donateplease
newsletter
newsletter
rishta online logo
rosemine
Bazme Adab
Google   Site  
Bookmark and Share 
mazameen
Share on Facebook
 
Literary Articles -->> Adbi Gosha
 
Share to Aalmi Urdu Ghar
Author : Dr. Imam Azam
Title :
   Urdu Zaban : Masael Aur Hal

اردوزبان:مسائل اورحل
 
گیسوئے تحریر:ڈاکٹرامام اعظم
 
اردوزبان کے مسائل پربحث کرتے ہوئے ہمیں نہایت سنجیدگی سے غوروفکر کرنے کی ضرورت ہے۔ عموماًہوتایہ ہے کہ ایسے مواقع پرہم جذباتی گفتگو سے زیادہ کام لیتے ہیں۔ چندمسلمات بیان کرکے خوش ہولیتے ہیں بلکہ یہ کہنا بیجانہ ہوگا کہ اپنی نارسائی کی تسکین خوش فہمیوں سے کرتے ہیں بجائے حالات ومسائل کے تجزیے کے چندر وشن امکانات کی پیش بینی کرکے یا اپنوں اورحکومت کومور والزام ٹھہراکر اپنی ذمہ داری سے سبکدوش ہوجاتے ہیں اور مسائل پیدا کرنے والے اسباب وعوامل سے آنکھیں چراتے ہیں حالانکہ ضرورت اس بات کی ہے کہ ہم ملکی اور عالم تناظر میں اردو اور اس کے مسائل کاجائزہ لیں اور اسے زندگی کے تقاضوں سے ہم آہنگ کرنے کی کوشش کریں۔ ہمارا مشاہدہ ہے کہ جوعلم ،زبان یاقوم زندگی کے تقاضوں سے ہم آہنگ نہیں ہوسکی وہ زوال آمادہ ہوئی یہاںتک کہ اس کاوجودختم ہوگیا۔ ایک رپورٹ کے مطابق روزانہ۵۰سے زائدزبانیں مرتی جارہی ہیں۔
 
زندگی کے بے شمارتقاضے ہیں اور ہرتقاضے کے مطابق مسائل ہیں۔ وبستانوں سے دانش گاہوں تک اور آغوش مادرسے گھربازار تک جہاں جہاں تک ہمارے خیالات اورہماری ضروریات ہیں وہاں ہماری زبان کے مسائل ہیں۔ ان مسائل کوہم مندرجہ ذیل حصوں میں تقسیم کرسکتے ہیں۔
تقریروتحریرکے مسائل: اردوبحیثیت زبان کہاں تک ہماراساتھ دے رہی ہے؟کہاں تک ساتھ دے سکتی ہے اورکہاں جاکر ہماراساتھ چھوڑدیتی ہے؟اس کی بنیادی وجہ کیاہے؟
 
یہ ہمارے گھروں میں رابطے کی زبان ہے۔ ہمارے معاشرہ کاایک بڑاطبقہ علمی پسماندگی کاشکار ہے۔ وہاں یہ زبان رابطہ کے طورپر رائج ہے لیکن اس کی خوبیوں کے ساتھ اسے اپنا نے کی کوشش نہیں کی جاتی۔ سرکاری اسکولوں کے اعدادوشمارکاجائزہ لیا جائے تواندازہ ہوگا کہ سکنڈری سطح تک اردو داں بچوں کاڈروپ آئوٹ سب سے زیادہ ہے۔ دوسراطبقہ کاہے اعلیٰ تعلیم جن کی نظروں کوخیرہ کررہی ہے اوردوولت جن کیلئے حاصل حیات ہے۔ یہ طبقہ نہ صرف اردوچھوڑن پرآمادہ ہے بلکہ اس کوشش میں مصروف ہےکہ بچے اچھی انگریزی بولیں، یہاں اردوکوعلمی کی علامت اورانگریزی باعث افتخارہے۔ ہماراسماج اور ہمارادانش مندطبقہ ایسے لوگوں اوران کے بچوں کی پذیرائی کرتاہے اوراس کوباعث تقلیدسمجھتاہے تیسرامتوسط طبقہ ہے جس کاایک حصہ عاجزی کی بناپر انگریزی استعمال نہیں کررہاہے مگر اس کی بول چال کی زبان پرLingua Francaکا غلبہ ہے۔ میرے Backboneمیں Pain ہے۔ جیسی زبان یہاں استعمال ہوتی ہے۔ ا ن گھروں میں بھی بچوں کی زبا ن وبیان کی نگہداشت نہیں کی جاتی ہے کہ وہ اچھی مامحاورہ اور فصیح اردوبولیں، گھروں میں یہ حالت مایوس کن ہے۔
 
