donateplease
newsletter
newsletter
rishta online logo
rosemine
Bazme Adab
Google   Site  
Bookmark and Share 
mazameen
Share on Facebook
 
Literary Articles -->> Adbi Gosha
 
Share to Aalmi Urdu Ghar
Author : Dr. Rahi Fadayi
Title :
   Urdu Adab Mein Ikhlaqi Iqdar

اردوادب میں اخلاقی اقدار
 
ڈاکٹر راہی فدائی
(Mob:9448166536)
 
٭ آج جب کہ اخلاقی اقدار کی پامالی زندگی کے ہر شعبہ میں ہورہی ہے اور ہر شخص خودکو تمام اخلاقی بندشوں سے آزاد کرانے کی سعی لا حاصل کررہا ہے اور اپنے ذہن و دل میں اظہار کی آزادی ، حق گفتاری اور شفاف کرداری کی نامانوس اور متوحش شکل بنائے ہوئے ہے اور ان کی دلکشی اور دیدہ زیبی کی خاطر مذہبی اور تہذیبی اصلاحات لاگو کرنے کے لئے آمادہ ہی نہیں ہورہا ہے تو ایسی پیچیدہ صورت حال میں عملی زندگی کا ان حالات سے متاثر ہونا لازمی امر ہے ،جب حیات انسانی کسی خاص فکر و فلسفہ کا اثر قبول کرتی ہے تو سماج میں ایک گونہ تغیر رونما ہوتا ہے ، روایتوں کی تحقیر اور رشتوں کی پامالی ہونے لگتی ہے جس کا براہ راست اثر ادب پر پڑنا ناگزیر ہے۔ 
 
چونکہ ادب زندگی کی روح ، حرکت وعمل کے لئے قوت وطاقت کاسرچشمہ ، فکر ونظر کے توسیع کا ذریعہ اور جذبات واحساسات کا مخلص راہنما ہوتا ہے اس لئے ادب کا بذات خود متوازن اور صالح ہونا ضروری ہے ورنہ زندگی غلط راہوں پر چل نکلے گی۔ جس کا خمیازہ دور حاضر کے افراد ہی کو نہیں بلکہ مستقبل میں آنے والی ان کی نسلوں کو بھی اٹھانا پڑے گا۔ ایسے میں عہد حاضر کی گمراہی اور غلط کاری کا اثر وثمر آئندہ نسلوں کے لئے باعث عذاب بن جائے گا۔ پھر جب وہ محسوس کریں گے کہ ان کے اسلاف اوران کے آباء اجداد نے ورثہ میں تہذیبی پستی ، دنیا بھر کی ذلت ونکبت اور ذہنی پسماندگی چھوڑی ہے تو وہ ان کے لئے شاید ہی دعائے مغفرت کی فکر کریں۔ 
 
ادب میں اخلاقی اقدار اور اس کا صالح کردار متعین کرنے کے لئے پہلے اس بات پر غور کرنا ضروری ہے کہ اخلاق کی تعریف کیا ہے اور اس کا اخلاق کن چیزوں پر ہوتا ہے۔ ’’اخلاق ‘‘ عربی لفظ ہے اور یہ خلق کی جمع ہے۔ خلق کہتے ہیں نفس انسانی کا ایک ایسا ملکہ جسکے ذریعہ افعال واعمال چاہے اچھے ہوں یا برے بآسانی  سرز د ہوں۔ مثلاً سخاوت ہی کو لے لیں اگر یہ صفت کسی کی طبیعت میں راسخ رہتی ہے اور اس شخص سے سخاوت کا عمل بغیر جبرو کراہ کے یا بغیر ریاکاری اور دکھلاوے کے آسانی کے ساتھ سرزد ہوتا ہے تو اس شخص کو سخی کہا جائے گا اور اس عمل کو اخلاق حسنہ یعنی اچھے اخلاق میں شمار کیا جائے گا۔ اس کے برخلاف کسی شخص کی طبیعت میں بخل اور کنجوسی ہے یا و ہ کسی مجبور ومحتاج کو جبراً کچھ دے رہا ہے یا ریاکاری اور دکھاوے کے طورپر اس مجبور کی مدد کررہا ہے تو وہ نہ سخی کہلائے گا اور نہ اس کا عمل اخلاق حسنہ کے زمرے میں آئے گا بلکہ وہ اخلاس سیہ یا اخلاق قبیحہ کے دائرے میں داخل ہوجائے گا۔ یعنی ریاکاری پر مبنی سخاوت نیکی نہیں بلکہ بدی اور برائی کے تحت آئے گی اور خدا کی بارگاہ میں اس پر ثواب ملنا تو کجا الٹا گناہ لازم آئے گا۔ اس سے یہ بات واضح ہوگئی کہ نیکی بدی ، اچھا ئی برائی ، خیر و شر ، حسن قبح و غیرہ متضاد صفات کا انحصار ا عمال کی ظاہری صورت پر نہیں بلکہ ان کی باطنی کیفیت پر ہوگا جس کو ہم نیت کہتے ہیں۔ اسی لئے حدیث شریف میں ’’انما الاعمال بالنیات ‘‘یعنی اعمال کا دارومدار نیتوں پر ہے ، کی تنبیہ وارد ہوئی ہے۔ 
 
