donateplease
newsletter
newsletter
rishta online logo
rosemine
Bazme Adab
Google   Site  
Bookmark and Share 
mazameen
Share on Facebook
 
Literary Articles -->> Adbi Gosha
 
Share to Aalmi Urdu Ghar
Author : Dr. Rashid Ahmad
Title :
   Adab Ka Girta Miyar


 
 ادب کا گرتا معیار
 
ڈاکٹررشید احمد
 
غزل، چاندنگرکالونی، پھلواری شریف پٹنہ
 
       موبائل : 9470415895
 
 
انٹرنیٹ اور کمپیوٹر کی برکتوں کاظہور ہماری محبوب زبان اردو میں بھی ہوا ہے۔ لہذا ہرقسم کی تحریروں کی ترویج واشاعت نہایت آسان اور ارزاں ہوگئی۔ عمدہ کتابت وطباعت، نفیس ودبیز کاغذات (آرٹ پیپر) جاذب نظر سرورق اور رنگین تصاویر سے مزین رسائل وکتب باعث توجہ ہیں اور ناشر ومصنف کے صاحب ثروت ہونے کی دلیل بھی مگر باعتبار موضوع واسلوب یہ معیاری بھی ہوں ضروری نہیں۔ بازار میں کتابوں اور رسائل کی بھرمارہے۔ کوئی درجن بھرپرچے بک اسٹال کی زینت بنے ہوئے ہیں۔ اسی تناسب سے اخبارات بھی جلوہ افروز ہیں۔ ایک ماہ میں اتنی کتابیں زیور طبع سے آراستہ ہوکر رونما ہوجاتی ہیں۔ جتنی کبھی سال بھر میں بھی نہیں چھپ پاتی تھیں۔ قلم جس کے ہاتھ آگیا وہ علامہ ہوگیا ۔ جن علامہ کی تخالیق کم عیار ہونے کے سبب یاگروہی عصبیت کا شکارہوکر چھپنے سے رہ جاتی ہیں، وہ خود کا رسالہ ایجاد کرکے اور نیا حلقہ تشکیل کرکے اپنے ذوق کی تکمیل کرلیتے ہیں۔ فکر معاش سے رستگاری اور مشاغل سے سبکدوشی بھی ادب کے لئے فال نیک ثابت ہورہی ہے۔ یکایک ز بان کی خدمت کا جذبہ شدومد سے ابھرآتا ہے۔ ادب ان کی جولان گاہ اور پناہ گاہ بن جاتی ہے۔ میدان خالی پاکر اس کو سرکرنے میں لگ جاتے ہیں۔ ادب کی ہرہر صنف میں بے دریغ خامہ فرسائی کرتے ہیں۔ دیکھتے دیکھتے تصنیف وتالیف (جس میں چربہ اور سرقہ بھی شامل ہے) کاانبار لگ جاتا ہے حالانکہ۔
 
کچھ نہیں ہوتا، کتابوں پہ کتابیں لکھ دو
اگلے وقتوں میں دو لفظ اثر رکھے تھے
شجاع خاورؔ
 
کتب وجرائد کی کساد بازاری (جو بسیارنویسی کے سبب سے ہے) نے معیار واقدار کوگزند پہنچایا ہے۔ ادبی ونیم ادبی مطبوعات کی گنتی میں جس قدر اضافہ ہورہا ہے۔ اسی تناسب سے قارئین کی تعداد میں افاقہ ہوتا جاتا ہے۔ صورتحال یہ ہے کہ پڑھتے وہی ہیں جو لکھتے ہیں۔ یعنی فیض قدرت سے قاری وقلم کار ایک ہوئے۔ کچھ ایسی ہی حالت محفل مشاعرہ اور سمینار وسمپوزیم کی ہے۔ کہ جہاں سامعین مقررین وشعراء کرام کی تعداد سے زیادہ نہیں ہوتے۔ بقول حسن ضیاء
(سابق مدیر آج کل، دہلی)
 
’’ … کتابوں اور رسائل سے دلچسپی لینے والے او ران کا ذوق وشوق سے مطالعہ کرنے والے قارئین بہت کم ہیں ۔ اردو پڑھنے والے کی قوت خرید بڑھی ہے لیکن اردو کے بعض اخبارات ورسائل کی تعداد اشاعت کم ہوئی ہے۔ شعروادب کاکاروبار کرنے والے توبڑھ رہے ہیں لیکن اس سے حقیقی دلچسپی لینے والے کم ہوئے ہیں‘‘۔
(آج کل ادبی صحافت کا مینارۂ نو)
 
