donateplease
newsletter
newsletter
rishta online logo
rosemine
Bazme Adab
Google   Site  
Bookmark and Share 
mazameen
Share on Facebook
 
Literary Articles -->> Adbi Gosha
 
Share to Aalmi Urdu Ghar
Author : Dr. Prof. Mohsin Usmani Nadvi
Title :
   Maulana Shibli Aur Maulana Abul Hasan Ali

 

 

مولانا شبلی اور مولانا ابو الحسن علی

 

پروفیسر محسن عثمانی ندوی

 


(  شبلی کے لئے علی میاں کی سپاس گذاری اور قدر شناسی  اور تأثر کی جھلکیاں)


گومتی ندی شہر لکھنو کے درمیان سے لچکتی ہوئی بل کھاتی ہوئی اس طرح سے گذرتی ہے جس طرح نہر بردہ دمشق کے مرغزاروں کے درمیان سے دلفریب انداز میں گاتی ہوئی اور گنگناتی ہوئی ہلکورے کھاتی ہوئی گذرتی ہے یا جس طرح دریائے نیل شہر قاہرہ کے وسط سے دونوں طرف کی عمارتوں کو آئینہ دکھلاتا ہوا گزرتاہے، اسی گومتی ندی کے کنارے کئی تاریخی عمارتیں کھڑی ہیں ان میں ایک دار العلوم ندوۃ العلماء کی حسین اور پرشوکت عمارت بھی ہے جس کا درمیانی بلند دروازہ فن تعمیر کا خوبصورت نمونہ ہے، اس عمارت کے عقب میں دائیں جانب کھیل کے میدان کے کنارے ایک عالیشان کئی منزلہ خوبصورت عمارت کھڑی ہے، یہ علم کا تاج محل ہے اور کتابوں کا کتب مینار۔  یہ ندوۃ کی خوبصورت لائبربری ہے جو مولانا علی میاں کے عہد نظامت میں تعمیر ہوئی، لائبریری کا نام کسی بھی اہم شخصیت کے نام پر رکھا جاسکتا تھا لیکن مولانا علی میاں نے لائبریری کا نام مولانا شبلی کے نام پررکھوایا یہ خلوص دل سے شبلی کی عظمت کا اعتراف ہے، پہلے سے ندوہ میں طلبہ کے  لئے ایک ہاسٹل شبلی نعمانی کے نام پر موجود ہے، اب یہ دوسری عمارت ہے جس کا نام شبلی کے نام پر رکھا گیاہے۔


شبلی اکیڈمی، دار المصنفین کی حیثیت شہر اعظم گڑھ میںایسی ہے جیسے دل کی حیثیت جسم کے نظام میں ہوتی ہے اس خوبصورت عمارت کے اس خوبصورت احاطہ میں شیریں آم کے درختوں کے قریب خوبصورت سی مسجد کے متصل دار المصنفین سے وابستہ اہل قلم اور اہل علم کی  تربتیں ہیں، علامہ شبلی کا مزار بھی وہیں ہے، ایک بار مولانا علی میاں صباح الدین عبد الرحمن صاحب اور شاہ معین الدین احمد ندوی کی معیت میں اس جگہ سے گزر رہے تھے ، شاہ صاحب نے کہا کہ لوگ پوچھتے ہیں کہ علامہ شبلی کی قبر کس جگہ ہے اس لئے خیال ہے کہ سر بالیں ایک کتبہ لگادیا جائے،شاہ معین الدین احمد صاحب راوی ہیں کہ ابھی ہم لوگ سوچ رہے ہیں کہ کتبہ پر کیا لکھا جائے، مولانا علی میاں نے برجستہ کہا کہ اس میں سوچنے کی کیا بات ہے یہی لکھ دیجیئے


عجم کی مدح کی عباسیوں کی داستاں لکھی
مجھے چندے مقیم آستانِ غیر ہونا تھا
مگر اب لکھ رہا ہوں سیرت پیغمبر خاتم
 خدا کا شکر ہے یوں خاتمہ بالخیر ہونا تھا


آج لوح مزار پر تعارف کے لئے یہی اشعار لکھے ہوئے ہیں اور یہ  لوح مزار شبلی کے لئے مولانا ابوالحسن علی کی فکر جمیل اوران کی احسان  شناسی کی دلیل ہے۔