اخلاق کا استعمال اکثر نیک اور اچھے اعمال پر ہوتا ہے بالخصوص اسکو کسی قید کے بغیر مطلق استعمال کیا جائے جیساکہ کسی نیک انسان کی تعریف کرتے ہوئے کہیں کہ ’’وہ بااخلاق شخص ہے ‘‘ تو اس وقت ’’بااخلاق ‘‘ سے مراد اچھے اخلاق کا حامل شخص ہی ہے نہ کہ برے اخلاق کا انسان ، یہ اچھائی اور نیکی اخلاق کی اصل بنیاد ہے جس کو سمجھے بغیر اخلاق کا تصور نامکمل ہے لہذا اس کی وضاحت کرتے ہوئے یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ نیکی ایک ایسا عمل ہے جو خود کے لئے استفادہ اور دوسرے  کے لئے افادہ کاسبب بنتا ہے اور یہ ’’افادہ ‘‘یعنی دوسروں کو فائدہ پہنچانا اور ’’استفادہ‘‘ یعنی دوسروں سے فائدہ حاصل کرنا اگر خالق کائنات کے حکم پر ہو تو باعث اجر و ثواب متصور ہوگاورنہ اس کا وزن و وقار عنداللہ باقی نہیں رہے گا۔ 
اخلاق کا نفاذ زندگی کے ہر شعبے میں ہوتا ہے، چاہے وہ سیاسیات وسماجیات سے متعلق ہو یا مذہب وادب سے اس کا ربط وتعلق ہو چونکہ ہمارا موضوع ادبی اخلاق نہیں بلکہ ادب میں استعمال کئے جانے والے اخلاقی مضامین سے ہے اس لئے ہم ادبی اخلاقیات سے صرف نظر کرتے ہوئے اصل موضوع کی طرف متوجہ ہوتے ہیں۔
اردوادب (نظم ونثر ) میں اخلاقی اقدار کی تصویر کشی اور پیکر تراشی کا عمل اس کے ابتدائی دور ہی سے موجودہے۔ جب صوفیائے کرام نے محسوس کیا کہ عوام الناس کی زبان فارسی بہ نسبت دکنی سے زیادہ مانوس ہوگئی ہے تو انہوں نے عوامی صلاح وفلاح کو مدنظر رکھتے ہوئے دکنی نظم ونثر میں کتابیں تصنیف وتالیف کرنے کاسلسلہ شروع کیا چنانچہ خواجہ بندہ نواز (متوفی 825ھ) کا شکار نامہ اور حقیقت گیت سے لیکر دکنی دورکے آخری شاعر علامہ باقر آگاہ ویلور (متوفی 1220ھ) کی طویل تصنیف ’’ ہشت بہشت ‘‘ تک سیکڑوں کتابیں لکھی گئیں جن کا موضوع تصوف واخلاق اور ارشاد واصلاح تھا۔ 
 
