donateplease
newsletter
newsletter
rishta online logo
rosemine
Bazme Adab
Google   Site  
Bookmark and Share 
mazameen
Share on Facebook
 
Literary Articles -->> Adbi Gosha
 
Share to Aalmi Urdu Ghar
Author : Dr. Mushtaq Ahmad
Title :
   Urdu Zaban : Haal Aur Mustaqbil


اردو زبان: حال اور مستقبل


ڈاکٹر مشتاق احمد

پرنسپل مارواڑی کالج، دربھنگہ

موبائل 9431414586

ای میل  rm.meezan@gmail.com


     اکیسویںصدی سائنس اور ٹکنالوجی کی صدی ہے۔ جدید ایجادات اور جدید دریافتوں کے سبب روز نئے نئے انکشافات ہو رہے ہیں اور یہ بھی حقیقت ہے کہ یہ سائنسی انکشافات، دریافتیں اور نئی نئی تحقیقات ابھی اپنی آخری منزل کو نہیں پہنچی ہیں بلکہ جب تک دنیا ہے اس وقت تک ایسے انقلابات ہوتے رہیں گے اوریہ بھی ممکن ہے کہ ہر وہ شئے جو آج انسان کی ضروریات میں شامل ہیں کل وہ بے کار ثابت ہو جائے اور اس کی جگہ کوئی اور دوسری ایجاد قابض ہو جائے۔ آج جدید سائنسی ٹکنالوجی نے دنیا کو جامِ جم میں تبدیل کردیا ہے اور انسان کی زندگی کے تصور کو بدل کر رکھ دیا ہے۔ظاہر ہے کہ جب زندگی جینے کی روش تبدیل ہوگی تو اس انقلاب سے اس کی تہذیب اور زبان بھی لازمی طور پر متاثرہوگی۔اس لئے اکیسویں صدی میں اردو زبان وادب کے سامنے بھی یہ ایک بڑا چیلنج ہے کہ آخر اردوزبان کس طرح بدلتے ہوئے زمانے کے ساتھ ہم آہنگی پیدا کرے۔گلوبلائزیشن کی وجہ سے زندگی کے تمام شعبے میں انقلاب برپا ہوگیا ہے اور جس کی شدت دن بہ دن بڑھتی ہی جا رہی ہے۔ اب چوں کہ دنیا ایک بازار بن گئی ہے اس لئے ہر ایک میدان میں مقابلہ بڑھ گیا ہے اور جس کی وجہ سے روایتی زندگی کا توازن بھی یکسر بدل گیا ہے۔زبان و ادب میں بھی کچھ اس طرح کی تبدیلی رونما ہو رہی ہے ۔ ظاہر ہے جب زندگی جینے کے طریقے بدل رہے ہیں تو ہمارے وسیلۂ اظہارِ خیال یعنی زبان اورزندگی کاآئینہ ادب میں بھی ہماری تصویر بدلے گی اورضرور بدلے گی کہ یہ ایک فطری عمل ہے۔

    اس حقیقت سے انکار ممکن نہیں کہ عالمی گائوں کے پھیلتے ہوئے بازار میں چند زبانوں کی اجارہ داری قائم ہو رہی ہے اور علاقائی زبانوں کے ساتھ ساتھ کئی بڑی زبانوں کے وجود کو بھی خطرہ لاحق ہو گیا ہے۔ ایک اندازے کے مطابق اکیسویں صدی میں دنیا کی نوّے فی صدزبانیں اور بولیاں معدوم ہو سکتی ہیں۔ حال ہی میں اقوامِ متحدہ کی ایک رپورٹ میں یہ بتایا گیا ہے کہ 2500 سے زیادہ زبانیں اور بولیاں اپنا وجود کھونے والی ہیں جب کہ 234زبانیں ختم ہو چکی ہیں۔

