donateplease
newsletter
newsletter
rishta online logo
rosemine
Bazme Adab
Google   Site  
Bookmark and Share 
mazameen
Share on Facebook
 
Literary Articles -->> Adbi Gosha
 
Share to Aalmi Urdu Ghar
Author : Dr. Imam Azam
Title :
   Urdu Mein Tanziya Va Mazahiya Column Nigari : Taqseeme Hind ke Bad Ka Manzar


اردومیں طنزیہ ومزاحیہ کالم نگاری:تقسیم ہند کے بعد کا منظرنامہ
 
گیسوئے تحریر:ڈاکٹرامام اعظم
 
طنزیہ یامزاحیہ کالم لکھنے کاسلسلہ تقریبا دنیا کی تمام زندہ زبانوں میں رہا ہے۔ اردو میں یہ سلسلہ بیسویں صدی میں شروع ہوا۔ آزادی کے بعد ہندوستان میں اس کی اہمیت وافادیت اوربھی زیادہ ہوگئی کیونکہ پاکستان میں آمریت کاایک لمبادور چلا اور ہندوستان میں جمہوریت اورسیکولرزم کے باوجود کچھ ایسا ماحول رہا جس سے فرقہ وارانہ عصبیت کے سبب مختلف علاقوں میں سلسلہ وارفسادات کے دورسے لوگوں کوگذرناپڑا۔ پاکستان میں بھی ہندوستان سے ہجرت کرنے والے اور ہندوستان میں پاکستان سے ہجرت کرنے والے لوگوکونوسٹلجیا کے مراحل سے گذرناپڑا۔ ان تمام حالات میں کسی بات کوکہنے کے لئے سلیقہ اظہار میں طنزومزاح کی ضرورت تھی۔ ایسی صورت میں اردواخبارات نے قارئین کیلئے ایسے لوازمات اخبارات کے کالموں میں سجانے کی کوشش کی جس کے تحت تلخ بات پر شیرنیت کاخلاف چڑھاکرپیش کیاجانے لگا۔ سیاسی سماجی معاشرتی تہذیبی اور معاشیاتی مسائل کے سات ساتھ بدلتے حالات پربھرپورنگاہ ڈالی گئی اور کوئی بھی مسئلہ ایسا نہیں تھا جسے طنزومزاح کے کالم میں شامل ہیں کیاگیا۔ دل کی بھڑاس بھی نکالی گئی اصلاح کااشارہ بھی کیاگیا، خامیوں اورخرابیوں سے چادر بھی اٹھائی گی۔ سیاسی گلیاروں کی پول بھی کھولی گئی لیکن ان تمام کالم نگاروں کامقصدبراہ راست کسی کی ہجوم کرنا یاکردار کشی کرنا نہیں تھا بلکہ نیک نیتی سے عوام تک یہ پیغام پہنچادینا تھا کہ ان کے معاشرہ میں کسی طرح کی شخصیتیں کس طرح کے نظریے رائج ہیں اور کس طرح کی صورتحال ہے اور کہاں کہاں اصلاح کی ضرورت ہے اور ہلکے پھلکے انداز میں ہنستے ہنستے ساری بات پیش کرنے کافن ہمارے فنکاروں کومعلوم تھا کیونکہ انسان اپنامذاق اڑاکربھی معاشرہ کوبہت کچھ دیتا ہے لیکن یہاں صرف فن سے کام ہیں چلتا۔ کیونکہ بقول مجبتیٰ حسین، کالم نگاری کیلئے مزاحیہ کالم نگارکاصرف ظریف ہوناکافی نہیں بلکہ باظرف ہونا بھی ضروری ہے۔ کالم نگار جب تک اپنے اور زمانے کے غم کو انگیزنہیں کرلیتاسچی اور اچھی کالم نگاری نہیں کرسکتا۔ ایک مشہور واقعہ ہے کہ فرانس کے ایک شخص نے ڈاکٹرکے پاس جاکر کہاکہ میری سب سے بڑی بیماری یہ ہے کہ میں مدتوں سے ہنسانہیں ہوں۔ڈاکٹرنے برجستہ اس شخص سے کہا کہ اس کاآسان علاج یہ ہے کہ آپ فلاں سرکس ک جوکر کوجاکردیکھ لیں اور اس کے تماشوں کودیکھیں۔ آپ کوخود بخودہنسی آجائے گی، روتاہواآدمی اسے دیکھ کر ہنس جاتاہے۔ مریض نے ایک آہ بھری اورکہا کہ ڈاکٹر صاحب اس سرکس کاجوکرتومیں ہی ہوں ڈاکٹر پریشان ہوگیا۔ اسی طرح ہمارے کالم نگار ہنساتے رہے لیکن کتنے کربوں سے گذرتے رہے اس کااندازہ لگانابہت مشکل ہے۔ لکن مزاح نگاری ہنسانے کافن نہیں ہے بلکہ مزاح نگاراس کے وسیلہ سے اپنے قاری کواپنے وقت کے ان مسائل پر سوچنے اور غوروفکرکرنے کی دعوت دیتا ہے جو اس کے سماج کودیمک کی طرح چاٹ رہے ہوتے ہیں یاطنز ومزاح کے پردہ میں ان مکروہ چہرو ں سے نقاب ہٹاتاہے جوشرافت کا لبادہ اوڑھ کرسماج کااستحصال کرتے ہیں۔ اس سے خود اس کی ذات یاسماج کے عیوب اس پر آشکار ہوجاتے ہیں۔ طنزومزاح کے کالم نگار کے پاس الفاظ ہی ہوتے ہیں جنہیں سماج کی بے راہ روی پر اس سلیقے سے بروئے کار لاتاہے کہ قاری کالم پڑھتے ہوئے کبھی مسکراتاہے کبھی ہنس پڑتاہے اورکبھی تلملااٹھتاہے اس طرح کالم نگارطنزکی کڑوی گولی پرمزاح کی شوگر کوٹنگ کرکے صورتحال کاپول کھولتاہے اورقارئین کومحفوظ کرتارہتاہے۔ پروفیسرمحمدحسن رقم طرازہیں:
 
