donateplease
newsletter
newsletter
rishta online logo
rosemine
Bazme Adab
Google   Site  
Bookmark and Share 
mazameen
Share on Facebook
 
Literary Articles -->> Adbi Gosha
 
Share to Aalmi Urdu Ghar
Author : Dr. Mushtaq Ahmad
Title :
   Aisi Chingari Bhi Ya Rab Apni Khaksatar Me Thii


ایسی چنگاری بھی یارب اپنی خاکستر میں تھی


(استاد محترم پروفیسرمحمد اختر الحسن کی یاد میں)

ڈاکٹر مشتاق احمد

پرنسپل مارواڑی کالج،دربھنگہ

 ای میل: rm.meezan@gmail.com

Mob.-09431414586


    میں جب کبھی کسی شخص سے یہ سنتا ہوں کہ فلاںآدمی فرشتہ ہے یا یہ کہ اس آدمی کو فرشتہ کہنا چاہئے تو میرا ذہن صرف اور صرف استاد محترم پروفیسرمحمد اختر الحسن مرحوم کی طرف جاتا ہے ۔ اگرچہ آج تک کسی نے فرشتوں کی کوئی تصویر نہیں پیش کی ، مگر کتاب مقدس میں فرشتوں کی جن صفات کا بیان ہوا ہے یا ہمارے اکابرین ، علمائے دین نے جو بیان فرمایا ہے انہی صفات کی بنیاد پر ہم کسی انسان کو بھی فرشتوں کی صف میں کھڑا کر دیتے ہیں۔ ان اوصاف کی روشنی میں جب میں پروفیسرمحمد اختر الحسن مرحوم کو دیکھتا ہوں ، تو ان میں بھی فرشتوں کی صفات پاتا ہوں کہ میں نے اب تک ان جیسا کوئی انساں تو نہیں دیکھا۔ یادش بخیر۔دسمبر کا مہینہ تھا ۔ ٹھنڈک اپنے شباب پر تھی ۔ہمارے ہائی اسکول کا سالانہ امتحان چل رہا تھا ۔ حسب معمول ٹفن کاوقت تھا۔ ہم سب طلبا و طالبات اسکول کے وسیع و عریض میدان میں اِدھر اُدھر بھاگ دوڑ رہے تھے ۔ اسی درمیان عذرا  ؔ ان کی انگلی پکڑے میرے قریب آئی ۔ آتے ہی انہوں نے سلام کیا ۔ میں و علیکم السلام کہہ کر عذرا سے مخاطب ہوا …کون ہیں؟’’ میرے ابّو ہیں ۔ کالج سے لوٹے ہیں ۔ گھر جارہے ہیں ‘‘۔یہ تھی میری پروفیسرمحمد اختر الحسن صاحب سے پہلی شناسائی ۔ واضح ہو کہ عذرا شاہین مڈل اسکول سے ہی میری ہم جماعت تھی اور ہم دونوں میں قدرے قربت بھی تھی۔ لیکن آج سے پہلے میں نے کبھی انہیں نہیں دیکھا تھا۔ ہاں عذرا یہ ضرور کہتی تھی کہ اس کے ابّو کالج میں ہیں اور ہمارے اسکول کے اساتذہ بھی اکثر عذرا سے ان کے والد کی خیریت پوچھتے رہتے تھے۔بالخصوص ہمارے اردو کے استاد محترم مسلم سلفی صاحب ان کی خیریت تو ہر کلاس میں پوچھتے ہی تھے۔ اس پہلی ملاقات میں ہی پروفیسرمحمد اختر الحسن مرحوم کی صورت جو میری آنکھوں میں بسی ،وہ آج تک بسی ہوئی ہے۔اسکول کے بعد کالج کا زمانہ آیا ۔ چونکہ ہمارا اسکول ایس کے ہائی اسکول پنڈول اور آر این کالج پنڈول ایک ہی احاطے میں ہے۔ میدان کے ایک طرف اسکول اور دوسری طرف کالج اور درمیان میں فٹ بال گرائونڈ ۔ اس لئے اس اسکول کے بعد کالج میں داخلے کی خوشی تو ضرور ہوئی لیکن اجنبیت کا کوئی احساس نہیں رہا کہ کالج کے اکثر اساتذہ اور ملازمین علاقائی تھے اور ان سے ہماری آشنائی تھی۔ مگر کالج میں آتے ہی اگر کوئی میرے مرکز نگاہ بنے تو وہ تھے استاد محترم پروفیسرمحمد اختر الحسن ۔ اس کی پہلی وجہ تو  عذرا  تھی۔ دوسری وجہ یہ تھی کہ مرحوم میرے خالہ زاد بھائی کے بھی استاد تھے اور ان سے اکثر استاد محترم کے اوصاف جمیلہ کی تعریف سنتا تھا۔ جب کالج میں داخلہ ہو گیا اور کلاسز چلنے لگے تو ان سے روبرو ہونے کے ساتھ ساتھ ہم کلام ہونے کا بھی موقع نصیب ہوا۔ ایک دو ماہ کے اندر ہی یہ ثابت ہو گیا کہ وہ نہ صرف ہم اردو کے طلبا و طالبات کے ایک مشفق استاد ہیں بلکہ وہ کالج کے دیگر طلبہ ،اساتذہ اور ملازمین کے بھی محترم ہیں۔ کالج کے پرنسپل پروفیسرایم  پانڈے جب کبھی کسی بات پر غصہ ہوتے تو دوسرے اساتذہ پروفیسرمحمد اختر الحسن مرحوم کے پاس جاتے اور اپنی بات ان سے کہتے اور پھر استاد محترم پرنسپل چیمبر میں جیسے ہی داخل ہوتے پرنسپل صاحب کا تمام غصہ کافور ہوجاتا اور تھوڑی ہی دیر کے بعد دونوں حضرات مسکراتے ہوئے چیمبر سے باہر آتے ۔ یہ بات عام تھی کہ پرنسپل صاحب کسی بھی صورت میں پروفیسر اختر الحسن صاحب کی بات نہیں کاٹ سکتے ، جبکہ وہ انتظامی اور اکیڈمک معاملے میں بہت سخت تھے ۔ واضح ہو کہ یہ وہ زمانہ تھا جب پرنسپل صاحب اپنے چیمبر سے باہر نکلتے تو کیا مجال کہ کوئی طالب علم ٹس سے مس ہوجائے ۔ جو جہاں رہتا ، وہیں ساکت ہو جاتا۔ اتنا ہی نہیں اساتذہ بھی باادب کھڑے ہو جاتے ۔ پرنسپل صاحب حسب عادت ایک دو کلاس کا معائنہ کرتے، کبھی کھڑکی کے پاس کھڑے ہوکر پڑھاتے ہوئے اساتذہ کو سنتے اور پھر اپنے چیمبر میں چلے جاتے ۔ جب تک وہ کالج کے برآمدے یا میدان میں ہوتے ، ایسا لگتا کہ خاموشی نے اپنی چادر میں احاطے کو لپیٹاہواہے۔ ہم طلبہ تو کبھی ہمت بھی نہیں کرتے تھے کہ ان کے سامنے جائیں۔ ظاہر ہے کہ اس وقت آر این کالج پنڈول اکیڈمک معاملے میں مدھوبنی ضلع کا آکسفورڈ کہلاتا تھا۔ کامرس اور آرٹس میں داخلہ لینا کتنا مشکل تھا، اس کا اندازہ اسی سے لگایا جاسکتا ہے کہ داخلے کے لئے اس وقت بھی ٹسٹ امتحان لیا جاتا تھا۔ کالج میں پروفیسر جے کے ایل داس (انگریزی)، پروفیسرجئے ویر مشرا(معاشیات)، پروفیسرایس جھا(سیاسیات)، پروفیسردیو(تاریخ) ، پروفیسرایس سرسوتی(سیاسیات) ، پروفیسرآر ٹھاکر(علم نفسیات)، پروفیسرمحمد اختر الحسن (اردو۔ فارسی )، پروفیسرایس پی ٹھاکر (کامرس ) اور پروفیسر آر جھا(کمسٹری) کا ڈنکا بجتا تھا۔ صوبائی سطح پر ان اساتذہ کی اپنے اپنے شعبے میں منفرد شناخت تھی ۔ اس لئے ۶۰ ء اور ۷۰ء کی دہائی میں یہ کالج پوری ریاست میں اکیڈمک لحاظ سے اولیت رکھتا تھا۔ اس کی بنیادی وجہ یہ تھی کہ کالج کے تمام اساتذہ اپنے طلبہ کو نہ صرف نصاب تک محدود رکھتے تھے بلکہ ’’ستاروں سے آگے جہاں اور بھی ہے ‘‘کے اسباق بھی سکھاتے تھے۔ نتیجتاً ہر ایک دو سال پر آئی اے ایس ، انجینئرنگ ، میڈیکل اور دیگر اعلیٰ عہدے کے سرکاری امتحانوں میں یہاں کے طلبہ نمایاں رہتے تھے۔ علاقے میں کالج کے اساتذہ کی عزت کی کتنی تھی اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ کالج کے کوئی استادبازار میں سامان خریدنے جاتے تو دکاندار سامان کی لسٹ لے لیتا اور انہیں گھر جانے کی گزارش کرتا کیونکہ جس وقت تک وہ دکان پر رہیں گے دوسرے صارفین بہ لحاظ ادب وہاں نہیں آئیں گے۔ اس لئے اکثر اساتذہ چلتے چلتے سامان کی فہرست دکانداروں کے حوالے کرتے اور دکاندار ان کے گھر پر سامان پہنچا دیتے ۔ آج جب ان دنوں کے مناظر کو آنکھوں میں بساتا ہوں ، تو لگتا ہے کہ آج کی نسل کو وہ سب حقیقت نہیں بلکہ فسانہ معلوم ہوگا کیونکہ آج دیگر شعبے کی طرح پیشہء درس و تدریس بھی پستی کا شکار ہو چکا ہے۔ بہرکیف، اب وہ زمانہ صرف اور صرف مثالی اور تاریخ کا حصہ بن کر رہ گیا ہے۔ میں خود پیشہ درس و تدریس سے وابستہ ہوں، عہدۂ پرنسپل پر فائز ہوں ۔ جب کبھی میں اپنے پرنسپل پروفیسر پانڈے کے رتبے اور اپنے اساتذہ کی عوامی مقبولیت پر غور کرتا ہوں تو لگتا ہے کہ زمیں اور آسماں کا فرق ہو گیا ہے۔ پروفیسر محمد اختر الحسن مرحوم صرف ایک استاد ہی نہیں تھے بلکہ وہ کالج کے تمام طلبہ کے لئے مشعل راہ تھے۔ ہم اردو اور فارسی کے طلبہ ہی نہیں بلکہ دیگر مضامین کے طلبہ بھی انہیں آئیڈیل مانتے تھے۔ ان کی شفقت و محبت کا یہ حال تھا کہ اگر کوئی طالب علم ایک دو دن غیر حاضر ہوتا تو وہ ہم لوگوں سے پوچھتے کہ ’’فلاں طالب علم کیوں غیر حاضر ہے؟ آپ سب کو اس کی خیریت معلوم ہے ؟‘‘۔ ظاہر ہے کہ وہ دور آج کی طرح موبائل کا نہیں تھا اور نہ ٹیلی فون کی سہولت عام تھی ۔ ہم لوگ نفی میں جواب دیتے۔ اپنے نرالے انداز میں گویا ہوتے ’’ جناب اپنے ہم درجہ سے اتنے بے خبر ہیں؟ ‘‘اگر کوئی کہتا فلاں تو بیمار ہے ۔ تو ان کے چہرے پر پریشانی کی لکیریں دکھنے لگتیں۔ اتنا ہی نہیں ، دوسرے دن اس کی عیادت کو اس کے گھر چلے جاتے اور پھر کلاس میں بتاتے کہ اس کے لئے دعا کیجئے کہ وہ صحت یاب ہو جائے۔ اس طرح ہم لوگوں کو معلوم ہوجاتا کہ استاد محترم بیمارکے گھر  ہوکر بھی آگئے ہیں۔ ایک صفت ایسی تھی کہ جس کی پہل کے لئے ہم تمام طلبہ میں اکثر بازی لگتی تھی ۔ غرض کہ کالج کے کسی طالب علم کو کبھی یہ موقع نصیب نہیں ہوا کہ وہ سلام کرنے میں ان سے سبقت لے جائے۔ ایک بار ہم چار پانچ ساتھیوں نے یہ فیصلہ کیا کہ کل ہم لوگ سلام کرنے کسی بھی طرح پہل کریں گے۔ یہ سوچ کر کالج گیٹ کی دیوار کی اوٹ میں کھڑے رہے کہ جیسے ہی استاد محترم داخل ہوں گے ہم لوگ سلام کریں گے۔ لیکن اس دن بھی بد نصیبی ہی ہاتھ آئی۔ ہوتا یہ تھا کہ احتراماً ہم لوگ ان کے قریب آنے کا انتظار کرتے تھے ۔مگر وہ دور سے ہی ایک خاص انداز میں ’’اسلام علیکم رحمت للہ و برکاتہ…کیسے ہیں؟گھر پر سب لوگ ٹھیک ہیں؟چلئے کلاس میں چلئے۔ …!‘‘ ۔