    عالمی شہرت یافتہ ماہرِ لسانیات ڈیوڈ کرسٹل نے اپنی کتاب Language deathمیں یہ انکشاف کیا ہے کہ تقریباً 3340زبانیں ایسی ہیں جنہیں بولنے والوں کی تعداد اب دس ہزار سے بھی کم ہے ۔ اور1500زبانیں ایسی ہیں جنہیں بولنے والوں کی تعداد ایک ہزار تک محدود ہو گئی ہے اور 500زبانیں ایسی ہیں جنہیں بولنے والوں کی تعداد سو سے بھی کم ہے۔ اسی طرح کا خیال ایک ماہرِ لسانیات گنیش دیوی نے بھی ظاہر کیا ہے کہ گذشتہ پانچ دہائی میں 261زبانیں اپنا وجود کھو چکی ہیں۔کچھ اسی طرح کا خدشہ معروف ادیب نارائنی گنیش نے اپنے ایک مضمون بہ عنوان Speech is part of our cultural identityمطبوعہ Times of Indiaمورخہ ۳؍ جنوری ۲۰۰۷ء میں ظاہر کیا تھا کہ گلوبلائزیشن کی وجہ سے 3450زبانیں اپنا وجود کھونے والی ہیں اور ڈاکٹر اروند کالا نے تو یہ نتیجہ اخذ کیا ہے کہ دنیا میں ہر ہفتے ایک زبان مر رہی ہے ۔

    اتنا ہی نہیں کچھ ماہرِ لسانیات اس حقیقت کو تسلیم کر چکے ہیں کہ اکیسویں صدی کے آخر تک پوری دنیا میں صرف ایک درجن زبان زندہ رہ پائے گی۔ جاپان میں بین الاقوامی لسانی کانفرنس (1995ئ) میں ماہرین نے اپنے ٹھوس دلائل سے یہ ثابت کیا تھا کہ دنیا کی 6760معروف زبانوں میں 234زبانیں دم توڑ چکی ہیں اور اگر ہم زبان کے تحفظ کے تئیں سنجیدہ نہیں ہوئے تو آنے والی صدی میں بڑا نقصان اٹھانا پڑسکتا ہے ۔معروف ماہرِ لسانیات اینڈریو ڈیلیؔ نے اپنی کتاب Language in danger"میں اس بات کی طرف اشارہ کیا ہے کہ دنیا میں الگ الگ اسباب سے کچھ زبانوں کی بالادستی قائم ہوتی جا رہی ہے جس کی وجہ سے کچھ زبانیں سمٹ کر تاریکی میں جا رہی ہیں۔ انہوں نے یہ بھی خدشہ ظاہر کیا ہے کہ اکیسویں صدی ختم ہوتے ہی تقریباً 2500زبانیں دم توڑ دیں گی اور یہ سب گلوبلائزیشن کی وجہ سے ہوگا۔ ظاہر ہے کہ عا  لمیت کا مطلب ہی پوری دنیا کا ایک گائوں میں تبدیل ہونا اور یہ تبدیلی صرف ساز وسامان کی تجارت تک ہی محدود نہیں ہے بلکہ اس عا  لمیت کے نام پر دنیا کی دوسری زبانوں کی پہچان کو گم بلکہ ختم کرنا بھی ہے ۔ عا  لمیت کے پردہ میں ایک بار پھر ساری دنیا میں ذہنی طورپر غلام بنانے کی کوشش کی جا رہی ہے جیسا کہ انگریزی حکومت میں لارڈ میکالےؔ نے کیا تھا۔ ا نگریزی کو گلوبلائزیشن کی زبان قرار دینے کے پسِ پردہ پوری دنیا پر انگریزی کو تھوپنے کی ایک سازش ہی تو ہے۔

    غرض کہ بیشتر ماہرِ لسانیات کا خیال ہے کہ اکیسویں صدی میں دنیا کی ہر ایک بڑی زبان کے سامنے اپنے وجود کو بچائے رکھنے کا مسئلہ درپیش ہے۔ جہاںتک ہندوستان کا سوال ہے تو یونیسکو کے ذریعہ جاری لسانی نقشے میں 1996ء میں ملک کی 1600 سے زائد زبانوں اور بولیوں کو خطرے کے دائرے میں رکھا گیا تھا۔ زبانوں کی بقا اور ترقی کے حوالے سے مذکورہ خدشات کی روشنی میں جب ہم اردو زبان کا جائزہ لیتے ہیں تو اس حقیقت کوتو قبول کرنا ہی ہوگا کہ دنیا کی دیگر زبانوں کی طرح اردو کے سامنے بھی چیلنج ہے اور گلوبلائزیشن کے اس مقابلہ جاتی دور میں اردو کو بھی اپنا وجود قائم رکھنے کے لئے ان تمام تقاضوں کو پورا کرنا ہوگا جو اس عہدِ انقلاب کا تقاضہ ہے۔

