donateplease
newsletter
newsletter
rishta online logo
rosemine
Bazme Adab
Google   Site  
Bookmark and Share 
mazameen
Share on Facebook
 
Literary Articles -->> Adbi Gosha
 
Share to Aalmi Urdu Ghar
Author : Dr. B. Md. Daud Mohsin
Title :
   Jadidiat, Ma bad Jadidiat Aur Asri Taqaze



جدیدیت ، مابعد جدیدیت اور عصری تقاضے

 

 از۔ڈاکٹر بی محمد داؤد محسنؔ  

یم۔اے،پی ہیچ ۔ڈی

 پرنسپال

 یس۔کے۔اے۔ہیچ  ملّت پری یونیورسٹی کالج

 داونگرے۔577001 

(کرناٹک)

 سیل :09449202211

e-mail: drmohameddavood@gmail.com


     ہمارے ادب میں کئی تحریکیں رونما ہوئیں اور ہم تک یہ ادب کئی تحریکات اور رجحانات سے گذر کر پہنچا ہے۔ ’’ادبی تحریک ‘‘ والی اصطلاح پر غور کیا جائے تو علی گڈھ تحریک کے بعد ترقی پسند تحریک کو ہی ایک منظم تحریک کہا جا سکتا ہے ۔حالانکہ علی گڈھ تحریک بھی تعلیمی تحریک تھی مگر اس دوران ادب میں حیرت انگیز تبدیلیاں رونما ہوئیں اور ہمارا ادب نئے معنی ، نئے مطالب،نئے مفاہیم اورنئے موضوعات ، نئے مضامین ،نئے اسلوب سے آشنا ہوااور زندگی سے قریب ہوا۔جس میں اخلاقی،مذہبی ، اصلاحی ، سماجی، سیاسی اور معاشرتی پہلوؤں کو زیادہ اہمیت دی گئی۔جسے بہتوں نے جدید کہا ۔کیونکہ حالی ؔ اور محمد حسین آزادؔ کو جدیدشاعری اور جدید تنقید کے بانیان تسلیم کیا جاتا ہے۔ اس کے بعد ترقی پسندیوں نے اس میں زبردست انقلاب پیدا کیااور اکثر اصناف کو ایک نئی جہت اور سمت عطا کی۔ادب برائے ادب سے ادب برائے زندگی قرار دیا گیا۔حلقۂ ارباب ذوق کے حواریوں نے بھی اہم رول ادا کیا۔حالانکہ ان کا نقطۂ نظربعض معاملات میں باغیانہ رہا ۔اس کی ایک اہم وجہ ان کے اندر آزادیٔ ہند کی سلگتی اور دہکتی ہوئی آگ تھی۔ ان کے سامنے نہ صرف زندگی تھی بلکہ اس سے پیدا ہونے والے مسائل تھے اور وہ ان کا حل چاہتے تھے۔ادب جو ماضی میں تفریحی طبع کا باعث تھا اب زندگی میںجوش و امنگ اورولولوں کے ساتھ ساتھ احتجاج اور انقلاب کا باعث بنا۔اگرترقی پسندئیے اور حلقۂ اربابِ ذوق والے تنگ نظری سے کام نہ لیتے اور ادبی ڈھنڈورچی نہ بنتے  تو عین ممکن ہے کہ اس میں حیرت انگیز اضافے ہو سکتے تھے۔اس کے باوجود یہ کہنے میں کوئی مبالغہ نہیں کہ اس دور میں اچھا ادب وجود میں آیا۔

      ترقی پسند تحریک کی بنیاد سجاد ظہیر اور ان کے ساتھیوں نے انگلستان سے واپسی کے بعد ڈالی تھی۔جو یوروپی اینٹی فاشسٹ اور اشتراکی (مارکسی) سے متاثر تھی۔ان کے سامنے ایک باقاعدہ پروگرام تھا۔ترقی پسند تحریک نے ادب کی کایا پلٹ دی ۔حالانکہ انہوں نے غزل کو پس پشت ڈال دیااور بعد والوں نے اسے نیم وحشی صنف قرار دے کر گردن زدنی کا فتویٰ صادر کیا ۔مگر انہوں نے غزل کی بہ نسبت نظموں اورفکشن کو عروج پر پہنچایا۔تراجم کے ذریعہ بہت سا رامواد اردو میں داخل کیا اور نئے نئے تجربے کئے گئے۔ترقی پسندوں کا خیال تھا کہ وہ پہلے معاشرے کوسنواریں اور سدھاریں ،انسان اورا نسان کے درمیان استحصالی و جماعتی کشمکش کو دور کریںاور اس کے بعد خارزار دنیاکو جنت نمابنائیں۔