حکومت اورلسانی پالیسیوں سے متعلق مسائل زبا ن کی سرپرستی اور ترقی میں حکومتیں بڑا اہم کردار ادا کرتی ہیں۔ لیکن اردو کے ساتھ حکومتوں کارویہ بالعموم سوتیلا پن کارہا ہے لیکن زندہ قومیں سہاروں پر نہیں جیتی ہیں بلکہ بلند ہمتی سے نامساعدحالات کوسازگاربنانے کی کوشش کرتی ہیں۔
 
ہندوستان میں لسانی منافرت کی بنیادانگریزوں نے ہی ڈالی تھی لیکن اس کی آبیاری ملک کی تقسیم کے بعدخوب ہوی کوٹھاری کمیشن نے تعلیم کویکساں ملکی پیمانے پرنصاب تیارکرنے کی بات کہی تو اس کومذہبی اداروں نے مسترد کردیا اور کوئی نیا فارمولا سامنے نہیں آیا۔اردوزبان میں بنیادی تعلیم دینے کاسلسلہ ۱۹۴۷کے بعد بہت سے علاقوں میں بندہوگیا چونکہ اردو پاکستان کی سرکاری زبان ہوگئی اس لئے یہ ہندوستان کی سرکاری زبان نہ ہوسکی۔ گرچہ پاکستان کی سرکاری زبان اردوہے لیکن خود وہاں بھی اس کی حالت اچھی نہیں ہے، اورسرکاری کام کاج میں انگریزی ہی کااستعمال ہورہاہے۔ ہندوستان کے آئین کی دفعہ۲۹ ،۱میں تمام ہندوستانیوں کواپنی زبان، رسم الخط اور تہذیب کی حفاظت کاحق دیا گیا ہے اس بنیاد پر حکومتیں لسانی پالیسیاں ضرورتشکیل دیتی ہیں مگران کے عمل کاجائزہ لیا جائے تو مایوسی ہوتی ہے۔ بہار میں اردوکودوسری سرکاری زبان کی حیثیت حاصل ہے اس بنیاد پر بعض مراعات اور تحفظات بھی ملی ہوئی ہیں لیکن صورت حال یہ ہے کہ اس وقت یہاں کے اسکولوں اورکالجوں میں اردو اساتذہ کی اسامیاں خالی پڑی ہوئی ہیں۔بلکہ بہت سی جگہوں پر ان کی جگہ دوسرے مضامین کے اساتذہ کی تقرری کرلی گئی ہے۔ اترپردیش میں بھی اردو دوسری سرکاری زبان کی حیثیت سے متعارف ہے مگر چھ سات امور کوچھوڑکر سرکار سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ اردو یہاں سب سے زیادہ کس مپرسی کاشکار ہے۔عام لوگ ہندی کی طرف مائل ہیں، اسکولوں اورکالجوں میں اردو کے طلبہ کی بے حدکمی ہے۔ البتہ مہاراشٹراور کشمیر یں اردوکی حالت ضرورخوش کن ہے اور اس کے اچھے نتائج بھی سامنے آرہے ہیں۔
سرکاری سردمہری پراظہارخیال کرتے ہوئے ہمیںخوداپناجائزہ لیناچاہئے کہ ہم سرکاری مراعات سے کتنا استفادہ کررہے ہیں۔ دفتروں میں اردومترجمین سے دوسرے کام لئے جارہے ہیں کہ ان کے پاس کام نہیں آرہے ہیں۔ اوپن اسکولنگ میں اردو ذریعہ تعلیم سے ایک فی صدداخلہ بھی نہیں ہورہاہے۔ یونیورسٹی کی سطح پرچندایک فنی تعلیم کیلئے اردومیڈیم تعلیم میں سہولیات مہیاہیں اور مولاناآزادنیشنل اردویونیورسٹی اس سلسلہ میں اچھا کام کررہی ہے مگرہمارے طلبہ اس کوقابل اعتنانہیں سمجھتے۔
 