ایک شہر میں ایک جلسہ منعقد ہوا تھا، اہل علم وقلم کی فرمائش پر مولانا ابوالحسن علی نے علامہ شبلی کے مقام علم وادب پر تقریر کی تھی اور شبلی کے کمالات کو تفصیل کے ساتھ اور مؤثر انداز میں پیش کیا تھا، جلسہ کے اختتام کے بعد بعض لوگوں نے ان ناگفتنی پہلوئوں کی طرف اشارہ کیا جن پر ایک صاحب نے کتاب بھی لکھ ڈالی، مولانا نے جواب دیا کہ’’ ہم نے شبلی کے خوان یغما سے جو کچھ استفادہ کیا ہے وہی پیش کردیا ہے، فکر ہر کس بقدر ہمت اوسست ۔،،


مولانا علی میاں اپنی مجلسوں میں شبلی کا تذکرہ بہت کرتے تھے جس سے محسوس ہوتا تھا کہ ان کی روح زیر بار احسان ہے اوران کا قلم منت کش قلمِ شبلی ہے، مولانا کی مجالس کی باتیں’’ مجالس حسنہ ،،کے نام سے شائع ہوگئیں، انہیں ملفوظات علی کہا جاسکتا ہے ، ملفوظات ِ علی میں تذکرۂ شبلی کی کثرت کا اندازہ ہرقاری کر سکتاہے، مولانا نے فرمایا ہندوستان میں کتابوں کی تصنیف وتالیف میں جدید اصول کے مطابق حوالہ دینے کا التزام سب سے پہلے علامہ شبلی نے کیا ورنہ اس سے پہلے اس کا رواج نہیں تھا اگر کہیں حوالہ ہوتا تو متن ہی میں کہیں کہیں، ورنہ باقاعدہ حوالہ دینے کا مطلق رواج نہیں تھا، یہ اصل میں مستشرقین کی ایجاد ہے علامہ شبلی نے ان ہی سے لیا (مجلس ۳) مولانا نے فرمایا اورنگ زیب بہت بڑا شخص تھا ان پر اس حیثیت سے کام بہت کم ہوا، علامہ شبلی کی کتاب ’’اورنگ زیب عالم گیر پر ایک نظر‘‘ اور دوسری بعض تحریریں اور بس (مجلس ۱۶) مولانا نے  کہا  ہم نے جن کتابوں کا مطالعہ کیا ہے وہ ٹھوس اور بنیادی کتابیں تھیں ، ہم نے احمدامین کی بھی کتابیں پڑھیں اور حرف بحرف پڑھیں اس سے ہم کو دوفائدے حاصل ہوئے، ایک اس کی ادبیت دوسرے اس کا علمی اسلوب اور زبان جیسے ہمارے یہاں علامہ شبلی اور مولانا مودودی کا طرز ہے، ہم نے اس اسلوب کو پوری طرح اخذ کیا اور ہماری تحریروں میں اس کا اثر آیا، دار المصنّفین کی کتابوں کا یہ امتیاز ہے کہ ان میں ادبیت اور علمیت ساتھ ساتھ چلتی ہے خاص طور پر علامہ سید سلیمان ندوی مولانا عبد الباری ندوی اور مولانا عبد السلام ندوی کی کتابیں (مجلس ۲۷)مولانا نے  ایک مجلس  میں کہا مولوی اسمعیل میرٹھی نے اردو کی بڑی اچھی کتابیں لکھی تھیں ’’سفینۂ اردو‘‘ وغیرہ، علامہ راشد الخیری کی کتابیں ’’صبح زندگی‘‘ ’’شام زندگی‘‘ وغیرہ  بھی  ہم نے پڑھیں  انکا ادبی فائدہ ہوا، ان کتابوں کو ہم نے گیارہ بارہ سال کی عمر میں پڑھ لیا تھا پھر ’’آب حیات‘‘ مولوی محمد حسین آزاد کی پڑھی ،جادو والی زبان ہے اور ’’نیرنگ خیال‘‘ بھی پڑھی جو ایک ادبی شاہکار ہے، پھرگل رعنا‘‘ والد صاحب کی، جوگھر ہی کی تھی اور  مولانا ابوالکلام آزاد کی کچھ کتابیں اور مولانا شبلی کی کتابیں پڑھیں جس میں ادبیت بھی ہے اور تاریخ بھی۔حضرت ابو بکر کی سیرت پر مولانا حبیب الرحمن خان شروانی کی کتاب ’’سیرۃ الصدیق‘‘ بہت جامع اور مؤثر ہے ، حضرت عمر پر علامہ شبلی کی ’’الفاروق‘‘ کا کیا کہنا اور حضرت عثمان کی سیرت پر مولانا سعیداحمداکبر آبادی کی ’’عثمان ذوالنورین‘‘ ایک اچھی کتاب ہے، مولانا شبلی کی کتابیں بچپن میں میں نے پڑھی تھیں ہمارے چچا تھے سید فاروق ، ان کے پاس علامہ شبلی کی کتابیں تھیں ایک ہی گھر میں رہتے تھے، ہمیں مولانا شبلی کی کتابیں پڑھنے کا موقع ملا علامہ شبلی کی کتابوں میں ’’شعر العجم‘‘ بہت ممتاز ہے، ہمیں بچپن ہی میں ایسی کتابوں کو پڑھنے کا موقع مل گیا عموما اس عمر میں وہ کتابیں پڑھی نہیں جاتیں (مجلس ۱۰۸)


