donateplease
newsletter
newsletter
rishta online logo
rosemine
Bazme Adab
Google   Site  
Bookmark and Share 
mazameen
Share on Facebook
 
Literary Articles -->> Adbi Gosha
 
Share to Aalmi Urdu Ghar
Author : Dr. Ahsan Alam
Title :
   Maulana Azad Aur Hindustani Qaumiat Ka Masla


ڈاکٹراحسان عالم

رحم خاں، دربھنگہ

 

مولانا آزاد اورہندوستانی قومیت کا مسئلہ

 

    کچھ شخصیتوں کو اللہ تبارک و تعالیٰ اس سرزمین پر کچھ خاص کارنامے کرکے ایک مثال قائم کرنے کے لئے بھیجتے ہیں۔ ایسی ہی ایک مثالی شخصیت کا نام مولاناابوالکلام آزاد ہے۔آزاد کئی اعتبار سے منفرد اور اپنی مثال آپ تھے ، اس لئے ان کی قدر و قیمت کا اندازہ لگانا ہر کسی کے بس کی بات نہیں ہے۔ اپنی زندگی میں جو کام انہوں نے انجام دیئے ، خواہ وہ ایک عالم کی حیثیت سے ہوں، خواہ ایک ادیب، مفکر ، دانشور، تحریک آزادی کے قائد ان سب میں ان کی ایک منفرد شان جھلکتی تھی۔

    مولانا ابوالکلام آزادنے کانگریس میں رہ کر آزادی وطن کے لئے جو تحریکیں چلا ئیں اور ہندو مسلم اتحاد کے لئے جو منصوبے او ر نقشے تیار کیے، کانگریس اس راہ پر گامزن رہی۔ اور ان کی کوششوں سے پوری مسلم امت آزادی وطن کو مذہبی فریضہ سمجھ کر اس میں حصہ لیتی رہی۔ کیونکہ مولانا آزاد کا یہ سبق مسلمانوں کے دلوں میں جاگزیں ہوچکا تھا ،کہ وطن کو آزادی دلانا ان کا عین دینی فریضہ ہے۔ان کی نظر میں اسلام قومیت، جمہوریت اور سیکولرزم کی راہ میں حائل نہیں ہے۔ مولانا کا یہ سبق اور ’’الہلال‘‘ کی یہ صدا ان کے ذہن و دماغ میں گونج رہی تھی :

    ’’ہندئوں کے لئے ملک کی آزادی میں حصہ لینا داخل حب الوطنی ہے۔ لیکن مسلمانوں کے لئے ایک فرض دینی اور داخل جہاد فی سبیل اللہ ہے۔ اللہ نے ان کو اپنی راہ میں مجاہد بنایا ہے۔ اور جہاد کے معنی ہیں ہر وہ کوشش داخل ہے جو حق و صداقت اور انسانی بندو استبداد و غلامی کو توڑنے کے لئے کی جائے۔ ‘‘

                            (خطبات آزاد ، ص:۲۹۷ تا ۳۰۰)

