donateplease
newsletter
newsletter
rishta online logo
rosemine
Bazme Adab
Google   Site  
Bookmark and Share 
mazameen
Share on Facebook
 
Literary Articles -->> Adbi Gosha
 
Share to Aalmi Urdu Ghar
Author : Ejaz Farrukh
Title :
   Kise Khabar Pase Deewar Kya Guzarti Hai

اعجاز فرخ

کسے خبر پسِ دیوار کیا گذرتی ہے 


حیدرآباد کے موسم ، تہذیب ، کل اور آج 


مجھے جانے کیوں یہ خیال آیا ہے کہ حیدرآباد کی تہذیب یا یوں کہوں کہ تہذیبی تاریخ پر چند صفحات لکھ دوں کہ ،  شاید آجائے کوئی آبلہ پا میرے بعد ، اور وہ اسے مکمل کردے ، لیکن میں یہ بھول گیا کہ تاریخ کو محفوظ کرنا ایک نہایت دیانت دارانہ کام ہے تاکہ ہر گذرے ہوئے پل کے واقعے کو محفوظ کیا جاسکے ۔ اور ساتھ میں یہ بھی کہ زاویۂ نگاہ کیا ہو ۔ میری نظر میں غیر جانبداری کی اصطلاح ہنوز مبہم ہیکہ کون شخص کس مسئلہ میں کس حد تک غیر جانبدار رہ سکتا ہے ۔ شعوری جانبداری ضروری نہیں کہ غیر شعوری جانبداری بھی ہو ۔ ا سلئے کہ کبھی کبھی لاشعوری جانبداری ، شعوری جانبداری سے زیادہ اثر انداز ہوتی ہے جس کی وجہ سے تاریخ من و عن منتقل نہیں ہوپاتی ۔ کبھی کبھی وقت کے تئیں رجحانات کے زیر اثر ، بے باک تاریخ نویس خود کو غیر محفوظ محسوس کرتا ہے اور یہ احساس عدم تحفظ اسے گریز آمادہ کردے تو کئی لمحات کی کڑیاں بکھر جاتی ہیں اور قیاس ، وہم و گمان کی اساس پر اسے جوڑ کر مربوط کرنا تاریخ کا فریب تو ہوسکتا ہے حقیقی تاریخ نہیں ۔ ماضی کے دامن میں کھوئے ہوئے لمحات کی تلاش خود وقت کے کھنڈرات میں کھدائیوں کے بعد برآمد کردہ لمحات کے خورد بینی مشاہدے کا تقاضہ کرتی ہے۔ اسی دوران بعض وقت بکھرے ہوئے سالمات کو جب جوڑا جاتا ہے تو جو کہانی ترتیب پاتی ہے اسے نہ صرف انہماک سے سنا جائے بلکہ کہیں کہیں کسی شکستہ لہجے کی سرگوشی ،آواز سے زیادہ اہم ، دلگداز اور کئی ابواب کے کھولنے کی کلید مہیا کرتی ہے ، جن کے کھل جانے سے اس دور کے کئی کردار اگر حنوط شدہ برآمد ہوتے ہیں تب درِ زنداں کے کھل جانے سے وقت کی محبوس ہوا سچ بیان کرنے پر مجبور بھی ہوجاتی ہے ۔ وہ افراد جو شجرہ بدل کر یہ سمجھتے ہیں کہ ماضی دفن ہوگیا ، وہ اس حقیقت سے ناآشنا ہیں کہ کاغذ پر شجرہ بدل دینے سے نفس کی حقیقت نہیں بدلتی ۔ وفاداریاں ، سچائیاں اور شرافت شجرہ کی رہین منت نہیں ہوتیں وہ تو اظہار نفس کی علامت ہے ۔ 


