donateplease
newsletter
newsletter
rishta online logo
rosemine
Bazme Adab
Google   Site  
Bookmark and Share 
mazameen
Share on Facebook
 
Literary Articles -->> Adbi Gosha
 
Share to Aalmi Urdu Ghar
Author : Dr. B. Md. Daud Mohsin
Title :
   Allama Iqbal Aur Nasle Nau

بسم اللہ الرحمٰن الرحیم

 


علّامہ اقبال ؔاور نسل نو

 

 ڈاکٹر بی محمد داؤد محسنؔ

 یم۔اے،پی ہیچ۔ڈی

 پرنسپال

 یس۔کے ۔اے ۔ہیچ  ملّت کالج

  داونگرے۔577001

(کرناٹک۔انڈیا)

 فون : 09449202211

e-mail:drmohameddavood@gmail.com    

 

    مسلمانوں کے لیے آج کا دور نہایت پر آشوب اور صبر آزما ہے۔سیاسی ،معاشی ،اقتصادی اور تعلیمی اعتبار سے دائرٔ حیات سکڑتا جا رہا ہے۔یوں تو ہندوستانی مسلمانوں کے زوال کی ابتدا اسی وقت شرع ہوئی تھی جب انگریزوں کے ناپاک قدم اس زمینِ پاک پر پڑے تھے۔اس لیے کہ ہماری قوم کے بعض خوشحال اور مفاد پرست لوگ فرنگیوں کے رنگین مزاج کے زیر اثر عیش و عشرت کے بھنور میں پھنستے گیے اور غریب و متوسط طبقہ کے مسلمان انگریزوں کے ظلم و جبر تلے دبتے چلے گیے ۔پھر راجہ رام موہن رائے کی برہمو سماج ، دیانند سرسوتی کی آریہ سماج اور گئو رکھشا سبھا بھی رہی سہی کسر پوری کرنے کا باعث بنیں۔

    ان سب کے علاوہ بال گنگا دھر تلک کے گنپتی میلہ اور پنڈت مدن موہن مالویہ کی ناگری پرچار سبھ اس سلسلہ کی کڑیاں تھیں۔جن کی زہر آلود فضاؤں سے سارا معاشرہ مکدر ہوتا گیا۔رفتہ رفتہ ایک طرف مسلم حکومتوں کے چراغ گل ہوتے گیے تو دوسری طرف ہمارے اندر جذبۂ خودداری و غیرت مندی ، حرکت و احساس اور حرارت ایمانی ناپید ہوتی گئی۔یہاں تک کہ غور و فکر کے سارے باب بند ہوتے گیے۔

ہو گئی رسوا زمانے میں کلاہ لالہ رنگ
جو سراپا ناز تھے ہیں آج مجبور نیاز

     اسی زمانے سے کاروانِ ملّت کے روبرو بہت سارے زیر و بم آتے گئے مگر ہمارے رہنما ہی نہیں بلکہ عام و خاص بھی ہاتھ پر ہاتھ دھرے بیٹھے رہے۔ان میں سے بعض نے حالات سے نبرد آزما ہوکر آواز بلند کرنے کی کوشش تو کی مگر اس آواز کو دبا دیا گیا۔پھر بھی جنہوں نے حق کی خاطر سر اٹھایا، انہیں باغی قرار دیا گیا، غدر کا ہنگامہ اس کا منہ بولتا ثبوت ہے۔

    دور حاضر میں بھی حق کے لیے آوازیں اٹھ رہی ہیں اور یہ سلسلہ آج بھی جاری و ساری ہے۔سچ تو یہ ہے کہ آج یہ سلسلہ بام عروج پر پہنچ چکا ہے مگر اس کا طریقہ کار جدا اور مختلف ہے۔آج انہیں غدار و باغی نہیں بلکہ بنیاد پرست اور دشت گردجیسے القاب سے نواز اجا رہا ہے۔جو اس قسم کے القاب کے مستحق بنتے جا رہے ہیں ان کے لیے برسوں پہلے ڈاکٹر اقبال نے اپنے اندر کریدتے ہوئے درد کو شاعری کی شکل میں پیغام دینے کی بھر پور سعی کی ہے۔