ایک مجلس میں مولانا علی میاں نے کہا کہ آزادی کے بعد جب مولانا آزاد ہندوستان کے وزیر تعلیم تھے اس وقت گورنمنٹ آف انڈیا کی خواہش تھی کہ ایک ماڈل عربک کالج بنایا جائے، اس کے لئے مولانا آزاد کے سامنے دار العلوم ندوۃ العلماء سے موزوں کوئی مدرسہ نہیں تھا، چنانچہ مولانا آزاد نے اس کے لئے ندوۃ کے سامنے تجویز رکھی، ندوۃ العلماء کے ذمہ داروں کے لئے یہ موت وحیات کا مسئلہ تھا، ندوہ کے خادم اور امین اچھی طرح سمجھتے تھے کہ اس تجویز کو قبول کرنے بعد ندوہ ندوہ نہیں رہے گا ایک عربک کالج بن جائے گا اور ملت کے ہاتھ سے نکل جائے گا، لیکن مشکل یہ تھی کہ مولانا آزاد جو ایک بزرگ خاندان کی حیثیت رکھتے تھے اور ندوۃ العلماء کی تحریک کے زبردست مؤید تھے اور رکن انتظامی چلے آرہے تھے اس لئے مولانا کی تجویز کو یکسر رد کردینا بہت مشکل تھا، آخر یہ طے پایا کہ مولانا مسعود علی ندوی صاحب کو جو اپنی ذہانت اور حاضر جوابی میں ممتاز تھے اور مولانا آزاد کے بے تکلف دوستوں میں تھے، ان کے سپرد یہ کام کیا جائے کہ وہ دہلی جا کر مولانا آزاد سے اس مسئلہ پرایسی گفتگو کریں کہ مولانا آزاد کے جذبہ کی ناقدری بھی نہ ہو اور معذرت بھی ہوجائے، مولانا مسعود علی ندوی نے نہایت خوش اسلوبی کے ساتھ اس گتھی کو سلجھا یا وہ مولانا آزاد سے ملاقات کے لئے دہلی  گئے ، پھر مولانا نے پوچھا کیسے آئے؟مولانا مسعود علی کہنے لگے کہ کچھ بزرگوں کی لوح مزار کی عبارتوں کے بارے میں غور وخوض ہو رہا ہے مثلا مولانا محمد علی مونگیری کے لوح مزار پر بانی ندوۃ العلماء لکھنا تجویز ہواہے اور مولانا شبلی کے لوح مزار پر محسن ندوۃ العلماء یا اس طرح کی کوئی عبارت انہوں نے بتائی، مگر اندیشہ ہے کہ ہمارے اور آپ کے لوح مزار پر قاتل ندوۃ العلماء لکھا جائے، مولانا نے بڑے استعجاب سے پوچھا کیوں معاملہ کیا ہے، کہنے لگے کہ آپ نے جو تجویز پیش کی ہے اس کا انجام یہی توہے کہ ندوۃ العلماء ختم ہوجائے اور ہم اور آپ اس کے قاتل ٹھہریں، ابھی تو آپ منصب وزارت پر ہیں اور ندوۃ العلماء کے مقصد سے اچھی طرح واقف اور اس کے مؤید، آپ کی موجود گی میں اس کا خطرہ نہیں، لیکن اس کے بعد کیا ہوگا اس کی کوئی ضمانت نہیں لی جاسکتی ، مولانا آزاد انتہائی ذہین تھے ان کے لئے اتنا اشارہ کافی تھا  وہ دور تک بات کو سمجھ گئے اور فرمایا کہ آپ لوگوں کا فیصلہ صحیح ہے (مجلس ۱۱۳) ایک  اور مجلس  میں مولانا نے فرمایا: احمد امین ان چوٹی کے ادباء میں ہیں جنہوں نے سجع وقافیہ سے کلی طور پر اجتناب کیا خالص علمی اور سنجیدہ اسلوب اختیار کیا اور یہاں ہندوستان میں علامہ شبلی نعمانی نے لکھنے کا ایک نیاطرز دیا سنجیدہ علمی اور ادبی طرز (مجلس ۱۶۰)