حیدرآباد کو دیکھئے اور ان لمحوں کی کیفیت کو محسوس کیجئے کہ جو لمحہ خاموش ہے وہی تکلم کا لمحہ ہے ، جو لمحہ اداس ہے وہ تمدن کا لمحہ ہے ،  جو لمحہ آزردہ ہے وہی تہذیب کا سنولایا ہوا چہرہ لئے بیٹھا ہے ۔ وقت کے بطن سے جو لمحے بازیافت ہوئے ہیں ، ان میں ہر لمحے کی ایک الگ تاریخ ہے ، ہر لمحہ میں کئی کئی داستانیں پنہاں ہیں ۔ یہ لمحے کتنے قیمتی ہیں ان کا اندازہ تو کوئی وقت کا پارکھ ہی لگا سکتا ہے ۔ حیدرآباد میں نہ کشمیر کا حسن نہ بنگال کی زلف کا جادو ، نہ بنارس کی صبح کا جھٹپٹا ، نہ اودھ کی شام کا سرمہ ، لیکن اس کے باوجود اسے قدرت نے وہ حسن جہاں سوز عطا کیا تھا کہ اسے دیکھ کر کسی کی انگلیاں چکوترا تراشتے تراشتے انگشت تراش ہوئی ہوں  نہ ہوئی ہوں ، لیکن لمحہ بھر کیلئے چپ ضرور لگ گئی اور یہی چپ حیدرآباد کے حسن کو خراج ہے ۔ 


تہذیب میں یکساں رچاؤ تھا ۔ رہن سہن ، لذت کام و دہن ، پہناوا ، شادی بیاہ ، غم ، خوشی ، رسم ، رواج ، جتنے بھی لوازمات زندگی تھے سب کی قدریں مشترک تھیں ۔ غربت اور امارت کے درمیان زمین آسمان کا فرق سہی ، لیکن تہذیب نے دونوں کو باہم رکھا ۔ امراء کے گھروں کی آرائش و زیبائش تو آپ پڑھ ہی چکے غریب کے دروازے پر بھی ٹاٹ کا پردہ اس میں پیوند سہی ضرور ہوتا تھا ۔ جانے کس نے یہ کہدیا ہو کہ حیدرآباد نگینہ اندر مٹی اوپر چونا اگر بند مٹھی اور لاکھ کا بھرم اسی کو کہتے ہیں تو سچ ہی کہا تھا لیکن میں یہ کہوں کہ حیدرآباد میں یہ رواج نہیں تھا کہ ٹاٹ میں مخمل کا پیوند لگایا جائے ۔ اس لئے کہ اہل حیدرآباد کویہ پتہ تھا کہ ٹاٹ میں مخمل کا پیوند تو اندھے کو بھی دکھائی دیتا ہے لیکن ٹاٹ میں ٹاٹ کا پیوند بھی ہر بینا کو نظر آجاتا ہے ۔ جو بات عیب نہیں اسے ڈھانکنے سے کیا حاصل ۔ پیوند لباس میں ہو توعیب نہیں کردار میں ہو تو معیوب ہوجاتا ہے اور یوں بھی دامن پیچھے سے چاک ہو تو تقوی ہے آگے سے چاک ہو تو گناہ ہے ۔ 


میرے لڑکپن تک اصلی ساگوان کا تخت زیادہ سے زیادہ دس روپیہ میں مل جاتا تھا ۔ تخت سے تخت جوڑ کر اسے وسیع اور عریض کردیا جاتا تھا اور اس پر سفید  فرش وہ زیب و زینت دے گیا کہ اس تخت کے آگے تاج محل کے چبوترے کی حیثیت کیا ہے کہ آخر کو وہ ایک قبرستان ہے اور یہ تو گھر ہے ۔ گھر اور قبرستان میں تو فرق ہوتا ہی ہے اور اس پر وہی پاندان وہی کریم نگر کی جالی والی پان کی ڈبیہ میں سلیقے سے رکھی ہوئی زمردی گلوریاں کہ گویا جالی کے پیچھے سے زمرد کی آب و تاب کی چھوٹ چلمن کے پیچھے جھلک دکھلا کر چھپ جانے والے ڈوپٹے کی یاد تازہ کردے اور دل میں ایک ہوک سی اٹھ جائے ۔ 


