donateplease
newsletter
newsletter
rishta online logo
rosemine
Bazme Adab
Google   Site  
Bookmark and Share 
mazameen
Share on Facebook
 
Literary Articles -->> Adbi Gosha
 
Share to Aalmi Urdu Ghar
Author : Dr. Ozair Israyeel
Title :
   Ilmi Tanqeed Ke Pardah Me Zati Dushmani Nikalne Ki Narwa Koshish

کہیں پہ نگاہیں کہیں پہ نشانہ


 علمی تنقید کے پردہ میں ذاتی دشمنی نکالنے کی ناروا کوشش


ڈاکٹر عزیر اسرائیل

 

علمی و ادبی دنیا میں تنقید کو ایک صحت مند علامت کے طور پر دیکھا جاتا ہے ۔ جمہوری معاشرہ تنقید نگار کو یہ حق دیتا ہے کہ وہ کسی کی تحریر کا رد کرتے ہوئے اس کے خیالات کو باطل اور بکواس قرار دیدے لیکن تنقید کرنے والے کو یہ حق نہیں پہنچتا ہے کہ قلم کار کے بجائے کسی ایسے شخص کو اپنی ذاتی دشمنی کا نشانہ بنائے جس کا اس تحریر سے کوئی لینا دینا نہیں۔ یہ سراسر بددیانتی اور علمی غنڈہ گردی ہے جس کو کوئی مہذب معاشرہ برداشت نہیں کرسکتا۔

میں یہاں پر بات کررہا ہوں  ہفت روزہ ’چوتھی دنیا ‘ کے 17-23 اگست کے شمارہ میں شائع شدہ محترم جناب عظیم اختر صاحب کے مضمون کی جو انہوں نے ڈاکٹر افضل مصباحی کی کتاب ’آزادی کے بعد اردو صحافت‘ پر لکھا ہے ۔ یہی مضمون بعد میں سوشل میڈیا پر خاص ذہنیت رکھنے والوں نے شیئر کرکے اپنے دلی بغض کا ثبوت پیش کیا ہے۔ میں ذاتی طور عظیم اختر صاحب کی بہت عزت کرتا ہوں۔ لیکن ان کے اس مضمون نے مجھے مایوس کیا۔ اگر وہ اپنی تنقید کو صرف افضل مصباحی اور ان کی کتاب تک محدود رکھتے تو بہتر تھا۔ اس لیے کہ وہ اس کے مصنف ہیں۔ لیکن افسوس کے ساتھ یہ کہنا پڑتا ہے کہ انہوں نے جان بوجھ نہ صرف یہ دہلی یونی ورسٹی کے صدر شعبئہ اردو پروفیسر ابن کنول صاحب کو بلاوجہ گھسیٹنے کی کوشش کی بلکہ ان کا فوٹو بھی مضمون کے ساتھ شائع کیا۔ اس کو صحافتی بددیانتی نہ کہا جائے تو کیا کہا جائے کہ بات افضل مصباحی کی کتاب پر ہورہی ہے اور تصویر پروفیسر ابن کنول صاحب کی لگائی جارہی ہے ۔ افضل مصباحی کے بجائے ابن کنول صاحب جیسی صاف وشفاف شخصیت کو طنزوتشنیع کا نشانہ بنایا جارہا ہے ۔

ایک منٹ کے لیے ہم یہ تسلیم بھی کرلیتے ہیں کہ انہوں نے افضل مصباحی کی کتاب پر جو اعتراضات کیے ہیں وہ صحیح ہیں پھر بھی اس کا ابن کنول صاحب سے کیا واسطہ۔ کیا وہ اس بات کو مانتے ہیں کہ اس کتاب کو پروفیسر ابن کنول نے لکھا ہے ؟ اگر نہیں تو پھر پروفیسر ابن کنول صاحب کو طنزوتشنیع کا نشانہ کیوں بنایا جارہا ہے ۔ کیا صرف اس وجہ سے کہ ابن کنول صاحب ان کے پی ایچ ڈی کے نگراں تھے ۔ عظیم اختر صاحب کو معلوم ہونا چاہئے کہ نگراں کا مطلب ڈکٹیٹر نہیں ہوتا۔ ابن کنول صاحب کو قریب سے جاننے والے اچھی طرح جانتے ہیں کہ وہ اپنے شاگردوں کو تحقیق میں مکمل آزادی دیتے ہیں۔ اگر کوئی شاگرد اپنی تحقیق میں کچھ ثابت کرتا ہے تو اس پر اپنی مرضی مسلط نہیں کرتے ۔ جہاں تک افضل مصباحی کی کتاب پر عظیم اختر کے اعتراضات کی بات ہے تو اس پر افضل مصباحی کو سن لیے بغیر یکطرفہ فیصلہ کرنا مناسب نہیں۔ افضل مصباحی نے ان کے مضمون کے جواب میں جو لکھا ہے اگر وہ سچ ہے تو یہ مسئلہ علمی بحث کا نہیں بلکہ ذاتی دشمنی اور عناد کا معلوم ہوتا ہے ۔ آخر علمی بحث میں کیا ضرورت پڑگئی کہ وہ قومی کونسل ، دہلی یونی ورسٹی اور ایچ آرڈی منسٹری کو خطوط لکھ کر افضل مصباحی کے خلاف تادیبی کاروائی کی مانگ کر رہے ہیں۔ کوئی ضروری ہے کہ آپ جس کو حق تسلیم کررہے ہیں وہی حق ہو۔ آپ کی مرضی کے برخلاف رائے رکھنے والا صرف غلط نہیں بلکہ سزا کا بھی مستحق ہے ۔ اگر بات ایسی ہی تو عظیم اختر صاحب کو آگے بڑھ کر افضل مصباحی کے خلاف ایف آئی آر بھی درج کرادینی چاہئے ۔ یہ تو ادبی وعلمی تنقید نہیں ہٹلرزم ہے ۔

