donateplease
newsletter
newsletter
rishta online logo
rosemine
Bazme Adab
Google   Site  
Bookmark and Share 
mazameen
Share on Facebook
 
Literary Articles -->> Adbi Gosha
 
Share to Aalmi Urdu Ghar
Author : Dr. Syed Abdullah
Title :
   Alfaz Ki Kahani

 

الفاظ کی کہانی
 
ڈاکٹر سید عبد اللہ
 
الفاظ کیا ہیں؟ اشیاء، اسما، حالتوں اور کیفیتوں کے آئینے ہیں۔ جب انسانی عمل ان میں ربط پیدا کرتا ہے تو یہ آئینے مل کر معانی کا ’’چراغاں‘‘ بن جاتے ہیں۔ زیادہ علمی زبان میں انھیں معانی کی علامتیں کہا جا سکتا ہے۔ ان علامتوں کی مدد سے انسان اظہار و ابلاغ کرتا ہے۔
 
الفاظ کی کہانی انسانی ارتقا کی کہانی ہے……. الفاظ کی تاریخ ہر ملک میں اپنے سماجی ماحول کے تابع رہی ہے، اس ماحول میں الفاظ نے جنم لیا، نشوونما پا کر جوان ہوئے، پھر پھلے پھولے اور حوادث و واقعات کے تحت لیل و نہار کا شکار ہو کر کبھی مضمحل و بیمار ہو گئے، کبھی بالکل مر گئے…… فقرے اور عبارتیں الفاظ کے طویل سلسلوں پر مشتمل ہوتی ہیں…….. عبارتوں میں الفاظ ہی جان ڈالتے ہیں اور مختلف قسم کے جذبات و خیالات کی تصویر بن جاتے ہیں۔اس لحاظ سے الفاظ کی قیمتیں کئی انواع میں بٹ جاتی ہیں۔ یہ قیمتیں جذبات و خیالات کے حوالے سے مقرر ہوتی ہیں اور اس بنیاد پر الفاظ کی کئی قسمیں بن جاتی ہیں۔ بعض الفاظ جذبات کی آئینہ داری کرتے ہیں، ان میں قلب انسانی کی مختلف حالتوں کا عکس ہوتا ہے۔ بعض الفاظ تصویر دار ہوتے ہیں، یعنی ان میں خارجی کائنات کی تصویریں ہوتی ہیں اور بعض الفاظ ایسے ہوتے ہیں جن کی قیمت ان کی آواز کی وجہ سے مقرر ہوتی ہے۔ یہ گاتے بجاتے الفاظ جب عبارتوں کی صورت اختیار کرتے ہیں تو اس سے موسیقی پیدا ہوتی ہے۔میرتقی میر کے بارے میں کہا گیا ہے کہ وہ الفاظ چرب و شیریں کا بادشاہ تھا۔ چرب سے مراد وہ الفاظ ہیں جو جذباتی قیمت رکھتے ہیں اور شیریں سے مراد وہ الفاظ ہیں جو صَوتی قیمت رکھتے ہیں۔ مجرد معانی کے لیے بھی الفاظ کی خدمت حاضر ہے۔ علم و حکمت کی زبان الفاظ کی ایک مستقل دنیا ہے جن کے مابین منطقی ربط ایک فکری خیال کو جنم دیتا ہے۔پہلے عرض کیا جا چکا ہے کہ الفاظ مرتے بھی ہیں اور مرتے تب ہیں جب ان کا استعمال ترک ہو جاتا ہے۔ الفاظ ایک زندہ سلسلہ ہے، لفظوں میں، ماحول اور زمان و مکان کے ساتھ تبدیلیاں ظہور میں آتی رہتی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ایک ہی لفظ کے مختلف ادوار میں مختلف معنی نظر آتے ہیں۔ عربی کا لفظ عیش، ابتدا میں محض معنی زندگی استعمال ہوتا تھا۔ پھر جب عربوں پر خوش حالی کا دور آیا تو اس میں خوش حالی کا مفہوم شامل ہو گیا، یعنی عیش سے مراد خوش حالی کی زندگی ہوئی۔رفتہ رفتہ خصوصاً فارسی، اردو تک پہنچتے پہنچتے لفظ عیش نہ صرف خوش حالی بلکہ پُر تکلف زندگی اور شوقِ فضول کا مترادف ٹھہرا۔ اب عیش کے ساتھ عشرت کا لفظ ملا لیا جاتا ہے اور یہ بے لگام زندگی کا قائم مقام ہے۔ لفظ’’خان‘‘ کو دیکھیے۔ اس کا عروج و زوال بذات خود عبرت کی کہانی ہے۔ خان کسی زمانے میں قبیلے کے رئیس اعظم یا سلطانِ وقت کا لقب ہوا کرتا تھا۔ چنگیز اپنے زمانے کا خان تھا۔
 
