donateplease
newsletter
newsletter
rishta online logo
rosemine
Bazme Adab
Google   Site  
Bookmark and Share 
mazameen
Share on Facebook
 
Literary Articles -->> Adbi Gosha
 
Share to Aalmi Urdu Ghar
Author : Dr. Md. Hussain Fitrat Bhatkali
Title :
   Fane Naat Goi Ke Aadab O Hadood

 فنِ نعت گوئی کے آداب وحدود


ڈاکٹر محمد حسین فطرت بھٹکلی

 

نعت گوئی کا فن گویا پل صراط کا سفر ہے، جس میں قدم بہ قدم لغزش پا کا خطرہ دامنگیررہتا ہے ،خدا اور رسول کے مابین فرق وامتیاز کی جو فصیل ہے، علماے سوء نے اس کو گرادینے کی سعی ناتمام ہمیشہ کی ہے،

لیکن خدا خدا ہے اور رسول رسول ہوتے ہیں، توحید ونبوت کو ایک ہی مقام دینے والے ہم کون ہوتے ہیں، انبیائے کرام مبعوث ہی اس لئے ہوئے ہیں کہ خدائے واحد ویکتا کی بندگی کو حرزِ جان بنانے کی لوگوں کو دعوت دیں، مرزا غالب کا ایک شعر ہے جس کی شانِ نزول اور وجہ تسمیہ کا مجھے علم نہیں، نہ جانے انہوں نے کس غرض وغایت کو مد نظر رکھ کر یہ شعر کہا ہے، لیکن میں جب اس شعر کو بطورِ نعت زیرِلب گنگناتا ہوں تو میرے لئے سیاحتِ جناں کی گھڑی ہوتی ہے، اس وقت میرا وجدان عجیب قسم کی نورانی کیفیات سے دوچار ہوتا ہے،، مذکورہ شعر یہ ہے ؂

زباں پہ بارِ خدا یا یہ کس کا نام آیا
کہ میرے نطق نے بوسے مری زباں کے لئے

اس سلسلے میں ایک اور نعتیہ شعر اکثر میری زبانِ شوق پر رہتا ہے، جو واقعی میرے وجدان اور لطیف احساسات کاسازوبرگ ہے، اس شعر کو پڑھ کر اکثر میں اپنے دل میں یہ کہتا ہوں کہ اس شعر کے خالق نے کیا سدابہار پھول کھلایا ہے، شعر یہ ہے ؂

محمد مصطفی کے مرتبے کو کوئی کیا جانے
محمد کو خداجانے خدا کو مصطفی جانے

اسی طرح بسمل الہ آبادی کے حسب ذیل شعر کو زمزمۂ روح قرار دیتا ہوں ؂

حقیقت بادہ حب نبی کی ہم سمجھتے ہیں خدا کے ہاتھ سے ملتا ہے پیمانہ محمد کا

اسی طرح عزیز لکھنوی کا ایک خوبصورت شعر مجھے یاد ہے جو حقائق ومعارف کا گویا ایک نگارخانہ ہے، انسانی ذوق ووجدان نے چمنستانِ نعت سرائی میں کیسے کیسے رنگ برنگ پھول کھلائے ہیں، زیرِ بحث شعر میں معجزہ شق القمر کا ذکر ہے، رسول مقبول ﷺ نے اپنی انگشتِ مبارک کے ایک ادنیٰ اشارے سے چاند کے دوٹکڑے کردئے تھے ،شاعر نے بھی اپنی فنی اور ادبی معجزنمائی کا مظاہرہ اس طرح کیا ہے کہ شعر میں موجود لفظ مدینہ کے پہلے حرف اور آخری حرف کو ملا کر لفظ مہ (یعنی چاند) کو معرضِ وجود میں لایا ہے، اب اس لفظ مہ کو چاک کرکے ’’م‘‘ اور ’’ھ‘‘ کے درمیان لفظ (دین) رکھ دیا تو لفظ مدینہ معرض وجود میں آیا، مندرجہ ذیل شعر میں کیا خوب معجز نمائی ہوئی ہے ؂