’’اخبارکے مزاحیہ کالم کے لئے طنزومزاح لکھنا اوربھی دشوارہے۔ روزروزکی ملاقات سے یوں ہی تازگی جاتی رہتی ہے اور پڑھنے والا پہلے ہی سے کچھ چوکناکچھ متوحش ہونے لگتاہے اس میں قدرے کمی کرسکتاہے تواخبارکے دوسرے مندرجات کابھاری پن کہ پڑھنے والا اس کے ضرب شدید سے گھبراکر عارضی ہی سہی ابرمزاح کے سایے میں کھسک آتاہے۔’’بحوالہ’’بقلم خود‘‘نصرت ظہیر۱۹۹۶ء
آزادی سے قبل اردومیں خواجہ حسن نظامی ،چراغ حسن حسرت، عبدالمجیدسالک، ملارموزی اورقاضی عبدالغفارجیسے مستندادیبوں نے اخبارات کیلئے بہترین طنزیہ مزاحیہ کالم لکھے اور اخباری کالم نگاری کووقار واعتباربخشا۔ آزادی کے بعد اسے مزیدفروغ حاصل ہوا۔ تاہم اسے ہندوستان کے مقابلہ میں پاکستان میں وہاں کے جبریہ سیاسی نظام کے باعث زیادہ فروغ ملا۔اس کی وجہ یہ ہے کہ ہندوستان میں جمہوریت نے ہرشخص کوکم ازکم اتنی آزادی توضرورفراہم کردی ہے کہ کوئی شخص کہیں بھی حکومتی پالیسیوں سمیت وزراء وحکام کی غلط کاریوں اوربے راہ رویوںپرنکتہ چینی کرسکتاہے، اس لئے یہاں اشاروںکنایوںاورلطیف طنزیہ ومزاحیہ اشارات سے کام لینے کی بہت زیادہ ضرورت نہیں ہے، لیکن پاکستان کے مخصوص حالات کی وجہ سے وہاں طنزیہ ومزاحیہ کالم نگاری ہی سب سے مئوثر ذریعہ اظہارہے، اسی لئے وہاں کوئی بھی اخبار اس کے بغیر کامیاب نہیں ہوپاتاہے جبکہ ہندوستان میں چنداخبارات ہی ایسے ہیںجوطنزیہ مزاحیہ کالم شائع کرتے ہیں۔ ان اخبارات میں حیدرآبادسے شائع ہونے والا کثیرالاشاعت روزنامہ سیاست ،ہے مجتبیٰ حسین نے اس اخبارمیں پندرہ برسوں تک شیشہ وتیشہ، کے عنوان سے مزاحیہ کالم لکھا۔ درمیان میں یہ سلسلہ منقطع ہوگیا لیکن اب پھراس کے ہفتہ وار ادبی میگزین میںمجتبیٰ حسین ’’میراکالم ‘‘کے عنوان سے لکھ رہے ہیں۔ ان کے ایک کالم، اردوافسانے کی عورت، سے یہ اقتباس دیکھئے:
 