ایک ہی سانس میں یہ سب کچھ کہتے ہوئے آگے بڑھ جاتے ۔ہم لوگوں کے سینئر بھی کہتے کہ سر کو سلام کرنے میں پہل کا موقع نہیں ملا۔اور میں اپنی اس چار سالہ کالج کی زندگی میں تو اپنے ساتھیوں سے اس معاملے میں کئی بار بازی ہار گیا۔ ہمارے ایک بہت ہی پرمزاح ہم جماعت نوشاد عالم نے تو ایک بار یہ فیصلہ کیا کہ اب جب وہ سو میٹر دور ہی رہیں گے تو میں بلند آواز میں دور سے ہی سلام کروں گا ۔ لیکن اس دن بھی وہ ناکام رہا کہ اس کی زبان سے سلام ادا بھی نہ ہواتھا کہ استاد محترم نے اپنے خاص اندازمیں سلام کرنے میں پہل کردی۔ اس دن سے ہمارے کئی ہم جماعت اکثر کہتے تھے کہ استاد محترم ایک بزرگ ہیں اور وہ دل کے ارادوں کو بھانپ جاتے ہیں۔ بیشک !میرے ساتھ بھی کئی ایسے مواقع پیش آئے کہ مجھے یہ احساس ہوا کہ وہ’’ ایک مرد مومن کی نگاہ‘‘ رکھتے ہیں۔ پڑھانے کا انداز بھی کیا نرالا تھا ! جو سبق پڑھاتے ذہن پر نقش ہوجاتا ۔ میر ، غالب اور اقبال تو انہیں ازبر تھے۔ میں نے کبھی بھی کتاب دیکھ کر انہیں پڑھاتے نہیں دیکھا۔ البتہ اپنی ٹیبل پر کتاب ضرور رکھتے تھے اور ہم طلبہ کو بھی سامنے کتاب رکھنے کی تلقین کرتے تھے۔ اقبالیات سے انہیں عشق تھا۔ اقبال کے تمام اردو اور فارسی کلام زبانی پڑھاتے تھے۔ مجھے یاد ہے کہ نظم ’’مسجد قرطبہ‘‘ پڑھاتے وقت بھی انہوں نے کتاب نہیں پلٹی تھی۔ زیر و زبر کی ادائیگی بھی عین کلام کے مطابق کرتے تھے۔ پڑھاتے وقت ان کی آنکھیں نیم بند ہوجایا کرتی تھیں۔ کبھی کبھی دونوں ہاتھوں کو ایک ساتھ جوڑ کر پڑھاتے تھے۔ آواز کبھی دھیمی تو کبھی تیز ہوتی تھی۔ کلام اقبال پڑھاتے وقت قرآن کی آیات کی تلاوت اور حدیث کا حوالہ بھی دیتے تھے۔ وہ حافظ نہیں تھے ۔ لیکن ایسا محسوس ہوتا تھا کہ مکمل قرآن انہیں یاد ہے۔ اکثر رمضان میں قرآن کی آیت کا ترجمہ بھی بتاتے تھے۔ آپ ؐ  کی زندگی کے مختلف واقعات کا سرا کلام اقبال سے جوڑ کر سمجھاتے تھے۔علامہ اقبال کے فکر و نظریات سے بے حد متاثر تھے ۔ انہوں نے ان کی سو نظموں کا انگریزی میں ترجمہ بھی کیا تھا۔ ’’ہماری زبان ‘‘ دہلی ،میں اکثر اقبال کے متعلق ان کے مضامین بھی شائع ہوتے تھے۔ انگریزی ترجمہ ہم لوگوں کو بھی سناتے  اور یہ بھی کہتے کہ آپ لوگ مشورہ دیجئے ۔ ہم سب جھینپ جاتے ۔ پھر کہتے’’ ایسا نہیں جناب ممکن ہے کہ آپ کے ذہن میں کسی لفظ کا نیا معنی ہو۔‘‘ دراصل وہ باتوں باتوں میں ہم طلبہ کی حوصلہ افزائی کرتے رہتے تھے۔ مجھے یہ نہیں معلوم کہ ان کے تراجم کتابی ۔صورت میں شائع ہوئی یا نہیں ۔ البتہ ان کی دو کتابیں پہلی ’’ عبد الغفور شہباز۔ حیات و خدمات‘‘ انجمن ترقی اردو ہند ، دہلی سے شائع ہو چکی تھی جبکہ دوسری کتاب ’’سلام مچھری شہری کی نظمیں‘‘ نکھار پبلیکیشن مئو ناتھ بھنجن سے شائع ہوئی تھی اور اپنے درجنوں مضامین بالخصوص اقبال کے تعلق کے مضامین کو بھی کتابی صورت دینا چاہتے تھے، مگروہ نہیں دے سکے ۔