علامہ شبلی کا ذکر خیر مولانا علی میاں کے زبان قلم پر بار باراور بکثرت آتاہے اور یہ ذکرہمیشہ ذکر خیر ہی ہوتاہے، علامہ شبلی کے دور معتمدی اور دار العلوم میں ان کے قیام کے بارے میں مولانا کا قلم  ان کی تصنیف  ’’حیات عبد  الحی‘‘ میں اس طرح رقم طراز ہے:
’’عرصہ سے اس کی ضرورت محسوس کی جارہی تھی کہ ایک ایسا شخص جو ندوۃ العلماء کے مقاصد سے ذہنی طور پر ہم آہنگ ہو اور تعلیم وتدریس کا عملی تجربہ رکھتا ہو، اسی کے ساتھ طلباء کی ذہنی صلاحیتوں کو ابھارنے ، ان کو مناسب طریقہ پر نشوونما دینے، اور ان میں صحیح علمی ذوق پیدا کرنے کی صلاحیت رکھتا ہو، دار العلوم میں مستقل قیام کرے، اساتذہ اور طلباء سے اس کا براہ راست ربط ہو، اور وہ ان کے اور مجلس انتظامی کے درمیان رابطہ کا کام دے، علامہ شبلی معتمد دار العلوم منتخب ہوئے تھے، اپنے عہدہ کے لحاظ سے بھی اور اپنی یگانہ صلاحیتوں اور علمی امتیاز کی بناپر بھی وہ اس کام کے لئے سب سے زیادہ موزوں تھے،اس لئے ان سے یہ خواہش کی گئی کہ وہ اس ذمہ داری کو قبول کریں وہ جب علی گڑھ سے یکسو اور حیدرآباد کے تعلق سے بددل ہوئے تھے اور ندوۃ العلماء اور اس کے دار العلوم کو انہوں نے اپنی تمنائووں کی تکمیل کا سب سے موزوں میدان سمجھاتھا، خود ان کی بھی خواہش تھی کہ وہ یہیں آکر بیٹھ جائیں اور اپنی ساری صلاحیتیں اس مقصد کی تکمیل کے لئے صرف کردیں جو ان کے فکر ونظر کے بھی مطابق تھا اور ان کی تعلیم وتربیت اور ذوق ورحجان کے بھی۔۔۔۔ علامہ شبلی کے دار العلوم میں مستقل طور پر آجانے سے طلباء میں ایک نئی زندگی پیدا ہوگئی ان کی طاقت ور اور دل آویز شخصیت طلباء کے سامنے خضر راہ بن کر آئی، ان میں مطالعہ، مضمون نگاری اور تقریر کا ذوق پیدا ہونے لگا، مطالعہ میں تنوع اور معلومات میں وسعت پیدا ہوئی، ان کی مجلسیں جو علمی مسائل کتابوں اور مصنفین کے تذکرے ، کلامی وتاریخی مباحث اور شعر وسخن وادبی چاشنی سے کبھی خالی نہیں ہوتی تھیں، ہو نہار طلباء کے لئے بڑی کشش رکھتی تھیں اس کا نتیجہ تھا کہ ذہین وحوصلہ مند طلباء ان کے گرویدہ وعقیدت مند ہ ہونے لگے اور مولانا کی بھی ان نوجوانوں پر جن کو وہ جوہر قابل سمجھتے تھے تربیت وعنایت کی خاص نظر رہتی اور ان کی اندرونی صلاحیتوں کو ابھارنے اور پروان چڑھانے میں مصروف رہتے، کسی سے مضمون لکھواتے کسی کو تقریر کے لئے تیار کرتے، کسی کو مطالعہ کا مشورہ دیتے ، مولانا سید سلیمان ندوی، مولانا عبد السلام ندوی، مولوی ضیاء الحسن علوی ندوی، مولانا عبد الباری ندوی، مولانا مسعود عالم ندوی اور خود مولانا ابوالکلام آزاد (جو مولانا کی علمی وادبی مجلسوں کے مستقل شریک وحاضر باش تھے) مولوی اکرام اللہ خان ندوی حاجی معین الدین ندوی وغیرہ اسی دور کی یاد گار ہیں جو اپنی اپنی فطری صلاحیتوں اور ذوق کے مطابق نمایاں ونامور ہوئے، 