    اس کے بعد جوشعر و ادب سامنے آیا اس میں قبل از آزادی اور آزادی کے بعدرونما ہونے والے موضوعات اور مسائل تھے۔ یہ سلسلہ تقریباً 1960  ء تک دیکھاجا سکتا ہے۔ابھی اردو والے آزادی ٔ ملک اور تقسیمِ ملک سے پیدا شدہ مسائل سے باہر بھی نہیں نکل پائے تھے کہ اس دور میں تخلیق پانے والے ادب کو ’’ جدیدیت ‘‘ کالیبل چسپاں کر دیا گیا۔جدیدیت در حقیقت ترقی پسندیت کی کوکھ سے جنمی تھی۔بعض ناقدین ادب کے خیال میں یہ ترقی پسندتحریک کی’’توسیع‘‘ تھی تو بہتوں نے اسے ترقی پسند تحریک کا ردّ عمل ٹہرایا اور بعض نے اسے ایک مستقل ’’ تحریک ‘‘ کا نام دیا۔چونکہ 1960 ء کے بعد کی تحریروں میں روایت سے انحراف کلیدی حیثیت رکھتا تھا اسی لئے اسے ہمارے ناقدین اور مارکیٹنگ والوں نے ’’ جدیدیت ‘‘ کا نام دیا۔

     جدیدیت کوہم تحریک سے زیادہ رجحان تصور کر سکتے ہیں ۔اس لئے بھی کہ اس دور میں کوئی ایسے تجربے ہوئے اور نہ ہی کوئی نئی نئی اصناف ادب میں داخل ہوئیں اور نہ ہی کوئی لائحۂ عمل کے تحت ادب تخلیق کیا جاتا رہا جیسا کہ ترقی پسندوں اور حلقۂ اربابِ ذوق کے حواریوں کے پیش ِ نظر تھا ۔مگراس دور میںادبا ء اور شعرا ء تخیلی اور فکری اعتبار سے آزاد تھے اور وہ اپنے فکری رجحانات و میلانات کواپنے پیرائے میں ادب میں سمو سکتے تھے۔ در اصل ترقی پسندیت اور جدیدیت دونوں یوروپی روشن خیالی سے پھوٹ کر نکلی تھیں۔جس میں ایک طرف روایت سے انحراف پایا جاتا تھا تو دوسری طرف روایت کا انہدام بھی دیکھا جا سکتا تھا۔

    حالانکہ جدیدیت کے ابتدائی نقوش ہم حلقۂ ارباب ذوق والوں میں دیکھ سکتے ہیںجنہیں کمیونزم سے بغض تھا۔ان کے یہاں ذات کا داخلی کرب سرمایۂ حیات و سرما یۂ ادب تھا، انہوں نے شاعری پر زیادہ زور دیا، افسانوں کو ابلاغ سے محروم کیا اور تجرئیت کو اچھی چیز قرار دیا۔ جدیدیوں نے ادب میں اعلیٰ ترین زبان اور اس کے دل پذیر استعمال کو اعلیٰ ترین چیز ٹہرایااور ادب کو سراسر آرٹ اور زبان کو ہی فن کی سحر انگیزی قرار دیااور پھر فن کار نجی طور پر آزاد رہ کر اپنے جذبات کی آئینہ داری کرنے لگا۔