شعروادب کے اس کاروبار میں فن کار وتخلیق کار سے نقاد تک ، استاد سے شاگرد تک، مدیر سے مبصر تک سبھی مصروف ہیں۔ اور مبتلاء حرص وہوس ہیں۔ غرض پرستی اور مادہ پرستی کا غلبہ ہے جبکہ اخلاص ناپید ہے۔ مادیت کے زیر اثر مدیران حضرات اپنے رسالہ کے معیار وقار کو تہس نہس کررہے ہیں اور امیج کوبگاڑ رہے ہیں۔ ایسے نئے لکھنے والے یا لکھنے والی جن کا ادب میں کوئی نقش نہیں بنا ہے، پر نمبر نکال کر اور گوشہ قائم کرکے ’فیض رسانی‘ میں ناحق منہمک ہیں اس انہماک کے نتیجے میں صاحب گوشۂ عافیت صیغۂ گمنامی سے نکل کر اور افق ادب پر نمودار ہوکر سب کوخیرہ کردیتے ہیں۔’فیض رسانی‘ کا یہ عمل تحقیقی مقالے کے ضمن میں کچھ زیادہ مستحکم ہے۔(۱) جس کا منفی اثر یہ ہوتا ہے کہ ڈاکٹر صاحب کی نہ تو صلاحیت بنتی ہے۔ نہ ہی ان میں خود اعتمادی پیدا ہوتی ہے۔جس کا خمیازہ انہیں تازندگی بھگتنا ہوتا ہے ۔ خصوصاً جب وہ درس وتدریس کے پیشے میں آتے ہیں۔ ملازمت کا حصول تو (پیسے یا سفارش کے بل پر) سہل ہوتا ہے۔ مگر فرائض کی انجام دہی میں خاصی دشواریوں کا سامنا ہوتا ہے۔ کافی سے زیادہ ہزیمت اٹھانا پڑتی ہے۔ جناب کی علمی لیاقت نیز ’ادبی صلاحیت‘ پر سے حجاب بہت جلد اٹھ جاتا ہے۔ تحقیق کا موضوع بھی نہایت پست اور رکیک قسم کا ہوتا ہے۔ لطف تو یہ ہے کہ اس ادنیٰ اور محدود موضوع والے مقالۂ تحقیق کا بھی حق ادا نہیں کیا جاتا۔ کیونکہ محقق حضرات مزاجاً سہل پسند ہونے کے سبب غوروتحقیق کے عادی نہیں ہوتے۔ شمس الرحمن فاروقی اپنے مقالہ’’ ادبی تحقیق کے تقاضے ‘‘ میں رقم طراز ہیں۔
 
’’… آج کل ہماری یونیورسٹیوں میں جن موضوعات پرتحقیق ہورہی ہے اور جس طرح کی تحقیق ہورہی ہے اس میں بھاری اکثر یت’ فلاں کے حیات اور کارنامے‘ قسم کی ہے اور اس سے بھی بڑھ کر اب کم حقیقت اور زندہ لوگوں کے کارناموں کے الگ الگ پہلوؤں پر تحقیقی مقالے لکھے جارہے ہیں۔ مثلاً ’فلاں کی افسانہ نگاری‘ پھراس شخص کی تحقیق وغیرہ الگ الگ موضوع بن گئے۔زندوں پریوں لکھا جارہا ہے ، گویا انہوں نے اپناکام پورا کرلیا اور اب ہم ان کے کارناموں کااحاطہ کرسکتے ہیں‘‘۔
 