معجزہ شق القمر کا ہے مدینہ سے عیاں مہ نے شق ہوکر لیا ہے دین کو آغوش میں

نعت گوئی کا کمال یہ ہے کہ نعت لکھنے والا شرک وبدعت اور افراط وتفریط کی آلودگی سے پوری طرح دامن بچاکر اپنا فریضہ انجام دے، نعت گوئی کے چمنستان میں انشاء اللہ قیامت تک جدت وتنوع کے خلد بداماں گلاب ولالہ کھلتے رہیں گے، نعت گوئی کا سدا بہار ذوق نت نئے پھول کھلانے سے کبھی فارغ وعہدہ برآ نہیں ہوسکتا، آسمانِ نعت اور مدحِ رسول کے افق پر جدت وتنوع کے ہزاروں کواکب اور کہکشاؤں کا ظہور رہے گا، نعتیہ ادب کے فروغ وارتقاء کے امکانات ہنوز باقی وجاری ہیں۔

نعت میں حفیظ جالندھری کی تصنیف ’’شاہنامہ اسلام‘‘ ایک نہایت وقیع اور زندہ جاوید کاوش ہے، شاہنامہ اسلام دراصل منظوم سیرت کا گلدستہ ہے، جس کے مطالعے کے دوران گلگشتِ فردوس کا لطیف ونورآگیں احساس دل وجاں کوبیکراں و بے پایاں نوروسرور سے ہمکنار ومتمتع کردیتا ہے، واقعی یہ موقر تصنیف شعر وادب اور حسن یقیں کا اعلیٰ شاہکار ہے، شاہنامہ اسلام کا ایک زریں ورق ’’سلام ائے آمنہ کے لال‘‘ رنگ ونکہت کا ایک چمن زار ہے، جس کے بوئے خوش مشامِ جاں کو غیر معمولی طور پر معطر ومعنبر کردیتی ہے۔

کمالِ رنج وتأسف سے مجھے یہ کہنا پڑتا ہے کہ ہماری نئی نسل میں کثیر تعداد ’’شاہنامہ اسلام‘‘ کے نام سے واقف نہیں، میری طالب علمی کے زمانہ میں جبکہ ۱۹۴۳ ؁ء کا دور چل رہاتھا، ’’شاہنامہ اسلام‘‘ کی عظمت وشہرت کا ڈنکا بج رہاتھا، علمی واخلاقی قدروں کا جمال اس وقت لوگوں کو مسحور کئے ہوئے تھا اور احباب کی زبانِ شوق پر اسلاف کے کارہائے نمایاں کا پیہم تذکرہ رہتاتھا، لیکن کلیجے پر ہاتھ رکھ کر اب یہ کہنا پڑتا ہے ؂

یہ قصہ ہے جب کہ آتش جواں تھا

میرے ذہن ودل میں عظمتِ رفتہ اور شوکتِ ماضی کا تصور بالکل ایسا ہی ہے جیسے گویا کہ آج کی چیز ہے، عظمت وشوکتِ رفتہ کے اسی زندہ وپائندہ تصور کے ساتھ میں حفیظ جالندھری کے اس ’’شاہنامہ اسلام‘‘ کا مطالعہ کرتا ہوں تو میرے قلب ووجدان پر ایک وجد طاری ہوجاتا ہے اور روح پر کیف وانبساط کے بادل چھا جاتے ہیں، میں عالم کیف وسرور میں ڈوب جاتا ہوں اور دل کہنے لگتا ہے کہ یہ شاہنامہ اسلام ایک عجیب نعت ہے، جس کی نورانیت کا جواب نہیں ۔

شاہنامہ اسلام کا آغاز حمد باری تعالیٰ سے ہوا ہے، جس کے پہلے شعر کی نورانیت اور جاں پروری ملاحظہ ہو ؂

اسی کے نام سے آغاز ہے اس شاہنامہ کا
ہمیشہ جسکے در پر سر جھکا رہتا ہے خامے کا

اس کے بعد بارگاہ رسالت میں گلہائے عقیدت کی پیشکش ہے، ندرت بیان کا جواب نہیں، صرف ایک شعر ملاحظہ ہو ؂

وہ جس کا ذکر ہوتا ہے زمینوں آسمانوں میں
فرشتوں کی دعاؤں میں مؤذن کی اذانوں میں

پیغمبر اسلام کی دلادت کے بیان سے پہلے شاعر نے ان کے جد امجد حضرت اسماعیل کا حال لکھا ہے،جب حضرت ابراہیمؑ اپنی بیوی کو ہمراہ لے کر صحرائے عرب کی طرف چلے آئے تھے، اس واقعے کی منظر نگاری اس طرح کی گئی ہے کہ گویا وہ سماں ہم اپنی آنکھوں سے سچ مچ دیکھ رہے ہیں، ان اشعار کے مطالعے کے دوران محسوسات کے مدوجزر اور جذبات کے زیروبم کا حال واللہ احاطہ تقریر وتحریر سے باہر ہے ؂