    جدیدیت کے نام پر ایسا فن مارکیٹ میں آیاجوبہت جلد مشہورو مقبول ہوا۔مثلاً سورج کو چونچ میں لے کر مرغا کھڑا ہوا، بکری مَیں مَیں کرتی رہی اور بکرا زور لگاتا رہا، ابّا کی آمد پر’’ اری سالی جلدی سے جمپر گرا ‘‘ کہا گیا،آنگن میں تنہا مرغی غنودگی کا شکار ہو گئی۔اس طرح جدیدیئے داخلیت اور حقیقی وجود کے پیچھے پڑ کر ادب میں افرا تفری اور ایک ہنگامہ پھیلاتے رہے۔انہوں نے سائنس اور مذہب کو پیچھے ڈھکیل دیااور اخلاقی قدروں کے بجائے جنسی ادب کاپرچار کیا۔انہیں مذہب ، اخلاق اور جبر سے فلسفہء وجودیت کا کوئی پاس و لحاظ نہیں تھا ۔ ترقی پسندوں کو بھی مذہب سے بیر تھا۔اس لئے کہ ترقی پسندیئے اورجدیدیئے انفرادی آزادی کے قائل تھے۔مذہبی پابندیا ں ان کے لئے گوارار نہیں تھیں۔

    ترقی پسند اور جدیدیت دونوں تحریکیں خارجی دنیا کو ایک ایسی حقیقت مانتی ہیں جو کہ ہماری تھیوریوں سے آزاد ، مشاہدہ سے بے نیازتھی۔جدیدیت دراصل پڑھے لکھے ،رعونت و نکہت سے بھرپور ، درمیانی طبقے کی پیداوار تھی۔جن کی روزی روٹی کا معقول انتظام تھا ۔وہ مذہب کو ماننے والوں کے بر خلاف دنیا کو ایک تجربہ گاہ تصور کرتے تھے ۔ جدیدئیے دراصل دنیا کی بوالعجبیوں اور ظلم و ستم سے راہ فرار اختیار کرنا چاہتے تھے۔الغرض جدیدیت سرمائے کی تنظیم سازی اور تقدس کو نشانہ بناتی ر ہی اور اپنی غیر نظریاتی حد میں رہتے ہوئے نوکر شاہی کے کردار اور اواخر کی ترقی یافتہ صنعتی سرمایہ داری کے کردار پر تنقید کرتی رہی۔جدیدیت کایہ سلسلہ 1960 ء سے 1980 ء تک جاری و ساری رہا۔  

        اس کے بعد باضابطہ طور پرایک مکالمہ شروع کیا گیا جسے’’ مابعد جدیدیت‘‘ کا نام دیا گیا، دیکھتے ہی دیکھتے ساختیات ، پس ساختیات اور مابعد نو آبادیات جیسی اصطلاحیں وجود میں آگئیں۔حالانکہ ساختیات پس ساختیات اورمابعد نو آبادیات کو اسی میں شامل کیا جا سکتا ہے۔جسے چند افراد حریت کا مکمل اظہار ماننے لگے ۔یہ وہ زمانہ تھا جب کہ ہم جدیدیت اور اس کے معنی و مفہوم کو اچھی طرح سمجھ بھی نہیں پائے تھے کہ ایک ہی جست میں لمبی چھلانگ کر ’’ مابعد جدیدیت ‘‘ میں پہنچ گئے۔جو مغربی روشن خیالی پروجیکٹ کا حصّہ تھی۔ مابعد جدیدیت کے تعلق سے شمس الرحمٰن فاروقی کا خیال ہے کہ’’ وہ جدیدیت سے پھوٹ نکلی ہے۔ یہاں مصنف اپنے منشا ء کے تحت لکھتا ہے ۔مابعد جدیدیت کے تحت فن کار کے پیشِ نظر کچھ نہ کچھ منشاء ضرور رہے گا۔‘‘ اب یہ قاری کی صوابدید پر منحصر ہے کہ وہ اس کیفیت اور منشائے مصنف کو سمجھے ، پہچانے ، جانے ، اسے واضح کرے اور اس کی تاویلیں نکالے۔کیونکہ صحیح اظہار قاری کے ذریعہ ہی ہو سکتا ہے۔قاری کی سمجھ کی بات ناقد بھی کہہ سکتا ہے اسے علاحدہ کرکے جانچ سکتا ہے اور اسے کلا سیکی یا جدید یت یا ما بعد جدیدیت کے زمرے میں رکھ سکتا ہے۔