تحقیق کے عنصر سے عاری اور زبان و بیان کی خامیوں سے بھرپور تحقیقی مقالے کی اشاعت کامرحلہ (جب کسی کے فیض سے) آجاتا ہے تونگراں حضرات جو حقیقی محقق ہوتے ہیں کی پشیمانی قابل دید ہوتی ہے اور وہ (شاید بجاطورپر) متمنی ہوتے ہیں کہ کتاب ان کے نام معنون کردی جائے تاکہ پڑھنے والا سمجھ جائے کہ یہ کارہائے گراں مایۂ ان صاحب کا ہے۔ یعنی آم کے آم اور گٹھلیوں کے دام۔ ہمارے ادیبوں شاعروں محققوں اور نقادوں میں خدمت ادب کا جذبہ کم اور نام ونمود کی چاہت ز یادہ ہوگئی ہے۔ لہذا اسی نہج پرکوششیں بھی ہورہی ہیں ۔من ترا حاجی بگویم ، تو مراحاجی بگو، کا دستور توپرانا ہے۔ اب ایک نئی روش (جو اس کی ترقی یافتہ ہے) یہ چل پڑی ہے کہ حاجی کہلوانے کے لئے اب کسی اور کی حاجت نہیں رہی، بلکہ اپنی شخصیت اور فکروفن پرمقالہ خود رقم کرکے کسی گم نام شخص کی طرف سے شائع کروا دیا جاتا ہے۔ اسی طرح اپنی کتاب پر تبصرہ لکھ کر غیر معروف نام ( جو فرضی بھی ہوسکتا ہے) سے چھپوایا جاتا ہے پھر تبصرہ پر تبصرہ، یہی تبصرہ مایۂ ناز نوزائیدہ تصنیف کی مجلس رونمائی میں بھی کام آتا ہے۔ اس سے دو فائدے ہوتے ہیں ایک تو اپنی شخصیت تیزی سے چمک اٹھتی ہے ، دوسرے ایک ہی نام کے تواتر سے چھپتے رہنے کی وجہ سے غیر معروف شخص متعارف ہوکر احسان مند ہوجاتا ہے۔یہاں یہ بتاتے چلیں کہ اپنے منھ میاں مٹھو کی اس روایت کی داغ بیل اردو کے ایک پرجوش شاعر نے ڈالی تھی جنہیں اپنے بیسویں صدی کے حافظ وخیام ہونے کا دعویٰ تھا۔ ایک روش جوابھی پوری طرح عام نہیں ہوئی ہے یہ کہ اپنے کار ناموں کے اعتراف میں کانفرنس اور سمینار کا اہتمام کیاجاتا ہے اور ’جشن فلاں‘ نہایت تزک واحتشام سے منایا جاتا ہے۔ ہم جس قدر سنجیدہ اپنی ذات اور کارنامے کے اجاگر کرنے میں ہوتے ہیں اتنے ہی تنگ نظر دوسروں کے اعتراف کے سلسلے میں واقع ہوئے ہیں۔ عمدہ تخلیق، تحقیق یاتنقید کونہیں سراہتے اور کبھی اظہار رائے کا موقع بادل نخواستہ آہی جاتا ہے تو بخل سے کام لیتے ہیں، کسی اور کی تعریف کرنے میں اپنی سبکی محسوس کرتے ہیں۔ شاید اس وجہ سے کہ اپنی کم مائیگی کے طشت ازبام ہوجانے کا خدشہ لاحق ہوتا ہے۔ نیا نام دیکھ کر اول تو پڑھتے ہی نہیں ہیں اور اگر پڑھ لیتے ہیں تو لکھنے والے کی پذیرائی اس خوف سے نہیں کرتے کہ حوصلہ پاکر کہیں وہ آگے نکل جائے اور ادب میں قائم ان کی اجارہ داری خطرے میں پڑجائے۔ قابل اور باصلاحیت رخصت ہوتے جاتے اور کم علم وکم قابل بلکہ بے قابل میراث ادب پر قابض ہوتے جارہے ہیں۔ آج ادب کا حال کارزار سیاست سے مختلف نہیں ہے۔ شاید یہ میرا وہم ہو، مگر اس وہم کی ترجمانی مدیر آج کل ابرار رحمانی نے اپنے اداریے’’ کالادھن =کالاادب‘‘ میں قدرے وضاحت سے کی ہے۔ ایک سب سے بڑی خرابی جو ہمارے اندر درآئی ہے اور جس کا ذکر ضروری ہے یہ کہ نئی نسل ہماری عدم توجہی کا شکار ہے۔ ان کی اصلاح ورہنمائی اور ان میں ادب کا ذوق پیدا کرنے کو اساتذہ اپنا فریضہ نہیں سمجھتے۔ البتہ دھونس ضرور جماتے ہیں۔ قابلیت کا رعب صلاحت کے فقدان کے باوجود گانٹھتے ہیں۔ یہ باور کرانے کی کوشش کرتے ہیں کہ ادب وہ بھاری پتھر ہے جوان سے اٹھنے کا نہیں۔ گویا زبان وادب کے ارتقا اور فروغ کے راستے ہم نے خود بند کررکھے ہیں
(۲)
مضمون کے آغاز میں میں نے کتابوں کی طباعت کے سلسلے میں معاون ہونے والی جدید تکنالوجی کا ذکر کیا ہے۔ مگرایک اہم سہولت کا ذکر چھوٹ گیا اور وہ یہ کہ حکومت مہربان سے ملنے والی مراعات جو صاحبان قلم تک بشکل مالی اعانت لگاتار پہنچ رہی ہیں۔ یہ مالی اعانت مسودہ کی اشاعت کے لئے بھی ہوتی ہے اور طبع شدہ کتابوں پرانعام کے طورپر بھی مگربرا ہوگروہی تعصب کا کہ جس کے اثر سے بعض ادارے ہنوز نکل نہیں پائے ہیں۔ یہاں’ فیض رسانی‘ کا سلسلہ اب بھی دراز ہے۔ غرض تصنیف یا تالیف کی ترویج واشاعت میںمالیات کی فراہمی اب کوئی مسئلہ نہیں ہے۔ تاہم ایک عرصہ سے ہم ادب کا کوئی شاہ کار تخلیق نہیں کرپائے ہیں۔ نہ ہی کوئی بڑا کارنامہ انجام دیا ہے۔ انقلاب اور اجتہاد کی بات تو چھوڑہی دیجئے۔ گزشتہ کئی دہائیوں سے اردو ادب پراضمحلال وانجماد طاری ہے۔ جوکسی المیہ سے کم نہیں ہے۔ ایسا اس وجہ سے کہ ہم اردو کے کاز کے لئے مخلص نہیں ہیں۔ نہ ہی اس کی ترقی کے صدق دل سے خواہاں ہیں۔ ہماری تمام تر جدوجہد اپنی شخصیت کے فروغ کے لئے ہوتی ہیں۔ یہ اور بات ہے کہ ضرورتاً اردو کا پلیٹ فارم استعمال میں آجاتا ہے ۔ جس سے زبان وادب کابھی کچھ بھلا ہوجاتا ہے۔
 