’’اگرچہ یہ بات مشہور ہے کہ ہند کے شاعروں اور افسانہ نگاروں کے اعصاب پر عورت سوارہے لیکن اس کے باوجود ان کی تخلیقات میں وہ بھرپور عورت نظرنہیں آتی جوہمیں عام زندگی میں دکھائی دیتی ہے اس پر کسی نے کہا، افسانہ نگار کے اعصاب پر عورت کاسوار ہونا ایک الگ بات ہے اور اس کااعصاب سے اترکر ادب میں چلے آنابالکل دوسری بات ہے۔ ہمارے افسانہ نگاروں کے اعصاب پرجس طرح کی عورت سوار ہے وہ وہیں بیٹھی رہے تو اچھا ہے۔ ایسی عورت کاادب میں کیاکام ہے۔
 
جمہوری عہد کے عنوان سے اپنے ایک کالم میں لکھتے ہیں:
یہاں ہر آدمی اپنے جمہوری حق کیلئے لڑرہاہے اور جمہوری تقاضوں کیلئے وہ سب کچھ کررہاہے جونہایت غیرجمہوری ہے۔ تاجر اشیاکی قیمتیں بڑھاتا ہے تو یہ اس کاجمہوری حق ہے اور آپ اشیاکی قیمتوں میںاضافہ کے خلاف آوازبلندکرتے ہیں تویہ آپ کاجمہوری حق ہے۔شاعر کیلئے شعرکہنا اس کاجمہوری حق ہے اور اس کے کلام پر ہوٹنگ کرناآپ کاجمہوری حق ہے یوں ہمارے ہاں جمہوری حقوق کی حالت نظیر آکبرآبادی کے آدمی نامہ، کی سی ہوگئی ہے کہ یہ بھی آدمی ہے اور وہ بھی ہے آدمی۔
 
قومی آوازلکھنؤمیں حیات اللہ انصاری میزبان کے قلمی نام سے مزاحیہ کالم لکھتے تھے ان کے بعد اس کی کمان احمد جمال پاشا نے سنبھالی اور خوب لکھا اور تقریباًہرموضوع پرلکھا۔ بقول فکرتونسوی ان کی دانش ورنگاہ گردوپیش کے ان روزانہ مسائل کے گردگھومتی تھی جوبیک وقت دردناک اور مضحکہ خیز تھے قلم کے لہجے میں بیساختگی بے خوفی اور شگفتگی تھی۔ اس لئے  ایسے کالم لکھ ڈلے جو بیک وقت وقتی اور مستقل حیثیت کے آئینہ دار تھے۔
 