  عظیم اختر صاحب یہ بھول رہے کہ وہ پی ایچ ڈی کے مقالہ پر نہیں بلکہ افضل مصباحی کی کتاب کے خلاف لکھ رہے ہیں۔ کتاب میں آدمی کیا لکھتا ہے اس کے لیے ایچ آرڈی منسٹری ، دہلی یونی ورسٹی اور ان کے نگراں کی جواب دہی کہاں بنتی ہے ؟ عظیم اختر صاحب اگر قومی کونسل میں کتابوں کی اشاعت پر امداد دینے کے لیے متعینہ اصول وضوابط کو پڑھ لیتے تو شاید وہ ایسا نہیں کرتے ۔ اس میں واضح طور پر لکھا ہوا ہے کہ قومی کونسل پی ایچ ڈی یا ایم فل کے مقالوں پر بغیر ترمیم کے مالی معاونت نہیں دیتی ہے ۔ افضل مصباحی نے کتاب کو مالی معاونت کے لیے پیش کرنے سے پہلے اس میں ضروری ترمیم کی ہوگی۔ یہ ترمیم چاہے کم ہویا زیادہ پی ایچ ڈی کا نگراں اس پر ہونے والے کسی بھی اعتراض کا ذمہ دار نہیں ہوتا۔ کیا شاگرد پوری زندگی جو لکھے گا اس کا جواب تاعمر اس کا پی ایچ ڈی کا نگراں دیتارہے گا؟ افضل مصباحی خود ایک استاد ہیں ایک سنٹرل یونی ورسٹی میں لکچرر ہیں ۔ وہ کوئی بچے نہیں کہ ان کی کسی "غلطی" پر ان کے استاد کے پاس شکایت لے کر پہنچیں۔میراخیال ہے کہ عظیم اختر صاحب  ابن کنول صاحب پر کیچڑ اچھال کر سستی شہرت حاصل کرنا چاہتے ہیں۔یہ کتاب افضل مصباحی نے لکھی ہے اس لیے اس کا دفاع کرنے کا کام بھی انہیں کا ہے ۔ میں ان کی طرف سے کوئی دفاع نہیں کررہا ہوں۔ میں نے عظیم اختر کا مضمون اور ہمارا سماج میں شائع شدہ افضل مصباحی کا جواب دونوں  پڑھاہے۔ دونوں کو سامنے رکھ کر ہر انصاف پسند کو فیصلہ کرنا چاہئے کہ ذاتی دشمنی کو علمی تنقید کے پردہ میں پیش کرنے سے کیا علم وادب کا بھلا ہوسکتا ہے ؟

    چوتھی دنیا کو اس مضمون کی اشاعت پر کھلے عام معافی مانگنی چاہئے اس لیے کہ اس نے ایک صاف ستھری امیج والی شخصیت کو ناحق بدنام کرنے کی کوشش میں معاونت کی ہے ۔ مضمون کے مندرجات کے لیے ادارہ چوتھی دنیا قلم کار کو ذمہ دار قرار دے کر بچ بھی جائے لیکن ابن کنول کی تصویر لگانے پر صحافتی اصولوں کے مطابق انہیں معافی مانگنی ہی چاہئے ۔ ورنہ پروفیسر ابن کنول کو یہ حق حاصل ہے کہ وہ اخبار کے خلاف ہتک عزت کا مقدمہ دائر کردیں تاکہ اس قسم کی زرد صحافت پر روک لگائی جاسکے ۔

آخر میں عظیم اختر سے مؤدبانہ التماس ہے کہ وہ علمی و ادبی کاموں کی طرف توجہ دیں۔ وہ ہمارے بزرگ ہیں ۔ نئے قلم کاروں کی رہنمائی کرسکتے ہیں۔ لیکن اس کے لیے انہیں منفی رویوں میں تبدیلی لانی ہوگی۔ آپ یونی ورسٹیوں کے اساتذہ اور طلبہ کو پیار اور قدر کی نگاہوں سے دیکھیں۔ یہ بھی اردو ادب کی خدمت کررہے ہیں۔ دوسری بات یہ کہ سچ وہی نہیں ہے جو ہم کو دکھائی دے رہا ہے ۔ ایسا بھی ہوسکتا ہے کہ سامنے والے کی بات بھی صحیح ہو ۔ ہمیں تنقید کرنے سے پہلے یہ بات ضرور سوچنی چاہئے ۔

(یو این این)

*********************************

 

 

Comments


Login

You are Visitor Number : 744