قابل تائسف اور لائق تفکر امر یہ ہے کہ ہمارے اکابر جنہوں نے زندگیاں عسرت وتنگدستی میں گزاریں۔ فقر کی دولت کوسرمایۂ شبیری جانا، رواداری اور خود داری کی مثال قائم کی۔ ضمیر نہیں بیچا، قلم کا سودا نہیں کیا۔ فاقہ کیا مگراُف نہ کیا۔ کاسۂ گدائی اختیار نہیں کی۔ حکومت وقت سے مرعوب نہیں ہوئے، ان کی حاشیہ برداری نہیں کی۔ ستائش کی تمنا کے بغیر اور صلے کی امید سے بے نیاز زبان  وادب کو وسعت وترقی دی۔ یہاں تک کہ ایک نوزائیدہ زبان کوترقی یافتہ زبانوں کے مدمقابل کردیا اور عالمی ادب کی صف میں داخل کردیا۔اپنی گراں قدر تخالیق سے دامن ادب کو مالا مال کردیا، تجربہ کیا، مشاہدہ کیا۔ اور فکروفن کا اعلیٰ معیار مقرر کیا۔(۳)یادگار اور شاہ کار قائم کیا۔جبکہ آج ہم خوش حال ہیں، فارغ البال ہیں۔ دولت کی فراوانی ہے۔ حصول علم کی آسانی ہے۔ مطالعے کی سہولت ہے۔ صلاحیت کے فروغ کے مواقع ہیں۔ پھربھی ہم میں کوئی میرؔ ،غالبؔ، اقبالؔ یاپریمؔ چند کوئی حالیؔ، شبلیؔ، آزاد یاعبدالحق اور کلیم الدین احمد یہاں تک کہ سید عابد حسین بھی پیدا نہیں ہوتا ۔اس کے باوجودبھی ہمیں غن ہے کہ ہم شاعر ہیں، ہم ادیب ہیں، افسانہ نگار وناول نگار ہیں، محقق ونقاد ہیں اور صاحب تصنیف ہیں(۴) جبکہ ان تصانیف کا حال یہ ہے کہ نہ فکروخیال اعلیٰ نہ طرز تحریر عمدہ،نہ فصاحت ہے نہ بلاغت ہے، نہ شدت تاثیر ہے۔ زبان وبیان کی خطائیں اور املا وقواعد کی غلطیاں بھی سرزد ہوتی رہتی ہیں۔ غیر مانوس الفاظ کا استعمال ہوتا ہے اور بھونڈی تراکیب وضع کی جاتی ہیں ۔  (۵ )  ان کی یہ مایہ ناز تصانیف ادب وفن کے ادنیٰ معیار پر بھی پوری نہیں اترتیں۔ پھر بھی ہم چنین دیگر ے نیست کے نشہ میں سرشار ہیں۔ اپنی ٹوٹی پھوٹی کارگزاریوں سے مطمئن اور شاد ہیں۔ ان پر یوں اتراتے ہیں جیسے وہ عدیم المثال ہوں اور اگلے پچھلے سبھی کارناموں پر بھاری ہوں۔ خرابیاں اور بھی ہیں ان خرابیوں کے سواء مگر ان کا ذکر ہم یہیں موقوف کرتے ہیں۔
 