اپنے ایک کالم کرسی، میں لکھتے ہیں۔
ایک بہت بڑے افسر کے مرنے کی خبر سن کرایک بہت چھوٹاافسرمارے خوشی کے ناچنے لگا اور بولا۔
خداکاشکر ہے کہ سینارٹی میں اب میرا نمبرپندرہ ہزار سات سوچالیس سے ایک دم گھٹ کرپندرہ ہزار سات سوانتالیس رہ گیا۔
انتہائی غیرمحفوظ کرسیاں وزیروں کی ہوتی ہیں۔ بالکل وندان ساز اور کھٹمل والی کرسی کی طرح دندان سازکی کرسی پر بیٹھنے کامطلب ہی بیتسی سے ہاتھ دھولینا ۔یہ کارروائی قسطوں میں بھی ممکن ہے یہی حال بے چارے وزیروں کارہتاہے یہ کرسی پربیٹھتے ہیں اس کو بچانے کیلئے برابر دوڑتے رہتے ہیں جسے وزارتی اصطلاح میں دورہ کرنا کہتے ہیں۔ وزیرکواس پربیٹھنے کاشرف بہت ہی کم حاصل ہوتاہے، یہاں تک کہ کوئی اور وزیرہوجاتاہے، اس پر بھی وزارتی دورے پڑنے لگتے ہیں، وزارتی کرسیوں کابندوبست ووٹ یابندوق سے ہوتاہے یاپھردل بدل سے۔
 
اسی اخبارکے دہلی ایڈیشن میں نصرت ظہیرکامزاحیہ کالم اپنے اسلوب کی چاشنی اورخوبصورت طنزکی وجہ سے بڑے شوق سے پڑھاجاتاتھا۔ نصرت ظہیران دنوں راشٹریہ سہارامیں نمی دانم کے عنوان سے کالم لکھ رہے ہیں فلم، سلم ڈوگ ملینائر کوآسکرایوارڈملنے پرانہوں نے یوں نشترزنی کی ہے۔اگر سرمائیہ افلاس اسی طرح آسکردلاتارہاتو شاید دنیا کے سب سے بڑے سرمایہ داربھی ہم ہی نکلیں، بھلے ہی وہ مفلسی کی سرمایہ داری کیوں نہ ہو۔ توآئیے عہد کرتے ہیں کہ ہم جھگی جھونپڑیوں اورگندی بستیوں کوخوب ترقی دیں گے، انہیں اورپھیلائیں گے، ان میں زندگی کواور مشکل بنائیں گے اورہرشہرمیں کم سے کم ایک بڑی بلکہ ہوسکے توبہت بڑی اورگندی بستی ضروربسائیں گے۔یوسف ناظم ابتدامیں شاعری کرتے تھے، پھر جب مزاح نگاری پرتوجہ دی تو اسی کے ہوکررہ گئے اور بقول ظ انصاری۔
بہت دیرے سے ان پرکھلا کہ دراصل وہ مزاح نگارپیداہوئے تھے۔
 
یوسف ناظم کچھ عرصہ ’’بلٹز‘‘میں باتیں ہماریاں، اورپھر ممبئی کے اردوروزنامہ’انقلاب میں’اتواریہ، کے عنوان سے کالم لکھتے رہے ۔ان کے ایک کالم کااقتباس دیکھئے:
 