خدا کاقافلہ جو مشتمل تھا تین جانوں پر
معزز جس کو ہونا تھا زمینوں آسمانوں پر
چلاجاتا تھا اس تپتے ہوئے صحرا کے سینے پر
جہاں دیتا ہے انساں موت کو ترجیح جینے پر
وہ صحرا جسکا سینہ آتشیں کرنوں کی بستی ہے
وہ مٹی جو سدا پانی کی صورت کو ترستی ہے
جہاں اک اک قدم پر سوطرح جانوں پر آفت تھی
یہ چھوٹی سی جماعت بس وہیں گرمِ مسافت تھی
پیغمبر زوجہ وفرزند یوں قطع سفر کرتے
خدا کے حکم پر لبیک کہتے اور دکھ بھرتے
یہ وادی جو بظاہر ساری دنیا سے نرالی تھی
یہی ایک روز دینِ حق کا مرکز بننے والی تھی

اسی طرح مجھے یاد پڑتا ہے، جناب مولانا عامر عثمانی ایڈیٹر ’’تجلی‘‘ نے ’’شاہنامہ اسلام جدید‘‘ کے نام سے نعت گوئی اور سیرت خوانی کا دلکش ودلنواز سلسلہ شروع کیاتھا، جس کا پہلا حصہ شائع ہوا تھا اور ناچیز کو جس کے مطالعے کا موقع ملاتھا، سچ کہتا ہوں اس کتاب کا ایک ایک ورق معدنِ لطافت اور حدیقۂ رنگ وبو ہے، بعض احوال وکوائف کی اس انداز میں تصویر کھیچی گئی ہے کہ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ ہم خود مذکورہ مناظر کو اپنی آنکھوں سے دیکھ رہے ہیں، قادر الکلامی کا واللہ جواب نہیں، چند اشعار ملاحظہ ہوں ؂

عمر فاروق سے انصار نے یہ بات کہلائی
کہ لازم ہی اگر ہے کوچ بہررزم آرائی
مناسب ہے امیرِ کارواں تبدیل فرمائیں
ادھورے اہتمامِ جنگ کی تکمیل فرمائیں
اسامہ عمر میں کم ہیں، نہیں موزونِ سالاری
کہیں مہلک نہ ہو سالار کی ناتجربہ کاری
اسامہ کی جگہ بھیجیں کسی مردِ معمر کو
کسی تیغ آزما کو مردِ میداں کو قوی تر کو
یہ سننا تھا کہ غصہ حضرت صدیق کو آیا
غضب آلودہ لرزہ آفریں لہجے میں فرمایا
قیامت ہے قیامت اے عمر کیا کہہ رہے ہوتم
خرد کے زعم میں باطل کی رو میں بہہ رہے ہوتم
ارے کیا جسکو سرداری عطاکی تھی پیمبر نے
لوا بخشا تھا جسکو آپ کے دست مطہر نے
وہ ناموزونِ منصب ہے اسے میں برطرف کردوں؟
بہ پاسِ مصلحت حکمِ پیمبر کو حذف کردوں
نہیں ہرگز نہیں مجھ سے یہ جرأت ہونہیں سکتی
رضائے شاہِ دوراں کی اہانت ہو نہیں سکتی
مجاھد سب اسامہ ہی کی سرداری میں جائیں گے
خدا کی راہ میں مرجائیں گے یا فتح پائیں گے
نہیں باقی رہا اب کوئی پہلو عذرداری کا
درِ تسلیم پر سر جھک گیا طاعت گزاری کا
چلا راہِ خدا میں قافلہ نام خدا لے کر
دلوں میں غلبۂ دینِ مبیں کا مدعا لے کر
اسامہ اونٹ پر تھے، اونٹ محوِ خوش خرامی تھا
شروعِ کار کی منزل میں ذوقِ تیز گامی تھا
جلو میں حضرتِ صدیق پیدل چلتے جاتے تھے
چمکتی ریت کی ذرات آنکھیں ملتے جاتے تھے
کہاں کمسن اسامہ اونٹ پر شامل سواروں میں
کہاں شاہِ عرب پہلو بہ پہلو خاکساروں میں
اسامہ نے کہا ائے محترم اے قوم کے سرور
مناسب ہے کہ رکھیں آپ بھی تشریف مرکب پر
نہیں تو اذن دیں مجھکو سواری سے اترنے کا
ضروری ہے سبق سردار کی تعظیم کرنے کا
کہا بوبکر نے بیٹھے رہو اپنی سواری پر
مجھے رہنے دو قائم یونہی اپنی خاکساری پر
نہ میں بیٹھونگا مرکب پر نہ تم اترو سواری سے
نہیں پہنچے گا مجھکو کچھ زیاں اس خاکساری سے
اگر کچھ دور تک پیدل چلوں میں راہ مولیٰ میں
تو کیا گھٹ جائیں گے میرے مراتب دین ودنیا میں