ہمارے ساتھ ان کا جو ہمدردانہ اور مشفقانہ سلوک تھا وہ پدرانہ تھا۔ میر ی ہر خوشی پر وہ کچھ اس طرح خوش ہوتے جیسے میرے خاندان کے ایک بزرگ فرد ہوں۔ میری کامیابی کے لئے ہمیشہ دعا گو رہتے ۔ ہر ایک دو ماہ کے بعد میرے یہاں تشریف لاتے اور نیک مشوروں سے نوازتے ۔ حسب عادت جاتے وقت ہاتھ اٹھا کر میرے لئے دعا کرتے ۔ مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ میری پرنسپل شپ کا انٹرویو ہونا تھا ۔ میں نے انہیں یہ نہیں بتایا تھا کہ کس دن انٹرویو ہے ۔ اچانک انٹرویو کے دن صبح میں گھر پہنچے ۔ میرے سر پر ہاتھ رکھا اور ایک خاص دعا پڑھتے ہوئے گھر سے نکلنے کی تلقین کی ۔ میں نے ڈرتے ڈرتے پوچھا کہ سر آپ کو کیسے معلوم ہوا کہ آج میرا نٹر ویو ہے؟ مسکراتے ہوئے بولے ’’ آپ جب اس عہدے پر جوائن کر لیں گے تو بتائوں گا۔‘‘۔ اور واقعی استاد محترم کی دعا اثر لائی اور میں کامیاب بھی ہوا۔ اس کے بعد بھی اکثر میں کہتا کہ سر اب تک آپ نے وہ بات نہیں بتائی۔وہ اپنے خاص انداز میں مسکراتے اور کہتے ’’اچھا پھر کبھی ‘‘ ۔ کبھی خود نہیں آتے تو اپنے صاحبزادے برادر محترم اقبال صاحب اور برادر عزیز نیر سلمہ کو میرے گھر بھیجتے اور اکثر کچھ نہ کچھ تحفہ بھی بھیجتے ۔ میں نے بارہا کہا کہ سر آپ یہ زحمت کیوں کرتے ہیں؟ پھر وہی خاص انداز میں مسکراتے اور کہتے ’’اگر آپ پر کچھ میرا حق ہے تو مجھ پر بھی تو آپ کا حق ہے‘‘۔ میرے ساتھ ہی نہیں بلکہ اپنے دیگرشاگردوں کے ساتھ بھی ان کا یہی حسن سلوک تھا۔ اپنے شاگردوں کی کامیابی کے لئے دعا کرتے اور اس کی کامیابی پر پھولے نہیں سماتے ۔ لیکن آج ایسے بھی اساتذہ ہیں کہ اپنے شاگردوں کو آگے بڑھتے دیکھا نہیں چاہتے ۔ میں ایسے اساتذہ کو بھی جانتا ہوں کہ جنہوں نے اپنے شاگردوں کی معمولی ترقی کے خلاف نہ صرف خود اعلیٰ حکام کو عرضداشتیں دیں بلکہ فرضی ناموں سے بھی شکایت نامہ بھیج کر اپنی بھڑاس نکالی کہ فلاں عہدے کے قابل تو میں تھا لیکن انتظامیہ نے میرے ایک شاگرد کو وہ عہد دے دیا۔ اتنا ہی نہیں اپنے شاگرد کو اس عہدے کے قابل نہ ہونے کی تھوتھی دلیلیں بھی دیں۔ مگر انتظامیہ نے ان کی آواز کو صدا بہ صحرا ثابت کر دیا کہ اہلیت کا فیصلہ تو انتظامیہ کو کرنا تھا۔اس کی تفصیل پھر کبھی کہ اس وقت پیکر شرافت کے ساتھ  کسی علم بردار خباثت کا ذکر ٹھیک نہیں۔ ایسے دور میں جب استاد محترم پروفیسر محمد اختر الحسن مرحوم کو یاد کرتا ہوں تو یہ یقین ہوتا ہے کہ واقعی وہ ایک فرشتہ صفت انسان تھے جو عزیزوںکی کامیابیوں پر نہ صرف خوش ہوتے تھے بلکہ سجدۂ شکر بھی ادا کرتے تھے۔ کاش !  ایسے استاد کی زیارت آج کی نسل کو بھی ہوتی ۔ اللہ سے بس یہی دعاکرتاہوں کہ مجھے بھی اپنے شاگردوں کی کامیابی اور بلندی پر سجدۂ شکر ادا کرنے کی توفیق دے اور تمام تر ازم اور حسد سے پاک رکھے۔