    ہمیں یہ نہیں بھولنا چاہئے کہ زبان صرف ذریعہ اظہار ہی نہیں ہے بلکہ زندگی جینے کا پیمانہ بھی ہے ۔ کسی زبان کو قبول کرنے کا مطلب ہے اس کی تہذیب وثقافت کو قبول کرنا۔جیسا کہ فش مینؔ نے کہا تھا کہ ’’زبان محض تبادلہ خیال کا ذریعہ نہیں ، نہ ہی مختلف خیالات ، نظریات کی ،خواہ پوشیدہ ہوں یا واضح ترجمانی کا وسیلہ بلکہ زبان خود ایک مکمل مواد کی حیثیت رکھتی ہے،

 با قاعدہ طورپر سماج کی عکاس ہوتی ہے اور عوام کی معاشرتی حیثیت اور تعلقات کی طرف اشارہ کرتی ہے۔ زبان کے ذریعہ مختلف حالات اور سماجی اقدار ظاہر ہوتی ہیں‘‘۔

     بلا شبہ عا  لمیت کی وجہ سے زندگی کے تمام شعبے میں انقلاب برپا ہو گیاہے اور انسان کے زندگی جینے کے طریقے بدل گئے ہیں اور اس مقابلہ جاتی دورمیں خوفناک قسم کی رقابت بھی پیدا ہوگئی ہے۔ لسانی شعبے میںبھی کچھ اسی طرح کی رقابت پیدا ہو رہی ہے۔ماہرِ سماجیات پروفیسر یوگیندر سنگھ نے گلوبلائزیشن کی وجہ سے زبانوں کے درمیان بڑھتی رقابت کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ ’’سماجی اور تہذیبی سطح پر ان کا فرق نمایاں ہورہا ہے اور یہ عوامل اقتصادی اور سیاسی ڈھانچے کو مربوط کرنے کا وسیلہ بن گئے ہیں۔ زبانیں سماجی حرکت پذیری اور اندرونِ سماج نئے ڈھانچے تعمیر کرنے کا ذریعہ بنتی جا رہی ہیں۔ کشاکش اور چیلنج کا یہ عمل کسی بھی سماج میں اس رجحان کو پروان چڑھاتا ہے کہ وہ سماجی ، لسانی سطح پر اتنی توانائی حاصل کرلے کہ نہ صرف شناخت بلکہ قانونی جواز کے اعتبار سے بھی اسے فوری اہمیت کا مسئلہ تصور کر لیا جائے‘‘ ۔

    اب سوال اٹھتا ہے کہ ا کیسویں صدی میں اردو کاحال اور مستقبل کیا ہے ؟ ظاہرہے مستقبل کے خاکوں میں رنگ حال کے تغیرِ فکر سے ہی بھراجاتا ہے اور حال میں عالمی سطح پر جو روز نئی نئی تبدیلیاں رونما ہو رہی ہیں ان تبدیلیوں کے درمیان اردو اپنی جگہ بنانے کے قابل ہے یا نہیں ،اس پر غور وفکر ضروری ہے۔اس حقیقت کو بھی ملحوظ خاطر رکھنا لازمی ہے کہ آج جو زبان بازار کی طاقتوں سے مقابلہ کرنے کی قوت رکھتی ہے اور جس کا تعلق پیداوار اور مواصلات کے عمل سے ہے ، جو معقولیت پسندی پر مبنی مہارت رکھتی ہے اور جسے صرف اس زبان کے بولنے والے کا ہی نہیں بلکہ مارکیٹ کا بھی سہارا ہے، اسی زبان کا مستقبل روشن ہو سکتا ہے کہ سائنس کا ایک اصول بقائے اصلح(Survival of the Fittest)ہے۔ یعنی باقی صرف وہی چیز رہتی ہے جو زمانے سے مطابقت پیدا کرلے ورنہ وہ اپنا وجود کھو دیتی ہے۔ غرض کہ جو چیز عصرِ حاضر کے تقاضوں کو پورا نہیں کر سکتی تو وہ اپنا وجود کھو دیتی ہے۔ اس سلسلے میں چند ماہرِ لسانیات کا خیال ہے کہ وہ زبان جو زمانے کی ضرورت کو پورا نہیں کرتی تو اس کا فنا ہونا فطری عمل ہے لیکن بقائے اصلح نظریے کے حامی اس بنیادی نکتے کو فراموش کردیتے ہیں کہ زبان نہ صرف سماجی یا تہذیبی حقیقت کو منعکس کرتی ہے بلکہ اسے جنم بھی دیتی ہے لہذا زبان ایک مرتی ہے تو اس کے ساتھ ساتھ اس سے تعلق رکھنے والے تمام انسانی رسم ورواج اور عادات وخصائل بھی ختم ہو جاتے ہیں ۔اس حقیقت کی طرف اردو کے ایک ماہر زبان معین الدین نے بھی اشارہ کیا ہے۔