موسم تو موسم ہے ۔ غذائیں ، پہناوا ، رنگ سب کا سب موسم کے اعتبار سے تھا ۔ ویسے بدن کا موسم اور ہے شہر کا موسم اور ۔ بدن پر بہار کا موسم ہو اور ہمدم و ہم نفس کا ساتھ ہو تو کڑی دھوپ میں ببول کی شاخ کا سایہ جیسے سایہ شاخ گل کے تلے پھر کوئی قصہ چھیڑ دے اور گلستاں کی خنکی کوپیچھے چھوڑ دے ۔  بدن پر موسم خزاں ہو اور پھر تنہائی ہو ،اس موسم میں تو گلشن بھی ببول بن ہوجائے کہ جہاں ایک کانٹے کی کسک سیر بیاباں کا سامان کردے ۔ ایسے میں سایۂ دیوار تو کجا خود اپنا سایہ ساتھ چھوڑدے تو موسم سے کیا شکوہ ۔ گذشتہ حیدرآباد میں فصلی سال کا رواج تھا ۔ وہ مہینے کچھ یوں تھے ۔ آذر ، دے ، بہمن ، اسفندار ، فروردی ، اردی بہشت ، خورداد ، تیر ، امرداد ، شہریور ، مہر ، آبان ، آپ اسے یوں سمجھ لیجئے کہ فروردی اور فبروری  ایک تھے ۔ اردی بہشت مارچ ، خورداد اپریل ۔ اور تیر تو رخصت بہار یعنی مئی کا مہینہ ہوتا تھا  ۔امرداد کو ساون کہہ لیجئے اور شہریور کو بھادوں ۔ فروردی کی آمد آمد ہوئی اور مٹی کی کوری صراحیاں ، گھڑے اور رنجن بدل دئے جاتے تھے ۔ کوری کوری صراحیاں جب پہلے پہل پانی کا چھینٹا پاتیں تو صراحی کے کنوارپن کی مہک کو حوریں بھی اپنے پیرہن میں سمیٹ لے جاتیں کہ آخر کنوارپن کی مہک انھیں بھی تو چاہئے نا ! ۔ ایک تو کوری صراحیوں کی ٹھنڈک اور اس پر طرفہ حیدرآباد کا پانی ۔ جن کے دلنعمتوںپر شکر خدا کرتے ہیں اور ہر آن دل ہی دل میں دہراتے ہیں کہ تم اپنے رب کی کس کس نعمت کو جھٹلاؤگے ، انھیں تو کوثر کا مزہ اسی دنیا میں چکھا دیا جاتا ۔ پانی کی وہ ٹھنڈک اور شیرینی کہ دو گھونٹ جھم جھم کرتے چاندی کے کٹورے سے ابھی گلے کے نیچے نہیں اترے کہ ٹھنڈک کی ایک لکیر کلیجے تک کھنچ گئی ۔ سہ پہر کے بعد ادھر سورج کا چہرہ اترا نہیں کہ مٹی کے آنگن میں پانی کا چھڑکاؤ ہوگیا ۔ دن بھر کی پیاسی زمین کو دو بوند پانی کی تری کیا لگ گئی کہ زمین کے مسامات سے دھانی بھاپ اپنے وجود کی خوشبو لے کر اٹھی اور مشام جاں کو معطر کرگئی ۔ یوں بھی حیدرآباد کی شام جب انگڑائی لے کر اٹھتی تو مسامات سے جو دھانی بھاپ اٹھتی تھی اسے آپ چادر گل کا شامیانہ بھی کہہ لیجئے ۔ 