مولانا علی میاں صاحب کی مجالس میں شبلی کا ذکر خیر بہت کثرت سے ہے، اور انکی نگارشات میں بھی شبلی کا تذکرہ موجود ہے، انسانی نفسیات یہ ہے کہ کوئی شخص جب بار بار کسی شخصیت کا ذکر کرتاہے، اور اسکے ذکر سے رطب اللسان رہتاہے تو اس شخصیت کی خوبیوں کو بھی غیر شعوری طور پر اپنے اندر جذب کرلیتاہے، علامہ شبلی ادیب، ناقد، سوانح نگار، شاعر اور انشاء پرداز تھے، ان کی شاعری اور ساحری اور خوبصورت اور دلکش نثر نگاری کارنگ  مولانا علی میاں کی نثر میں بھی جھلک جایا کرتا تھا، مولانا علی میاں نے عنفوان شباب میں ہی شبلی کی تمام کتابوں کا مطالعہ کرلیا تھا، شبلی کی چاند کی چاند نی کی طرح روشن اور دلکش نثر اور انکی تنقیدی پرکھ مولانا علی میاں کے لاشعور میں جذب ہوگئی تھی، یہانتک کہ شبلی کے ساتھ ان کے والد کا ایک مرحلہ میں اختلاف  اور خود  مولانا علی میاں کا اپنا متصوفانہ رنگ ان کو شبلی کے خرمن کی خوشہ چینی سے روک نہیں سکا، وہ ہمیشہ شبلی کو اپنا محسن سمجھتے رہے، اور انکے ثناء خواں رہے، اور جب کبھی ادب وشعر یا تنقید پر مولانا علی میاں کا قلم اٹھتا تو صاف محسوس ہوتا کہ اس میں شبلی کی شیشہ گری کا عکس ہے اور ا س میں شعر العجم اور موازنہ انیس ودبیر کے مصنف کا رنگ کمال اور پرتو حسن وجمال  جھلک رہا ہے ہے، نمونہ کے طور پر گل رعنا کے بارے میں لکھتے ہوئے آب حیات پرمولانا علی میاں کایہ تبصرہ ملاحظہ ہوجس میں  شبلی کی تنقیدی بصیرت کا  انعکاس موجود ہے:


مولوی محمد حسین آزاد مرحوم کا یہ بہت بڑا علمی وادبی کارنامہ اور اردو پر احسان ہے کہ آب حیات لکھ کر انھوں نے پہلی مرتبہ اردو والوں کو اردو شاعری کی کہانی اردو میں سنائی، وہ اردو زبان وادب اور شاعری کے گہوارے میں پلے تھے اور اردوئے معلی کے اجڑنے سے پہلے اسکی بہار دیکھی تھی، استاذ ذوق جیسے استاد کے عزیز شاگرد تھے ذوق، غالب، مومن اور شیفتہ کی مجلس اور بے تکلف صحبتیں دیکھی تھیں، لکھنو بھی وہ اسوقت آئے تھے جب ناسخ وآتش کے تذکروں سے مجلسیں گرم اور دبیروانیس کی خوش نوائی سے لکھنو کا چمن بول رہا تھا، سب سے بڑھ کر یہ کہ وہ پیدائشی طور پر سخن فہم سخن شناس تھے، انکا خمیر شعر وادب سے اٹھاتھا، اور اسکا ذوق ان کے رگ وریشہ میں پیوست ہوگیا تھا، پھر وہ اس درجہ کے انشاء پرداز تھے کہ ان کی انشاء پردازی دنیا کی دوسری ترقی یافتہ زبانوں کے کلاسکل ادب اور ان کے ادبی شہ پاروں سے آنکھیں ملاتی ہے، ان کے سب سے بڑے ناقد مولانا سید عبد الحی نے گل رعنا میں ان کے متعلق جولکھا ہے اور ان کے اس یگانۂ کمال کا جس طرح اعتراف کیا اس پر اضافہ مشکل ہے‘‘۔
اس اقتباس سے سرسری طور پر نہیں گذرنا چاہیے۔خاص ادبی ذوق اور محاوروں کے ذوق سلیم کے بغیر یہ ترکیبیں  استعمال نہیں کی جاسکتیں ہیں  ’’خوش نوائی سے لکھنو کا چمن بول رہاتھا  ‘‘  ’’ان کے ادبی شہپاروں سے آنکھیں ملاتی  ہے ‘‘  ’’ اجڑنے سے پہلے اس کی بہار دیکھی تھی‘‘   ’’ شاعری کے گہوارے میں پلے تھے ‘‘  مولانا علی میاں کی جمالیاتی  نثرکاایک دوسرا نمونہ تاریخ دعوت وعزیمت حصہ سوم سے باذوق قارئین کے لئے پیش کیا جاتا ہے، مخدوم الملک شرف الدین یحی منیری کے مکتوبات کی ادبی قدر وقیمت پر تبصرہ کرتے ہوئے مولانا علی میاں رقمطراز ہیں:


’’ناقدین ادب نے وقت ماحول فضا،اور طبیعت کے فراغ کو ادب وشاعری کے لئے بہت زیادہ سازگار ومعاون عنصر تسلیم کیا ہے، اور بہت سے ادبیوں اور شاعروں نے اسکا اظہار کیا ہے کہ لب جو، کنارۂ دریا، گوشہ چمن، فصل بہار، نسیم سحر ، صبح کا سہاناوقت، ان کی شاعری اور ان کے ادب کے لئے محرک بن جاتا ہے اور انمیں بہت سے لوگ ایسے مقام کی تلاش اور ایسے وقت کے انتظار میں رہتے ہیں اسیطرح یہ حقیقت تسلیم کرلی گئی کہ روح کی لطافت اور دماغ کا سکون ادبیات کے لئے بہت معاون ہے۔بعض اہل دل کے کلام میں جو غیر معمولی حلاوت وقوت ہے وہ ان کی روح کی لطافت اور قلب کی پاکیزگی اور اندرونی کیفیت وسرمستی کا نتیجہ ہے، اور اسکے لئے وہ کسی خارجی مدد اور مقام اور وقت کے محتاج نہیں ہوتے، ان کی خوشی وسرمستی کا سرچشمہ، اور ان کی دولت کا خزانہ ان کے دل میں ہوتاہے، خواجہ میردرد نے جو خود صاحب دل اور صاحب درد تھے، اس پورے گروہ کی ترجمانی اس شعر میں کی ہے   ؎


جائیے کس واسطے اے درد مئے خانہ کے بیچ
 کچھ عجب مستی ہے اپنے دل کے پیمانہ کے بیچ،،    

          
خواجہ میر درد کا یہ شعر اس اقتباس میں انگوٹھی میں نگینہ کی مانند ہے جس سے کلام کی قیمت ، بلاغت  ، تجمل اور  تاثیر  میں اضافہ ہوا ہے  مذکورہ بالا اقتباس میں شبلی کا  رنگ وآہنگ کس قدر نمایاں ہے اس کا اندازہ کرنے  کے لئے اب شبلی کی ایک عبارت دیکھیں  جو شعر العجم  حصہ چہارم سے ماخوذ ہے  ۔
        

’’   بدیہی بات ہے کہ ملک کی آب وہوا  سرسبزی اور شادابی  کا اثر خیالات پر 
    پڑتا ہے  اور اس ذریعہ سے  انشاپردازی  اور شاعری تک پہونچتا ہے ، 
عرب جاہلیت کا کلام دیکھو  تو پہاڑ،جنگل ، صحرا، بیاباں دشوار گذار راستے، مٹے ہوئے
   کھنڈر ، ببولوں کے جھنڈ، پہاڑی جھاڑیاں، یہ چیزیں ان کی شاعری کا سرمایہ
 ہیں ۔  لیکن یہی عرب جب بغداد پہونچے تو ان کا کلام چمنستاں اور سنبلستاں بن گیا‘‘