    اقبال نے جہاں احادیث و دلائل کی روشنی میں نوجوانوں کو پیغام حیات دیا ہے وہیں صوفیانہ اور فلسفیانہ انداز کو اپناتے ہوئے عوام و خواص سے خطاب کیا ہے۔علامہ اقبال کے دل میں قوم و ملت کے لیے تڑپ تھی، وہ حال سے بیزا ر تھے مگر روشن مستقبل کے حسین خواب اپنی پلکوں پر سجائے رکھتے تھے۔ جس طرح ان کا پیغام اقوام عالم کے لیے تھا اسی طرح خصوصی طور پر مسلمان ان کے اصل مخاطب رہے۔انہوں نے ملت کے ہم عمروں اور بزرگوں سے کہیں زیادہ نسلِ نو سے خطاب کیا ہے ۔اس لیے کہ نوجوان ہی مستقبل کی تمنّاؤں کے آفتاب و ماہتاب ہوتے ہیںاور اپنی قوم کی بقا و عروج کے ضامن بھی۔ ندرت فکر و عمل نوجوانوں کی فطرت ہوتی ہے، تغیر اور ذوق انقلاب ان کی دائمی صفات ہوتی ہیں۔اقبال نے راست طور پر اپنے اشعار میں واضح کر دیا ہے کہ ان

کا اصل مخاطبہ نوجوانوں سے ہی ہے۔کہتے ہیں۔

 

محبت مجھے ان جوانوں سے ہے
ستاروں پہ جو ڈالتے ہیں کمند

    آج کے نوجوان بے شمار صفات اپنے اندر رکھنے کے باوجود کاہلی اور غفلت کا لبادہ اوڑھے رہتے ہیں، محرک اور فعال بننے کی بجائے قسمت کا رونا روتے ہیں۔یسے لوگوں کے تعلق سے اقبال یوں کہتے ہیں۔۔۔۔

جس میں نہ ہو انقلاب موت ہے وہ زندگی
روح امم کی حیات کشمکش انقلاب

    اقبال کے یہاں ہاتھ پر ہاتھ دھرے اور اپنی تقدیر پر تکیہ کیے بیٹھنے کا نام زندگی نہیں ، بلکہ مسلسل جد و جہد کا نام ہے۔ ان کے فلسفۂ حیات میں تدبیر اور قوت عمل کو بنیادی حیثیت حاصل ہے۔ زندگی اسی وقت کامیاب و کامران ہوسکتی ہے جب انسان اپنے آپ کو پہچانے ، مقصد حیات و تخلیق کو سمجھے اور اپنے آپ کو مایوسی کے دلدل اور محکومی کے خول سے نکالے۔

    اقبالؔ نے اس کے لیے خودی کا درس دیا ۔ کیونکہ خودی جب منکشف ہوتی ہے تو عرفان ِ خداوندی یعنی اللہ پاک کی پہچان ہوتی ہے ۔خدا کی شناسائی ہونا گویا خدا سے دوستی اور اس کی رحمتوں سے مالامال ہونے کے برابر ہے۔جب کوئی آشنائے خدا وندی ہو جاتا ہے تو اسے دنیا سے کوئی سروکار نہیں ہوتا۔وہ احکام الٰہی کا پابند ہوجاتا ہے اور راہِ خدا وندی پر چلنے لگتا ہے۔انسان کو اس طرح اپنی طرف بڑھتے ہوئے دیکھ کر اللہ تعالیٰ بھی انسان کی جانب بڑھتا ہے ،جیسے کہا گیا ہے کہ اگر کوئی میری طرف ایک قدم بڑھائے میں اس کی طرف دس قدم بڑھاؤں گا، وہ چلتا ہے تو میں اس کے پیر بن جا تا ہوں ،بولتا ہے تو زبان بن جاتا ہوں ، اس کا بن جاتا ہوں اور سراپا اس کا بن جاتا ہوں۔اقبال نے اس کو یوں کہا ہے۔

ہاتھ ہے اللہ کا بندۂ مومن کا ہاتھ
غالب و کار آفریں کار کشا و کار ساز

    خودی ایک ایسی طاقت ہے جس کی کوئی مثال نہیں پائی جاتی ۔جو انسان خود کو پالیتا ہے وہ ڈر اور خوف کی آہنی فصیلیں پھاند کر آزاد ہوجاتا ہے ۔خوش فہمیوں ، خواہشوں اور لالچ سے مبرا ہو کر تحفظ و استحکام اور جذبۂ خودداری کے ساتھ اپنی دنیا آپ تلاش کرنے کی خاطر مسلسل جہاد میں جٹ جاتا ہے۔نہ اسے اس ڈھونگی دنیا کی پرواہ ہوتی ہے اور نہ ہی دولت و ثروت کی تمنّا ، وہ ٹیڑھی میڑھی راہوں کو موڑ سکتا ہے ، عقائد کے دریا عبور کر سکتا ہے اور عین الیقین کے بام پر اپنا مقام بنا سکتا ہے۔جس کی خودی میں عاجزی و انکساری پائی جاتی ہے ،اسے اللہ پاک پسند فرماتا ہے ، اس سے خوش ہوکر اس کی رضا پوچھنے پر آمادہ ہوجاتا ہے۔