    دراصل’’ مابعد جدیدیت ‘‘والی یہ اصطلاح اس مکالمہ کا نتیجہ ہے جو1980ء کے دوران قائم کیا گیا تھاکہ ترقی پسندی اور جدیدیت کے بعد کیا؟اس سے قبل کہیں بھی اس طرح کا سوال نہیں اٹھایا گیا تھا اور نہ ہی کسی نے ترقی پسندی اور جدیدیت کے بعد کے شعر و ادب پر تنقیدی مضمون لکھا تھا۔حالانکہ1975 ء  سے1980  تک آتے آتے جدیدیت کا زور ٹوٹ چکا تھا۔اس دور میں بھی نیا ادب باقاعدہ طور پر وجود میں آرہا تھا۔نئی نفسیات ،نئی شعری کائنات ، نئی افسانوی دنیاآباد تھی ،نئے نام سامنے آرہے تھے ۔مگر وہ نئی نسل اپنے عہد کو سوچ رہی تھی اور ادب تخلیق کر رہی تھی۔ جدیدیوں کو اس بات کی شکایت تھی کہ مابعد جدیدیت کا کوئی سوال ہی پیدا نہیںہوتا کیونکہ نئی نسل نے ایسا کچھ بھی نہیں کیا جس سے جدیدیت سے انحراف ہو سکے۔ حالانکہ مابعد جدیدیوں نے جدیدیت کو رد کرتے ہوئے ایک نئی ترقی پسندی کی بابت کہنا اور لکھنا شروع کیا تھا۔  

     ’’ مابعد جدیدیت‘‘ کاسلسلہ تو شروع ہوا مگراس سے متعلق کوئی مکمل اور جامعہ مطالبہ قلمبند نہیں ہواجو اس کا صیح ماڈل پیش کر سکے۔شعر و ادب میں اس کی پرچھائیاں دکھائی دیں مگر وہ جدیدیت ہی کے ساتھ گڈ مڈ ہوگئیں۔یہ وہ نسل تھی جو کالجوں اور یونیورسٹیوں سے جدید مغربی علوم کی سند یافتہ تھی۔اس کے علاوہ اکثریت ان کی تھی جو بذات خود فنکار نہیں تھے بلکہ فن کے تاجر تھے یا فن کو تولنے والے اور فن کاروں کو مارکیٹ میں لا کر انہیں برا یا چھوٹا بنانے والے تھے۔وہ فن کار بھی خوش ہوکر ایسا ادب تخلیق کرنے میں مصروف تھے جس کی مارکیٹنگ خوب ہو سکتی تھی۔مگر وہ اس سے بے خبر تھے کہ اس ’’مابعد جدیدیت‘‘ کے حدود کیا ہیں اور اس کے مقاصد کیا ہیں

    مابعد جدیدیت کو محض ہم بھول بھلیوں سے تعبیر کر سکتے ہیں حالانکہ اس میں چند اچھی چیزیں بھی موجود ہیں ۔لیکن فلسفیانہ اعتبار سے اس عجیب و غریب تحریک کو ماننا دشوار ہے ۔کیونکہ ہم پوری طرح جدید بھی نہیں ہونے پائے تو جدیدیت سے آگے اونچی چھلانگ کیوں کر لگا سکتے ہیں۔

     یہ صورتحال ہو گئی کہ سطحی سوانحی نگاری ، سائنسی فکشن ، فینٹیسی ناولیں، فوٹو گرافی ، جذبات کو بر انگیختہ کرنے والی امیج سازی ، پاپ آرٹ، پاپ میوزک اور پاپ گائیکی ، موسیقی کا غل غپاڑہ ۔لباس کی نئی ڈیزائننگ ، مردوں کاعورتوں کی اشیاء استعمال کرنا، عورتوں کا مردوں کی اشیا ء استعمال کرنا اور جادوئی حقیقت نگاری وغیرہ کا کلچر عام ہو گیا ہے۔یہ عجیب طرز زندگی ہے کہ لوگ جینز کے پھٹے ہوئے نیکر اور پتلون اور جیکٹ میں پیوند لگا ئے اعلیٰ قسم کی کاروں میں سفر کرتے ہیں۔ مابعد جدیدیت کے کلچرمیں فیشن ، عمارت سازی،فاسٹ فوڈ کی قطاریں ، شاپنگ مال ، ڈپاٹمنٹل اسٹورز، اشتہار بازی کی صنعت ،فلم آرٹ کے شعبے سارے گھس آئے ۔