اس مرتبہ پورے ہندوستان میں تو نہیں لیکن شہر ممبئی میں دویوم آزادی منائے گئے ایک حسب معمول۱۵؍اگست ۱۸؍اگست کواوردوسرافوراًہی تین دن بعد ۱۸؍اگست کو۱۵؍اگست کے یوم آزادی میں کوئی پریڈ نہیں لیکن ۱۸؍اگست کوآزادی کی جوتقریب منائی گئی اس میں عوام نے بڑے جوش وخروش سے حصہ لیا۔ ۱۸؍اگست کوآزادی کی جوتقریب منائی گئی اس میں عوام کومختلف مقامات پرمختلف قسم کے انعامات سے نوازاگیا لیکن یہ انعامات بانٹے نہیں گئے یہ بہت فرسودہ طریقہ ہے عوام نے خودہی یہ انعام پسند کئے اور خودہی حاصل کرلئے اب کسی کے گھر میں دوٹی وی سٹ ہیں توکسی کے یہاں تین ریڈیوسٹ ہیں۔ کسی عوام کوکپڑے کے تھان پسند آئے تو کسی عوام نے صرف نقدرقم لیناپسند کیا لیکن یہ تقریب صرف ۲،۳گھنٹے جاری رہی، انعامات حاصل کرنے کیلئے اتناوقت کافی نہیں تھا لیکن پھر بھی لوگوں نے حتی المقدورحوصلہ دکھایااور باقی آئندہ کہہ کرشام کے وقت پروگرام ملتوی کردیا۔ 
 
فکرتونسوی نے ۱۹۵۲سے کمیونسٹ روزنامہ،نیازمانہ ، میں کالم لکھناشروع کیا ۱۹۵۵میں دہلی کے روزنامہ ملاپ میں پیازکے چھلکے، کے عنوان سے پچیس برسوں تک روزانہ کالم لکھتے رہے۔ ان کے ایک کالم بچے کتنے ہوئے چاہئیں، کاایک اقتباس ملاحظہ ہو۔
 
کم بچے پیدا کرنے کاتعلق صرف اقتصادیات سے نہیں ہے بلکہ اس کے ساتھ کچھ اور مصیبتیںبھی وابستہ ہیںمثلاًکم سے کم جتنے بچے پیداکئے جاسکتے ہیں وہ یہ کہ ایک بچہ پیداکیا جائے کیونکہ ایک بچے سے کم بچے پیداکرناممکن ہی نہیں ہے۔ لیکن فرض کیجئے اگر یہ بچہ ناخلف نکلے تو آپ کیاکریں گے یہ حقیقت ہے کہ ہرگھر میں ایک نہ ایک بچہ ناخلف ضرورنکلتاہے۔ اس لئے اگر بچہ ہی ایک ہوتو ناخلف ہونے کی ذمہ داری بھی اسی کواٹھاناپڑے گی۔ لہذاناخلف بچے کے مقابلہ پرایک فرماںبرداربچہ ضرورپیداکرناچاہئے۔
پاکستانی کالم نگاروں میں احمدندیم قاسمی کے کالم بہت پسندکئے گئے، روزنامہ، امروز، لاہور میں کئی برسوں تک روزانہ ،حرف وخایت، کے عنوان سے روزمرہ مسائل پرکالم لکھتے رہے۔ اس کے بعد روزنامہ، جنگ، میں لکھاان کے ایک کالم ، درچینی کے ایک ہزارذرے سے ایک اقتباس ملاخظہ ہو۔
 
کچھ دنوں سے چینی کی کچھ ایسی کیفیت ہورہی ہے کہ اگر ہماری حکومت مانے توجلدی جلدی سے چینی کاایک آدھ من محفوظ کرکے اسے عجائب گھر میں منتقل کردے تاکہ آئندہ نسلیں جب کتابوں میں چینی کاذکر پڑھیں تو اسے گڑنہ سمجھ بیٹھیں۔ چینی کافوری طور سے نوادرات میں شامل کرلینابے حد ضروری ہے۔ اور محکمہ آثارقدیمہ اس کام کوجتنی جلدی اپنے ہاتھ میں لے لے اتنا اچھا ہے۔ وقت آنے والا ہے جب اعزہ واحباب خوشی کی تقریبوں پرایک آدھ چمچہ چینی سونے کی ڈبیوں میں بندکرکے پیش کیا کریںگے ۔اورتحفہ قبول کرنے والے جب ڈبیاکھول کراس میں چینی کاحسن مرمریں دیکھیںگے توان کی آنکھوں میں آنسوآجائیں گے ان کی آوازبھراجائے گی اوروہ بڑی رقت سے کہیں گے اتنی قربانی، یعنی آپ میرے لئے چینی ایسی چیزکاپوراچمچہ لے آئے ہیں۔ نہیں میں اس قابل کہاں۔ میری طرف سے یہ چمچہ اپنے والد بزرگوارکی خدمت میں پیش کردیجئے گا۔
پاکستان کے مقتدرکالم نگاروں میں مشفق خواجہ کانام اہم ہے۔ انہوں نے خانہ بگوش، کے نام سے ہفتہ وار جسارت اورپھر تکبیر، میںکالم لکھے اور وہ وہاں سے ہرماہ، کتاب نما، دہلی میں نقل ہونے لگے۔ مشفق خواجہ کااسلوب سب سے منفردہے۔ بقول مجتبیٰ حسین:
 