جناب عامر عثمانی کے خامۂ معجز بیاں کی گلکاریوں کو آپ نے دیکھ لیا، اب میں علامہ اقبال کی نعت گوئی کی ایک جھلک دکھانا چاہتا ہوں، نعت گوئی میں علامہ موصوف کے انداز رعنا کی تعریف یہ ہے کہ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ گویا ؂

’’کاغذ پہ رکھ دیا ہے کلیجہ نکا ل کے‘‘

اس سلسلے میں علامہ کے چند اشعار جو میری بیاضِ ذہن میں مرتسم ہیں، ملاحظہ ہوں، نعت گوئی کایہ بھی ایک منفرد اور اچھوتا انداز ہے ؂

حضور دہر میں آسودگی نہیں ملتی
تلاش جسکی ہے وہ زندگی نہیں ملتی
ہزاروں لالہ وگل ہیں ریاض ہستی میں
وفا کی جسمیں ہو بو وہ کلی نہیں ملتی
مگر میں نذر کو اک آبگینہ لایا ہوں
جو چیز اسمیں ہے جنت میں بھی نہیں ملتی
جھلکتی ہے تیری امت کی آبرو اس میں 
طرابلس کے شہیدوں کا ہے لہو اس میں

نعت گوئی میں قلم کا جادو جگانے والے اور ایک میرے محبوب شاعر نعیم صدیقی ہیں، افقِ ادب کو حسنِ معانی اور ندرتِ بیان کی ہفت رنگ قوس قزح سے مزین وآراستہ کرنا ان کے قلم حسن رقم کی مابہ الامتیاز خصوصیت ہے، ایسا معلوم ہوتا ہے کہ قوس قزح کے ساتھ رنگ اور آبشاروں کا جلال وجمال ،نسیمِ سحر کی مستانہ رو، جوئے رواں، نظر افروزی اور غنچہ وگل کی شرمیلی چٹک، یہ ساری چیزیں وہ اپنی تخلیقات ونگارشات میں گھول دیتے ہیں ، واللہ ندرت بیاں کا جواب نہیں، یہ رعنائی بیاں اور حسن رقم نہ صرف نثر پاروں تک محدود ہے بلکہ منظومات کی رگ رگ میں بھی جدت وندرت کی یہ لہریں باعث حسن وجمال اور آئینہ دارِ کمال ہے، شاعر موصوف کی نعت خوانی کا بے مثل اندازِ رعنا ملاحظہ ہو ؂

تو رسول حق تو قبول حق ترا تذکرہ ہے فلک فلک
تو ہے مصطفی تو ہے مجتبیٰ ترا نعت خواں ہے فلک فلک
ترے سوزوسازِ فراق سے رہی ساری رات بہت کسک
سرِ شام سے دمِ صبح تک نہ لگی پلک سے ذرا پلک
نہ زمیں میری قرار گہہ نہ فلک ہی منزلِ شوق ہے
بڑی دیر تک ہے سفر مرا تری یاد سے تری یاد تک
ابھی غار میں ابھی بدر میں ابھی فرش پر ابھی عرش پر
کبھی یہ ادا کبھی وہ ادا کبھی یہ جھلک کبھی وہ جھلک
وہ جو تم نے خُم سے میرے لئے کوئی چاندنی سی انڈیل دی
ہے کوئی صدی کا یہ واقعہ مرے جام میں ہے ابھی چمک

