donateplease
newsletter
newsletter
rishta online logo
rosemine
Bazme Adab
Google   Site  
Bookmark and Share 
mazameen
Share on Facebook
 
Literary Articles -->> Adbi Gosha
 
Share to Aalmi Urdu Ghar
Author : Dr. Mushtaq Ahmad
Title :
   Takhliqi Shaoor Ka Ayina : Ghazaal Dard


تخلیقی شعور کا آئینہ: غزال درد


٭ڈاکٹر مشتاق احمد


 موبائل نمبر:9431414586

 
عصر حاضر کے جن چند شعرا نے دنیائے ادب کو اپنی فکری توانائی سے متوجہ کیا ہے ان میں طارق متین کی حیثیت مستحکم ہے۔ وہ گزشتہ تین دہائیوں سے اپنے شعری شعور کا مظاہرہ کررہے ہیںاور یہ حقیقت عیاں ہوچکی ہے کہ وہ ایک تخلیقی شعور کے علمبردار ہیں۔ ’غزال درد‘ ان کا دوسرا مجموعہ کلام ہے۔ قبل از ’قندیل ہنر‘ کی شاعری نے اردو کے سنجیدہ قارئین کو طارق متین کا دلدادہ بنادیا تھا۔ اب جبکہ غزال درد کی شاعری منظر عام پر آئی ہے تو ان اکابرین شعرا کی نگاہوں میں بھی طارق متین کا شعری جہات روشن ہوگیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ پروفیسر مظفر حنفی، پروفیسر علیم اللہ حالی جیسے اساتذہ نے طارق متین کی شاعری کو اردو شاعری کے لئے گنجہائے گراں مایہ قرار دیا ہے تو ان کے معاصرین فرحت احساس، راشد طراز، خورشید اکرم، خالد عبادی اور فراغ روہوی وغیرہم ان کی شاعری کے اوصاف جمیلہ کے شیدا ہیں۔ بلا شبہ طارق متین ایک پختہ ذہن کے باشعور شاعر ہیں اور شاعری کے فنی تقاضوں کے محافظ بھی ہیں۔ ان کے یہاں ایک شعوری کوشش ہے کہ وہ اپنے ہم عصروں کے درمیان یکتا دکھائی دیں اور ان کی شاعری پر اکابر شعرا کے افکار ونظریات کا شائبہ نظر نہ آئے ۔ اگرچہ ان کی شاعری کے اکھوئے تو کلاسکیت کی زمین سے ہی پھوٹے ہیں، البتہ انہوںنے اس کی آبیاری میں اپنا خون جگر اس قدر صرف کیا ہے کہ گل بوٹے میں جدت نمایاں ہے۔ غزال درد خالص غزلیہ شاعری کا مجموعہ ہے۔ میری یادداشت میں کچھ پرانی غزلیں بھی اس میں شامل کی گئی ہیں۔ ظاہر ہے کہ غزال درد میں شاعر نے اپنی منتخب شاعری کو پیش کر نے کی شعوری کوشش کی ہے، تاکہ جہان شاعری میں ان کی آمد کا پتہ چل سکے۔ علیم اللہ حالی نے یہ اعتراف کیا ہے کہ غزال درد میں تخلیق کار اپنے فن کی بلندی پر نظر آرہا ہے تو پروفیسر مظفر حنفی یہ کہنے پر مجبور ہیں کہ غزل درد کے خالق نہ صرف زبان کے رموز سے خاطر خواہ شناسا ہیں بلکہ انہیں اظہار وبیان تخلیقی شعور بھی حاصل ہے۔ عہد حاضر کے ایک مستند شاعر فرحت احساس نے طارق متین کی شاعری کو ’’تہذیبی عہد بستگی کی شاعری‘ کہا  ہے اور طارق متین کی نمایاں ترین صفت ان کی خود گزینی قرار دیا ہے۔ فرحت احساس نے ٹھیک ہی کہا ہے کہ ’’طارق متین اپنے انسانی وجود کے تہذیبی نصب العین کو کسی بیرون از وجود مقصد کے تابع نہیں ہونے دیتے۔ ایک خاص فرقے کا فرد ہونے کی حیثیت سے غزال درد کا شاعر بھی بعض ابتلائوں اور مصائب میں حصے دار ہے اور انہیں تکلیف کی پوری شدت کے ساتھ محسوس کرتا ہے۔ مگر اس کی اقدار پسندی اور تہذیب نفس اسے بعض مثالوں کو چھوڑ کر جہاں لہجہ قدرے اونچا ہوگیا ہے، برہنہ گفتاری کی اجازت نہیں دیتی۔‘‘ خالد عبادی عہد حاضر کے ایک ذہین شاعر ہیں اور لوازمات شاعری کا گہرا شعور رکھتے ہیں، انہوںنے بھی غزال درد کی شاعری کے محاسن کو تسلیم کیا ہے۔ ’’غزال درد کو پڑھتے ہوئے یہ احساس ہوتا ہے کہ ریاضت فکر وفن نے شاعر کے جوہر ذاتی کو چمکا دیا ہے اور اسے ایک پروقار اسلوب عطا کیا ہے۔اس مجموعے میں کہیں کہیں راست بیانی سے بھی سابقہ پڑتا ہے اور عام شعری مزاج کی جھلک سے مایوسی ہوتی ہے، لیکن یہ تو ہر شاعر اور ہر کتاب کا مقدر ہے۔‘‘