    گذشتہ بیس پچیس برسوں میں مابعد جدیدیت کے موضوع پر بھر پور لکھا گیا۔اسے نئی لبرل ازم کا نام بھی دیا گیا۔کیونکہ اس کی فکر ی حدود لا محدود ہیں جو کہ کسی سکّہ بند یا نظریاتی کلیہ بندی کو سرے سے تسلیم نہیں کرتی۔ مابعد جدیدیت کا نظریہ زمانی صداقتوں پر مبنی آئیڈیالوجیکل پر مبنی ہے۔جس میں بیانیہ کو دریافت کیا گیا ہے اور معروضی صداقتوں کو تسلیم کرتے ہوئے تجریدیت کو رد کردیا گیا۔یہ نظریہ اپنے مزاج میں علمی اور عملی نوعیت کا بھی ہے جو کہ معاصر زندگی کی تکثیریت کو ابھار کر افترقات کو منظر عام پر لاتا ہے۔

    دراصل اردو میں مابعد جدیدیت دل لگی اور ایک دوسرے کو نیچا دکھانے کا پیمانہ ہے۔مابعد جدیدیت سے پہلے ترقی پسند تحریک اورجدیدیت جیسی تحریکیں اردو میں رائج رہیں ۔وقت کے ساتھ ساتھ جس نے جو چاہا وہ کیا۔سچ تو یہ ہے کہ کوئی بھی ان تحریکوں سے فکری اور جذباتی طور پر وابستہ نہیں رہا ۔صرف اپنی شخصیت کے پرچار کی خاطر ان کا استعمال کیا ۔حالانکہ اردو کا فکری تنور ہمیشہ ہی سے گرم رہا۔کسی نے ترقی پسندی کی روٹی لگائی،کسی نے جدیدیت کی تو کسی نے مابعد جدیدیت کی۔بہتوں کی روٹیاں اپنی مرضی کے مطابق پک نہ سکیں۔کچھ نے اس تنور میں بہتر روٹیاں پکانے میں کامیابی حاصل کی۔

    ان مذکورہ حقائق اورکوائف کو نظر میں رکھتے ہوئے اگراساتذہ کے ادبی اثاثہ کا جائزہ لیاجائے تو ہم میرؔ،غالبؔ،مومن ؔ سے لے کر اقبال ؔ وغیرہم کو کونسا لیبل لگائیں گے ۔کیونکہ وہ ہر دور کے اور ہر زمانے کی تحریکات کے خانوں میں فٹ ہوتے ہیں اور وہ ہر عہد کے فن کار ہیں۔

    در اصل یہ تحریکات و رجحانات کی باتیں ادبی چونچلے ہیں جوفن کے تخلیق کاروں ( یعنی شعراء و ادباء )کے بجائے بڑے بڑے لوگوں ( ناقدین اور مدیرانِ ادب )نے اپنی مارکیٹنگ کے لئے شروع کئے ۔جسے ایک ’’ لابی ‘‘ یا ’’ادبی گروہ بندی ‘‘یا ’’گروپ ‘‘ سے بھی تعبیر کیا سکتا ہے۔ ایک کسان دن رات محنت و مشقت سے فصل اگاتا ہے اور فصل تیارہونے پر اسے وہ مارکیٹ میں لاتا ہے ۔اب منڈی کے دلال اس کا بھاؤ لگاتے ہیںاور اس کی حیثیت بتاتے ہیں ۔ مارکیٹ میں موجود دوسرے مال سے اس کا موازنہ کرتے ہوئے معیاری یا غیر معیاری ہونے کافیصلہ کرتے ہیں اورکبھی قیمت بڑھا تے ہیں تو کبھی گرا دیتے ہیں۔مارکیٹنگ کا انحصار منڈی کے دلالوں پر ہوتاہے ۔اسی طرح ادب کی مارکیٹنگ کرنے والے بھی موجود ہیں وہ جسے ادبی مارکیٹ میں اٹھانا چاہتے ہیں اسے اٹھاتے ہیں اور جسے گرانا چاہیں تو گرا دیتے ہیں۔وہ انہیںکبھی ملکی اورکبھی غیرملکی سطح پر پہنچا دیتے ہیںاو ادبی معیار قائم کرتے ہیں اور ٹھپہ لگا کر اپنی دکانیں چمکانے پر آمادہ ہوجاتے ہیں۔