اسی طرح مجھے مولانا ظفر علی خان کے حسب ذیل اشعار بے حد پسند ہیں ؂

وہ شمع اجالا جس نے کیا چالیس برس تک غاروں میں
اک روز جھلکنے والی تھی دنیا کے سب درباروں میں
جو فلسفیوں سے کھل نہ سکا اور نکتہ وروں سے حل نہ ہوا
وہ راز اک کملی والے نے بتلادیا چند اشاروں میں

ناچیز کو نعت گوئی میں یہ خصوصی امتیاز حاصل ہے کہ میں نے اس سلسلے میں اپنے قلم کو تقدیسِ بیان اور طہارتِ فکر سے کما حقہ آشنا کیا ہے، اور اس وادی میں لغزش پا کے امکان سے اپنے تخلیقی ذوق کو پوری طرح باخبر اور چوکنا رکھا ہے، یہی وجہ ہے کہ میرا دامن فکروخیال شرک وبدعت کی آلودگی سے ہمیشہ پاک اور منزہ رہا ہے، واقعی میرے لئے یہ فخر وامتیاز کچھ کم نہیں ، نمونۂ کلام ملاحظہ ہو ؂

کھجور کی ہے چٹائی مرے تصور میں مجھے نبیؐ کے بچھونے کی یاد آتی ہے
عدو نے بسترِ اطہر کو کردیا ناپاک بچھونا ہاتھ سے دھونے کی یاد آتی ہے
مکان جاکے بعجلت وہ کرتے ہیں خیرات نماز ہوتے ہی سونے کی یاد آتی ہے

میری اور ایک طویل نعتیہ نظم ہے جس کو حضرت مولانا علی میاں نے حرفِ تحسین سے نوازا ہے، مشتے نمونہ ازخروارے کے طور پر چند اشعار ملاحظہ ہوں ؂

نعت کیا لکھوں یہی سوچ کے گھبراتا ہوں
میں قلم ہاتھ میں لیتے ہوئے رک جاتا ہوں
اپنی کم مائیگئ علم پر شرماتا ہوں
خود کو و اللہ میں نااہل بہت پاتا ہوں
نعت لکھنے کے تصور سے لرزجاتا ہوں
نعت گو تجھکو مرا شیوۂ تکریم ملے
خامہ دل ، ورقِ جذبۂ تسلیم ملے
روشنائی کے لئے کوثر و تسنیم ملے
نعت لکھنے کے جو آداب ہیں بتلاتا ہوں
نعت لکھنے کے تصور سے لرزجاتا ہوں
آج فرسودہ روایات ہیں نعتوں کا لباس
شرک وبدعت کے خیالات پہ ہے جن کی اساس
نہیں مداح کو توحید کے آداب کا پاس
نعت میں پر توِ اخلاص کہاں پاتا ہوں
نعت لکھنے کے تصور سے لرزجاتا ہوں
لاجرم یہ درِ شاہِ عربی ہے یارو
جنبشِ خامہ یہاں بے ادبی ہے یارو
عشق بے سوزِ جگر بولہبی ہے یارو
دل کی نگری کو میں ویران بہت پاتا ہوں
نعت لکھنے کے تصور سے لرزجاتا ہوں

اس نعتیہ نظم میں اور بھی اشعار قابلِ ذکر ہیں، مگر خوف طوالت دامنگیر ہے، بہر کیف نعت خوانی کے آداب کو ملحوظ رکھنا توحید وایمان کا بنیادی تقاضہ ہے، اس سلسلے میں مولانا محمد علی جوہر کا ایک شعر ضرب المثل کی طرح مشہور ومعروف ہے ؂

توحیدتو یہ ہے خدا حشر میں کہہ دے یہ بندہ دوعالم سے خفا میرے لئے ہے

طالب علمی کے زمانہ میں رسالہ ’’غنچہ‘‘ (بچوں کا رسالہ) میں وکیل ٹانڈوی کا ایک شعر نظر سے گذرا تھا، جواب تک لوح ذہن پر مرتسم ہے ؂

اپنے ایمان کو سلامت اس طرح رکھ اے وکیل
جس طرح صندوق میں سونے کو رکھنا چاہیے

جذبۂ توحید پرستی کا تحفظ مرد مومن کی امتیازی صفت ہے، ہماری پوری کوشش اور توجہ اس پر ہوکہ سرمو بھی اس پر آنچ نہ آئے، اس سلسلے میں ناچیز کے دیگر اشعار بھی قابل ذکر ہیں ؂