خودی کو کر بلند اتنا کہ ہر تقدیر سے پہلے
خدا بندہ سے خود پوچھے بتا تیری رضا کیا ہے

    جس خود ی کا ذکر ہو رہا ہے اسے پانے کے لیے ضروری ہے کہ انسان یعنی خصوصی طور پر آج کا نوجوان جسمانی قوت کی بجائے روحانی قوت کا حامل ہوجائے ۔تاریخ گواہ ہے کہ سارے غزوات اور ساری جنگیں محض روحانی قوت کی بدولت فتح یاب ہوئی ہیں ۔وہ تڑپ ،لگن اور جستجو اگرآج کے نوجوانوں میں سما جائے تو ممکن ہے کہ وہ آج بھی عرش و فرش پر اپنی روحانی قوت سے لرزہ ڈال سکتے ہیں، اس لیے کہ ذوق انقلاب اور فکر و عمل نوجوانوں کی فطرت ہوتی ہے، انہیں اسی میں قرار ملتا ہے اور یہ قانون قدرت بھی ہے۔۔۔۔

سکوں محال ہے قدرت کے کارخانے میں
سکوت اک تغیر کو حاصل ہے زمانے میں

    ساری دنیا کی فارغ البالی کے لیے قوم و ملک کی خوش حالی لازمی ہے اور با شعور نوجوان ہی اقوام و ملل کی میراث ہیں ۔انہیں چاہئے کہ قوم و ملک کی خوشحالی اور ترقی کے لیے کوشاں رہیں ۔اس کے لیے اپنے اندر یقیں محکم پید اکریں ۔مگر افسوس کہ آج کے نوجوانوں میں یقیں محکم ، عمل پیہم کا فقدان ہے۔جب تک یقین پختہ نہیں ہوتا تب تک کوئی ترقی ممکن نہیں ہے۔اقبال نے اس یقین کے کئی نام دئیے ہیں ،جنون و عشق ، درد و سوز ، طلب و جستجو ، قلب و نظر ، ذوق و شوق وغیرہ۔۔۔۔یہ سب ان کے یہاں یقین کے مترادفات ہیں۔جن نوجوانوں کے اندر یہ صفات موجود ہوتی ہیں تو وہی قوم کے محافظ ہوتے ہیں۔ان کا لہو گرم اور بدن میں قوت مدافعت ہوتی ہے اور ان کے سینے جوشِ ایمانی سے معمور ہوتے ہیں۔اس کا یہ ہرگز مطلب نہیں کہ نوجوان اپنے ہاتھوں میں بندوقیں اٹھالیں اور اپنے قوت بازو پر اترانے لگیں ۔نوجوانوں کو چاہئے کہ وہ اپنے اندر ایسی صفات پیدا کریں ۔۔۔۔۔۔

جس سے جگر لالہ میں ٹھنڈک ہو وہ شبنم
دریاؤں کے دل جس سے دہل جائیں وہ طوفاں

فطرت میں سرود ازلی اس کے شب و روز
آہنگ میں یکتا صفت سورہ رحمان

    موجودہ نوجوانوں میں عشق و جنوں ،درد و سوز اور ذوق و شوق نہیں پایا جاتا۔مغربی علوم و فنون سے مغربی تہذیب ان کے اندر آگئی ہے۔تعلیم یافتہ نوجوانوں کا یہ المیہ ہے تو بقیہ نوجوانوں کا حال یہ کہ نیکی کی طرف قدم بڑھانا حرام سمجھتے ہیں۔اکثر نوجوان نعروں کے مفہوم سے ناآشنا صرف نوک زباں سے نعرۂ تکبیر اور نعرۂ رسالت میں گرفتار ہیں۔دراصل یہ ایسے نعرے ہیں جن کی آواز سے دیوار چین میں شقیں پیدا ہو سکتی ہیں، آسمان میں گرج پیدا ہو سکتی ہے ۔یہ اسی وقت ممکن ہے جب کہ نوجوانوں میں عشق رسول ؐ کی تڑپ پیدا ہو اور طلب کی آگ میں وہ جلنے پر آمادہ ہوں ، اپنے نفس کی غلامی چھوڑ دیں اورنااہل و ناکارہ شر پسندوں کے مہرے بن کر اپنے ہاتھوں میں بندقیں اٹھانا چھوڑ کر انسان اور انسانیت کا احترام کرنا سیکھیں، مگر افسوس ۔۔۔۔۔۔