علمی زبان کی حیثیت سے اردو کے مسائل بلاشبہ ہماری زبان ہر سطح پرترسیل کی صلاحیت رکھتی ہے تاہم سوال یہ پیداہوتاہے کہ عالمی تناظر اور صارفی دور میں علوم آگہی میں اردو کس حدتک ہمارا ساتھ دے سکتی ہے۔میں یہاں ایک بات بتانا چاہتاہوں کہ جب تک ہم علوم کی سطح پردوسری اقوام تقلید کرتے رہیں گے۔ اپنے موضوع پراچھی صلاحیت رکھنے کے باوجود دوسرے درجہ کی سطح پردوسری اقوام تقلیدکرتے رہیں گے اپنے موضوع پر اچھی صلاحیت رکھنے کے باوجوددوسرے درجہ کی اہلیت کے حقدارہوں گے مثالی مہارت ہوتواور بات ہے۔ ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ یہاں دیگرزبانوں سے بے نیازی برتاجاناضروری نہیںہے۔ توکیاعام ذہانت رکھنے والے طلبہ کیلئے اپنے فن میں مہارت کے ساتھ دوزبانوں میں اظہارکی سطح، پرصلاحیت پیدا کرناآسان ہے؟
 
یہاں یہ بات بھی توجہ طلب ہے کہ ہم اپنی زبان میں ادب کے فروغ کیلئے جس طرح غور وفکر کررہے ہیں کیا اسی طرح اپنی زبان میں علوم وفنون کے فروغ کیلئے کوشاں ہیں۔ ہمارے یہاں ادب کے تعلق سے جس قدر سمینار اور جلسے ہوتے ہیں ان میں علوم وفنون پرہونے والے سمیناروں کی شرح کیا ہے۔ پھر جوسمینار اس موضوع پر ہوئے اس سے کس حدتک استفادہ ہواساتھ ہی کامیابی وناکامیابی وناکامی کے اسباب پر بھی غورکرنے کی ضرورت ہے۔ اس ضمن میں غوروفکر کاایک پہلویہ بھی ہے کہ جوقومیںدنیامیں لسانی برتری رکھتی ہیں انہیں برتری اپنے ادب کی بنیادپر حاصل ہے یاکسی اور بنیاد پر؟
 
