donateplease
newsletter
newsletter
rishta online logo
rosemine
Bazme Adab
Google   Site  
Bookmark and Share 
mazameen
Share on Facebook
 
Literary Articles -->> Adbi Gosha
 
Share to Aalmi Urdu Ghar
Author : Dr. Imam Azam
Title :
   Kuliyat Khwaja Sultan Jan : Tahqeeq Va Tadveen Ka Fanny Jayeza

کلیات خواجہ سلطان جان: تحقیق وتدوین کا فنی جائزہ
 
گیسوئے تحریر:ڈاکٹرامام اعظم
 
تحقیق عرق ریزی کاکام ہے اور محقق کو سب سے پہلے اس بات کا خیال رکھنا پڑتاہے کہ وہ اپنا موضوع ایسا تلاش کرے جس کی اہمیت تاریخی بھی ہو اور اضافی بھی ہو۔ میں جس تحقیقی مقالہ کاتجزیہ پیش کررہاہوں اس کاعنوان ہے، کلیات خواجہ سلطان جان:تحقیق وتدوین ،جس پرڈاکٹر محمدطیب صدیقی سابق صدرشعبہ اردو ایل این متھلا یونیورسٹی، دربھنگہ کوڈی لٹ کی ڈگری تفویض کی گئی تھی۔ یہ مقالہ درج ذیل ابواب پر مشتمل ہے جس میں پیش لفظ، تاریخی پس منظر، ادبی پیس منظر، حالات خواجہ سلطان جان خواجہ سلطان جان کی شاعری، خواجہ سلطان جان کی زبان، کلیات سلطان جان کے نسخوں کی ترتیب ،خاتمہ فہرست غزلیات کلیات خواجہ سلطان جان، ا،تا، ق، کلیات خواجہ سلطان جان ،متن ،اور کتابیات۔
اس تھیس کی اہمیت دووجہ سے ہے۔ اول تومحقق نے اس تھیس میں عظیم آباد کے ادبی پس منظر کا بھرپور جائزہ لیا ہے جس سے یہ اندازہ ہوتاہے کہ عرصہ دراز سے عظیم آبادہی کارنگ ہے یاپھردیگر دبستانوں کابھی اس نے اثرقبول کیاہے۔
 
سلطان جان کی شاعری پر ایک طائرانہ نظرڈالنے سے یہ اندازہ ہوتاہے کہ اگران کاسلسلہ نسبت خواجہ میردردسے ملتاہے توبیشک دردکی وہ خوبیاں بھی نسلاًمنتقل ہوگئی ہیں اور دردنے جس طرح سے تصوف کے اشعارسادہ اور عام فہم انداز میں کہے ہیں سلطان جان کے یہاں بھی موجودہے محقق نے یہ بات بھی لکھی ہے کہ سلطان جان کویقینی طورپر ناسخ کاشاگردنہیں کہا جاسکتالیکن ناسخ کی خوبیاں سلطان جان کے یہاں موجودہیں بلکہ گہرااثر ان کے یہاں پایاجاتاہے۔ آتش کے بھی گہرے نقوش سلطان جان کے یہاں موجودہیں۔ لکھنؤاور دہلی اسکول کابہترین امتزاج سلطان جان کی شاعری ہے مگرمحقق نے لکھاہے۔
خواجہ سلطان کازمانہ وہ تھا کہ جب کہ عظیم آباد کی شاعری پردبستان لکھنؤکی شاعری کے اثرات گہرے اور نمایاں تھے۔ یہی وجہ ہے کہ خواجہ سلطان کی شاعری کاعام رنگ وہی ہے جو اس دور میں شعرائے لکھنؤکاتھا یعنی ان کی شاعری میں لفظی رعائتیں ہجر، وصال کے افسانے، معشوق سے چھیڑچھاڑ ،رقیب وروسیاہ کوصلواتین ،گل وبلبل کی داستان اورشانہ وگیسوکے مضامین جولکھنؤشاعری کاطرہ امتیاز تھا بکثرت پائے جاتے ہیں۔
 
شعرائے لکھنؤاورخواجہ سلطان جان کی شاعری میں اتنافرق ضرور نظرآتاہے کہ ان کے یہاں مبتذل عشق بازی اور انگیاچوٹی کا ذکر نہیں اگر ایسے مضامین ہیں بھی تووہ زلف کاکل ،دہن ،کمراور زیادہ سے زیادہ بوس وکنار کے اظہارتک بس ہے۔ خواجہ صاحب کے دیوان میںلکھنوی طرزکے جواشعارہیں ان میں اس دورکےمذاق کے مطابق کسی حدتک عریانیت آگئی ہے تاہم ان کے کلام میں وہ ابتزال اور عریانی نہیں جو اس دور میں شعرائے لکھنوکی نمایاں خصوصیت تھی۔ بوسہ کے مضامین کمر کی توصیف، دہن کی توصیف، گیسوکے وسف، معشوق سے چھیڑچھاڑ،رعایت لفظی ،محا کات ومعاملہ بندی، زنانہ الفاظ کااستعمال اورلکھنوی طرزکی تشبیہات کے نمونے ملتے ہیں۔
 
خواجہ سلطان جان کے والدخواجہ حسین علی خاں نے ۱۷۴۶میں انگریزی حکومت کے خلاف تحریک چلائی تھی جس تحریک میں منشی راحت علی نیورابھی تھے اسی تحریک میں ۱۸۵۷میں جگدیش پورضلع شاہ آبادکے زمینداربابوکنورسنگھ اورپٹنہ کے پیرعلی اورعلی کریم نے نمایاںحصہ لیا۔ اس مقالے میں ۴۲۵غزلیںہیں۔ تذکروں میں بھی سلطان جان کاجہاں تذکرہ ہواہے اس کابھی ذکرمحقق نے کیاہے۔ سیدشاہ عطاحسین گیاوی ان کے بارے میں لکھتے ہیں:
 