 مولانا علی میاں کی نثر میں شبلی کا شعری ذوق اس طرح ملموس  ہے  شاخ گل میں جس طرح باد سحرگاہی کا  نم محسوس ہوتا ہے مولانا شبلی کی شخصیت شعر وادب کے سانچہ میں ڈھلی ہوئی تھی وہ یکتائے زمن اور علوم اسلامیہ کا مخزن تھے۔ وہ شمس العلماء تھے اس ایک چراغ سے بے چراغ جل اٹھے تھے ۔ایک شورش عندلیب تھی جس نے ندوۃ العلماء کے چمن میں روح پھونک دی تھی انہوں نے ندوہ کیلئے وہ امتیاز پیدا کیا جس کا علمی حلقوںمیںاعتراف پایا جاتا ہے بقول شاعر 


بڑی مدت میں ساقی دیکھتا ہے ایسا دیوانہ 
بدل دیتا ہے جو بگڑا ہوا    دستور   میخانہ


علامہ شبلی  مولانا علی میاں کے والد مولانا عبد الحی کے معاصر تھے۔ مولانا علی میاں نے علم وادب  اور شعری ذوق  اور تنقید میں شبلی  سے استفادہ کیا  شبلی کے علاوہ  انہوںنے اور بہت سی شخصیتوں سے استفادہ کیا تھا  اس لئے ان کی شخصیت  ہمہ جہت  اور ہشت پہل ہیرے کی  طرح ہوگئی تھی ۔ ان کی شخصیت میں شبلی کا ساز بھی ہے اقبال کی آواز بھی ہے  اور رومی وعطار کا انداز بھی ہے ۔

             تری نوا سے ہے بے پردہ  زندگی  کا ضمیر 
             کہ تیرے ساز کی فطرت نے کی ہے مضرابی


مولانا  علی میاں کو ایک  عالم دین اور مورخ ومصنف کی حیثیت سے تو سب  جانتے ہیں لیکن  ان  کے اعلی ادبی اور شعری ذوق  سے کم لوگ واقف ہیں جس  کے پروان چڑھانے میں شعر العجم کے مصنف کا بڑا حصہ ہے وہ صریر خامہ شبلی کے گرویدہ تھے ۔   شبلی سے شیفتگی اور گرویدگی کی وجہ  سے مولانا علی میاں کی تحریریں بھی  انکھوںکا نور اور دل کا سروربن گئی ہیں ۔  مولانا علی  میاں کے شعری ذوق کی ایک مثال اور دیکھئے ۔  پرانے چراغ میں ڈاکٹر ذاکر حسین کی پر کشش شخصیت پر مولانا علی میاںکا بہت پر کشش مضمون ہے لیکن چاند میں بھی داغ ہوتے ہیں  ایک واقعہ ان کی اعلی منصبی کے زمانہ کا اسلامی غیرت وحمیت کے اعتبار سے خوش کن نہیں تھا  ڈاکٹر ذاکر حسین  صاحب  کے عظیم سوانح نگار  اور شہید جستجو  کے مصنف اس واقعہ سے کتراکے گذر گئے لیکن مولانا نے صرف اشارہ کنایہ میں اس کا تذکرہ کیا ہے تاکہ جو شخص  پہلے سے جانتا ہے  صرف وہی سمجھ سکے  اور بس اخیرمیں افسوس کے اظہار  کے ساتھ انہوں نے غالب کا یہ مصرعہ مضمون کی انگوٹھی میں نگینہ کی طرح جڑ دیا ہے۔ ’’  جس کو ہو جان ودل عزیز اس کی گلی  میں جائے کیوں ‘‘ غالب کے پرستار ہزاروں کی تعداد میں ہیں  اس کے اشعار ضرب المثل اور زبان کا محاورہ بن گئے ہیں اور اہل زبان کے نوک زبان ہیں ۔علماء اور صلحاء کی محفل کو چھوڑیے  وردی پوش ادیبوں کو لیجئے  زر نگار قلم رکھنے والوں  اور ادب کی زرکار کرسیوں پر بیٹھنے والوں سے پوچھیے کیااردو ادب کی پوری تاریخ میں کوئی شخص غالب کے اس مصرعہ کا اس سے بہتر استعمال کرسکا ہے ۔  یہ تنقید شرافت قلم کا  بھی  بہت اعلی نمونہ پیش کرتی ہے۔ یہ کہا جائے تو غاط نہ ہوگا کہ شرافت زبان اور شرافت قلم مولانا علی میاںپر ختم ہے۔ اس کی  بیشمار مثالیں پیش کی جاسکتی ہیں جس کا یہ موقعہ نہیں  ۔


