donateplease
newsletter
newsletter
rishta online logo
rosemine
Bazme Adab
Google   Site  
Bookmark and Share 
mazameen
Share on Facebook
 
Literary Articles -->> Adbi Gosha
 
Share to Aalmi Urdu Ghar
Author : Dr. Mushtaq Ahmad
Title :
   Shikwe Jo Kiye Sohbate Aghiyar Ki Hamne


شکوے جو کئے صحبت ِ اغیار کی ہم نے


ڈاکٹر مشتاق احمد

پرنسپل مارواڑی کالج،دربھنگہ

موبائل:09431414586

 ای میل: rm.meezan@gmail.com


    اب سے دو دہائی قبل میں نے ایک شعری مجموعہ پر اظہار خیال کرتے ہوئے لکھا تھا کہ اس شعری سرمائے میں ستّر فیصدحصہ حرام ، بیس فیصد مکروہ اور دس فیصد شریعت سخن کے اعتبار سے حلال ہے۔ ظاہر ہے صاحب تصنیف کا چراغ پا ہونا عین فطری تھا اور انہوں نے شعری تنقید میں حلال وحرام کے امتیاز پر سوال بھی کھڑے کئے تھے۔ راقم الحروف نے ان کے سوالوں کے جواب میں بس اتنا کہہ کر قصۂ لاحاصل کو ختم کرنے کی گزارش کی تھی کہ اگر کوئی مولوی صفت قاری اس شعری مجموعہ کا مطالعہ کریں تو ممکن ہے کہ صد فیصد اشعار حرام کے خانے میں ڈال دیں۔ ظاہر ہے کہ حالیہ برسوں میں جو تک بندی کو شاعری کا لبادہ پہنانے کی مذموم کو ششیں ہوتی رہی ہیں اس سے نہ صرف اردو شاعری کا وقار مجروح ہوا ہے بلکہ اردو شاعری سے سنجیدہ قاری کا رشتہ بھی منقطع ہوا ہے۔ میں ایسے صاحب ِشعری مجموعہ کو بھی جانتا ہوں کہ جو اردو کے مکمّل حروف تہجّی کی واقفیت بھی نہیں رکھتے اور عروض و بلاغت کے تقاضے تو اپنی جگہ ہیں ۔ اگر آپ قارئین کو میری باتوں میں مبالغہ نظرآئے تو کبھی کسی مشاعرے کی روداد کو پڑھ لیجئے جو اردو اخباروں کے صفحات پر شائع ہوتے رہتے ہیں۔ فالج زدہ اشعار آپ کے ذہن میں محفوظ ہوپاتے ہیں یا نہیں، وہ تو میں نہیں کہہ سکتا لیکن شعری ذوق رکھنے والے قارئین کے چہروں کے رنگ کو بدلتے ہوئے میں نے ضرور دیکھا ہے۔ اس دور شہرت پسندی میں تو اب اردو کا ہر ایک شاعر عالمی شہرت یافتہ ہونے کا تمغہ لئے پھرتا ہے۔ یہ اور بات ہے کہ ا ن کی شاعری سے ان کے گلی محلّے کے شائقین سخن بھی استفادہ نہیں کرتے۔ یہی وجہ ہے کہ سامنے کی چار پانچ دہائی کے شعری سرمائے کا سرسری جائزہ لیجئے توجینون شعراء کی تعدادایک ہاتھ کی انگلیوں کے برابر بھی نہیں۔جہاں تک غزلیہ شاعری جو ہماری اردو تہذیب و ثقافت کی امین ہے، اس کی تین سو سالہ تاریخ میں بھی کتنے ایسے شاعر ہیں جن کی بدولت ہماری شاعری نے معراج حاصل کیا ہے؟  ہماری تنقید کا رویّہ جب سے بازاری ہوا ہے ، تب سے اردو شاعری کی وقعت کیا رہ گئی ہے، اس سے ہم سب واقف ہیں۔ قصۂ کوتاہ ! اس وقت میرے پیش نظر ’’دیوانِ اوجؔ‘‘ہے جس کے فاضل مرتب مفتی مولانا محمد ثنا ء الہدیٰ قاسمی ہیں ۔ مجھے اطمینان اس بات کا ہے کہ اس دیوان میں مکروہ یا حرام کے زمرے میں رکھنے والی شاعری قطعی نہیں ہوگی کیونکہ مفتی مولانا ثنا ء الہدیٰ قاسمی جب حرام چیزوں کو دیکھنے سے بھی پرہیز کرتے ہیں تو وہ اس زمرے کی شاعری کی قرأت تو کر ہی نہیں سکتے۔ بلاشبہ دیوان اوجؔکی شاعری تلمیذ داغ ؔدہلوی عبد الطیف اوجؔ کی زرخیز ذہن کی پیداوار ہے اور یہ فکری شجر ثمرآور بھی ہے۔ مفتی مولانا ثنا ء الہدیٰ قاسمی دنیائے ادب میں محتاج تعارف نہیں ہیں کہ قبل از پیش نظر تحقیقی و تنقیدی سرمائے ادب،  ا ن کی نصف درجن ادبی ، علمی اور مذہبی کتابیں شائع ہو چکی ہیں اور حلقۂ اہل فکرو نظر سے قبولیت کی سند لے چکی ہیں۔