     ’’ گروہ بندی ‘‘ کایہ طریقہ رہا کہ وہ اپنی پسند کے اوراپنے حلقہ کے چند فنکاروں کے فن کا انتخاب شائع کیا اور اسے معاصر ادب ،جدید ادب ، جدید افسانہ ، معاصر افسانہ ، جدید نظم ، جدیدتر غزل کے نام سے ایک بسیط مضمون لکھ کرشامل کردیا جس میں ان کے جدید یا جدیدیت یا مابعد جدیدیت کے عناصر یا جراثیم کو عیاں کر دیا تو وہی اس دور کے اہم فن کار ثابت ہو گئے۔جن کی بدولت پورے ادب پر انہیں کے فن کا سکّہ جمایا جانے لگا۔جس میں ادب کم ادب سے پرے سرگرمیاں زیادہ ہوتی ہیں۔جہاں تمام فلسفے اور رجحانات مغرب سے مستعار لئے جاتے ہیں اور انہیں کے زیر اثر ادب تخلیق کیا جاتا ہے۔ جب کہ ہمارا کلاسیکی ورثہ بہت ہی زرخیز اور غیر معمولی ہے۔ہمارے یہاں غزل اور پابند نظم جیسی غیر معمولی ا صناف شاعری ہیں۔اس کے بجائے غیر ملکی شاعری ،تنقید اور لفظیات کو ماڈل بنا لیا۔

    اب نئی نسل جو مابعد جدیدیت کو سمجھے اور جانے پہچانے بغیر لکھ رہی ہے وہ ان تمام حد بندیوں کو توڑ کر آزادانہ طور پر تخلیقی عمل سے گذر رہی ہے۔اسے مابعد جدیدت سے کوئی تعلق نہیں ہے اور نہ ہی وہ کسی نظرئیے یا فارمولے کے تحت ادب تخلیق کرنے کے موڈ میں  ہے۔نئے فنکاروں کے لئے ان ادبی اصطلاحوں سے کوئی دلچسپی نہیں ہے۔دور حاضر میں لکھنے والوں کے سامنے یا آس پاس کوئی ایسی تحریک یا رجحان بھی نہیں ہے جو اسے اپنی طرف متوجہ کرسکے۔
     آج کا فنکار تنہا ہے اور اپنی شناخت کے چکر میں الٹے سیدھے کرتب دکھا رہا ہے۔اس کا نہ تو کسی فکری مخاطبے سے سروکار ہے اور نہ ہی اسے مابعد جدیدیت سے مکمل آگاہی حاصل ہے۔وہ اس پر اسرار اسٹیبلشمنٹ سے اس لئے جڑا رہنا چاہتا ہے تاکہ وہ اپنے دشمنوں سے محفوظ رہ سکے۔یہاں رجعت پسندی کا رواج عام ہے ۔جہاں کھلا فردمخاطبہ کرنا ،اپنی موت کی خود دعوت دینے کے مترادف ہے۔آج کا فنکار فکری اور خلقی کھوکھلے پن کو تسلیم نہیں کرتا۔اب سوال یہ اٹھتا ہے کہ یہ کہاں تک معاشرے کی وسعتوں کو سمیٹ پائے گا،کس طرح وہ اپنے تہذیبی اور فکری مسائل کو حل کرسکے گا۔لہذاہمیں یہ سوچنا پڑے گا کہ ہم اپنی زندگیوں میں کتنے ترقی پسند رہے ہیں اور جدیدیت کو کتنی سچائی اور ایمانداری کے ساتھ اپنائے ہیں ۔آج بھی ہم اپنے معاشرتی مخاطبے کے سلسلہ میں مغالطوں کا شکار ہیں ۔معاشرتی مخاطبہ ہماری سمجھ سے باہر ہے۔اس کے علاوہ ذرائع ابلاغ کی رنگا رنگی نے فنکار کو عمیق فکر کے جوہر سے محروم کر دیا ہے ۔وہ فکر کے حسّاس مسائل کو سنجیدگی سے برتنے کا اہل نہیں رہا۔کیونکہ اس کے لئے بڑی جگر سوزی کرنی پڑتی ہے۔۔اس کے باوجود آج کا فنکار بڑی ہی ہوشیاری ، سنجیدگی اور دلیری سے قاری کو دھوکہ دینے میںمصروف ہے۔

