donateplease
newsletter
newsletter
rishta online logo
rosemine
Bazme Adab
Google   Site  
Bookmark and Share 
mazameen
Share on Facebook
 
Literary Articles -->> Adbi Gosha
 
Share to Aalmi Urdu Ghar
Author : Dr. Atiya Begam
Title :
   Daccani Masnuyat Me Kadam Rao Padam Rao Ka Moqam o Martaba


 دکنی مثنویات میں کدم رائو پدم رائو کا مقام و مرتبہ


ڈاکٹر عطیہ بیگم ‘لیکچرر انڈین بی.ایڈ کالج بیدر‘

 ملتا نی کا لو نی بیدر


    بہمنی دور کے علمی کارناموں پر روشنی ڈا لیں تو ایسا خزانی نظر آتا ہے ۔جسکی نظیر کہیں نہیں ملتی ۔ عہد بہمنی میں دکنی میں لکھی جا نے وا لی پہلی مثنوی ’’ فخردین نظا می‘‘ کی کدم رائو پدم رائو ہے ۔جو ۱۴۳۰ئ۱۴۳۵ء کے درمیان لکھی گئی ۔ ہم یوں بھی کہہ سکتے ہیں  ۔اُردو کی پہلی عشقیہ مثنوی ہے جو سلطنت کے نویں با دشاہ احمد شاہ بہمن کے دور میں لکھی گئی۔

             بقول نصیرالدین ہا شمی
        ’’اس مثنوی کا زمانہء تصنیف۸۲۵ہ
          اور ۸۲۷ہ کا درمیانی عرصہ قراردیاہے۔ ‘‘۱

    تا ریخ سے پتہ چلتا ہے کہ اس مثنوی کا صرف ایک نسخہ دستیاب ہوا ہے اس میں سنکرت، دکنی ، ہندی ، اور علاقا ئی کے الفاظ کثرت سے استعمال ہو ئے ہیں ۔ مثنوی کے ابتدا ئی اشعار اسطرح ہیں

          ۱۔      شہنشہ بڑا شاہ احمد کنوار
            پِرت پال سنار کرتا آدھار
          ۲۔     دھنیں تاج کا کون راجا ابھنگ
                   کنور شاہ کا شاہ احمد بھجنگ
            ۳۔    لقب شہہ علی آل بہمن ولی
                   ولی تھے بہت بدھ تدا گلی

اس دور میں کئی ایک مثنویاں لکھی گئیں جن میں ،نو سرہار ، خوشنامہ ، پھول بن،علی نامہ ، کلمتہ الحقائق، مینا ستونتی  من لگن ؛ گلشن عشق   و غیرہ ۔ چنا نچہ تمام مثنویوں میں ا فضل مقام ’’ کدم رائو پدم رائو‘‘ کا ہے ۔ ان مثنویوں میں جو زبان استعمال ہوئی ہے ، کہیں گجر ا تی تو کہیں سنکرت ہے                
 
مثنوی میں نظامی نے ایک جگہ لفظ سنگھا سن کا استعمال کیا ہے ۔ جس سے پتہ چلتا ہے کہ یہ قصہ سنگھا سن بیتی سے ما خوذ ہے۔

ایسی مثنویوں کا مقابلہ اگر ہم ’’مثنوی کدم رائو پدم رائو ‘‘ سے کرئے تو اس کی زبان بہت مشکل ہے اس میں سنکرت و پراکرت علا قا ئی

زبا نوں کے الفاظ کا گہرا اثر ملتا ہے ۔ مثنوی کی زبان مشکل ہو نے کے کچھ اسباب ہیں ۔ کیونکہ اس کی زبان صدیوں پرانی ہے  ۔مثنوی کا قصہ ہی مزاج کے اعتبار سے ہندوی روایت کا حامل ہے ۔ غرض کہ جس علا قے میں یہ لکھی گئی تھی ۔وہ کنڑی زبان کا علاقہ تھا ۔ جمیل جا لبی ’تا ریخ ادب اُردو  ‘ص نمبر۱۶۴ میں  مثنوی کے دو اسلوب ظا ہر کئے ہیں ۔

                   ـ’’کدم رائو پدم رائو میں دو اسلوب ملتے ہیں
                      ایک اسلوب وہ ہے جس پر ہندوی روا یت
                 کا اثر گہرا ہے ۔ دوسرا گجراتی روا یت ۔  ‘‘  ۲

    چنانچہ اس میں وہی رنگ غا لب ہے جو گجر ی اُردوکہلا تا ہے ۔  جمیل جا لبی نے مثنو ی میں پنجا بی ‘ سندی ‘ راجستھا نی ‘ کھڑی ‘ برج بھا شا ‘ گجری اور مراٹھی کی بہت سی لغات کا تجزیہ کرکے مثنوی کے لسانی خدو خال پر رو شنی ڈا لنے کی کو شیش کی ہے ۔   زبان وبیان میں مختلف بو لیوں کے الفاظ بہت زیادہ استعمال ہو ئے ہیں مثلاََ چِت(دل)نا ری (عورت) پران (جان) پونچ (دم) نانو  (نام) رائو (راجہ) وغیر ہ یہی سبسب ہے کہ مثنوی کا مقام و مر تبہ دو سری مثنویوں کے مقا بلے میں افضل ہے ۔ اس کی زبان کو سمجھنا بے حد مشکل ہے ۔ لیکن اس کی خوبیوں کو ’ جمیل جا لبی‘  اُ ردو زبان و ادب کی تا ریخ  ص نمبر ۹۰ میں لکھتے ہیں۔