ان میں ’یادوں کے چراغ‘،  ’نقد معتبر‘،  ’میری سنو‘،  ’نئے مسائل کے شرعی احکام ‘،  ’ مسلم مشاہیرویشالی‘  وغیرہ شامل ہیں۔ فاضل مرتب بالغ النظر ہیں۔ ان کی تنقیدی و تحقیقی بصیرت کا چراغ روشن ہے ۔ان کی مذہبی فکر نے انہیں ادبی معاملات میں بھی دیانت دار بنائے رکھا ہے۔ اس لئے ان کی تنقید نہ تنقیص ہے اور نہ مدلل مدّاحی ۔ ان کا علمی رویّہ متوازن ہے اور انہیں ادبی میزان پر کسی شئے کو پرکھنے کا سلیقہ خوب آتا ہے۔ ان کی انصاف پسندی اور علمی بصیرت و بصارت کا مظاہرہ زیر تبصرہ کتاب میں بھی ہوا ہے۔ داغ ؔ دہلوی کے ایک گمنام شاگرد  عبد الطیف اوجؔؔ کے قلمی دیوان کی طباعت اور پھر دنیائے ادب سے روشناس کرانے کی جو انہوں نے جدو جہد کی ہے وہ ان کے علمی اور تحقیقی ذوق و شوق کی ترجمان ہے۔ میں بھی ادب کا ایک ادنیٰ طالب علم ہوں اور ریاست بہار کے علمی و ادبی سرمائے سے واقفیت حاصل کرنے کی کوشش کرتا رہا ہوں۔ لیکن عبد الطیف اوجؔ کے سرمائے سخن سے آشنائی بہ توسط ’دیوان اوج‘ؔ ہی ہوئی ہے۔ اور نہ جانے مجھ جیسے کتنے ہی طالب علموں کو مفتی مولانا ثنا ء الہدیٰ قاسمی نے اپنی اس علمی کاوش سے فیض یاب کیا ہے۔ اس تحقیقی و تنقیدی کارنامے کے لئے نہ صرف راقم الحروف بلکہ دنیائے ادب کا ہر ایک وہ طالب علم جو اس طرح کے علمی پیاس رکھتا ہے، ان کے احسان گراں کو کبھی فراموش نہیں کر سکتا۔ کیونکہ یہ ادبی سرمایہ تاریخ اردو ادب کا گمشدہ باب تھا جسے مفتی قاسمی نے دنیائے ادب سے روشنا س کراکر ایک شاعر گمنام کو زندگیٔ نو بخشی ہے ۔ ساتھ ہی ساتھ سرمایہ ادب میں گنج ہائے گراں مایہ کا اضافہ بھی کیا ہے۔ اوجؔ کی شاعری کے مطالعے سے یہ حقیقت واضح ہو جاتی ہے کہ وہ ایک فطری شاعر تھے اور منجملہ اصناف سخن پر عبور رکھتے تھے۔ اس دیوان میں حمد، نعت ، سلام ، رباعی، قطع تاریخ، نظم اور غزلیں شامل ہیں۔ لیکن اس سرمایۂ سخن کے مطالعے سے یہ حقیقت بھی واضح ہو جاتی ہے کہ اوجؔکے شعری فکرو نظر کا محور و مرکز غزل ہے۔ اور ان کی غزلیہ شاعری کلاسکیت کے قوس و قزح سے مزین ہے۔ یہ حقیقت تو تسلیم شدہ ہے کہ فنکار اپنے عہد کا ترجمان ہوتا ہے ۔ وہ جس عہد میں سانس لیتاہے اور اس کے نشیب و فراز سے آشنا بھی ہوتا ہے، وہ اسی کا عکّاس بھی ہوتا ہے۔ اسی لئے تو امریکی شاعررابرٹ فراسٹ کہتے تھے کہ اگر کسی شاعر کے فکری اثاثے میں اس کے عہد کی عکّاسی نہیں ملتی تو اس کا مطلب ہے کہ وہ فطری فنکار نہیں بلکہ قصدی ہے۔ اس نظرئے سے دیوان اوجؔ کا مطالعہ کرنے کے بعد کوئی بھی انصاف پسند قاری بس اسی نتیجے پر پہنچے گا کہ صاحب کلام نے اپنے ارد گرد سے جو کچھ حاصل کیا تھا اور اس زمانے میں جو شعری روش تھی اس سے جو کچھ استفادہ کیا تھا وہی سب کچھ دیوان اوج میں موجو دہے۔ جس کا اعتراف مفتی مولانا ثنا ء الہدیٰ قاسمی نے بھی کیا ہے کہ ’’عشق و محبت کے لازمے میں رندی ، میخواری ، بے خودی ، وارفتگی کا ذکر آتا ہے ۔ اوجؔ جن کی شاعری کا محور ہی یہی ہے ، اس سے بچ کر کیسے نکل سکتے تھے، چنانچہ دوسرے شاعروں کی طرح ان کے یہاں بھی رندی اور مے نوشی کا تذکرہ ہے اور بیچارہ ملّا جو ہمیشہ سے محتسب رہا ہے اس پر طنز کے تیر بھی بار بار چلائے گئے ہیں۔ ‘‘۔