    مسلمان اسی راہ صداقت پر چلتے رہے اور سلسلہ ۱۹۳۰ء تک قائم رہا۔ ۱۹۳۰ء کے بعد حالات نے نئی کروٹ لی۔ ساحران فرنگ نے دو قومی نظریہ کا افسوں پھونکا، اور مسلمان مولانا کی راہ سے ہٹ گئے۔ موہوم خدشات، شبہات نے ان کے دلوں میں سر اٹھایا۔ وہ وقتی جذبات کے سیلاب میں درخت کے ٹوٹے پتے کی طرح بہنے لگے۔ حقیقت پسند نگاہیں بند کرلیں۔ ہنگامی نعروں اور پرفریب دعووں پر فریفتہ ہوگئے۔ ان کی اکثریت مملکت خداداد کے حسین خوابوں میں ڈوبتی چلی گئی۔ لیکن مولانا پوری قوت سے اپنے نظریہ اور اصول اتحاد ہند پر قائم رہے۔ مزاحمت کرنے والوں کے تمام شک و شبہات بھی دور فرماتے رہے۔ انگریزوں کے اشارے پر دینی اور مذہبی ملتوں کی طرف سے جب آزادی و اتحاد کو دین اور مذہب کے خلاف ثابت کرنے کی مہم شروع ہوئی، تو مولانانے اس غلط بیانی اور غیر اسلامی فکر کو پردہ فاش کیا۔ اور بتایا کہ آزادی انسان کا فطری حق ہے۔ کوئی مذہب اپنے ماننے والوں کو اس حق سے محروم نہیں کرسکتا ہے ۔ ملک کی آزادی کے لئے جہاد کو فرض دین قرارد یا۔ انہیں یہ احساس دلایا کہ مسلمان ہی دنیا کو اصلی اور حقیقی جمہوریت کا چہرہ دیکھا سکتے ہیں۔ انہوں نے یہ ثابت کیا کہ اسلام اور قومیت میں کوئی تضاد نہیں ہے۔ مسلمانوں کے لئے ہندوستان کی خدمت اور اس کی ترقی و فلاح کی فکر اسلامی فریضہ میں داخل ہے۔ وہ کاروان آزادی و حریت میں نام و نمود کے لئے نہیں بلکہ اس لئے شامل ہوئے تھے، کہ وہ اسے اپنا مذہبی فریضہ اور اسلامی تعلیمات کا لازمی تقاضہ سمجھتے تھے۔ وہ مذہب اور سیاست، دین اور دنیا کی تفریق کو محض جاہلانہ فکر سمجھتے تھے۔ انہوں نے ۱۹۴۰ء میں رام گڑھ کے اجلاس میں اپنے صدارتی خطاب میں پورے وثوق و اعتماد سے فرمایا:

    ’’میں مسلمان ہوں اور فخر کے ساتھ محسوس کرتا ہوں کہ مسلمان ہوں ۔ اسلام کی تیرہ سو برس کی شاندار روایتیں میرے ورثے میں آئی ہیں۔ میں تیار نہیں کہ اس کا کوئی چھوٹا سے چھوٹا بھی ضائع ہونے دوں۔ اسلام کی تعلیم، اسلام کی تاریخ ، اسلام کے علوم و فنون، اسلام کی تہذیب ، میر ی دولت کا سرمایہ اور میرا فرض ہے کہ اس کی حفاظت کروں ۔ بحیثیت مسلمان ہونے کے میں مذہبی اور کلچرل دائرے میں اپنی خاص ہستی رکھتا ہوں اور میں برداشت نہیں کرسکتا کہ اس میں کوئی مداخلت کرے۔ لیکن ان تمام احساسات کے ساتھ میں ایک اور احساس رکھتا ہوں ، جسے میری زندگی کی حقیقتوں نے پیدا کیا ہے۔ اسلام کی روح مجھے اس سے نہیں روکتی۔ وہ اس راہ میں میری رہنمائی کرتی ہے ۔ میں فخر کے ساتھ محسوس کرتا ہوں کہ میں ہندوستانی ہوں ۔ میں ہندوستانی کی ایک اور ناقابل تقسیم متحدہ قومیت کا ایک عنصر ہوں۔ میں ا س متحدہ قومیت کا ایک ایسا اہم عنصر ہوں جس کے بغیر اس کی عظمت کا ہیکل ادھورا رہ جاتا ہے۔ میں اس کی تکوین(بناوٹ) کا ایک عامل(Factor)ہوں۔ لیکن میں اپنے اس دعوے سے کبھی دست بردار نہیں ہوسکتا۔ ہم نے اسے (ہندوستان) کو اسلام کے ذخیرے کی سب سے قیمتی وہ چیز دی ہے جس کی اسے سب سے زیادہ احتیاج تھی۔ ہم نے اسے جمہوریت اور انسانی مساوات کا پیغام پہونچادیا۔ تاریخ کی پوری گیارہ صدیاں اس واقعہ پر گزر چکی ہے۔ اب اسلام بھی اس سرزمین پر ویسا ہی دعویٰ رکھتا ہے جیسا دعوی ہندو مذہب کا ہے۔ ہماری اس ایک ہزار سال کی مشترک زندگی نے ایک متحدہ قومیت کا سانچہ ڈھال دیا ہے۔ ہم پسند کریں نہ کریں مگر اب ہم ایک ہندوستانی قوم اور ناقابل تقسیم ہندوستانی قوم بن چکے ہیں۔ ‘‘

