donateplease
newsletter
newsletter
rishta online logo
rosemine
Bazme Adab
Google   Site  
Bookmark and Share 
mazameen
Share on Facebook
 
Literary Articles -->> Adbi Gosha
 
Share to Aalmi Urdu Ghar
Author : Dr. Imam Azam
Title :
   Iffat Mohani : Fankarana Deyanatdari Ki Aik Misal

عفت موہانی:فنکارانہ دیانت داری کی ایک مثال
 
گیسوئے تحریر:ڈاکٹرامام اعظم
 
خواتین افسانہ نگاروں میں عفت موہانی کانام کبھی فراموش نہیں کیاجاسکتا۔انہوں نے ناول نگاری کے رجحان کوتوانائی بخشی۔ ناول نگاری جوکہ ایک بڑاکینوس رکھتاہے اس کیلئے وقت ، مشاہدہ حالات، افکار، ترتیب، پیشکش ،کلائکس ، انٹی کلائکس، تجسس، دلچسپی کے عناصر، کرداروں کی بھرمار، ڈوبتے ابھرتے کردار اور پورے معاشرہ کی عکاسی کرنے کافن کسی معمولی شخصیت کے بس کاکام نہیں ہوتاہے۔ اس کے علاوہ اشاعت کے مراحل اور اس سے پیداہونے والی صورت حال سے نپٹنا، مشرقی انداز زندگی میں سموکر تحریرکے ذریعہ پورے معاشرہ کااحاطہ کرنامختلف کرداروں کی نفسیات اور احساسات کوپیش کرنا ایک بڑی بات ہے اور عفت موہانی کافن اس طورپر لازوال ہے کہ انہوں نے اس عہد میںمعاشرتی ناول نگاری کو فروغ دیا جب تن آسانی کیلئے افسانوں کاچلن عام ہوگیاتھا۔عفت موہانی نے اپنی پوری زندگی معاشرہ کے باریک سے باریک پہلوپربیبا کانہ اظہار کیا اور تبدیل ہونے والے معاشرہ میں ہراس چیز کورد کرناچاہا جومعاشرتی تغیرمیں رکاوٹ تھی یہ وقت کابڑا تقاضہ ہوتاہے اس احساس کوعام کرنے کی انہوں نے ایک لاشعوری کوشش کی اردوناول کے حوالے سے یہ ان کی دین ہے۔
 
اردوادب انہیں ایک بڑے کہانی کارکی حیثیت بھی سے جانتاہے گرچہ ان کے ساتھ تنقیدنگاروں کارویہ بے اعتنائی کارہا، پھر بھی فن کار اور تخلیق کار، تنقیدنگار کے بل بوتے زندہ نہیں رہتا، اس کی تخلیق ہی اس کو جاوداں بنادیتی ہے۔ میں ان کی دو مطبوعہ کہانیوں کے اقتباسات بطور نمونہ پیش کررہاہوں جن کاعنوان ،تعبیر،اور نیلاہیرا، ہے۔ ان کی پہلی کہانی، تعبیر، سے اقتباس پیش خدت ہے۔ ان کی طویل دوری کاانجام قریب نظر آرہاتھا۔ اماں کی سمجھ میں نہیں آرہاتھا کہ شادی کے دوسرے ہی دن شوکت نے اپنی بیوی کو اس کے گھر کیوں بھجوادیا تھا اوراب اس سے اس قدر ناراض تھا کہ اس کی شکل دیکھنے کاروادار نہ تھا فکر وتشویش نے ان کی نیندیں چھین لی تھیںوہ تو شوکت کو بھی مضطرب اور پریشان دیکھ رہی تھیں۔ ہزار بارپوچھنے پر وہ صرف یہی کہہ سکا تھا کہ ایک بدکردار لڑکی اس کی بیوی کے حیثیت سے اس کے گھر نہیں آسکتی ایک زہرتھا جواس کی رگوں میں آہستہ آہستہ پھیل رہا تھا۔ وہ ان دوآوازوں کوبھول نہ سکاتھا۔ ایک نرم ونازک گھبرائی ہوئی آوازجویقیناًاس کی بیوی کی تھی اور دوسری آوازمضبوط ،مسروراور بے پرواسی جوکسی مردکی تھی۔ جوشایداس کی بیوی کے ساتھ اس کی محبت میں چلاآیاتھا۔ نسائی لہجہ گھبرایاہواتھا۔ بھولنا نہیں ۔میں تمہاراانتظارکروںگی۔ ذرامیرے دل پر ہاتھ رکھ کردیکھو۔ کیسا دھڑک رہاہے۔ تمہاری شکل دیکھ کرتسلی ہورہی ہے۔ تمہارے بیچ جانے کے بعد کیا ہوگا۔
 