    استاد محترم پروفیسر محمد اخترالحسن مرحوم کو کالج کے تمام غیر مسلم ملازمین اور اکثر طلبہ دیوتا کہتے ۔ ان کے ہم رتبہ اساتذہ بھی انہیں محترم سمجھتے اور اس کی واحد وجہ یہ تھی کہ وہ سب کے دکھ سکھ میں شامل رہتے ۔ کسی ملازم کی بیماری کی خبر ملتی تو اس کے گھر پہنچ جاتے ۔ کسی استاد کو مشکل میں دیکھتے تو اس کے لئے ان سے زیادہ وہ پریشان نظرآتے اور اس وقت تک چین سے نہیں بیٹھتے جب تک کہ وہ مشکل دور نہ ہو جائے۔ان کے وسعت مطالعہ کا یہ حال تھا کہ کالج کی لائبریری کی تمام کتابوں کی کیٹلاگ نمبر تک یاد تھی۔ کسی کتاب کا ذکر چھڑتا فوراً کہتے یہ موضوع فلاں کتاب کے فلاں فلاں صفحات میں ہے۔ جیسا کہ پہلے ہی ذکر آچکا ہے کہ میر ؔ ، غالب ؔ اور اقبالؔ کے اشعار تو انہیں ازبر تھے ۔ دیگر جدیدشعرا ء کا کلام بھی کثرت سے یاد تھا۔ فیض احمد فیض ، جگر، فانی ، حسرت ، فراق گوکھپوری، ناصر کاظمی، قتیل شفائی، نریش کمار شاد، ساحر لدھیانوی، سردار جعفری ،احمد فراز اور پروفیسر کلیم عاجز کے اشعار سناتے رہتے ۔ جگن ناتھ آزادسے بھی خاص انسیت تھی کہ وہ ماہر اقبالیات تھے۔ اپنے طلبہ کے اشعار بھی یاد رکھتے تھے اور اکثر ملاقاتوں میںان کا شعر سناتے۔ میرے خیال میں یہ شیوہ بھی محض شاگردوں کی حوصلہ افزائی کے لئے اپناتے تھے ۔ مکتوبات لکھنے کا بھی ایک عجیب انداز تھا ۔ یہاں ایک مثال دینا چاہتا ہوں۔ایک بار ایک صاحب ان کے پاس ایک سفارشی لکھوانے آئے۔ کسی کاپی کا معاملہ تھا۔ ہم لوگ جانتے تھے کہ استاد محترم اس معاملے میں بہت سخت ہیں۔ لیکن جو شخص ان سے ملنے آئے تھے وہ بھی ان کے بہت ہی قریب تھے ۔ کچھ دیر خاموش رہنے کے بعد انہوں نے ایک خط مجھے املا کرنے کو کہا، جس کا ایک حصہ آج بھی مجھے یاد ہے اور اکثر ان جملوں کو دہرا کر قہقہہ لگاتا ہوں کہ آج تک اس طرح کا کوڈیڈ لیٹر میں نے دوسرا نہیں دیکھا۔استاد محترم نے جملۂ تخاطب اور سلام کے بعد لکھوایا تھا۔’’ رقعہ برندہ موسمی مرض میں مبتلا ہے۔ دو سالوںتک دربھنگہ میں زیر علاج رہا لیکن خاطر خواہ صحت یابی نہیں ملی ۔ یہاں کے اسپتال میں ان کا بیڈ نمبر۱۷۶ ہے۔ اب مکمل صحت یابی کے لئے آپ کے علاج اور دعا کی ضرورت ہے۔ ان پر خاص توجہ دیجئے گا کہ یہ میرے ایک خاص شاگردہیں۔اگر انہیں بیڈ نمبر۸۵ پر جگہ مل جائے تو انہیں عافیت ہوگی۔ لیکن یہ بھی خیال رہے کہ کسی کی حق تلفی نہیں ہو‘‘۔


