donateplease
newsletter
newsletter
rishta online logo
rosemine
Bazme Adab
Google   Site  
Bookmark and Share 
mazameen
Share on Facebook
 
Literary Articles -->> Adbi Gosha
 
Share to Aalmi Urdu Ghar
Author : Dr. Mushtaq Ahmad
Title :
   Urdu Zuban Ke Masayel Aur Hal : Chand Nukaat


اردوزبان کے مسائل اور حل: چند نکات


ڈاکٹر مشتاق احمد

پرنسپل مارواڑی کالج، دربھنگہ

موبائل:9431414586 

ای میل: rm.meezan@gmail.com

 

بہار میں اردو کو دوسری سرکاری زبان کا درجہ حاصل ہے، اس اعتبار سے اردو زبان کے فروغ کی آئینی ِذمہ داری حکومت کے سر ہے۔ پھر یہ زبان اقلیتی لسانی درجہ کی فہرست میں شامل ہے اس لئے اسے مزید سرکاری مراعات حاصل ہوں، اس کی بھی حقدار ہے اور حکومت خواہ مرکزی ہو یا ریاستی اس کے فروغ کے لئے نہ صرف اسکیمیں بناتی ہیں بلکہ فنڈ بھی مختص کرتی رہی ہیں۔ ہر سال لسانی کمیشنر اپنی رپورٹ میں صدر جمہوریہ ہند کو اس حقیقت سے بھی روشناش کراتے رہے ہیںکہ اقلیتی زبان کی فہرست میں اردو کے لئے سرکاری طور پر کون کون سے اقدام اٹھائے جارہے ہیں۔ ظاہر ہے کہ دیگر سرکاری اسکیموں کے نفاذ کے عملی مراحل کی طرح اردو کے فروغ کے اسکیموں کو عملی صورت دینے کے راستے میں بھی بہت روڑے ہیں۔یہی وجہ ہے کہ آزادی کے 68 برسوں کے بعد بھی ایک خالص ہندوستانی زبان اردو کے تعلق سے برادر وطن کے ذہنوں میں طرح طرح کے مفروضات قائم ہوچکے ہیں، کیوں کہ سرکاری اسکیموں کے نفاذ کو ہمیشہ سیاسی مفاد کے چشمے سے دیکھا جاتا ہے، اس لئے سیاسی پلیٹ فارم سے اردو کے لسانی اور تہذیبی اہمیت کا اقرار بھی کیا جاتا رہا ہے بلکہ یہ جملے ’’اردو گنگا جمنی تہذیب کی علامت ہے، اردو ایک شیرینی زبان ہے، اردو قومی یک جہتی کی زبان ہے، اردو کا جنگ آزادی میں اہم رول رہا ہے‘‘ وغیرہ وغیرہ۔ لیکن تاریخ کے اوراق گواہ ہیں کہ جب کبھی کسی سیاست داں کے ٹیبل پر اردو کے فروغ کے لئے کوئی ٹھوس حکمت عملی یا پھر اردو کی تعلیم کو عام کرنے کی پالیسی کی فائلیں گئی ہیںتو وہ جلوت میں اردو کی اہمیت کے رطب النسان تو رہے ہیں لیکن خلوت میں اردو کی جڑیں کیسے کٹ سکتی ہیں اس کی صورت تلاشتے رہے ہیں۔ چند ایسے سیاسی رہنما بھی ہوئے ہیں جو اردو کی سیاست کی بدولت ایوان بالا تک تو پہنچے لیکن ان کا آنسو بھی اردو کے معاملے میں گھڑیالی ثابت ہوا۔ اس کی ایک زندہ مثال اندر کمار گجرال ہیں کہ گجرال کمیٹی کے شور وغوغا سے پوری اردو دنیا واقف ہے لیکن جب ان کے مقدر میں ملک کے وزیر اعظم کا عہدہ جلیلہ آیا تو وہ بھی اردو کے لئے کیا کچھ کر سکے وہ جگ ظاہر ہے۔مختصر یہ کہ ملک میں جب سے اردو سیاست کے آنگن کی تلسی بن گئی تو اس میں بس اتنا ہی پانی دیا جانے لگا تاکہ وہ گملے میں زندہ رہ سکے۔اس لئے اب جب کبھی کوئی اردو کے فروغ کے تعلق سے اسکیمیں بنتی ہیں یا اعلانات ہوتے ہیںتو میں ایک ادنیٰ طالب علم کی طرح بس اتنا سمجھتا ہوں کہ یہ اعلانات بھی کسی نہ کسی مفاد کا پیش خیمہ ہے۔ مگر ہماری اردو آبادی تو ہر اعلان پر مبارکباد دینے کی عادی ہوگئی ہے اس لئے محض اعلان پر ہی مہینوں مبارکبادیوں کا سلسلہ چلتا رہتا ہے۔ ظاہر ہے کہ جب صرف اعلان سے ہی ہمارے رہنمائوں کا کام چل جاتا ہے تو پھر اردو کے لئے کوئی ٹھوس قدم اٹھانے کی ضرورت ہی کیا ہے۔