اتنی پریشان نہ ہوسیما، مردکی آوازسنائی دی تمہاری خاطر میں روزآئوںگا۔ کیا میں تمہیں بھول سکتاہوں۔ تم سے ملے بغیرمجھے بھی کہاں قرارآئے گا ارے ڈارلنگ میں تم سے پہلے ہی کہہ رہاتھا کہ اس جنجال میں نہ پڑو۔مگرشوکت صاحب تمہیں ایسے ہی پسندآگئے تھے ۔بہرحال اب ہمت سے نئی زندگی کاسامنا کرو۔اچھااب میں چلتاہوں۔
 
کھانے سے پہلے نورینہ نے ہیرااپنی گڑیوں کے صندقچہ میں چھپادیا۔ پھرامی نے ناشتہ کے لئے آوازدے لی۔ تینوں نے بے چبائے آدھے سلائیس کھائے اور آدھی آدھی پیالی دودھ پیا۔ پھر اٹھ گئے۔ سب کودولت کی ضرورت تھی۔ ہیراجلدی سے بکتاتوایک روپیہ روز کی خیرات سے نجات ملتی۔ بڑی احتیاط سے ہیرامٹھی می دبائے جارہے تھے۔ ادھر سے ڈیڈی اور بھائی جان آرہے تھے۔ ڈیڈی بے حد نیک دل تھے مگر بھائی جان نے پوچھ لیا۔ بدحواس سے کیوں نظرآرہے ہو، بیگ کہاں ہیں تم لوگوں کے نورینہ کے ہاتھ میں سرخ چمکارادیکھ لیا اورپوچھا کیا ہے تمہارے ہاتھ میں دکھائو مجھے کچھ نہیں بھائی جان نورینہ کو ایک خطیررقم ہاتھ سے جاتی معلوم ہورہی تھی ۔ اس کا چیخنے کودل چاہ رہاتھا۔ کسیے کچھ نہیںبھائی جان بولے اور نورینہ کے ہاتھ سے سرخ پڑیاچھین لی۔ ہیراہماراہے۔ ہماراہے۔ نورینہ آخرکار چیخ ہی پڑی۔ ہمیںملاہے ہیرا؟بھائی جان نے کہا، پھر سرخ کاغذنوچ کے الگ پھینکا اورقہقہہ لگاکے بولے رات کومجھ سے کانچ کاپیپرویٹ ٹوٹ گیا تھا۔ ساری کرچیاں میں نے چن کرپھنک دی تھیں کہ تم لوگوںکے پائوں زخمی نہ ہوںمگر یہ ٹکڑہ پتہ نہیں کیسے یہاں رہ گیا اسے میں نے میز کے خانے میں رکدھ دیاتھا۔
 
عروج کے بعدکادردناک زوال ان تینوں لکھ پتیوں کیلئے بڑاعبرت ناک تھا۔ نورینہ توتبھی روپڑی تھی۔ مگرسلطان اورسلمان کورونا بھی نہیںآیاتھا۔ بس ایک زبردست دولت کے ہاتھ سے جانے پر منھ کھول کررہ گئے،’’مطبوعہ تمثیل نو،دربھنگہ، اکتوبر۰۴تامارچ۲۰۰۵،
 
کہانی نیلاہیرا میں انسان کاناپختہ ذہن بڑے بڑے خواب تودکھادیتاہے لیکن خواب حقیقت ہوجائیں ایسا کم ہوتاہے اور اس کے ٹوٹنے کاملال بھی بہت سارا درددے جاتاہے اور مایوسی گھرکرنے لگتی ہے۔
عفت موہانی ،تمثیل نو، کی مستقل قاری رہیں اور اپنی تخلیقات بھی بھیجتی رہیں نیز اپنے خطوط کے ذریعہ حوصلہ افزائی بھی کرتی رہیں اور سب سے بڑی بات یہ ہے کہ رسالہ کی روح جواداریہ ہواکرتاہے اس کووہ گہرائی سے پڑھتی تھیں۔ اپنی رائے اور بھرپور رائے دینے سے بھی نہیں چوکتی تھیں۔
 