راشد طراز نے طارق متین کو’’ ایک امکانی شاعر تسلیم کیا ہے مگر یہ شرط بھی لگائی ہے کہ ان کی شاعری کو استعارہ سازی کے عمل سے بھی گزرنا ہے جس کا تقاضا اب ناگزیر وفطری ہے۔‘‘ خوشید اکرم ایک پختہ ذہن شاعر بھی اور تنقیدی بصیرت وبصارت کے ضامن بھی ، انہوں نے طارق متین کی شاعری کے متعلق یہ رائے قائم کی ہے کہ ’’طارق متین کے یہاں وہی شور وہنگامہ ہے جس سے آج کی شہری زندگی گزارنے والا ہر با ضمیر شخص دوچار رہتا ہے۔‘‘ 

مذکورہ بیانات کی روشنی میں غزال درد کی شاعری کا ذرا سنجیدگی سے مطالعہ کرنے سے یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ اکابر شعرا ہوں کہ طارق متین کے ہم عصر، ان لوگوں نے ان کی شاعری کے جن نکات کو روشن کیا ہے وہ محض مدلل مداحی نہیں ہے بلکہ ایک ایسے شاعر کے فن کے اعتراف ہے جو واقعی حیات وکائنات کے رموز کی ڈور کو سلجھانے میں لگا ہے۔ طارق متین کی شاعری میری ذاتی پسند بھی ہے لیکن میں ان کا طرفدار نہیں۔ جو شاعری مجھے پڑھنے پر مجبور کرتی ہے اور جو اشعار میرے ذہن میں جگہ بنانے میں کامیاب ہوتے ہیں ویسی شاعری میرے لئے حرز جاں رہی ہے۔ اب تقاضائے تبصرہ یہ ہے کہ طارق متین کے چند اشعار پیش کیے جائیں:

عجب قدرت ہے اس کی کیا فراہم کردیا اس نے

کہ اک قطرے سے انساں کو مجسم کردیا اس نے

بہت نازاں ہوا میں جب بھی اپنی سربلندی پر

مجھے معتوب کرکے مرا سر خم کردیا اس نے

فلک کی سیر میاں حوصلوں سے ہوتی ہے

یہ کہہ گیا ہے پرندہ اڑان دیتے ہوئے

دن تو احباب کی صحبت میں گزر جاتا ہے 

لے کے جائوں میں کہاں درد شبینہ اپنا

تو سرائت ہے مری روح میں جاناں پھر بھی

مثل آہو ہے بہت مجھ سے گریزاں پھر بھی

دل کی پژمردگی چہرے سے عیاں ہے صاحب

آپ بازار سے کپڑے تو نئے لیتے ہیں


مختصر یہ کہ غزال درد کی شاعری جہان باطن کی آئینہ دار ہے اور آج کے عالمی تناظر میں ٹوٹتے بکھرتے انسان کی آہ وبکا، امید و ناامید، دور دور تک دھواں دھواں منظر، سمندر کی ریت پر روتے بلکتے معصوم بچے اور جہاں تہاں بکھری ہوئی لاشیں لاشیں، ان تمام مناظر کے شواہدغزال درد کے اشعار پیش کرتے ہیں۔ارم پبلیکیشندریا پور پٹنہ سے ایک سو بیس صفحات کی یہ کتاب دو سو روپئے میں حاصل کی جاسکتی ہے۔٭

***********************

 

Comments


Login

You are Visitor Number : 847