اس تمہید کا مقصد صرف یہ ہے کہ اب ہمیں اردو کے فروغ کے لئے سرکاری اسکیموں یا اعلانات سے اس قدر امیدیں نہیں باندھنی چاہئے جس کے ہم خوگر ہوچکے ہیں۔ یہاں ایک اور حقیقت کا انکشاف کرنا بھی ضروری سمجھتا ہوں کہ کوئی بھی زبان صرف اور صرف سرکاری مراعات سے ہی زندہ نہیں رہ سکتی بلکہ اس کے پھلنے پھولنے کی زمین، اس کے بولنے والے ہی تیار کرتے ہیں اور اس کی آبیاری بھی ان کے ہی سر ہوتی ہے۔اس کی ایک بڑی مثال اس ملک کی کلاسکی زبان سنسکرت ہے جس کے فروغ کے لئے ہر حکومت نہ صرف فراخدلی سے کام کرتی ہے بلکہ اس کیلئے جد وجہد بھی کرتی ہے۔ باوجود اس کے سنسکرت کا دائرہ دن بہ دن محدود ہوتا چلا گیا اور آج  یہ زبان صرف تعلیمی اداروں کے نصابوں تک محدود ہوکر رہ گئی ۔ اس کی واحد وجہ یہ ہے کہ وہ آبادی جو کبھی سنسکرت کو ہی حرز جاں سمجھتی تھی اور اسے اپنی فلاح وبہبود کا ذریعہ سمجھتی تھی وہ اس کی تعلیم و ترویج کے تئیں غیر سنجیدہ ہوگئی نتیجہ یہ نکلا کہ یہ زبان محض مذہبی رسم ورواج میں استعمال ہونے والی زبان بن کر رہ گئی، جبکہ سچائی تو یہ ہے کہ اس زبان میں علم ودانش کے بیش بہا خزینے موجود ہیں۔ اسی طرح آزادی کے بعد ہماری قومی زبان ہندی کے فروغ کے لئے بھی پانی کی طرح سرکاری فنڈ خرچ ہوئے ہیںلیکن آج بھی جنوبی ہند اور شمال مشرقی ریاستوںمیں ہندی زبان کا وہ چلن عام نہیں ہوسکا جس کی حکومت خواہاں ہے اور اس کی بھی واحد وجہ یہ ہے کہ اس علاقے کی آبادی نے دل سے کبھی اس کے فروغ کیلئے تیار نہیں ہوئی۔ قصہ کوتاہ کہ کسی بھی زبان کے فروغ کا انحصار اس زبان کے چاہنے والوں پر ہے کہ وہ زبان کے فروغ میں کتنا مخلص ہے۔ میں اوروں کی بات تو نہیں کہہ سکتا لیکن ذاتی طور پر بھی میرا یہ تجربہ ہے کہ جہاں کہیں بھی اردو آبادی نے رضاکارانہ طور پر کام کیا ہے وہاں اردو کی تعلیم کا راستہ ہموار ہوا ہے۔ ظاہر ہے کہ زبان کے فروغ کے لئے اس کی تعلیم آکسیجن کی حیثیت رکھتی ہے، اگر اس کی تعلیم کی طرف بے توجہی برتی گئی تو پھر زبان کا دائرہ دن بہ دن سمٹتا ہی چلا جائے گا۔ ہمارے کچھ رفقا اردو کے فروغ کے لئے انٹرینیٹ اور دیگر تکنیکی ذرائع کی اہمیت کی وکالت کرتے ہیں۔ میں ان کی مخالفت کے حق میں نہیں ہوں کیوں کہ آج انٹر نیٹ یا دوسرے برقی ذرائع کی اہمیت سے انکار بھی نہیں کیا جاسکتا ہے، تاہم یہ تلخ حقیقت اپنی جگہ مسلم ہے کہ جب ہم اردو رسم الخط اور اردو کی واجبی تعلیم سے ہی محروم ہوںگے تو پھر اردو وبولنے کی حد تک تو زندہ رہ سکتی ہے لیکن جہاں تک کسی زبان کے زندہ رہنے کا تعلق ہے اس کیلئے اس کی لسانی شناخت یعنی رسم الخط بھی لازمی ہے۔ جیسا کہ کبھی دوآبہ کا علاقہ یعنی اتر پردیش اردو زبان کا گہوارہ تھا اور لسانی شناخت اتنی مستحکم تھی کہ غیر اردو داں طبقہ بھی اپنی دکانوں کے نام اردو میں لکھوایا کرتے تھے۔ لیکن جب اردو رسم الخط اردو گھرانے سے رخصت ہوگئی تو اتر پردیش میں رکشے وٹھیلے والوں سے بھی اردو زبان سن تو سکتے ہیں لیکن اردو رسم الخط کو پڑھنے والے عنقا ہورہے ہیں،  کیوں کہ اردو تعلیم کا نظام دو تین دہائی پہلے ہی درہم برہم ہوگیا۔ 