نغماتِ ازل بیدار ہوئے پھر بربط دل کے تاروں میں
تکبیر کی آوازیں گونجی یثرب کے حسیں کہساروں میں
اس شانِ کرم کا کیا کہیے دنیا کو مسخر جس نے کیا
یہ وصف کہاں شمشیروں میںیہ بات کہاں تلواروں میں
مستانہ ہواؤں کے جھونکے نذرانہ عقیدت کا لائے
شبنم کے گہر تقسیم ہوئے کچھ پھولوں میں کچھ خاروں میں

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

وہ شمس الضحی ہیں وہ بدرالدجی ہیں
خداوہ نہیں ہیں رسولِ خدا ہیں
مناسب نہیں تھا فرشتہ ہو مصلح
بشر ہیں، بشر ہی کے وہ رہنما ہیں

فن نعت گوئی کے سلسلے میں جہاں بہت سے مشاہیر کے زریں اقوال میرے حافظے کی بیاض میں محفوظ ہیں، مناسب معلوم ہوتا ہے کہ یہاں میں مولانا عبدالماجد دریاآبادی کے خیالات ونظریات پیش کروں ، موصوف نے مولانا محمد علی جوہر کی نعت خوانی کے منفرد انداز کی اس طرح تعریف وستائش کی ہے کہ جوہرکی نعتیہ شاعری جملہ نعتیہ شاعروں کے لئے ایک ماڈل اور معیار کے مترادف ہے، مولانا دریابادی اس سلسلے میں یوں رقمطراز ہیں ؂

’’نعت گو شعراء اردو میں کثرت سے ہوچکے ہیں اور بعض کو شہرت عام سند امتیاز بھی دے چکی

ہے، مثلا محسن کاکوری، آسی غازیپوری، لیکن ان حضرات نے عموما مناقب کے صرف خارجہ پہلوؤں پر قناعت کی ہے، اور ان کو بھی کثرت تکرار نے کسی قدر بے لطف بنادیاہے، رخ انور کی تابانی، گیسوئے اقدس کی سیاہی، ابروئے مبارک کی کجی وغیرہ گنتی کے چند بندھے ہوئے مضامین ہیں کہ انہی کو الٹ پھیر کر یہ حضرات ہمیشہ باندھتے رہتے ہیں، جوہر کی شاعری چونکہ رسمی اورتقلیدی نہیں، اس لئے انہوں نے اس باب میں بھی اپنے لئے نئی راہ کا انتخاب کیا یعنی بجائے خارجیت کے داخلیت کو اپنا موضوع بنایا اور بجائے آثار وشمائل کی نقاشی کے جذبات و وارادت کی ترجمانی کی، محمد علی کا اصل موضوع حسن کی رعنائی، جمال کی زیبائی نہیں بلکہ وہ دل کی چوٹ، عشق کی تڑپ، جذبات کے سوز کو سامنے رکھ دیتے ہیں اور یہی ان کے کلام کی تاثیرکا راز ہے ؂

ہر آن تسلی ہے ہرلحظہ تشفی ہے ہروقت ہے دلجوئی ہردم ہیں مداراتیں
معراج کی سی حاصل سجدوں میں ہے کیفیت اک فاسق وفاجر میں اور ایسی کراماتیں
بے مایہ سہی لیکن شاید وہ بلا بھیجیں بھیجی ہیں درودوں کی کچھ ہم نے بھی سوغاتیں‘‘

اسی طرح مولانا عبدالماجد دریا بادی نے بھی جوہر کی نعتیہ غزل کی زمین میں ایک نعتیہ غزل لکھی ہے لیکن سوائے ایک شعر کے کوئی خاص ندرت نہ پیدا کرسکے، بس ایک شعر اس نعتیہ غزل میں قابل ذکر ہے ؂

غم خواری امت سے اک آن نہیں غافل
ظاہر میں تو ہے پردہ، پردے میں ملاقاتیں

باقی شعر مذکورہ نعت میں محض برائے وزن بیت ہیں، شاید یہی سبب ہے کہ علامہ سید سلیمان ندوی نے معارف میں اسے چھانپنے سے اعراض کیاتھا۔ 

***********************

Comments


Login

You are Visitor Number : 987