پھر اس کے شہزادوں نے یہ لقب اختیار کیا۔ اس کے بعد ایک زمانہ ایسا آیا جب بڑے بڑے عمائد و امرا کے لیے مخصوص ہوا۔ مگر بڑی سلطنتوں کے زوال کے ساتھ اس کا رتبہ گرا، اس کا اطلاق ہر سرکاری عہدے دار پر ہونے لگا اور اب آخر میں ایک خاص قبیلے کے ہر فرد کے نام کا لاحقہ ہے، بلا امتیاز۔ لفظوں کے بیمار اور مضمحل ہونے کا قصہ اور بھی دلچسپ ہے۔ یہ بیماری دراصل بچارے لفظوں کی نہیں، ان کے بولنے والوں کی ہے۔جب معاشرہ بگڑ جاتا ہے تو اس میں شریف اور بااخلاق الفاظ، غلط یا بالکل الٹے معنوں میں استعمال ہونے لگتے ہیں۔ لفظوں میں منافقت پیدا ہو جاتی ہے وہ اظہار کا ذریعہ نہیں رہتے، اخفا کا وسیلہ بن جاتے ہیں۔ اثباتِ حقیقت نہیں کرتے، اخفائے حقیقت کرنے لگتے ہیں۔ اہلِ مغرب جس زبان کو ’’ڈپلومیسی‘‘ کی زبان کہتے ہیں، اس میں لفظوں کے دو دو معنی ہوتے ہیں، ان سے بہت بڑا کام لیا جاتا ہے۔ یہ وعدوں سے مکر جانے کی زبان ہے۔مگر بعض اوقات لفظ بے چارے خود دھوکا کھا رہے ہوتے ہیں۔ بولنے والے شریف الفاظ کو دھوکا دیتے ہیں، اچھے الفاظ استعمال کرتے ہیں اور دل سے ان کو خود تسلیم نہیں کر رہے ہوتے۔ تہذیب، اخلاق، دین اور مذہب سے متعلق لفظوں کی یہ حالت ہو جاتی ہے کہ ان کا استعمال قلب کا ہم قدم نہیں ہو پاتا۔ بعض اوقات شریف الفاظ کی شرافت ہی سے انکار کر دیا جاتا ہے۔ سچائی، وفاداری، حیا، تواضع، حقیقت جیسے الفاظ سے ان کا اصلی سرمایۂ معنی ہی چھین لیا جاتا ہے۔
 
فرانس کے نیم رومانی، نیم مجہول ادب پر یہی گزر رہی ہے اور بعض اشتراکی معاشروں میں پرانی شریفانہ اقدار کو جاگیردارانہ اقدار کہہ کر ان سے متعلق الفاظ کی حقیقت ہی سے انکار ہو رہا ہے۔ خیر اور شر، نیکی اور بدی، صلہ رحمی اور انسانی ہمدردی جیسے الفاظ کی کایا پلٹ ہو گئی ہے۔ سیاست اور اس کی امدا دی سائنس نے جس طرح لفظوں کا خانہ خراب کیا ہے اس کا حال قابلِ گریہ ہے…… اور اس کے ردِ عمل کے طور پر بیمار فلسفوں نے ہر شریف لفظ کو اتنے دھکے، مکے رسید کیے ہیں کہ اب یہ الفاظ نیم جان ہیں۔ فاشزم کی زبان ساری بیمار زبان ہے کیونکہ اس کے الفاظ کی اخلاقی صحت بگڑ چکی ہے۔علامتی ادب میں الفاظ بعض ذہنی، نفسیاتی اور روحانی کیفیتوں کا نشان بن جاتے ہیں…… لیکن یہ بھی بولنے والے، لکھنے والے پر منحصر ہے۔ وہ لکھنے والے جو خود روحانی طور پر بیمار ہوتے ہیں ان کی علامتیں اور علامتی الفاظ بھی بیمار ہوتے ہیں۔ جو لکھنے والے امید اور توانائی کا پیغام دیتے ہیں ان کی علامتیں، خوشگوار اور توانا الفاظ پر مشتمل ہوتی ہیں…… ان میں رس اور قوت کے عناصر ہوتے ہیں۔ صوفیوں کی علامتوں میں وفور، ثروت اور لا انتہائیت ہوتی ہے کیونکہ وہ اس ذات کی نشاندہی کرتے ہیں جو کہیں افق کے پار ہے۔غرض الفاظ کی دنیا عجائبات کی دنیا ہے…… رنگا رنگ، خوش آہنگ، نرم و نازک، توانا اور طاقتور…… کمزور اور صحت مند، شریف اور منافق……. عہد کے پکے اور عہد کے بودے، مستقل اور خانہ بدوش…….، داستان در داستان……. ایک ایک لفظ کو لیجئے، صدیوں کی کہانیاں بیان کرتا جائے گا۔ ادھر شعرا اور حکما کا ایک گروہ ایسا بھی ہے جو لفظوں سے مطمئن نہیں۔ انھیں ناکافی اور نارسا مانتا ہے اور خاموشی کو گویائی پر ترجیح دے رہا ہے۔ چنانچہ نظیری نے کہا۔ ؎ ’’خموشی معنیٰ دارود کہ در گفتن نمی آید‘‘
اور معاصر شاعر حقی نے تو یہاں تک کہ دیا:
’’حرف رسوا ہوئے صدا بن کر
آبرو رہ گئی اشاروں کی‘‘
+++
 
Comments


Login

You are Visitor Number : 995