی اثر آفرینی اور زمانہ کے تقاضوں کے ساتھ چلنے کی صلاحیت پوشیدہ نہیں تھی۔ ابوالکلام آزاد صرف کارزار سیاست، شہشوار نہیں تھے بلکہ راہ تحقیق کے آبلہ پا مسافر بھی تھے۔ علم وتحقیق کے میدان میں ان کا حریف ہونا آسان کام نہیں ، وہ ہرمیدان کے شہشوار ، ہر مجلس کے میر مجلس اور ہربزم کے شمع انجمن تھے۔ ان کی نظر شریعت اسلامی کے احکامات کی حکمت و اسرارپر بھی تھی  ۔ ان کے سامنے قدیم محققین کی تشریحات، تاویلات ، جدید علماء کی تحقیقات سب کچھ موجود تھیں۔ لیکن وہ راہ علم میں قناعت کو حرام سمجھتے تھے۔ اللہ تعالیٰ نے ایک زندہ اور طاقتور دماغ عطاکیا تھا۔ ان میں مجتہدانہ بصیرت ودیعت کی گئی تھی۔ اس لئے انہوں نے کسی بھی نظریہ کو قبول کرنے سے پہلے علم وتحقیق کی کسوٹی پر کس کر اور اصول شریعت کے ترازو پر تول کر دیکھنا ضروری سمجھا، پھر اگرکوئی نظریہ ، کوئی فکر انہیں درست معلوم ہوئی تو اسے کسی تعصب کے بغیر قبول کیا اور اگر کسی فکر اور نظریہ میں کجروی یا کمی نظر آتی تو ان پر کھل کر بلاخوف تنقید کی۔ مولانا نے اپنی راہ اور وں سے الگ بنائی ہے۔ مشہور مورخ مولانا معین الدین احمد ندوی نے بہت صحیح لکھا ہے:۔

’’ایسی جلیل القدر اور عہد آفرین شخصیتیں مدتوں میں پیدا ہوتی ہیں جو افکار و تصورات کی دنیا اور قوموں و ملتوں کی زندگی میں انقلاب پیدا کردیتی اور تاریخ کا نیا دور شروع کرتی ہیں اور ترقی و تعمیر کی ہر راہ میں اپنے نقش قدم رہنمائی کے لئے چھوڑ جاتی ہیں۔‘‘      

 (مقدمہ ابوالکلام آزاد ص:۶، ضیاء الدین اصلاحی، ط:دارالعلوم مصنفین ، اعظم گڑھ، ۱۹۹۸ئ)

    مولانا ابوالکلام آزاد کے مذہبی افکار و نظریات کو جاننے کے لئے سب سے بیش قیمت ذریعہ ترجمان القرآن ہے، مولانا نے اپنی اس مایہ ناز اور معرکۃ الآرا تفسیر میں قرآن کریم کوسمجھانے کا ایک جداگانہ طریقہ وضع کیا۔ انہوں نے بعض جدید نکات اجاگر کئے ہیں کہیں کہیں انہوں نے قدیم مفسرین اور علماء کے تفسیروں سے اختلاف بھی کیا ہے۔ غالباً مولانا کو اس کا حق تھا کیونکہ ان کو اللہ تعالیٰ نے اجتہاد کی قوت عطا کی تھی ،اس کا تقاضہ بھی یہی تھا کہ کسی بھی نظریہ کو دلیل و شوابد کی کسوٹی پر پرکھنے کے بعد ہی تسلیم کریں اور صرف اس لئے کسی کی بات اور جدید نظریہ کو اجاگر کرنے سے گریز کریں کہ اس کا قائل متقدین میں سے کوئی نہیں ہے ۔ یہ مولانا کے لئے ممکن نہ تھا۔ یہ عجیب بات ہے کہ جن چیزوں کا اختیار پہلے والوں کو دیا گیا۔انہیں چیزوں سے بعد کو آنے والوں کوکیوں روکا جارہا ہے۔ پتہ نہیں یہ نظریہ کب اور کیسے قائم ہوگیا کہ دوسری تیسری صدی کے بعد مجتہدین کا دور ختم ہوگیا ہے اور بعد کو آنے والوں کو اجتہاد کا حق نہیں اس کا رونا علامہ ابن قیمؒ نے بھی رویا ہے ۔ اور متاخرین مولانا سید مناظر احسن گیلانی نے بھی بار بار اس کا اس کا تذکرہ کیا ہے۔ مولانا گیلانی نے تو یہاں تک لکھا ہے کہ:۔

’’جب ابن قیم کو ان سے پہلے والوں پر اور دیگر محققین کو ان سے پہلے کے بزرگوں پر تنقید کا حق مل سکتا ہے تو مجھے اس حق سے کیوں محروم کیا گیا‘‘ ۔    

( دیباچہ طبع اول ترجمان القرآن ، جلد:۱ ، ص:۳۲، ابوالکلام آزاد، ساہتیہ اکیڈمی)