باندھ کی اکہری چارپارئیاں صحن میں بچھا کر ان پر چھڑکاؤ کردیا جاتا تو باندھ یوں کس جاتی جیسے ستار کا تار ، جیسے برہن کی جوانی ۔ ان پر ہلکی دریاں اور سفید چادریں ڈال کر آنگن ہی سے چنی ہوئی موتیا اور موگرے کی کلیاں ڈال دی جاتیں ۔ شاخ سے الگ ہونے کا غم کلی کو شاید پل بھر بھی نہ رہتا ہو کہ ہوا اپنی آغوش میں سمیٹے آہستہ آہستہ یوں چومتی کہ پنکھڑیوں کا خم پھول کی وہ انگڑائی ہوتی جیسے پورے بدن کی نس نس کھنچ گئی ہو ۔ ایسے میں رگِ گل کی زیبائی ، دیدہ بازوں کی نگاہوں کو بھی مخمور کرجاتی ۔ آنگن میں موتیا ، موگرا ، ہی کیا جوہی ، چنبیلی ، گلاب ، لالہ ، نسترن سب ہی کے پودے ہوتے اور اپنے اپنے موسم کے ساتھ بہار کی سوغات دے جاتے ۔ رات کی رانی خال خال وسیع آنگنوں والے گھروں میں ہوتی تھی ۔ نہ جانے یہ خیال کیسے دل میں گھر کر گیا تھا کہ رات ڈھلے رات کی رانی سے سانپ لپٹا رہتا ہے اور خوشبو کا اسیر کسی شاخ گل پر اپنا پھن رکھے پوپھٹنے سے پہلے تک مست و بے خود رہتا ہے ۔ نہیں معلوم خوشبو کو سانپ سے ڈسوانا اچھا لگتا ہے یا سانپ خوشبو کو ڈس کر بیخود ہوجاتا ہے ، لیکن صبح کی پہلی کرن سے پہلے رات کی رانی کو مخمور و بے سدھ چھوڑ کر چپکے سے رینگ کر کہیں نکل جاتا ہے ۔ یہ خیال سچ ہو یا وہم ، سانپ اور خوشبو کا رشتہ بہت پرانا ہے ۔ خوشبو نہ ہو تو سانپ کیا ہے اور سانپ نہ ہو تو خوشبو کیسی ۔ ویسے رات کی رانی ہوتی عجیب ہے ، کھلی کسی کے آنگن میں تو مہکی کسی کے آنگن میں اور وہ بھی ہوا کی طرح ہوا مزاج کہ کبھی کسی کے آنگن کو مہکا گئی تو کبھی نکہت باد بہاری کی طرح اٹکھیلی کربیٹھی ، کسی ملبوس کے پیرہن کو چھو کر گذر گئی تو کسی کو کچی نیند سے جگا کر آنکھوں میں یادوں کے چراغ جلادئے ۔ بہرحال وہ کہیں ہو موسم گل کئی آنکھوں میں اتر آتا ۔ 


صبح صبح کبوتر کابکوں سے دانہ چگنے کیلئے آنگن میں اتر آتے تو نہ جانے کیوں گردن اکڑائے پہلے حوض کی منڈیر پر بیٹھے بیٹھے پانی میں دو چار بار پر پھڑپھڑاتے تب کہیں جوار ، باجرہ ، چنا چگتے ۔ جدھر زیادہ دانہ بکھرا ہوتا کبوتری ادھر کا حصہ چھوڑ کر اپنے لئے ذرا ہٹ کر دانہ دنکا چگ لیتی ۔ خود ایک دانہ چگتی تو رک کر اسے دس دانے چگتا دیکھتی ۔ اور پھر ایک آدھ دانہ چگ کر رک جاتی ۔ وہ نرموہا جب گردن پھیلائے چگ کر پانی پی لیتا تو یہ بچے کھچے میں سے دوچار دانے اور چگ لیتی ۔ ملک ملک میں ہندوستان اور ہندوستان میں حیدرآباد ہائے رے وفاشعاری اور اس مٹی کا خمیر ۔ یہاں تو دشمن کی بھی بے بسی اور تنہائی نہ دیکھی جائے ہے ۔ جانے لوگ دوستوں سے بھی کیسے بے مہری کرلیتے ہیں ۔ حیدرآباد کی نفرتوں میں جتنی محبت تھی ، حیدرآباد کے سوا محبتوں میں بھی شاید اس سے زیادہ نفرت اور منافقت پائی جاتی ہو ۔ 
گھروں میں جھٹپٹے سے پہلے ہی مٹی کے تیل کے چراغ ، دیوار گیریاں ، یکے صاف کرکے دالان کے کنارے رکھ دئے جاتے تھے ۔ اد ہر شام کی زلف کھلی اور ادھر چراغ روشن اور مراد حاصل کی مانند مائیں چھوٹے بچوں کو کلمہ، درود ، نادعلی اور دعائیں یاد کرواتی تھیں اور دعا کیلئے اٹھے ہوئے معصوم ہاتھ صرف گھر ہی کی صحت و عافیت خیر و برکت کیلئے دعا نہ مانگتے بلکہ ہمسائے اور شہر کی سلامتی کی دعا بھی مانگا کرتے ۔ معصوم زبانیں ، بے ریا ، بے خطا دعا کیلئے اٹھے ہوئے ہاتھ آخر پروردگار کیسے جو مانگے سو نہ دیتا کہ معصومیت اس کی شان کریمی کو آواز دے اور وہ خالی ہاتھ لوٹادے ۔ 