    جی ہاں۔ یہ دلکش اور منفرد انداز تھا استاذ محترم پروفیسر محمد اختر الحسن کی مکتوب نگاری کا ۔ غرض کہ اپنے شاگردوں کی ہی نہیں بلکہ اپنے شاگردوں کے عزیزوں کی فلاح کے بھی پاسدار تھے۔ افسوس صد افسوس کہ گذشتہ ۲۵ جنوری ۲۰۱۵ کو وہ اس دنیا ئے فانی سے رخصت ہو گئے ۔ اب جب کہ آئندہ ماہ ۲۵ جنوری ۲۰۱۶  کو ان کی پہلی برسی ہوگی تو میری نگاہوں میں ایک بار پھروہی منظر ہوگا کہ ان کے جنازے میں شامل ہزاروں لوگوں کی زباں پر بس یہی جملہ تھا کہ ’’وہ آدمی نہیں فرشتہ تھے‘‘۔ بلاشبہ وہ آدمی ہوتے تو اپنے شاگردوں کی کامیابی پر سجدۂ شکر ادا نہیں کرتے ! علامہ اقبال نے کہا تھا کہ

    ؎     یہ فیضان نظر تھا یا کہ مکتب کی کرامت تھی
        سکھائے کس نے اسماعیلؔ کو آداب فرزندی؟

اور آج جب میں استاد محترم پروفیسر محمد اختر الحسن مرحوم کی شفقت اور دعائوں کو یاد کرتا ہوں تو میری آنکھیں نم ہو جاتی ہیں کہ انہوں نے ہی تو سکھایا تھا مجھے آداب زندگی ۔اور پھر علامہ اقبال کا یہ شعر ذہن میں گردش کرنے لگتا ہے

    ؎    یہ کلی بھی اس گلستان خزاں منظر میں تھی
        ایسی چنگاری بھی یارب اپنی خاکستر میں تھی


 ٭٭٭

 

Comments


Login

You are Visitor Number : 924