(صفحہ ۲۰)

    بلاشبہ کلام اوجؔ ان کے عہد کے شعری رویے سے آشنا کراتا ہے ۔ استاتذہ کی زمین میں بیشتر غزلیں کہی گئیں ہیں ۔ بالخصوص داغ دہلوی جن سے انہوں نے شرف تلمذ حاصل کیا تھا ان کا رنگ بھی نمایاں ہے اورجس کا اعتراف شاعر نے بھی کیا ہے۔

    ؎     کیا جانتا تھا اوجؔ کہ کہتے ہیں کس کو شعر
        مشہور  فیض داغ ؔ  سے شیریں سخن  ہوا

    اب تقاضۂ تبصرہ یہ ہے کہ اوجؔ کے چند اشعار سے آپ کو محظوظ ہونے کا موقع فراہم کروں تاکہ آپ خود بھی یہ فیصلہ کر سکیں کہ اوجؔ کی فکری اڑان کیا تھی۔

    ؎     اے شیخ ہم میں آپ میں اتنا ہی فرق ہے
        حور یں  عزیز  آپ کو ،  ہم کو  صنم عزیز

    ؎    بس کہ آنکھوں  ہمار ی  اے  صنم
        دیکھو اس دریا کی صاحب موج آج

    ؎    دیکھنا یہ ہے کہ کیا کہتا ہے محشر میں خدا
        جور تری دیکھ کر  مری وفا کو دیکھ  کر

    ؎    اگر تمہیں مرے کہنے کا کچھ یقین نہیں
        ذرا تو دیکھ لو اپنا جواب شیشے میں

    ؎    کیا  جو  ذکر وفا ،  ہو گئے  خفا ہم سے
        وہ اپنے دل میں خدا جانے اس کو کیا سمجھے

    ؎    خدا کے واسطے اے بت بتا کیا راز ہے اس میں
        جہاں  مسکن  کیا تونے وہ  کعبہ کی زمیں نکلی

    ؎    شکوے جو کئے صحبت اغیار کی ہم نے
        بولا نہ شب وصل وہ کچھ شرم و حیا سے


    مذکورہ اشعار کی قرأ ت سے یہ حقیقت عیاں ہو جاتی ہے کہ عبد الطیف اوجؔ کے تخیل کی پرواز کس کو سمت کو رواں دواں تھی اور ان کی نگاہوں میں زمین و آسماں کا کون سا رنگ بستا تھا۔ حقانی القاسمی نے ٹھیک ہی لکھا ہے کہ’’ مفتی مولانا ثنا ء الہدیٰ قاسمی کی اس جستجو سے مطالعات داغ ؔکو نہ صرف نئی سمت ملے گی بلکہ ادبی دنیا کو بہار کے ایک ایسے گمشدہ شاعر سے روشناس کرائے گی جس کے یہاں داغ جیسی صفائی بیان اور رنگینی ٔ بیان ہے ۔ جس کے شعروں میں کلاسکیت کا حسن اور تخیل کی توانائی ہے۔‘‘۔قارئین حضرات یہ علمی سرمایہ ایجوکیشنل پبلشنگ ہائوس دہلی سے حاصل کرسکتے ہیں ۔ ۲۲۴ صفحات کے اس علمی خزینے کی قیمت ۲۵۰ روپے ہے جو تشنگان علم و ادب کے لئے بار گراں نہیں ہوسکتا۔مجھے یقین ہے کہ حلقۂ ادب میں فاضل مرتب  مفتی مولانا محمد ثنا ء الہدیٰ قاسمی کے اس علمی خزینے کی پذیرائی ہوگی کہ یہ اس کی مستحق ہے۔


********************************

 

Comments


Login

You are Visitor Number : 822