نوجوانے را چوں بینم بے ادب
روز من تاریک می گرد و چو شب

آدمیت احترام آدمی
با خبر شو از مقام آدمی

     دورِ حاضر کی نوجوان نسل کو نہ اس کی وجودیت کا احساس ہے اور نہ ہی وحدت الوجود پر کامل یقین ۔اس کے اندر تخلیق و اختراع کی قوت معدوم ہوتی جا رہی ہے اور تقلیدی رجحان بڑھتا جا رہا ہے، بے یقینی و لا دینیت کا اس حد تک شکار ہو گئی ہے کہ وہ خدا کے وجود کو ماننے کے لیے تیا رنہیں ہے۔جو مانتے ہیں ان کا انداز ہی نرالا ہے وہ کٹّر پسند اور بنیاد پرستFundamentalist کہلانے پر تلے ہوئے ہیں۔انہیں چاہیے کہ وہ سب سے پہلے اپنے آپ پر یقین کرے اور خدا کے وجود کو تسلیم کرے اور اپنے مقصد حیات کو سمجھے ۔

    علامہ اقبال کی یہ خواہش رہی ہے کہ نوجوانوں کے اندر شاہینی صفات پیدا ہوں ۔ شاہینی صفات سے مراد جارحیت و فسطائیت کی تعلیم ہرگز نہیں ہے جس طرح خودی سے مراد غرور و تکبر نہیں ہے ۔یہ سعی و عمل اور امن وآشتی و خود آگہی ہے۔شاہین کی تشبیہ بے نیازی اور درویشی کے لیے ہے۔ان کے یہاں یہ محض ایک شاعرانہ تشبیہ نہیں ہے بلکہ اس پرندہ کی وہ ساری مثبت صفات مراد ہیں جو اسلامی نوجوانوں کی طبیعتوں میں موجود ہوتی ہیںاور مماثلت رکھتی ہیں ، اسی لیے اقبالؔ نے شاہین کی مثال دیتے ہوئے نوجوانوں سے خطاب کرتے ہوئے یوں کہا ہے کہ۔۔

عقابی روح جب بیدار ہوتی ہے جوانو ں میں
نظر آتی ہے ان کو اپنی منزل آسمانوں میں

نہیں تیرا نشیمن قصرِ سلطانی کے گنبد پر
تو شاہیں ہے بسیرا کر پہاڑوں کی چٹانوں پر

    آج کے نوجوانوں میں گمراہی اور ذہنی انتشار پیدا ہو گیا ہے جس سے ذوق ِ خود آگہی محروم ہے ۔حالانکہ وہ غلامانہ ذہن رکھتے ہیںاور غلامی کے دلدل میں پھنستے جا رہے ہیں۔اقبالؔ آزادی کے قائل ہیںجو خود اعتمادی سے حاصل ہوتی ہے۔جس سے بے شمار صلاحیتوں کو بروئے کار لایا جا سکتا ہے۔اس کے بعد ہی وہ حیات و کا ئنات ، زماں و مکاں اور فرد و ملّت کی حقیقت کے متعلق غور و فکر کر سکتے ہیں، انسانیت اور آدمیت کو پہچان کر اس کے بلند مرتبے کا احساس اپنے اندر پیدا کر سکتے ہیں،اسی وقت ایک اچھا معاشرہ تشکیل پائے گا۔اس کے بر خلاف خود غرضی اور متعصبی ذہنیت اگر نشو ونما پاتی رہے گی تو باہمی اشتراک و اتحاد ممکن نہیں ہو گا ، انسانی معاشرہ دائمی امن و آشتی سے ہمکنار ہرگز نہیں ہوگا۔