یہاںبھی غوروفکر کاپہلویہ ہے کہ شائع ہونے والے جرائدومجلات میں علوم وفنون سے تعلق رکھنے والے رسائل وجرائدکتنے ہیں۔ ہمارے عام مجلات میں ان سے متعلق کتنے مضامین ہوتے ہیں۔ ان میں ایسے مشمولات کامعیار کیا ہوتاہے۔ ہمارے یہاں بہت سے ترجمے ہوتے ہیں۔ کیا ہمارے مضامین کے ترجمے دوسری زبان والے شائع کرنے پر مجبور ہیں۔اس طرح ہمارے جرائد میں بچوںکے ادب کی شمولیت کتنی ہوتی ہے۔ کتابوں کی اشاعت بھی ایک مسئلہ ہے۔ غورکرنے کی ضرورت ہے کہ ہمارے یہاں سال میں کتنی کتابوں شائع ہوتی ہیں۔ سماجی علوم سائنس، ریاضی اور قانون وغیرہ سے تعلق رکھنے والی کتابیں کتنی ہیں۔ ایک اندازہ کے مطابق ہرسال صرف شعری مجموعے ایک ہزار سے زائد شائع ہورہے ہیں۔معیاری ہونا۔ ضرورت ہے کہ ہمارے یہاں جوغیرادبی علمی کتابیں شائع ہورہی ہیں ان کادیگر زبانوں کی ان موضوعات کی کتابوں سے تقابل کیاجائے اور کوشش کی جائے کہ کم ازکم ان کے مساوی کتابیں آسکیں۔
ہمیں خودغورکرناہے کہ کس سطح تک اردوزبان میں معیاری کتابیں دستیاب ہوپائیں گی۔ اگر اعلیٰ تعلیمی سطح تک یہی ذریعہ تعلیم ہوتو موجودصورتحال میں تحقیق کی سطح پرکیا ہماری زبان ساتھ دے پائے گی۔عمرکے اس حصہ میں دوسری زبان سیکھناآسان ہے اور کیااس کی وجہ سے تحقیقی کام میں رخنہ نہیںپڑے گا۔اس طرح کیاسائنس اورپیشہ ورانہ تعلیم کی سطح پر انگریزی سے بے اعتنائی برت کی صرف اصطلاحات تک واسطہ رکھتے ہوئے کیاہم اپنی دوڑجاری رکھ سکتے ہیں۔ یہ ہمارے لئے مسرت کی بات ہے کہ مولاناآزادنیشنل اردویونیورسٹی نے پیشہ ورانہ تعلیم کی طرف توجہ دیتے ہوئے اپنی زبان میں پڑھانے کاانتظام کرلیا ہے۔ لیکن کتنے ادارے اس میں ہماراساتھ دیں گے،طلبہ کارجحان کس حدتک ہے اور طلبہ کوراغب کرنے کی کیاصورت ہوگی اور پھر وہی بات کہ تیز ترین تبدیلی کے ساتھ کیا ہم چل پائیں گے۔ یہاں صورتحال یہ ہے کہ ہم ترجمہ کے ذریعہ جب تک اپنے طلبہ کوواقف کراتے ہیں زمانہ دوسری تبدیلی سے دوچارہوجاتاہے۔
 