اردو زبان جب صوفیا کی خانقاہوں سے نکل کر بادشاہوں کے درباروں میں پہنچی تو اس وقت کے شعرائے وادبانے اپنے حکمرانوں کی خوشنودی کے لئے بطور تفنن طبع عشقیہ مضامین پرمشتمل رسائل وکتب تحریر کئے۔یہ تفریحی سلسلہ اس وقت تک جاری رہا جب تک مسلمانوں کی حکومتیں باقی رہیں ، جیسا کہ دور قطب شاہی اور عادل شاہی میں تصنیف شدہ رسالوں سے پتہ چلتا ہے۔ پھر جب ان کا اقتدار، نذر زوال ہوتو دوبارہ اصلاحی تحریکیں شروع ہوگئیں۔ چنانچہ سر سید احمد اور ان کے رفقاء ڈپٹی نذیر احمد ، مولانا شبلی ، مولانا حالی وغیرہ نے نظم ونثر میں اخلاقیات کااستعمال شعوری طورپر کیا جس کی وجہ سے اصلاحی ناولوں ، افسانوی مجموعوں اور مختصر طویل نظموں کا ایک سلسلہ شروع ہوگیا۔ یہاں تک کہ علامہ ا قبال نے اس کارخیر کے جذبے کو اس کی انتہا تک پہنچا دیا۔ چونکہ ان عظیم قلم کاروں کے یہاں اصلاحی مضامین کے باوصف ادب کے مختلف اصناف کو استعمال کرنے کاسلیقہ بدرجہ ٔ اتم موجود تھا اس لئے ان کی تخلیقات کو شہرت دوام حاصل ہوئی مگر جن اہل قلم نے مذکورہ ادباوشعرا کی اندھی تقلید کی اور ان کے تجربات کی نقالی میں سردھڑ کی بازی لگادی ، آج ان کا نام ونشان تک باقی نہیں رہاہے۔ 
 
اسکے بعد آنے والے ترقی پسند تحریک سے متاثر قلم کاروں کے یہاں چونکہ مقصد یت کا جذبہ موج زن تھا اس لئے ان کی تحریروں میں زندگی کے مختلف مسائل کی توضیح اور مفلوک الحال وپراگندہ خیال افراد کی نفسیات کی تشریح ہوتی رہی جس کے سبب اصلاح معاشرہ سے متعلق مضامین اور مخصوص اخلاقی موضوعات کا بیان ان کے یہاں وقتاً فوقتاً سہی ہوتا رہا ہے۔ ترقی پسندی کے اس دورمیں بھی جن قلمکاروں میں عملی وفنی صلاحیتیں کم کم تھیں۔ وہ لاکھ پروپگنڈے کے باوجود خود کو زندہ وتابندہ رکھنے میں یکسر ناکام ہوگئے۔ اس کے بعد جدید دور آیا تو ادب کاسفر خارج سے داخل کی طرف ہونے لگا، جدید تخلیق کاروں نے اس سفر کے لئے جو زاد راہ اپنے پاس تیار رکھا تھا وہ درمیان ہی میں ختم ہوگیا اور پھر تو وہ ادبامایوسی کا شکار ہوکر پردۂ گمنامی میں چلے گئے۔ ان جدت خصال وجواں سال قلمکار وں میں جن کاسرمایہ فکر ونظر معتدبہ تھا انہوںنے راہ راست کی ہزارہا مشکلوں کے باوجود اپنی منزل مقصود تلاش کر ہی لی۔ یوں انہوںنے کامیابی وکامرانی کے ساتھ اپنا ادبی وجود برقرار رکھا۔ اس تجرباتی دورمیں بھی باطنی اصلاح کی فکر بعض اہل علم وفضل نے کی۔ جس کی وجہ سے جدیدیت کے متوالوں اور جدت پسندی کی طرف رجحان ومیلان رکھنے والوں کی منظوم ومنثور تخلیقات میں بھی اخلاقی مضامین کو جگہ مل گئی۔ اس طرح اردو ادب کے ہر دورمیں اخلاقی اقدار کو زینت قرطاس وقلم بنانے کی روایت جاری وساری رہی۔ یہ اوربات کہ اس روایت کی پاس داری باطن سے نکلے ہوئے جذبہ صادق کی وجہ سے پروان چڑھی ہو یا متقدین قلمکاروں کی تقلید محض کے زیر اثر رونما ہوئی ہو بہر طوریہ روایت اپنا وجود ادبی اعتبار سے برقرار رکھنے میں کامیاب ہوگئی۔ حاصل کلام یہ کہ آج پھر ادب میں اخلاقی اقدار کی روح پھونکی جارہی ہے۔ 
 
بشکریہ: مشتاق دربھنگوی
……………………………
 
Comments


Login

You are Visitor Number : 1318