    غرض کہ مولانا ابوالکلام آزاد بھی انہی لوگوں میں تھے جو اجتہادکی صلاحیت رکھتے تھے۔ چنانچہ انہوں نے اپنی ایک نئی راہ تلاش کی او ران کی تفسیر عہد حاضر کے تغیرات اور ترقیوں کو سامنے رکھ کر کی۔

    مولانا کا سب سے بڑا علمی کارنامہ ان کی تفسیر ’’ترجمان القرآن ‘‘ ہے۔ اس میں بطور خاص سورہ فاتحہ کی تفسیر مولانا کا شاہکار ہے۔ دوسری سورتوں کی تفسیر مع حواشی و اشارات اور مختصر نوٹ کی صورت میں ہے ؛ جس میں مطالب کو زیادہ تفصیلی انداز میں بیان نہیں کیا گیا ہے ۔ لیکن سورہ فاتحہ کی تفسیر میں مولانا نے بہت تفصیل سے کام لیا ہے۔ کیونکہ سورہ فاتحہ قرآن مجید کا مقدمہ اور دیباچہ ہے۔ کہا جاتا ہے کہ قرآن کریم کی تمام سورتوں میں دین کے جو احکام جابجا ذکر کئے گئے ہیں ،سورہ فاتحہ میں ان تمام مسائل و احکام و معارف کا اجمالاً ذکر ہے۔ اس لئے مصنف نے یہ ضروری سمجھا کہ قرآن کریم کے دیباچے کو قارئین کو اچھی طرح ذہن نشیں کرایا جائے  تاکہ اگر سوئے قسمت کسی کو پورے قرآن اور اس کے مطالعے اور اس پر تدبر کا موقع نہ مل سکے ؛تو کم از کم سورہ فاتحہ کی تفسیر پڑھ کر اس کی روح سے کسی حد تک واقف ہوجائے ۔ لیکن ہمارے لئے یہاں ان تمام خصوصیات و خوبیوں کی نشاندہی ممکن نہیں نہ ہی ان حقائق و معارف اور نکات کا احاطہ ممکن ہے جو مولانا کے اخاز دماغ کی دین ہے ۔

    مولانا نے اپنی تفسیر کے شروع میں ایک دیباچہ تحریرکیا ہے جس کے مطالعے سے ان کے مذہبی نظریا ت واضح ہوتے ہیں۔ اس دیباچے میں مولانا نے اپنی تفسیر لکھنے کی وجوہات پر بھی روشنی ڈالی ہے ۔ مولانا کہتے ہیں کہ مختلف اسباب کی وجہ سے قرآن کریم کے تدبر کا حقیقی طریقہ ختم ہوگیا تھا ۔ زمانے کے تغیرات اور آب وہوا کی تبدیلی نے قرآن کریم کے تفسیر لکھنے والوں کے نقاط نظر بدل دیئے۔ قرآن کے معارف حقیقی اور فطری سرچشمہ تلاش کرنے کے بجائے دور ازکار مباحث شروع کردئے گئے۔ مسلمانوں کے دماغی تنزل نے قرآن کریم کے فہم کے طریقے کو بھی بدل دیا۔ عہد صحابہ اور دو راول میں فہم قرآن کا جو حقیقی طریقہ تھا ،بعد کے لوگوں نے اس منہج سے روگردانی شروع کردی۔ اس کے نیتجے میں قرآن کریم کی کبھی کبھی ایسی تفسیر بھی وجود میں آگئیں جو الفاظ قرآن تک سے ہم آہنگ نہ تھی۔ چنانچہ مولانا لکھتے ہیں :۔

    ’’قرآن کریم اپنی وضع ، اپنے اسلوب ، اپنے انداز بیان ، اپنے طریقہ خطاب ، اپنے طریقہ استدلال غرض کے اپنی ہر بات میں ہمارے وضعی اور صناعی طریقوں کا پابند نہیں ہے اور اسے نہ ہونا چاہئے۔ وہ اپنی ہر بات میں اپنا بے میل فطری طریقہ رکھتا ہے اور یہی وہ بے امتیازی بنیاد ہے جو انبیاء کرام (علیہ السلام ) کے طریقے ہدایت کو علم و حکمت کے وضعی طریقوں سے ممتاز کردیتا ہے‘‘۔

             ( دیباچہ طبع اول ترجمان القرآن ، جلد:۱ ، ص:۳۳، ابوالکلام آزاد، ساہتیہ اکیڈمی)