ان سطور کے قلم بند کرنے کے پس پردہ میرا منشاء کسی کی دلآزاری کا نہیں ہے۔ نہ کسی شاعر وادیب یا نقاد ومحقق کے مقام اور مرتبے میں کمی کرنا مقصود ہے۔ یہاں میں نے کسی استاذ فن وادب کے کسی کام کاتجزیہ نہیں کیا ہے۔نہ یہ میرا محاکمہ ہے نہ میں اس کا اہل ہوں۔ میں نے ادب میں درآنے والی خرابی ٔ بسیار کی صرف نشاندہی کی ہے۔ زبان وادب سے محبت کا دم بھرنے والوں، خدمت ادب کا دعویٰ کرنے والوں، عزیز واقارب کی (ناحق) ’ فیض رسانی، کرنے والوں اور اردو کو اپنی ذات وشخصیت کو بلند کرنے کی خاطر آلۂ کار بنانے والوں نیز شعروادب کوبطور کاروبار استعمال کرنے والوں کوآئینے کے سامنے کردیا ہے۔ پھر ایسا بھی نہیں کہ مذکورہ ساری خرابیوں کا اطلاق زبان وادب سے جڑے سبھی افرادپر ہوتا ہے کچھ مستثنیات بھی ہیں۔ تاہم کثیر تعداد ایسے ہی افراد کی ہے۔ جائز وناجائز اور حق وناحق کامحاسبہ اور محاکمہ زمانے کا کام ہے۔ وقت بڑامنصف ہے۔ وہ دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی کردے گا۔ جیساکہ ماضی میں مومن اور غالب کے معاملے میں ہوا ہے اور آئندہ ہوتا رہے گا۔ ’فیض رسانی‘( جس کا میں  نے یہاں ذکر کیا ہے) کے ذریعہ جو حق تلفیاں ہورہی ہیں وہ ایک دن حق بہ حق دار رسید میں بدل جائیں گی، کھرا اور کھوٹا ، معیاری اور غیر معیاری سب کی پرکھ ہوگی۔ خود رو اور رطب ویابس قسم کی چیزیں از خود کنارے لگ جائیں گی۔ تمنا ہے  اور توقع ہے کہ انہیں خس وخاشاک کے درمیان سے کوئی شاہ کار ہویدا ہوجائے گا اور ادب کا کارواں بڑھ چلے گا!
 
رکھیو غالبؔ مجھے اس تلخ نوائی میں معاف
آج کچھ درد میرے دل میں سوا ہوتا ہے
 
----------------
 
حواشی
 
(۱) جس کی قلعی رضا نقوی واہی نے کھولی ہے۔ ان کا شعر ہے
کس نے تحقیقی مقالہ لکھا کس کے نام سے
کون دلّی جاکے پوچھے مالک رام سے
 
(۲) اس امر کی وضاحت مضمون بعنوان ’’ اردو زبان کی بقا کا مسئلہ‘‘ میں راقم الحروف قبل کرچکا ہے۔
 
(۳) یہاں یہ امر قابل ذکر ہے کہ غالب نے دیوان ترتیب دیتے وقت اپنے کم عیار اشعار حذف کردئے۔ اور صنف مرثیہ میں
 
طبع آزمائی سے یہ کہہ کر گریز کیاکہ یہ میرانیس اور دبیر کا حصہ ہے۔
 
(۴) یہاں یہ بتاتا چلوں کہ کچھ صاحبان کی کتابوں کی تعداد سو سے تجاوز کرچکی ہے، ان کتابوں کا وزن ان کے اپنے وزن سے زیادہ ہے۔
 
(۵) اس جدید نقس ادب (جس کا چلن عام ہے ) پر گفتگو کسی اور وقت کے لئے اٹھا رکھتے ہیں۔
 
 
RASHIDAHMAD
Chand Nagar Colony
Phulwari Sharif Patna - 801505
 
٭٭٭
Comments


Login

You are Visitor Number : 1504