جہاں تک بہار میں اردو زبان اور اردو رسم الخط کے فروغ کا سوال ہے تو اس میں مدارس اسلامیہ کا کلیدی کردار ہے کہ یہاں اب بھی رسم الخط نہ صرف زندہ ہے بلکہ سائنس ودیگر مضامین بھی اردو میں پڑھائے جاتے ہیں مگر عہد حاضر میں ایک افسوس ناک پہلو یہ سامنے آرہا ہے کہ ہمارے بیشتر مدارس میں فارم بھرنے اور امتحان دلانے کو ہی فوقیت دی جارہی ہے۔ میرا ذاتی مشاہدہ ہے کہ فوقانیہ یا مولوی کا امتحان پاس کرکے بہت سے طلبا کالجوں میں داخلہ لینے آتے ہیں۔ میرے کالج میں بھی بڑی تعداد میں مدارس کے فارغین داخلہ لینے پہنچتے ہیں، چونکہ میں خود اردو کا ایک طالب علم ہوں س لئے نئی نسل سے بھی کچھ سیکھنے کی جستجو رکھتا ہوں۔  اس لئے ان سے بھی سوالات کرتا رہتا ہوں، مجھے اس وقت بڑی مایوسی ہوتی ہے کہ ننانوے فیصد بچے اردو میں کتنے حروف تہجی ہیں اس سے ناواقف ہوتے ہیں۔ ایسی صورت میں اردو کے فروغ کا راستہ کیسے ہموار ہوسکتا ہے یا پھر اردو رسم الخط کیسے زندہ رہ سکتی ہے۔ یہاں ایک دلچسپ واقعہ سنانا چاہتا ہوں، حال ہی میں ہمارے ایک مخلص نے ایک ایسے شخص کی اردو کی کتاب دکھائی جو اردو سے بس اس حد تک آشنا ہے کہ وہ آری ترچھی لکیروں کے سہارے اپنا نام لکھ سکتا ہے۔یعنی جو شخص زبان  سے واقف نہیں وہ اردو کی ایک عدد کتاب کا مصنف بھی ہے۔ ظاہر ہے کہ وہ شخص جو اس حقیقت سے آگاہ نہیں ہوگا کہ اس کی کتاب کسی کارخانے میں تیار ہوئی ہے، وہ اسے دیکھ کر خوش ہوسکتا ہے کہ دنیائے ادب میں ایک اور ستارہ نمودار ہوا۔ مگر حقیقتاً اس کی کتاب نہ ارود زبان اور نہ ادب کے لئے نیک فال ہے بلکہ ان کارخانوںکے چلانے والوں کے لئے ہیمنفعت بخش ہے جو اس طرح کے کاوبار کو فروغ دینے میں لگے ہیں۔ اس لئے ٹھوس بنیادوں پر اس بات کو سمجھا جاسکتا ہے کہ ا دب کے فروغ اور زبان کی ترویج کے راستے الگ الگ ہیں۔ یقینا زبان کی ترقی اردو آبادی کا خون جگر چاہتی ہے ۔ اب ہم اور آپ بالخصوص جو لوگ اردو کے سہارے روزی روٹی پانے میں کامیاب ہوئے ہیں وہ ذرا ٹھنڈے دل سے غور وفکر کریں کہ ہم اپنی زبان ’اردو‘ کیلئے کیا کچھ کررہے ہیں۔ اردو زبان کی ایک بدقسمتی یہ بھی ہے کہ اس کے فروغ کیلئے انجمنیں تو بہت سی ہیں لیکن ان سب کی راہیں الگ الگ ہیں۔ سچائی تو یہ ہے کہ بیشتر انجمنوں کی کارکردگی اخباروں میں خبر چھپانے تک ہی محدود ہے اور بعض انجمنیں سرکاری مراعات حاصل کرنے کے لئے تشکیل دی گئی ہیں۔ سرکاری طور پر بھی اردو کے فروغ کے لئے جو ادارے قائم کئے جاتے ہیں وہ اردو زبان کے فروغ میں کوئی اہم کردار ادا نہیں کرسکتے کہ ان کے اصول وضوابط میں کہیں بھی زبان کی تعلیم کی توسیع کیلئے عملی اقدام اٹھانے کا ذکر تک نہیں ہے۔ ظاہر ہے کہ سرکاری ادارے متعینہ خطوط پر کام کرتے ہیں۔ ایسی صورت میں اردو زبان کے فروغ کا ایک واحد ذریعہ اردو آبادی کا اس زبان کے تئیں مخلص ہونا ہے۔ غرض کہ اپنے گھروں میں اردو تعلیم کے چراغ کو روشن رکھنا ہے اور اپنے آس پاس کے لوگوں کو بھی اس بات کے لئے رضامند کرنا ہے کہ اردو کے چلن کو زندہ رکھنے کیلئے اردو رسم الخط کی بقا اور اس کی تعلیم لازمی ہے۔اس کے لئے ایک تحریک کی ضرورت ہے اور وہ تحریک ہمارے اور آپ کے ہی گھر سے شروع ہوسکتی ہے، کیوں کہ فرد سے ہی ایک معاشرہ تشکیل پاتا ہے۔ اگر کسی معاشرے کا کوئی ایک فرد متحرک ہوجاتا ہے تو وہی معاشرہ افراد کے لئے وسیلہ ترغیب بن جاتا ہے۔ اردو کے تعلق سے بھی اولاً فرد واحد کو متحرک ہونا ہے، پھر خود بخود اردو معاشرہ ایک تحریک کا آئینہ دار بن جائے گا۔ آج ضرورت اس بات کی ہے کہ اردو معاشرہ اردو تحریک کا آئینہ دار بن جائے۔ 

٭٭٭

 

Comments


Login

You are Visitor Number : 1623