    قرآن کریم کے جو اولین مخاطب تھے وہ سادہ لوح اور سادہ مزاج افراد، تمدن کے مصنوعی سانچوں میں ان کا دماغ ڈھلا ہوا نہ تھا بلکہ ان کا دماغ ان کی زندگی کی طرح خدا کے فطری سانچے میں ڈھلا ہوا تھا۔ وہ فطرت کی سیدھی سادی فکری حالت پر قانع تھے۔ اس لئے انہوں نے قرآن کریم کوسیدھے طور پر اسی طرح سمجھا جس طرح اللہ تعالیٰ انہیں سمجھانا چاہتا تھا۔ نہ یہاں قیل و قال تھی اور نہ رد و قدح۔ صحابہ کرام کے فکری سادگی کا نتیجہ یہ تھا کہ وہ جب بھی کوئی ایک آیت سنتے فوراً ہی اس کی سادی اور فطری حقیقت پاجاتے تھے۔ لیکن بعد کومرور زمانہ نے تمدنی تبدیلی کی ہوا چلائی، اس نے انسان کے فطری سانچہ فکر کو توڑ دیا ۔ ہر چیز کے لئے مصنوعی سانچے ڈھالے گئے ۔ اس کا لازمی اثر عام مسلمانوں اور علماء پر بھی پڑا ۔ نتیجہ یہ ہو اہے کہ انہوں نے تفسیر قرآن اور تدبر کتاب اللہ میں بھی اسی مصنوعی انداز کو راہ دے دی؛ جس سے عہد اول ناآشنا تھی ۔ مولانا ابولکلام آزاد انہیں مصنوعی سانچے کو توڑ کر مذہب کی فکر کو اسی اساس پر قائم کرنے کی کوشش کی؛ جس پر صحابہ کرام تھے ۔ ا س کے لئے لازمی تھا کہ قرآن کریم کی تفسیر کے تعلق سے پیدا ہونے والی غلط فہمیوں کا ازالہ کیا جائے۔ ا س لئے مولانا نے ان طریقہ ہائے قدیم کو تنقید کا نشانہ بنایا جو تفسیری کتابوں میں رائج ہوگئی تھی ۔ آپ تحریر فرماتے ہیں :۔

    ’’لیکن صدر اول کا وہ دور ابھی ختم نہیں ہوا تھا کہ روم و ایران کے تمدن کی ہوائیں چلنے لگیں اور پھر یونانی علوم کے تراجم نے علوم و فنون وضعیہ کا دور شروع کردیا ۔ نیتجہ یہ نکلا کہ جوں جوں وضیعت کا ذوق بڑھتا گیا قرآن کے فطری اسلوبوں سے طبعیتں ناآشنا ہوتی گئیں ۔ رفتہ رفتہ و ہ وقت آگیا کی قرآن کا ہر حرف وضعی او ر صناعی طریقوں کے سانچے میں ڈھالا جانے لگا ۔ چونکہ ان سانچوں میں وہ ڈھل نہیںسکتے تھے ،اس لئے ہر طرح کے الجھائو پیدا ہونے لگے اور پھر جس قدر کوشش سلجھائو کی کی گئی الجھائو اور زیادہ بڑھتے گئے‘‘۔

             ( دیباچہ طبع اول ترجمان القرآن ، جلد:۱ ، ص:۳۴، ابوالکلام آزاد، ساہتیہ اکیڈمی)

    بعد کے لوگوں میں اسی طریقے کے رواج پر تنقید کرتے ہوئے مولانا بہت ہی نرم لہجے میں کہتے ہیں:۔

    ’’سلف کی طبیعتیں وضعی طریقوں میں نہیں ڈھلی تھیں۔ اس لئے وہ قرآن کی سیدھی سادی حقیقت بے ساختہ پہچان لیتے تھے ۔ لیکن خلف کی طبعیتوں پہ یہ بات شاق گزرنے لگی کہ قرآن اپنی سیدھی سادی شکل میں نمایاں ہو ، ان کی وضعیت پسندی اس پر قانع نہیں ہوسکتی تھی۔ انہوں نے قرآن کی ہر بات کے لئے وضعیت کے جامے تیار کرنے شروع کردیئے اور چونکہ یہ جامے ان پر راست نہیں آسکتا تھا اس لئے بہ تکلف پہنانا چاہا ۔ نتیجہ یہ نکلا کہ حقیقت کی موزونیت باقی نہ رہی ۔ ہر بات ناموزوں اور الجھی بن کر رہ گئی ۔

             ( دیباچہ طبع اول ترجمان القرآن ، جلد:۱ ، ص:۳۲، ابوالکلام آزاد، ساہتیہ اکیڈمی)

 اس طرح مولانا آزاد کا اسلامی نظریہ دیگر علمائوں سے بہت حد تک جدا تھا ۔

 (مطبوعہ ’’قومی تنظیم‘‘ پٹنہ، ۷ فروری ۲۰۱۴ئ، پندار، ۲۶ فروری ۲۰۱۴ئ)


٭٭٭

Ahsan Alam
Raham Khan, Darbhanga
Mob: 9431414808
E-mail:- ahsanalam16@yahoo.com

 

Comments


Login

You are Visitor Number : 864