donateplease
newsletter
newsletter
rishta online logo
rosemine
Bazme Adab
Google   Site  
Bookmark and Share 
mazameen
Share on Facebook
 
Literary Articles -->> Adbi Gosha
 
Share to Aalmi Urdu Ghar
Author : Dr. Mushtaq Ahmad
Title :
   Urdu Tanqeed Ka Zeenaye Awwal - Bazeed Aur Tabsare


اردو تنقید کا زینہ ء اول -بازدید اور تبصرے


ڈاکٹر مشتاق احمد

پرنسپل مارواڑی کالج ، دربھنگہ

موبائل9431414586-

ای میلrm.meezan@gmail.com-


    اردو ادب کے عصری منظرنامے کو جن چند باشعور قلمکاروں نے اپنی تعمیری فکرو نظر کے قوس و قزح سے مزین کیا ہے، ان میں ڈاکٹر کوثر مظہری نمایاں حیثیت رکھتے ہیں۔ ڈاکٹر مظہری کو اللہ نے نہ صرف تنقیدی بصیرت و بصارت سے نوازا ہے بلکہ تخلیقی سرمایہء فکر سے بھی مالا مال کیا ہے۔یہی وجہ ہے کہ وہ جب ناول’’آنکھ جو سوچتی ہے‘‘ لکھتے ہیں تو وہ اس اولین تخلیقی نمونے میں ہی اپنی صلاحیت کا لوہا منوا لیتے ہیں۔ اور جب شاعری کی طرف رخ کرتے ہیں تو ’’ماضی کا آئندہ ‘‘شعری مجموعہ کی نظموں اور غزلوں کے حوالے کے بغیر 80ء کے بعد کی اردو شاعری کا باب مکمل نہیں ہوتا۔ باب تنقید میں’’جواز و انتخاب‘‘،  ’ ’جراء ت افکار‘‘،  ’’جدید نظم -حالی سے میراجی تک‘‘،  ’’فائز دہلوی‘‘،  ’’وحید اختر ‘‘(مونو گراف) اور’’قرائت اور مکالمہ‘‘  حالیہ تنقید نگاری میں حواشی کی حیثیت رکھتی ہیں۔شخصی طور پر بھی ڈاکٹر مظہری اس خاموش سمندر کی طرح ہیںجو اوپر سے تو ساکت نظر آتا ہے لیکن اس کے اندر اندر نہ جانے کتنی لہریں ایک ساتھ چلتی رہتی ہیں اور صدف ِخام کو گوہر نایاب سے بھرتی رہتی ہیں۔ایسا میں اس لئے کہہ رہا ہوں کہ دو دہائی میں ان کی ایک درجن تنقیدی کتابوں کی اشاعت نے یہ ثابت کر دیا ہے کہ ان کے بحر افکار ونظریات نے بہتیرے صدف کو گوہر بار کیا ہے۔مختصر یہ کہ فی الوقت میرے پیش نظر ان کی نئی کتاب ’’بازدید اور تبصرے‘‘ ہے۔ ’’بازدید اور تبصرے‘‘ میں ڈاکٹر مظہری نے اپنے 15صفحات کے پر مغز علمی مقدمے میں نہ صرف اس کتاب کی اشاعت کا جواز پیش کیا ہے بلکہ کئی ایسے نکات پیش کئے ہیں جو نئی بحث کا اشاریہ ہے۔ظاہر ہے کہ 376 صفحات کی ضخامت والی اس کتاب میں تبصرے یا یوں کہئے تبصراتی مضامین شامل ہیں۔ ہمارے یہاں تبصرے کا مقصد صرف اور صرف کتابوں کا تعارف مقصود رہا ہے۔ یہ اور بات ہے کہ یہ تبصرے ہی ہماری تنقید کے زینہ ء اول ثابت ہوئے ہیں۔ہمارے یہاں طویل تبصرے بھی موجود ہیں اور پروفیسر عبدالمغنی مرحوم کے رسیدی تبصرے جو برسوں ’’مریخ ‘‘ میں شائع ہوتے رہے، وہ بھی قابل توجہ ہیں۔ مختصر یہ کہ پروفیسر کلیم الدین احمد نے اپنی ہنگامہ خیز تنقیدی کتاب’’اردو تنقید پر ایک نظر‘‘ میں تبصرے کے متعلق کیا خوب لکھا ہے کہ ’’تبصرہ کا مقصد ہے کسی کتاب کے جوہر کا پتا لگانا اور اسے اجمال یا تفصیل کے ساتھ پیش کرنا اور جو کچھ کہا جائے اس سے کتاب کی اہم ترین خصوصیتیں (خوبیاںاور برائیاں دونوں) واضح ہو جائیں۔ یہ اسی وقت ممکن ہے جب صحیح معیار موجود ہو۔ ‘‘۔ بلا شبہ پروفیسر کلیم الدین احمد کی یہ رائے حرف آخر تو نہیں لیکن قندیل فکرونظرضرور ہے۔پیش نظر کتاب میں فاضل مبصر ڈاکٹر مظہری  کے مطالعے کا محور و مرکز ایسی کتابی بھی ہیں، جو چار پانچ دہائی پہلے شائع ہوئیں تھیں۔مثلاً ’’روشنائی‘‘ از سجاد ظہیر، ’’اردو تنقید پر ایک نظر‘‘ از کلیم الدین احمد، ’’بے جڑ کے پودے‘‘ از سہیل عظیم آبادی، ’’تذکرہ‘‘ از مولانا ابولکلام آزاد، ’’تلاش حق‘‘ از گاندھی جی اور ’’مرزا غالب اور ہند مغل جمالیات‘‘ از پروفیسر شکیل الرحمن وغیرہم۔ اوردرجنوں نئی مطبوعات کے ساتھ ساتھ کئی ادبی رسالوں کو بھی اپنے دائرہ ء مطالعہ میں رکھا ہے۔ ڈاکٹر مظہری نے اس کتاب کی اشاعت کا جواز پیش کرتے ہوئے تحریر کیا ہے کہ ’’ میرا جو مطمح نظر اور مرکز مطالعہ ہے وہ یہ ہے کہ تبصرہ اور تنقید میں کیا رشتہ ہے؟‘‘۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ مکمل کتاب مبصر کے متعینہ نظریہ ء تبصرہ پر مبنی ہے۔ اگرچہ بعض تبصرے تو ایسے ہیں جنہیں ہم تبصرہ نہیں بلکہ ایک بھرپور مقالہ کہہ سکتے ہیں۔ بالخصوص اکابرین کی کتابوں کا خصوصی مطالعہ تبصرے کے دائرے سے باہر نکل کر مضمون و مقالے کی صورت اختیار کر لیتا ہے۔یہ ایک جدت ہے اور ڈاکٹر مظہری کی انفرادیت بھی۔ کوثر مظہری ایک باشعور اور سنجیدہ ناقد ہیں اور اپنی بات کہنے کا خوب خوب سلیقہ جانتے ہیں۔ دلائل کے رموز ونکات سے خوب واقف ہیں اس لئے ان کی تحریر یں فکری توازن کے لبادوں میں پرکشش نظر آتی ہیں۔جیسا کہ ذکر آچکا ہے کہ پیش نظر کتاب نئی پرانی کتابوں کے تبصروں پر مبنی ہے جس میں تقریباً 65کتابوں کی شمولیت ہے اور ان میں شاعری، تنقید، افسانے اور دیگر اصناف کی کتابیں شامل ہیں۔ہاں شعری مجموعوں اور تنقیدی کتابوں کی اکثریت ہے۔پہلا تبصرہ ’’من آنم‘‘ از فراق گورکھپوری ہے۔ یہ خطوط کا مجموعہ ہے لیکن اس میں جگہ بہ جگہ فراق گوکھپوری کے شعور نقد کا آفتاب بھی روشن ہوا ہے۔کوثر مظہری نے نہ صرف روشن آفتاب کی نشاندہی کی ہے بلکہ ادبی و علمی گنجہائے گرامایہ کو دنیائے نقد کے لئے سرمایہء افتخار قرار دیا ہے۔