دامنِ دیں ہاتھ سے چھوٹا تو جمعیت کہاں
اور جمعیت ہوئی رخصت تو ملّت بھی گئی

جب تک نہ زندگی کے حقائق پہ ہو نظر
تیرا زجاج ہو نہ سکے گا حریفِ سنگ

    علامہ اقبال ؔ نے نوجوانوں کے اندر سچا عشق پیدا کرنے کی تلقین فرمائی ہے۔اس لیے کہ حقیقی عشق ہی اسے پستی سے بلندی پر لے جاتا ہے۔اس سے ہی قرب خداوندی بھی ممکن ہے۔اس کے ساتھ ساتھ وہ انسان دوستی اور ہمدردی کا قائل بھی ہو سکتا ہے،ایسا عشق رکھنے والے نوجوان بڑے ہی نرم دل ، پاکباز اور ہمدرد ہوتے ہیں، اسی لیے کہا گیا ہے کہ

ذرا نم ہو تو یہ مٹی بڑی زر خیز ہے ساقی

    آج کے اس سائنسی دور میں ترقی یافتہ ممالک کا انسان چاند پر کمندیں ڈالنے کے بعد مریخ پرقدم جمانے میں کوشاں ہے ۔ان حالات میں ہم لمحہ بہ لمحہ غفلت اور خوش فہمیوں کے دلدل میں پھنستے جا رہے ہیں،ہمارے ضمیر مردہ ہوتے جا رہے ہیں ۔آج ہم سب ایک ایسی موٹر گاڑی پر سوار ہیں جو نیوٹرل ہے ، ہمارے رہنما ایکزلریٹر دبا رہے ہیں جس سے گاڑی میں صرف اور صرف دھواں اور آواز ہی نکل رہی ہے مگر گاڑی بے حس و حرکت شور مچا رہی ہے۔کوئی گئیر بدلنے والا اور گاڑی کو آگے لے جانے والا نہیں ہے اور اس کا ہمیں افسوس بھی نہیں ہے،اس لیے کہ ہمارا ضمیر مر گیا ہے ۔یہ سچ ہے کہ جس کا ضمیر مر جاتا ہے وہ نہ اپنی دنیا بنا سکتا ہے اور نہ ہی اپنا عقبیٰ سنوار سکتا ہے۔اگر آج کے نوجوان جو مستقبل کے پاسدار اور امین ہیں راہ راست پر آجائیں تو وہ دن دور نہیں کہ ہمارا مستقبل ضرور روشن ہوگا۔اس لیے کہ

ہے شباب اپنے لہو کی آگ میں جلنے کا نام
سخت کوشی سے ہے تلخ زندگانی انگبیں

    نوجوانوں کو چاہیے کہ ضبط نفس کو قابو رکھیں۔اپنی نفسانی خواہشات اور بے ہودہ حرکتوں پر قابو پائیںاور انہیں حد سے تجاوز نہ ہونے دیں ورنہ یہی نفس اسے راہ راست سے ہٹا کر غلط راستہ اختیار کرنے پر آمادہ کر دے گا۔اقبالؔ نے نہ صرف نوجوانوں کے لیے اپنی شاعری میں پیغام دیا بلکہ اس کے روشن مستقبل کی دعا بھی کی۔ایسی درد مندانہ دعا ان کے دل سے نکلی کہ

جوانوں کو سوزِ جگر بخش دے
مرا عشق میری نظر بخش دے

    اس کے علاوہ انہوں نے نوجوانوں کو زندگی گذارنے کے سلیقے بھی بتائے اور نہایت معصومیت اور ملائمیت کے ساتھ نصیحت بھی کی۔

دیارِ ہند میں اپنا مقام پیدا کر
نیا زمانہ نئے صبح و شام پیدا کر

خدا اگر دل فطرت شناس دے تجھ کو
سکوت لالہ و گل سے کلام پیدا کر

    علامہ اقبالؔ کا پیغام چونکہ ہر ایک کے لیے ہے اور ہر دور کے لیے ہے ۔سچ تو یہ ہے کہ ان کا پیغام حال سے زیادہ مستقبل کا ہے۔اس پیغام کا محور و مرکز نوجوان ہی ہیں۔جس سے نوجوانوں کی روح بیدار ہو سکتی ہے اور ان کے اندر ایک ارتعاش جنم لے سکتا ہے۔اقبال کے اس پیغام کو ایک مضمون میں احاطہ کرنا مشکل ہی نہیں بلکہ ناممکن ہے۔حاصل یہ کہ اقبال نے تقریباً اپنے پورے کلام میں قوم و ملت کے نوجوانوںکوجھنجوڑنے کی سعی کی ہے مگر افسوس کہ آج ان کے پیغام کو سمجھنے اور اسے بروئے کار لانے کی سکت ہم میں خال خال ہی پائی جاتی ہے۔

(یو این این)


*******************************

 

Comments


Login

You are Visitor Number : 1872