’’۱‘‘ تمثیل نو، وصول ہوا ،شروع سے اخیر تک ایک ایک چیزپڑھنے کے بعد احساس ہوتاہے کہ ہم نے مطالعہ کاحق اداکیا ہے ورنہ اب تک طرح طرح کے فضول آنچلوں کے سائے میں جوزندگی گزری وہ محض تضیع اوقات تھیں۔ پرچہ کوآپ نے اس قدردلچسپ اور دلکش بنادیا ہے کہ بار بار پڑھنے کاجی چاہتا ہے۔ آپ نے آواز میں جوکچھ کہاہے وہ موجودہ لوگوں کے لئے اور آگے آنے والی نسل کیلئے ایک دردمند کاپیغام ہے۔ وہ مضمون صرف پڑھنے کی خاطر پڑھ لینے کی چیز نہیں۔ اس پر عمل کرنابھی ضروری ہے لیکن ہم نے تویہ دیکھا ہے کہ اردو سے زبانی ہمدردی کرنے والے بھی اردوزبان وادب سے مخلصانہ ہمدردی نہیں کرتے ہیں کہ بچے اردو سے قطعی نابلدہوتے ہیں انگریزی میں بات چیت کرنے لگتے ہیں تو ہماری خوشی کی انتہا نہیں رہتی۔ دیکھئے بہت سے سنیدہ رسالے بندہوگئے۔ ان کی جگہ بے معنی، بے مقصدڈائجسٹوں نے لے لی ہے وہ اردو زبان وادب کی بقا کاسامان تو کرتے نہیں ۔ان میں لکھنے والے والوں کامقصد صرف اپنے نام کی اشاعت ہوتاہے۔ کشت اردو کی بقا اور سرسبزی کے ضامن ہم ہی لوگ ہوسکتے ہیں۔ دوسروں سے اس کی آبیاری کی توقع رکھنا خودکودھوکادینابھی ہے اور نادانی بھی پرچہ کی تمام تحریریں شکرکامقام ہے اردوناول نویس ایسے ناول نہیں لکھتے ورنہ عریاں نگاری، برہنہ گوئی اور ظلم وستم کے بھی کچھ دوسرے ہی نام رکھنے پڑیںگے خطوط کامطالعہ بھی بہت دلچسپ ہوتاہے اس طرح ایک دوسرے کے خیالات اورپسندکاپتہ توچلتاہے لیکن کسی مناسب بات یااچھی رائے کوتنقیدیاذاتی دل آزاری کی شکل میں دیکھنا اوربراماننا مناسب نہیں۔
 
۲،پرچہ قدوقامت میں چھوٹا لیکن حیرت اور فطرت کے لحاظ سے بہت بھاری بھرکم اور وقیع ہے تمثیل نوکے بارے میں کوزے میں دریا سمودینا صحیح لگتاہے بڑے بڑے بھاری بھرکم پرچے اس مختصر لیکن نہایت قیمتی پرچے کے سامنے طفل مکتب ہیں۔ مطبوعہ: تمثیل نو، دربھنگہ، اکبور۰۴،تامارچ ۲۰۰۵۔
یہ ایک بڑی بات ہے کہ عفت موہانی نے اپنی عمر کے آخری لمحوں میں بھی تمثیل نوسے وابستگی بنانے میں کسرنہیں چھوڑی جوعام طور پر زیادہ شائع ہونے والے ادیبوں میں نہیں ہوتا۔
 
اردوکی مشہور فکشن نگار عفت موہانی، اصل نام، رشیدخورشیدسلطان، ۲۵؍جولائی ۱۹۳۴کوحیدرآبادمیں پیداہوئیں اور یہیں۶۱؍نومبر ۲۰۰۵کو ابدی نیندسوگئیں پسماندگان میں اکلوتابیٹا خالد اقبال ہے۔ مرحومہ نے تقریبا۷۰۰افسانے اورتقریبا۹۰ناول لکھے نسیم بک ڈپولکھنؤنے ان کے بیشترناول شائع کئے۔ مرحومہ کی حیات وخدمات پرعثمانیہ یونیورسٹی سے ایک خاتون نے ۲۰۰۴میں پروفیسر بیک احساس کے زیرنگرانی ایم فل کامقالہ لکھا، نیزعفت موہانی کے کئی خطوط قادرالکلام شاعرعبدالعزیزخالد کے نام تحریرکردہ ہیں، جوپاکستان سے شائع ہوچکے ہیں۔
 
++++
 
Comments


Login

You are Visitor Number : 990