    ’’زبان ترسیل وخیال کا ایک اہم وسیلہ ہے اور زبان اور فکر کا چولی دامن کا ساتھ ہے۔ اس کے ذریعہ انسان کے شعور کی تربیت ہوتی ہے اور تہذیب پروان چڑھتی ہے۔ زبان کے وسیلے سے ہی انسان گردوپیش کے ٹھوس حقائق کو تصورات کے پیکر میں ڈھالتا ہے اور تخیلات کی دنیا آباد کرتا ہے۔اس کے ذریعہ تجزیاتی فکر کی داغ بیل پڑتی ہے اور کبھی تخلیقی فکر کے سوتے پھوٹتے ہیں۔فکر کی نشو ونما سے ذہنی نشو ونما کا گہرا تعلق ہے۔زبان فرد اور سماج کے درمیان فعال رشتہ پیدا کرنے کا ایک اہم وسیلہ ہے اور بہ حیثیت مجموعی شخصیت سازی کا ایک اہم ذریعہ ہے۔
    کچھ اسی طرح کا خیال ہندوستانی زبان کے ایک ماہر ڈاکٹر سنتوش کمار کا کہنا ہے کہ زبان وسیلۂ اظہار ہونے کے ساتھ ساتھ تقسیمِ معاش اور قوت پر بھی اثر ڈالتی ہے۔ اور سماجی اتحاد وتہذیبی احساس کو بھی جگاتی ہے ۔ ڈاکٹر کمار نے اپنے ایک مضمون ’’Mind your language‘‘ میں لکھا ہے :

"Besides being a channel of communication, language influences distribution of power and wealth particularly in an under literate society. It also acts as an
emotional and cultural cement for the social compact.

    چوں کہ اردو اب صرف برِصغیر تک محدود نہیں بلکہ عالمی سطح پر اس کا دائرہ وسیع تر ہوتا جا رہا ہے اور اب عالمی سطح پر اردو زبان دنیا میں بولی جانے والی چوتھی سب سے بڑی زبان بن گئی ہے۔ اس لئے ضرورت اس بات کی ہے کہ اردو کے اندر ایسی قوت پیداکی جائے جس کی بدولت عالمی بازار میں اس کی پکڑ مستحکم ہو سکے اور ایسا اسی وقت ممکن ہے جب اردو بدلتے ہوئے زمانے کے ساتھ ہم آہنگی پیدا کر سکے گی۔لہذا اکیسویں صدی میں اردو زبان کے وجود کو برقرار رکھنے کے لئے ضروری ہے کہ اردو کی تعلیم کو ایک تحریک کی صورت دیں ساتھ ہی ساتھ اس کا رشتہ سائنسی ایجادات اور ٹکنالوجی کے انقلابات سے بھی جوڑا جائے تاکہ اردو آبادی اس احساسِ کمتری کے خول سے باہر نکل سکے کہ بغیر انگریزی کے ہماری دنیا سنور نہیں سکتی۔آج چین، جاپان ، فرانس اور جرمنی کے ساتھ ساتھ یوروپ کے دیگر ممالک نے اس حقیقت کو سمجھا ہے کہ وہ دوسری زبانوں کے سہارے بہت دنوں تک زندہ نہیں رہ سکتے اس لئے گلوبلائزیشن کے دور میں لسانی غلبے کے ردِ عمل میں فرانس نے اپنی فرینچ زبان سے ان الفاظ کونکال دیا ہے جو انگریزی سے لئے گئے تھے۔ ہمارے اردو معاشرے میں جن لوگوں کی ایسی سوچ ہے کہ انگریزی کے بغیر ترقی نا ممکن ہے ان کو چین ، جاپان اور جرمنی سے سبق سیکھنا چاہئے کہ ان ممالک نے اپنی اپنی زبان کی بدولت ہی تمام تر ترقیاتی منازل طے کئے ہیں۔