خامہ بگوش نے اپنے گہرے طنزکے ذریعہ ادب کے بڑے لوگوں کوان کاچھوٹاپن دکھانے کی کامیاب کوشش کی ہے۔ ان کاکالم جارحانہ ضرورہوتا ہے لیکن عالمانہ اورعارفانہ بھی ہوتاہے اس بات سے مشفق خواجہ خودبھی واقف تھے۔ ان کے بقول:
کالم لکھنانسبتاآسان ہے کہ اس میں ہماری گرہ سے کچھ نہیں جاتاجس پرہم لکھتے ہیں اسی کے دل میں گرہ پڑجاتی ہے۔
 
مذکورہ بالا مزاحیہ کالم نگاروں کے علاوہ پاکستان میں شوکت تھانوی، ابن انشا ابراہیم جلیس،انتظارحسین، منوبھائی عطاء الحق قاسمی، اخترامان ، انجم اعظمی ،شبنم رومانی اور محسن بھوپالی وغیرہ نے مزاحیہ کالم نگاری کوبام عروج تک پہونچایا توہندوستان میں کنہیالال کپور، دلیپ سنگھ، خواجہ احمد عباس، جعفر عباس، ملاابن العرب مکی، خوشترگرامی، ابراہیم ہوش، اقبال اکرامی، انجم نعیم ،اسدرضااور دیگر متعددشخصیات ہیں جنہوں نے اپنی تحریرکی گل افشانی سے مزاحیہ کالم نگاری کوچارچاندلگائے اردوکے بعض کالم نگاروں نے کسی مصلحت کے پیش نظریاخودپرآنچ نہ آنے دینے کے سبب فرضی ناموں سے اپنے جوہردکھائے یاپھر کالم کی مناسبت سے نام اس طرح تبدیل کیاکہ اس سے بھی مزاح کاعنصر پھوٹے۔
ڈاکٹر وزیرآغانے کالم نگاروں کی طنزیہ ومزاحیہ انفرادیت کواس طرح پیش کیاہے۔
 
جہاں آزادی سے قبل اس میں زیادہ ترسیاسی مسائل، واقعات یاشخصیات کی ناہمواریوں سے مزاحیہ نکتے اخذکیے جاتے تھے وہاں اب ان میں زیادہ ترمعاشرے کی تہذیبی اور ثقافتی سطح منعکس ہورہی ہے۔ گویا آج کے کالم نگار کے مطمح نظر میں اتنی کشادگی آگئی ہے کہ وہ اب سیاسی مسائل کوتمام تر اہمیت تفویض کرنے کے بجائے انہیں وسیع ترسماجی پس منظر میں رکھ کردیکھنے لگاہے، یہ زاویہ نگاہ نہایت مستحسن ہے ’’بحوالہ اردو ادب میں طنزومزاح کی روایت‘‘
بہرحال اردو میں طنزیہ ومزاحیہ کالم نگاری کامقام بہت اعلیٰ وارفع ہے جس میں زمانہ کی تمام تر سماجی، معاشرتی اورسیاسی سرگرمیوں کااحاطہ ہوتاہے اور دوسری کسی زبان سے اس کامقام ومرتبہ کم نہیں ہے۔
 
++++
 
Comments


Login

You are Visitor Number : 978