مولانا علی میاں کاشبلی کے ساتھ تاثر صرف ادب  اور شعری ذوق کے ساتھ خاص نہیں، شبلی کی نظموں میں ملت اسلامیہ کے لئے جو دردمندی جھلکتی ہے  وہی غم اور وہی اضطراب  مولانا علی میاں کی نثر کی بھی خصوصیت ہے ،شیرازہ اوراق اسلامی  کے بکھرنے کا غم جس طرح مولاناشبلی کو ہے مولانا ابو الحسن علی کو بھی ہے  ، یہ کیسے ممکن ہے کہ شہر آشوب اسلام کے نام سے شبلی نے جو نظم کہی تھی  اس نے مولانا علی میاں  کے دردمند دل کو تڑپایا نہ ہو  شبلی کی اس پر تاثیر نظم کا شعر ہے


      حکومت پر زوال آیا تو پھر  نام ونشاںکب تک
      چراغ کشتہ محفل سے اٹھے گا  دھواں کب تک
کوئی پوچھے کہ اے تہذیب  انسانی  کے استادو
 یہ ظلم آرائیاں تاکے  یہ حشر انگیزیاں  کب تک


مجھے یہ کہنے دیجئے کہ مولانا علی میاں کی بہت سی تحریریں  اسی اشارہ مجمل کا بیان مفصل ہیں  علامہ شبلی کی  ان غم انگیز نظموں کا نثری  انعکاس جس طرح مولانا آزاد کی الہلال کی تحریروں میں ملتا ہے  مولانا علی میاں کی  نگارشات میں بھی ملتا ہے  بیسویں صدی  کے  نصف آخر میں ہندوستان میں مولانا علی میاں کے سوا اور کون  تھا  مصر وفلسطین  میں مسلمانوں کی حالت زار پر  ترکی میں مسلمانوں کے ادبار پر  دینی تحریکات  پرظالم حکمرانون کے جور وستم پر  جس کی انگلیاں فگار  زبان خونا ں ببار اور جس کا قلم خوںچکاں رہا ہو  آج مصر وشام میں  جو ہنگامہ آہ وفغاں برپا ہے اس پر آشوب زمانہ میں ممکن نہیں تھا کہ مولانا ہوتے تو خاموش رہتے  اور حرمین شریفین کے خدمت گذاروں کی  ولا ترکنوا الی الذین ظلموا کی صریح خلاف ورزی پر انہیں اپنے مخصوص  انداز میں نصیحت نہ کرتے ۔ الدین نصیحۃ پر عمل کرتے  ہوئے انہوں نے پہلے بھی حکمرانوں کو نصیحتیں کی ہیں اور حکمرانوں کے نام ان کے تمام خطوط اب شائع ہو چکے ہیں یہ مولانا علی میاں کا ایسا امتیاز ہے جس میں دور  دور ان کا کوئی ہمسر نظر نہیں آتا ہے۔


  خلاصہ کلام یہ ہے کہ مولانا علی میاں  کے بالیدہ  اور تراشیدہ ادبی اور تنقیدی شعور میںاور ملت اسلامیہ کے لئے ان کی دردمندی میں مولانا شبلی کا عکس پایاجاتا ہے ۔ مولانا علی میاں کا دل شبلی کی محبت اور 


عظمت  سے لبریز تھا۔ مولانا علی میاں ہمیشہ شبلی کے شیدائی معترف  قدر شناس اور سپاس گذار رہے ۔شبلی ہوں یا علی میاں ہوں یا سید سلیمان ندوی یہ سب آسمان علم وادب واخلاق کے چاند ستارے ہیں ۔اللہ تعالی ہم سب لوگوں کو  مولانا علی میاںکی اعلی ظرفی  اور فکر کی                ارجمندی  اور دل کی دردمندی علامہ شبلی کی تحقیقی  اور تنقیدی  بصیرت عطا کرے  اور ’’از سلیماں گیر اخلاص عمل’’ پر عمل کرنے کی توفیق بخشے  اور مور کم مایہ کو ہمدوش سلیماں کردے۔آمین


         (سمینار رابطہ ادب اسلامی منعقدہ  نومبر ۳!۲۰ بمقام اورنگ آباد کے لئے لکھا گیا)

**************

Comments


Login

You are Visitor Number : 1216