                      (مضامین ابوالکلام آزاد ، ج:۴ ، ص:۵۷، مرتب: منشی مشتاق احمد)

    مولانا آزاد تقسیم وطن اور نظریہ پاکستان کی مخالفت میں مسلسل مضامین لکھتے رہے۔ اور مسلمانوں کو یہ سمجھاتے رہے کہ متحدہ قومیت کا نظریہ ہی راہ نجات ہے۔ یہی اسلامی نظریہ ہے ، ہندوستان ہمارا وطن ہے اور ہماری محبتوں کا سب سے بڑا سرمایہ ہے۔ اس کا احترام، اس کی حفاظت ہمارا مذہبی فریضہ ہے۔ چنانچہ لکھتے ہیں:

’’اگر تمام عالم ہمارا وطن ہے اور اس لئے محترم ہے تو وہ خاک تو بدرجہ اولیٰ احترام کی مستحق ہے جس کی آب وہوا میں صدیوں سے پرورش پارہے ہیں۔ اگر تمام فرزندان انسانیت ہمارے بھائی ہیں تو وہ انسان تو بدرجہ اولی ہمارے احترام اور اخوت کے مستحق ہیں جو اسی خاک کے فرزند اور مثل ہمارے اسی سطح پر بہنے والے پانی کے پینے والے اور اسی فضا محبوب کو پیار کرنے والے ہیں۔‘‘

                 (مضامین ابوالکلام آزاد ، ج:۴ ، ص:۹۰، مرتب: منشی مشتاق احمد)

    مولانا ایک طرف دو قومی نظریہ کی مخالفت کی صدا بلند کرتے رہے، متحد قومیت کی طرف بلاتے رہے۔ لیکن افسوس کہ دوسری طرف چند مفاد پرست رہنما دو قومی نظریہ یا بالفاظ دیگر نظریہ پاکستان کو ہوا دے رہے تھے۔ اور یہ پرچار کر رہے تھے کہ ہندوستان میں مختلف قومیں آباد ہیں۔ ایک ہندو اور دوسرے مسلمان ۔ اس لئے متحدہ قومیت کے نام پر یہاں کوئی مطالبہ نہیں کیا جاسکتا ہے۔ دوسرے یہ کہ مسلمانوں کی تعداد ہندئوں کے مقابلہ بہت کم ہے۔ اس لئے یہاں جمہوری اداروں کے قیام کا لازمی نتیجہ نکلے گا کہ ہندو اکثریت کی حکومت قائم ہوجائے گی اور مسلمانوں کے ہستی خطرے میں پڑجائے گی۔

    دین کے نام پر دینی اور ایمان کے نام پر بے ایمانی کی بدترین مثال قائم کی جارہی تھی۔ افواہوں کا بازار گرم کیا جارہا تھا ۔ اپنے مفاد کی روٹی سیکی جارہی تھی۔ اسلام اور اسلامی ملک کے قیام کے نام پر مسلم لیگ مسلمانوں کو گمراہ کررہی تھی ۔ لیکن مولانا کی مومنانہ بصیرت اس سازش اور فتنہ کا پس پردہ کام کر رہے ہاتھ کو دیکھ رہی تھی ۔ یہ کہتے تھے کہ یہ مسلم لیگ کے دماغ کی اپج نہیں ہے بلکہ انگریزوں نے تحریک آزادی کے سیل رواں کو روکنے کے لئے یہ ہوا کھڑا کیا ہے۔ چنانچہ مولانا اپنے یادگار عدالتی بیان (قول فیصل) میں فرماتے ہیں:

’’گورنمنٹ کی تفرقہ انداز پالیسی نے انہیں اس فریب میں مبتلا کر رکھا تھا کہ ملک میں ہندوئوں کی تعداد زیادہ ہے۔ ہندوستان اگر آزاد ہوگیا تو ہندو گورنمنٹ قائم ہوجائے گی مگر الہلال نے مسلمانوں کو تعداد کی جگہ ایمان پر اعتقاد کرنے کی تلقین کی اور بے خوف ہندئوں کے ساتھ مل جانے کی دعوت دی۔ اسی سے وہ تبدیلیاں رونما ہوئیں جن کا نتیجہ آج متحدہ تحریک و خلافت و سوراج ہے۔‘‘    

(الہلال ، بحوالہ مولانا ابوالکلام آزاد، ص:۲۷۹)


    ہندوئوں کے فرقہ پرست افراد اور جماعتیں بھی مسلمانوں کے خلاف زہر افشانی کرکے مسلم لیگ کو اس کا موقع دیتی تھیں، کہ مسلمانوں کا رخ دو قومی نظریہ کی جانب مائل کرکے ان کو ہندئوں سے کاٹ دیں۔ ملک کی تحریک آزادی سے انہیں کسی طرح الگ کردیں ۔ مولانا کی نظر فرقہ پرست ہندئوں کی اس شازش پر بھی تھی ،کہ ان فرقہ پرستوں نے ہندؤں کی طرف سے مسلمانوں میں بدگمانی کی جو بیج بوئی اس مسلمان لیگ کی طرف مائل ہو رہے ہیں ۔ مولانا نے رام گڑھ کے تاریخی خطبہ صدارت میں اس کا مکمل تجزیہ کرتے ہوئے ارشاد فرمایا:

’’ہندوستان کے لئے یہ قدرت کا فیصلہ ہوچکا تھا کہ اس کی سرزمین انسان کی مختلف نسلوں ، مختلف تہذیبوں اور مختلف مذہبوں کے قافلوں کی منزل بنے۔ ابھی تاریخ کی صبح بھی نمودار نہیں ہوئی تھی کہ ان قافلوں کی آمد شروع ہوگی۔ اور پھر ایک کے بعد ایک کا سلسلہ جاری رہا اور اس کی وسیع سرزمین سب کا استقبال کرتی رہی، اور اس کی فیاض گود نے سب کے لئے جگہ نکالی۔ انہیں قافلوں میں آخری قافلہ ہم پیروان اسلام کا بھی تھا۔ یہ بھی پیچھے قافلوں کی نشان راہ پہ چلتا ہوا یہاں تک پہونچا اور ہمیشہ کے لئے بس گیا۔ یہ دنیا کی دو مختلف قوموں اور تہذیبوں کے دو دھاروں کا میلان تھا۔ یہ گنگا جمنا کی دھاروں کی طرح سے ایک دوسرے سے الگ بہتے رہے۔ لیکن پھر جیسا کہ قدرت کا اٹل قانون ہے دونوں کو ایک سنگم میں مل جانا پڑا۔ ان دونوں کا میل تاریخ کا ایک عظیم الشان واقعہ تھا جس دن یہ واقعہ ظہور میں آیا۔ اسی دن قدرت کے مخفی ہاتھوں نے پرانے ہندوستان کی جگہ ایک نئے ہندوستان کے ڈھالنے کا کام شروع کردیا۔ ۔۔۔۔۔  

 (خطبات آزاد ، ص:۲۰۵)