    کچھ دنوں قبل برسلیز میں منعقد دو روزہ یورپی یونین کانفرنس میں یورپین امپلائسرس ایسووایشن( UNICE) کے صدرE.A. SEILLEREنے انگریزی میں تقریر شروع کی تو فرانس کے صدر مسرٹ جے شراک نے انہیں مادری زبان میں ٹوکا کہ وہ انگریزی کیوںبول رہے ہیں اور جب مسٹر سلیرے نے کہا کہ وہ انگریزی میں اس لئے تقریر کر رہے ہیں کہ تجارت کی زبان انگریزی ہے تو مسٹر شراک اپنے وزیروں کے ساتھ کانفرنس سے باہر چلے گئے اور اپنے واک آئوٹ کی وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ ’’فرانس اپنی زبان کی بڑی عزت کرتا ہے ہم آئندہ کسی ایسی دنیاکا تصور نہیں کر سکتے جس کی صرف ایک زبان اور تہذیب ہو‘‘۔

    غرض کہ شراک نے واک آئوٹ کرکے صرف اپنے لسانی تشخص پر اصرار ہی نہیں کیا بلکہ انگریزی کے تسلط کے خلاف احتجاج بھی کیا ہے۔ کاش! مسٹر شراک کی طرح ہم برصغیر کے باشندہ بالخصوص اردو والے بھی اپنی زبان کے تحفظ کے لئے اس طرح کا احتجاجی حوصلہ پیدا کرسکتے؟ لوگوں میں یہ غلط فہمی ہے کہ اس عالم کاری کے دور میں انگریزی پڑھنے سے ہی اعلیٰ عہدوں کی ملازمت مل سکتی ہے ۔ اگر انگریزی پڑھنے لکھنے اور سمجھنے سے ہی اچھی ملازمت ملتی تو برطانیہ اور امریکہ جیسے ممالک میں کوئی بھی شخص بے روزگار نہیں ہوتا۔ سچائی تو یہ ہے کہ انگریزی کو فوقیت دینے والے ویسے ممالک ہیں جو ملک برطانیہ کے غلام رہے ہیں اور اب تک احساس کمتری کے شکار ہیں۔ ورنہ دنیا کے ایسے درجنوں ملک ہیں جو بغیر انگریزی کے سہارے ترقی کے بامِ عروج تک جا پہنچے ہیں۔

    مختصر یہ کہ اکیسویں صدی میں اردو کے حوالے سے جب کبھی گفتگو کی جائے تو اس حقیقت کو بھی مدِ نظر رکھنا چاہئے کہ اس عا  لمیت سے مقابلہ کرنے کی ہمت اس زبان میں ہے کہ نہیں،کیوں کہ آج تعلیم برائے تعلیم ایک اذکارِ رفتہ تخیل بن کر رہ گیا ہے اور تعلیم برائے تہذیبی تشخص اور تعلیم برائے معاش کا تصور عام ہوگیا ہے۔ اس عا  لمیت میں ہر پانچ دس سال کے بعد حاصل شدہ علم کو بے معنی بنا رہا ہے ۔ ایسے حالات میں اردو زبان کا حشر کیا ہوگا۔ کیا اردو صرف اپنے علاقے تک محدود ہو کر رہ جائے گی یا اس کے دائرے اور وسیع ہوں گے؟۔اس میں کوئی شک نہیں کہ اردو کا دائرہ بھی وسیع تر ہو رہا ہے کیوں کہ اردو بھی کمپیوٹر کی زبان بن چکی ہے اور گوگل کا سہارا بن چکی ہے۔ لیکن یہ اندیشہ تو بہر حال برقرار ہے کہ اس صارفیت کے دور میں جب ہر چیز کو نفع اور نقصان کے میزان پر پرکھا جا رہا ہے ایسے دور میں اردو کہاں ہے۔کسی بھی زبان کی زندگی، ترقی اور بقا کا راز اس بات میں پوشیدہ ہے کہ وہ تعلیم کا ذریعہ ہو، روزگار سے اس کا رشتہ ہو اور روز مرہ کے کاروبار اور دفتروں میں اس کا چلن عام ہو ۔ جہاں تک ہندوستان کا سوال ہے تو تقسیمِ ملک نے جس نفسیات کو جنم دیا اس سے اردو کوبھی بڑا نقصان پہنچا ہے ۔ آزادی کے بعد اردو زبان کے ساتھ جو عصبیت اور تعصب وتحفظ کا رویہ شروع ہوا وہ ہنوز جاری ہے۔ یہی وجہ ہے کہ مرکزی یا ریاستی سطح پر لسانی پالیسی ترتیب دیتے وقت اردو کے تئیں تنگ نظر سیاسی رہنمائوں اور فرقہ وارانہ نظریہ رکھنے والے سرکاری حکام کا رویہ غیر منصفانہ ہوتا ہے اور جس کی وجہ سے اردو کے فروغ کو خاصا نقصان ہوا ہے۔