    اسی طرح جب وہ اپنے ہم عصر شاعر خورشید اکبر کے شعری مجموعہ ’’سمند خلاف رہتا ہے‘‘ پر تنقیدی نگاہ ڈالتے ہیں تو یہ نتیجہ اخذ کرتے ہیں کہ ’’خورشید اکبر کی آنکھیں کائنات کی دروں بینی میں مصروف ہیں۔ ان کے شعروں میں جو حسی رچائو اور فکرکی بلندی ملتی ہے وہ انہیں اپنے ہم عصروں میں بلند کرتی ہے، ممتاز کرتی ہے۔‘‘۔یہ اقتباس تبصرے کا ایک ٹکڑا ہے مگر یہ ڈاکٹر مظہری کی تنقیدی بصیرت و بصارت اور شعر فہمی کا آئینہ بھی ہے۔اس طرح کے بہتیرے گوہر نایاب کی تلاش کے خواہاں قارئین ادب ڈاکٹر کوثر مظہری کی کتاب ’’بازدید اور تبصرے ‘‘کا مطالعہ کر سکتے ہیں کہ میرے خیال میں اس طرح کی علمی و ادبی کتابوں کی ورق گردانی تضیعء اوقات نہیں بلکہ ضیائے دانشوری سے ہمکنار کراتی ہے۔عرشیہ پبلکیشن دہلی سے 2013ء میں مطبوعہ یہ کتاب 300روپے میں حاصل کی جاسکتی ہے۔آج کے دور گراں میں مذکورہ قیمت قارئین کی جیب پر بار گراں نہیں ہوگی۔ اور پھر جس کتاب میں علم و ادب کی چشمے ابلتے ہوں ان کتابوں تک ہماری رسائی تو خوش نصیبی ہی ثابت ہو سکتی ہے۔بلا واسطہ مصنف ڈاکٹر کوثر مظہری شعبہء  اردو ، جامعہ ملیہ اسلامیہ ،نئی دہلی سے بھی قارئین کتاب حاصل کر سکتے ہیں۔


*************************

 

Comments


Login

You are Visitor Number : 1113