     ادب کو زندگی کا آئینہ اس کی تعبیر، تفسیر اور تنقید قرار دیا گیا ہے۔اس اعتبار سے دیکھا جائے تو ادب کی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ زندگی کی تزئین کاری کرے۔یہ اسی وقت ممکن ہے جب کہ ادب میں سچائی اور حقائق کو ملحوظ رکھا جائے۔کیونکہ اچھی ادبی تخلیق سچ کے بغیر ممکن نہیںہے۔سچائی ایک مجرّد تصور ہے یا عین ہے ۔مثلاً خیر، حق ،عدل ،حسن وغیرہ۔ادب اور حقیقت میں یا ادب اور زندگی میں چولی دامن کا ساتھ ہے۔کیونکہ ہر فن پارہ چاہے وہ کسی معیار اور سطح کا کیوں نہ ہو اس میں کہیں نہ کہیں سچ ضرور ہوتا ہے۔مصنوعی ادب میں بھی سچ کافرما ہوتا ہے۔اگر ہم ادبی تاریخ پر نظر دالیں تو پتہ چلتا ہے کہ ہر زمانے میں سچائیاں اپنا روپ بدل کر مختلف پیرائیوں میں شعری و نثری تخلیقات میں نمایاں ہیں۔ یہ کہا جائے تو بے جا نہ ہوگا کہ سچائیاں ہی ادب کا موضوع بنتی ہیں۔مگر یہ واضح رہے کہ عام سچائی اور ادبی سچائی میں بہت فرق ہوتا ہے۔
    دورِ حاضر میں جو ادب تخلیق پا رہا ہے وہ حالانکہ زندگی سے قریب ہے اور اس میں ایک خوشگوار تبدیلی محسوس کی جا رہی ہے۔جسے ترقی پسند،جدیدیت اور مابعد جدیدیت ذہن رکھنے والے نہ صرف پسند کر رہے ہیں بلکہ اس کی پذیرائی بھی کر رہے ہیں۔ مگر اب بھی یہ سوال اٹھتاہے کہ کیا آج کا ادیب اور شاعر سچ سے کام لے رہا ہے یا زندگی کے حقائق اور سچائیوںکو شوگر کوٹیڈ کیپسول بناکر پیش کررہا ہے۔کیونکہ آج ہم جو زندگی جی رہے ہیں وہ حقیقی زندگی ہے۔ہم زندگی کی حقیقتوں سے انحراف کرتے ہوئے ،منفی اثرات کو پس پشت ڈال کر صرف مثبت پہلوؤںکوا جاگر کرنے لگیں تو ادب کا مقصد ہرگز پورا نہیں ہوگا۔ ایک طرف ہماری موجودہ زندگی نفرتوں ، حقارتوں ،فسادوں اور طبقاتی کشمکشوںمیں گھری ہوئی ہے ۔مقامی سطح سے لے کر عالمی سطح کا سب سے اہم موضوع ’’ تشدد ‘‘ ہے ۔جس کے تدارک اور تحفظ میں ہر ملک اپنی آمدنی کا ایک تہائی حصّہ صرف اور صرف’’ڈیفنس ‘‘کے لئے خرچ ہورہا ہے۔