خواجہ طالب علم خاں عرف خواجہ سلطان جان ابن خواجہ حسین علی خاں کہ ازاولاد کبار حضرت خواجہ عبداللہ احراروازعمائدشہر عظیم آباداندطبیعت رسابافہم وذکادارند۔’’بحوالہ کیفیت العارفین۔ص۹۷،۲۹۶‘‘
عزیزالدین بلخی رازعظیم آبادی اورشاد عظیم آبادی اپنی کتاب’’حیات فریاد‘‘میں بھی سلطان جان کا ذکرکرتے ہیں۔ نواب عنایت حسین خاں مہجور مولوی عبدالغفورنساخ وغیرہ نے بھی خواجہ سلطان جان کاذکرکیاہے لیکن کسی بھی تذکرہ نگارنے ان کی سن پیدائش نہیں لکھی ہے۔ اس لئے قیاس سے یہ اندازہ لگایاجاتاہے کہ تقریبا۱۸۰۶میں پیداہوئے اور۱۸۵۵میں انتقال کیا۔ اس وقت ان کی عمر۳۲سال تھی۔ محقق بھی اس حقیقت کوپتہ لگانے میں ناکام ہیں۔ حالانکہ یہ ایک اہم پہلوتھا اور اسے محض قیاس آرائی پرچھوڑدینا محقق کیلئے مناسب نہیں تھا۔ بہرصورت ان کے عہد کااندازہ ضرور ہوتاہے۔ خواجہ سلطان جان نے ۲۲؍ربیع الاول بروز یکشنبہ ۱۲۷۲ھ مطابق ۱۸۵۵کوگیا میں انتقال کیا۔ شمس العلما مولاناحسرت عظیم آبادی نے ان کی وفات پر قطعہ تاریخ لکھاہے۔ عہدالغفورنساخ نے بھی قطعہ تاریخ وفات لکھی۔
 
خواجہ سلطان جان کے بہت سارے ایسے گوشے جو آج تک مخفی تھے اس کواجاگر کرکے محقق نے ایک گراں قدر سرمایہ مہیا کیاہے۔ بیشک اس سے یہ بھی تہ چلاکہ عظیم آباداور اس سے ملحق گیا کاعلاقہ علم و ادب کامرکزرہا ہے اور محقق موصوف کی یہ کوشش بھی قابل ستائش ہے کہ انہوں نے بہت ایمانداری سے ان کمیوں کابھی اعتراف کرلیا ہے۔ جس کے سبب تحقیق کے مزید دروازے کھلنے کے امکان ہیں۔ خواجہ سلطان جان کی شاعری کودیکھنے سے یہ اندازہ ہوتاہے کہ وہ ایک فطری شاعرتھے اور انہوں نے علم وادب کواپنے لئے لازمی وضروری سمجھ رکھاتھا اورچونکہ ان کاتعلق کسی نہ کسی طورپرصوفیت سے تھااس لئے شعرگوئی بھی گویاان کے یہاں عبادت کادرجہ رکھتی تھی۔
 
تدوین کے کام میں عام طورپر مرتب کسی ایک نسخے کوبنیادبناتاہے اور دوسرے نسخوں سے مقابلہ کرکے اختلافات فٹ نوٹ میں درج کرتاہے لیکن اس مقالے میں ڈاکٹرطیب صدیقی لکھتے ہیں:
 
جن قلمی نسخوں سے اس کلیات کی تصحیح وترتیب کاکام عمل میں آیاہے۔ ان میں کسی مخصوص نسخہ کواساس نسخہ قرارنہیں دیاگیابلکہ مختلف نسخوں کے مطالعہ اورمقابلہ کےذریعہ اشعارکی تصحیح اور اس کی ترتیب کی کوشش کی گئی ہے۔ جس نسخہ کاجوشعر جومصرعہ یا جولفظ استقامتِ معانی اور مطالب کے لحاظ سے زیادہ قرین قیاس معلوم ہواہے۔ اس کوکلیات میں متن کتاب کی حیثیت دی گی ہے۔
 
ایڈیٹنگ کے دشوارمرحلوں میں محقق کہیں پرالجھتاہوانظرنہیں آتاہے۔ ایسا معلوم ہوتاہے کہ اس کا ذہن بھی ترتیب دیتے وقت سلجھا اور سنوراہواتھا۔ اسے کسی بات کی کمی یاشک کااحساس گزرتاہے تو وہ واقعات کی کڑیوں کوجوڑکرایسا فریم تیار کرتاہے جس سے ترتیب کاحسن وجمال بھی باقی رہے اور وہ کمی کہیں بوجھل پن پیدانہ کرے۔ اڈیٹنگ کافن بالغ ذہن کاثبوت ہے اور اگر کوئی تحقیق نگار اڈیٹنگ کے فن کوجانتا ہے تو اس کی تالیف اور کلیات دیدہ زیب بھی ہوں گے اور ایک ہی نظرمیں اس کودیکھ کرپڑھنے والے کویہ محسوس ہوجائے گا کہ اس کے اندر کیا اوصاف موجود ہیں اور اس کی دل چسپی بھی بڑھ جائے گی۔ بیشک یہ ایک گراں قدرتحقیق مقالہ ہے اوراس کی دستاویزی حیثیت اپنی جگہ مسلم ہے۔
 
++++
 
Comments


Login

You are Visitor Number : 770