           غرض کہ مولانا آزاد نے ہر موقع پر اور ہر طرح تقسیم وطن اور دو قومی نظریہ کی مخالفت کی ۔ انہوں نے ایک قومی نظریہ یا متحدہ قومیت کے اپنے نظریہ کو ہر قیمت پر منوانے کی کوشش کی۔ تقسیم وطن یا دو قومی نظریہ یاپاکستان کے مخالفین میں صرف مولانا ہی نہیں تھے، بلکہ اس میں ایک نام شیخ الاسلام مولانا حسین احمد مدنی کا ہے۔ شیخ الاسلام بھی متحدہ قومیت کے پرجوش حامی تھے۔ مولانا مدنی نے آزادی وطن کے لئے جو قربانیاں دیں وہ تاریخ کے سنہرے اوراق میں محفوظ ہیں۔ شیخ الاسلام کا نظریہ پاکستان کی مخالفت یا بالفاظ دیگر مولانا آزاد کی تائید بڑی معنویت کی حامل ہے۔ کیونکہ وہ صرف سیاسی قائد نہ تھے بلکہ عرب و عجم کے شیخ و مرشد اور مدینۃ الرسول کے محدث تھے۔ ان کی نگاہیں بھی پاکستان کے نام پر آنے والے فسادکو دیکھ رہی تھیں۔ شیخ الاسلام مولانا آزاد اور ان جیسے دیگر رہنمائوں کو یقین تھا کہ تقسیم سے ملک کو صدمہ پہونچنے کے علاوہ ایسی قیامت برپا ہوگی ،جس کا اس وقت تصور بھی نہیں کیا جاسکتا تھا۔ ان کی نگاہیں وہی تماشہ اور بربادیوں کا منظر کھلی آنکھوں سے دیکھ رہی تھیں، جو بعد کو پیش آئے۔ چنانچہ مولانانے اس وقت قوم مسلم کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا تھا:

’’تم کو یہ سبز باغ دکھایا جارہا ہے۔ آئندہ جب اس کے ہولناک نتائج سامنے آئیں گے اور تم اپنی آنکھوں سے دیکھ لوگے تب تم کو ہوش آئے گا اور اپنی غلطی کا احساس کروگے اور تمہاری حمایت کا دم بھرنے والے بالکل غائب ہوجائیں گے۔ ‘‘   

 (مولانا ابوالکلام آزاد تحریک آزادی و یکجہتی، ص:۱۸، خان عبدالودود خان)

    مگر اس وقت جذبات کے طوفان میں بہنے والے پاکستان کے متوالوں کویہ ہوش کہاں تھا کہ وہ مولانا کی صدائے زندگانی پر کان دھرتے۔ انہوں نے قرآن کی زبان میں ہدایت اور روشنی کے بدلے گمراہی اور تاریکی کا سودا کرلیا تھا۔

    تقسیم وطن اور قیام پاکستان کے بعد کے واقعا ت نے ثابت کر دیا کہ مولانا آزاد اور شیخ الاسلام کے فکر میں کتنی اصابت تھی۔ ان کی نگاہیں جو دیکھ رہی تھیں، ان تمام چیزوں کا ظہور ہوا اور ہو رہا ہے۔ آج بھی پاکستان کے اندر ونی حالات پاکستان کے حامیوں کی روح کو یقینا تڑپا رہی ہوگی۔ اگر قدرت انہیں دوبارہ اس دنیا میں بھیج دے، تو ممکن ہے کہ وہ مولانا سے معذرت کے طلب گار ہوں گے۔ اب تو خود پاکستان میں بھی یہ آواز بلند ہونے لگی ہے کہ پاکستان کا قیام مسلمانوں کی ایک تاریخی غلطی تھی۔

٭٭٭

Ahsan Alam
Raham Khan, Darbhanga
Mob: 9431414808
E-mail ahsanalam16@yahoo.com

 

Comments


Login

You are Visitor Number : 735