جب کہ کئی ممالک بھوکے اور ننگے ہیں، ترقی یافتہ اور ترقی پذیر ممالک میں بھی لوگ کثیر آبادی والے علاقوںمیںجھونپڑیوں، ٹوٹے پھوٹے اور چھوٹے چھوٹے مکانوں میںجہاں برسات میں چھتیں ٹپکتی ہیں توگرمی کے میںجسموں سے پانی ٹپکتا ہے ،کئی بیماریوں کا شکار،تعلیمی اور بنیادی سہولتوں سے محروم ہیں،طاقتور طبقہ کے ہاتھوں مجبور ، بے بس اور لاچار ہیں، قانون پر امیروںاور سیاسی رہنماؤںاور حکمرانوں کی اجارہ داری ہے عدل و انصاف صرف کتابوں میں بند ہے تو دوسری طرف سماجی ،مذہبی، معاشرتی ، سیاسی تنازعے اور طبقاتی کشمکش اور بے روزگاری کے مسائل منہ کھولے کھڑے ہیں۔ضرورت اس بات کی ہے کہ آج کے فنکارکی نظریںان پر اٹھے ، اسے دیکھے ، اسے بیان کرے ۔ اس کی ترجمانی آج میڈیا والے کر رہے ہیں ۔لیکن ایک فنکار کا یہ فرض بنتا ہے کہ اس کرب سے پیدا ہونے والی کیفیت کی ترجمانی کرے اور ان کے خلاف آواز اٹھا ئے۔مگروہ ان حقیقتوں سے انحراف کرتے ہوئے اور دامن بچاتے ہوئے ایک بند کمرہ میں آرام کرسی پر بیٹھ کر(جب کہ منٹو اپنی کہانیاں لکھنے کے لئے رنڈیوں کے کوٹھے پر جاتا تھا) زندگی کے پرکیف نغمے بیان کرنے ،زندگی کی بھول بھلیوں گم ،بڑے لوگوں کے قصّے، طوطے مینا کی کہانیاں بیان کرنے ،عشق و عاشقی کی داستانیں اور گل و بلبل کی حکایتیں سنانے ،الف لیلیٰ کی طلسماتی اور تخیلی و تصوراتی دنیا کو ترجیح دینے اوراسے خوبصورت، سحر انگیز لفظوں میںتشبیہات و استعارات ،محاورات، ضرب الامثال اور روز مرہ کا سہارا لے کر ادا کرنے لگیں توممکن ہے کہ ادب کا مقصد پورا نہیںہوگا۔اس کے بر عکس مذکورہ مسائل کو ادب میں جگہ دی جائے جس سے قوم و ملک کا بھلا ہوتویقینا ادب کا مقصد پورا ہوگا ۔حالانکہ دور حاضر کے ادب میں یہ ساری چیزیں سموئی جا رہی ہیں مگر یہ تشفی بخش نہیں ہیں ۔کیونکہ دوسری زبانوں کا ادب سامنے کی موجودہ زندگی کو پیش کر رہا ہے اور ہمارا ادب اب بھی خیالوں کی دنیا بسائے ہوئے چل رہا ہے۔اگر اردوادب میں زندگی کی سچائیاں اور حقائق پوری دیانت داری کے ساتھ آجائیں تو دیکھنا یہ ہے کہ آنے والے دور میں ایسے ادب کوکس خانے میں رکھا جائے گا اوراسے کیا نام دیا جائے گا ۔ کیونکہ ’’ ما بعد جدیدیت ‘‘ کے معنی ’’جدیدیت کے بعد جو کچھ‘‘ کے ہیں ۔کیا ایک اور ’’ بعد‘‘ والا لفظ لگا کر ’’ بعد ما بعد جدیدیت ‘‘  ہوگا یہ آنے والا وقت ہی بتائے گا۔

(یو این این)

*************************************

 

 

 

 


    

 

Comments


Login

You are Visitor Number : 1459