            ’’ مثنوی کدم رائو پدم ر ائو سا ڑھے پا نچ سو سال
            سے زیادہ پرا نی مثنوی ہے اور اُردو ادب کے
            اولین روا یت کی نما ئندہ ہے ۔ جس کثرت
            سے اس میں ضربالامثال اور محاورے استعمال
             ہو ئے ہیں ۔ وہ اس بات کا ثبوت ہیں کہ یہ زبان
            صدیوں پرا نی ہے ۔‘‘ ۳

ایسا معلوم ہو تا ہے کہ کدم رائو پدم رائو کی حیثیت اُس زما نے میں وہی تھی۔جو ’’ کر بل کتھا‘‘ کی اُردو میں رہی ہے ۔محاورے کسی

زبان میں ایک دم پیدا نہیں ہو تے۔جب زبان اپنے ارتقا ء کے ایک دور  سے گزرکر طویل سفر طے کر چکی ہے ۔ تب کہیں استعا روں میں بات کر نے کا سلیقہ پیدا ہو تا ہے ۔ اور جب یہ استعا رے کثرت ِ استعمال سے مر جا تے ہیں تو زبان میں محاورے بن کر اظہار کا وسیلہ بن جا تے ہیں کدم رائو پدم رائو کی زبان صدیوں کے اسی سفر کی نشان دہی کر رہی ہے ۔ اس میں جو محا ورے استعمال میں آئے ہیں ۔ان میں سے بہت آج بھی رائج ہیں ۔ مثلاََ وقت آنا ( موت قریب ہو نا ) غم کھا نا ( فکر کر نا ) من میں گا نٹھ پکڑنا ( دل میں کینہ رکھنا ) آسمان ٹوٹ پڑنا ( سخت مصیبت پڑنا ) آنکھ بھر دیکھنا ‘ با سی تو آ سی ‘ کل کل ہو نا ‘ اور سب کو ایک لکڑی سے ہا نکنا   وغیرہ۔

        غرص کہ نظامی کی اس مثنوی میں ۱۸۶۵ئاشعار ہیں دوسری طرف جمیل جالبی کی مر تب کر دہ مثنوی میں ایک ۱۰۳۲  اشعارمو جودہ ہیں ۔   اور مثنوی کا نام دو کردار کے نام پر رکھا گیا ہے ۔ بہ نسبت اس دور میں جو بھی مثنویاں لکھی گئی ان میں تصوف ، عشق حقیقی ، عشق مجا زی ، وقت کی تعر یف و تو صیف جیسے مضا مین بیان ہو ئے ہیں ۔ بہ نسبت اسکے مثنوی میں ہندوی میعا رِ سخن بھی بسا ہو ا ہے ۔ چند اشعار

                
                  ۱۔  ڈرے کیوں نہ وہ دیکھ پھاَندا پڑی
                     سا نپ کا کا ٹا  رسی   سے بھی   ڈرتا    
   
             ۲۔    بڑے ساچ کہہ کر گئے بول اچوک
                    دودھ کاجلا  چھاچھ  کو بھی   پھونک

        مندرجہ بالا اشعار کے ذریعہ مثنوی کی فنی خوبیوں ظا ہر ہو تی ہیں ۔ اس میں قصہ گو ئی ہے تو کہیں جذبا ت وبیان کی عکاسی    اور کہیئں اخلا قی نکا ت یہ مثنوی صرف اپنی زبان و بیان اور فنی خو بیوں ہی کی وجہہ سے اہم نہیں ہے ۔ بلکہ اس کی اہمیت اس وجہ سے بھی ہے کہ اس مثنوی کے ذریعہ اُس دور کی تہذیب و معا شرت کی تصویر نگا ہوں کے سا نے آجا تی ہے ۔ نظا می کی مثنوی سا رے دکنی ادب میں بہت

اہمیت کی حا مل ہے ۔ ہندوی قصے کو سا منے رکھ کر اسے دکنی مزاج اور رنگ و روپ میں ڈھا ل دیا ہے ۔قصے کو پڑھتے وقت نہ ما حول  اور فصا

سے اور نہ کردار و معا شرت سے یہ محسوس ہو تا ہے کہ یہ قصہ فا رسی سے اُ ردو میں آیا ۔ ساتھ ساتھ یہ بات بھی دلچسپ ہے کہ کردار ہند وی

ہونے کے با و جو د روح و مزاج معا شرت اور انداز فکر میں مسلمان ہیں ۔

(یو این این)

************************

 

 

Comments


Login

You are Visitor Number : 903