جہاں تک اردوذریعہ تعلیم کاسوال ہے، بہت ساری اصطلاحات جووضع کی گئی ہیں وہ نامانوس ہیں۔انگریزی اورہندی کے مقابلہ میں رائج نہیں ہیں۔ دوسری بات وضع اصطلاعات میں یہ بھی ہے کہ ہرجگہ الگ الگ ایک ہی انگریزی لفظ کے اصطلاحات دیکھنے کوملتے ہیں جسے بچوں یابڑوں میں بھی ایک طرح کاتشکیک پیداہوجاتاہے۔ اسے عام کرنے کیلئے عوامی سطح پرمہم کے طورپر بھی جوNGO'Sہیں اور اردو سے متعلق کام کرتی ہیں ان کوبھی توجہ دینی چاہئے۔ اس کے علاوہ ملک گیرپیمانے پروضع اصطلاحات کی ایک کمیٹی ہونی چاہئے اور بنیادی تعلیم کی ہرسطح پر اساتذہ کی تقرری طے کرنی چاہئے۔ دوسری بات یہ ہے کہ ووکیشنل اور پروفیشنل کورسیزکے آجانے کے بعداردوداں طبقہ اس کی طرف بھاگ رہاہے اس کیلئےٹھوس متبادل نہیں ہے اورنہ اس جانب کوئی بڑی کوشش ہورہی ہے۔ اس لئے ان تمام سطحوں پر مرحلہ وار کمیٹیاں بناکر مہم چلانے کی ضرورت ہے تاکہ اردو زبان جن مسائل سے دوچار ہے اسے حل کیاجاسکے۔ جوکچھ سچرکمیٹی کی سفارشات میں درج ہے اس میں زبان سے متعلق بھی باتیں کی گئی ہیں۔ تعلیم کے سلسلہ میں بھی زبوں حالی کاذکر کیاگیاہے۔ نوکریوں میں فیصدکابھی تذکرہ ہے۔ مجموعی اعتبارسے اگردیکھا جائے تو صورت حال نہایت ہی تشویش ناک ہے ایسی صورت میں تمام اردواداروں کوایک کورڈی نیشن کمیٹی بھی بنانی چاہئے ار وقت کے ساتھ بدلتے ہوئے پس منظر میں اردو کودرپیش مسائل کے حل کیلئے سرجوڑ کر لائحہ عمل تیار کرناچاہئے بغیر کورڈی نیشن کے یہ ممکن نہیں ہے کہ کوئی ایک ادارہ ان سارے مسائل کو حل کردے پھرطریقہ حل پربھی گہری سوچ اور فکر کی ضرورت ہے۔
اردوتعلیم کے شعبہ میں حال کے دنو ںمیں مولاناآزادنیشنل اردویونیورسٹی حیدرآباد نے کیاہے جوسرزمین ہندتک ہی محدود نہیں ہے باہر کی اردو آبادی میں بھی اس کی سرگرمیاں پھیل رہی ہیں اور تعلیم وتدریس کاایک مضبوط نظام وجود میں آرہاہے۔ قومی کونسل برائے فروغ اردوزبان نئی دہلی اور بعض ریاستوں کی اردواکیڈمیوں کے ذریعہ کوششیں جاری ہیں۔مانوکے پروگرام ’’مانودرشن‘‘دوردرشن کے ڈی ڈی ون چینل سے اوپن کلاس روم کی شروعات ہوئی ہے لیکن اس کے مثبت نتائج کاانتظارہے۔
 
میں نے اشاروں میں اردوزبان کے بعض مسائل کاخاکہ پیش کیا ہے۔ ان مسائل کے حل کیلئے سب سے زیادہ ضرورت اس بات کی ہے کہ ہمارے دانشوران بے لوث جذبہ سے متصف ہوں، ان کی شخصیت ایسی ہوکہ وہ قوم کے آئیڈیل بن سکیں۔ اس کے بعد ہمیں اپنے مسائل کوزندہ تحریک کی صورت میں بدلناہوگا اورتحریک کی رفتاربے حدتیز کرنی ہوگی۔ ہمیں یہ چیزیں اپنے گھروں میں عمل میں لاناہوںگی کیونکہ اگر ہمارے خیالات اور عمل میں تضادرہاتوقوم ہم پر ہرگزاعتمادنہیں کرے گی۔ لوگوں کی نگاہ کامرکز چمکتی ہوئی چیز ہوگی۔ وہ اس کیلئے آگے بڑھیں گے اور اپنی زبان سے دست بردارہوجائیں گے اوراگرقوم کارشتہ زبان سے کٹ گیاتوزبان دھیرے دھیرے مرتی چلی جائے گی۔ پھرنہ وہ ہوں گے نہ ہمارے دانشورمگر اس کے ذمہ دارہمارے دانشورہی ہوںگے۔ ہم اگرزندہ ہوں تو ہماری تحریک بھی زندہ ہوگی اور ہماری تہذیب بھی حکومت ہمارے سامنے سپرڈال دے گی۔ ہمیں ہمارے سارے حقوق مل جائیں گے غرضیکہ جوکمیاں ہیں انہیں دور کئے بغیراوراپنے کاموں کاتنقیدی جائزہ لئے بغیرمحض اردو کے روشن امکانات کانعرہ دینے اورقصیدہ گوئی سے اردو کے مسائل حل نہ ہوں گے۔ بقول شاعر:
وہ مجھ سے جب بھی ملتاہے مری تعریف کرتاہے
مرے عیبوںسے مجھ کوباخبرہونے نہیں دیتا
++++
 
Comments


Login

You are Visitor Number : 1154