    اردو زبان کے متعلق ایک غلط فہمی یہ بھی ہے کہ اردو صرف شاعری کی زبان ہے، ادب کی زبان ہے لیکن حقیقتاً اردو میں ہر قسم کے علوم وفنون سے متعلق مواد ومعلومات کا ذخیرہ موجود ہے ۔ جدید تر اصطلاحات کی بھی کمی نہیں اور اردو کے ذریعہ تعلیم حاصل کرنے والوں کے لئے روزگار کے مواقع بھی کم نہیں ہیں ۔ غرض کہ اردو زبان میں وہ علمی اور فکری سرمایہ موجود ہے جس کی

 بدولت ہم اس عالمی گائوں میں جی سکتے ہیں اور ان طاقتوں کو اپنی گرفت میں لا سکتے ہیں جن کے ذریعہ ہم اپنی لسانی پسماندگی کا ازالہ کر سکیں۔وہ دن گئے جب اردو میں صرف گل وبلبل کے قصے ہوا کرتے تھے ، غمِ عشق اور غمِ روزگار کا تذکرہ لکھا جاتا تھا۔آج اردو کمپیوٹر کی زبان بن چکی ہے اس میں سائنس، تاریخ، فلسفہ، نفسیات، سیاسیات، معاشیات غرض کہ تمام علمی خزینہ موجود ہے ۔اس لئے ضرورت اس بات کی ہے کہ نئی نسل جو اردو سے بیگانہ ہو تی جا رہی ہے اس کو اردو کی تعلیم سے وابستہ کرنے کی ہر ممکن کوشش ہونی چاہئے اور اگر ہماری یہ کوششیں کامیاب ہوتی ہیں تو پھر اردو کا حال تابناک رہے گا اور مستقبل بھی قابلِ فخر ثابت ہوگا۔مگر افسوس ہے کہ اردو کی تعلیم پر اتنی توجہ نہیں دی جا رہی ہے جتنی کہ اس عا  لمیت کا تقاضا ہے۔آج سے دو تین دہائی پہلے تک اردو آبادی کے 90فی صد طلباء اردو نہ صرف مادری زبان کے طورپر پڑھتے تھے بلکہ دیگر مضامین بھی اردو زبان میں پڑھتے اور لکھتے تھے لیکن آج حالات اس کے بر عکس ہیں۔ دیگرسرکاری اسکولوں کی توبات دور رہی اردومیڈیم اسکولوں میں بھی مشکل سے پانچ فی صد طالب علم ایسے ملیں گے جو غیر لسانی مضامین اردو میں پڑھتے اور لکھتے ہوں ۔ ایسے نازک حالات میں اردو آبادی کے بچوں کو اردو ذریعہ تعلیم سے جوڑنے کی اشد ضرورت ہے ۔ ورنہ غالبؔ کے اشعار کتھک رقاصہ محترمہ اوما شرماؔ کے رقص میں تو دکھائی دیں گے مگر ہمارے بچے کہیں گے کہ ’’کوئی بتلائو کہ غالب کو ن ہے‘‘۔

******************************

 

 

Comments


Login

You are Visitor Number : 2125