میں آخر شب کے لمحات میں یہ تحریر آپ کے لئے سپرد قلم کررہا ہوں ۔ چراغ کی لومدھم سی ہورہی ہے ۔ میں کہاں تک لکھوں کیا کیا لکھوں ۔ عبدالحلیم شرر حیدرآباد میں تو رہے لیکن حیدرآباد کو کوئی شرر نہ مل سکا ورنہ ساری تہذیب محفوظ ہوجاتی ۔ میرے پاس نہ رازق الخیری کی زبان ، نہ قاضی عبدالستار جیسی منظر نگاری کا فن ، نہ ضمیر حسن دہلوی کی نوک قلم ، نہ آغا حیدر حسن کی ندرت زبان میں ادب ناآشنا ، علمی ناداری میری دامن گیر ، ہنر بے ہنری میں یکتائے روزگار۔ جس شہر کے چہرے روشن تھے آج ان کے اندر اندھیرا ہے ، شہر کو سنگاپور کے طرز پر سجانے کے شوق نے راستے تو روشن کردئے مگر من کے دئے بجھ گئے ۔ کسی زمانے میں اس دور کا ایک بچہ ماں کے پیٹ چیر کر نکالا گیا تھا تو اس کا نام ہی ’’سیزر‘‘ رکھ دیا گیا تھا کہ یہ غیر فطری پیدائش نام کے ساتھ یادگار رہ جائے ۔ آج سیزیرین ولادت معمولات سے ہے اور فطری ولادت حیرت کا باعث بلکہ فیشن کے خلاف تصور کیا جاتا ہے کہ اپنی پسندیدہ تاریخ اور وقت کے اعتبار سے بچے پیدا کرکے oxygen tent میں رکھا جائے کہ سانس لینے کی راہ ہموار ہو ۔ بچہ ٹیلی ویژن پہلے دیکھتا ہے اور بعد میں ماں کا چہرہ ۔ پہلے مائیکل جیکسن کا انگریزی گیت سنتا ہے پھر اذان ۔ پہلے انکیوبیٹر کی حرارت پاتا ہے پھر ماں کی گود کی گرمی ویسے ان فرسودہ چیزوں کی ضرورت بھی کیا ہے جبکہ دوسرے دن اسے ڈبہ کا دودھ پینا ہے ۔ اور ایک مہینے کی عمر سے کریچ میں پلنا ہے ۔ تین سال کی عمر سے ہاسٹل میں رہنا ہے ۔ اور دس سال کی عمر سے پہلے ’’تارہ زمین کا بن جانا ہے‘‘ ۔ اب ہماری طرح بچے جگنو پکڑ کر اپنے دامن میں چھپا کر رم جھم رم جھم کا کھیل نہیں دیکھتے وہ تو کب کے اسے دن میں پرکھ کر چھوڑ چکے ۔ وہ اب تتلیاں بھی نہیں پکڑتے ۔ اب ان کیلئے تتلیوں کا مفہوم بدل گیا  ۔جب تک تتلیوں کے پیرہن الگ الگ تھے ان کے نظارہ کی عید بھی تھی ، انہیں چھونے کی خواہش بھی جب سے تتلی کو بھی یہ پتہ چل گیا ہیکہ اس کے پیرہن کا رنگ کچا ہے اس نے پیرہن کم سے کم کردیا ہے کہ جو رنگ اتر جاتا ہے اسے رکھنا کیا اور اس کا اترنا کیا ۔


کبھی اس شہر کی گوشہ گیری کیلئے بھی باظرف ہونا ضروری تھا لیکن آج تو بس یہی کہا جاسکتا ہے کہ 

انیسؔ اب تو ہلال و بدر کا ہے مرتبہ یکساں
گھٹادی ناقصوں نے منزلت صاحب کمالوں کی

میری یہ تحریریں گریۂ میرؔ سہی ۔ شہر کیلئے باعث آزار سہی ۔ گریۂ میرؔ سے  سب بیزار سہی ، لیکن 

کسے خبر پسِ دیوار کیا گذرتی ہے 

 

*******************

 

Comments


Login

You are Visitor Number : 748