donateplease
newsletter
newsletter
rishta online logo
rosemine
Bazme Adab
Google   Site  
Bookmark and Share 
mazameen
Share on Facebook
 
Literary Articles -->> Adbi Gosha
 
Share to Aalmi Urdu Ghar
Author : Hafeez Nomani
Title :
   Yaden Yaden Lahu Me Doobi Yaden

یادیں یادیں لہو میں ڈوبی یادیں


حفیظ نعمانی


ملک کی تقسیم کے بعد اُترپردیش میں صرف دو اخبار رہ گئے تھے ایک قومی آواز دوسرا کان پور کا سیاست۔ سیاست صرف وہ لوگ پڑھتے تھے جن کا کوئی نہ کوئی پاکستان چلا گیا تھا اور قومی آواز عام اردو قارئین کے اور مسلمانوں کے علاوہ پاکستان سے آئے ہوئے وہ حضرات بھی پڑھتے تھے جو شرنارتھی کہلاتے تھے اس لئے کہ ان میں سے زیادہ تعداد ان کی تھی جو اُردو کے علاوہ ہندی یا انگریزی نہیں جانتے تھے اس لئے قومی آواز واحد اخبار بن کر رہ گیا تھا۔ حیات اللہ انصاری صاحب اس کے ایڈیٹر پہلے دن سے تھے اور بانی جواہر لال نہرو تھے۔ قومی آواز کے ذریعہ حیات اللہ انصاری صاحب نے تسلیم کرالیا تھا کہ وہ عظیم صحافی ہیں وہ کانگریس کے لئے اس وقت تک سب کچھ قربان کرتے رہے جب تک وہ ایڈیٹر رہے۔ وہ جتنے بڑے کانگریسی تھے اتنے ہی بڑے اردو کے عاشق تھے۔ ہم ان کو بہت قریب سے جانتے ہوئے بھی آج تک یہ فیصلہ نہ کرسکے کہ وہ اسلام، کانگریس اور اُردو میں سب سے زیادہ کسے مانتے ہیں۔

کل قمر گونڈوی صاحب کے ایک مراسلہ سے یہ انکشاف ہوا کہ اُن کا گونڈہ سے لکھنؤ کے مقابلہ میںزیادہ قریبی تعلق ہے یہ ہمارے اور ہم جیسوں کے لئے ایک نیا انکشاف ہے قمر صاحب نے ان کے پورے خاندان کی تفصیل لکھنے کے بعد لکھا ہے کہ میں حیات اللہ صاحب کو صرف لکھنؤ تک محدود نہیں رہنے دوں گا۔ یہ ان کا اور حیات اللہ صاحب کے بیٹے کا معاملہ ہے لیکن اس مراسلہ سے ان کا ایک اور چہرہ خاندان نوازی کا بھی سامنے آیا یہ وہ روپ ہے جو انتہائی قابل قدر ہے اور یہ بھی بڑی بات ہے کہ ہم نے آج تک اُن کے خاندان کے کسی فرد کو ان کا اچھا یا برے انداز میں تذکرہ کرتے ہوئے نہ سنا نہ دیکھا۔ حیات اللہ صاحب کے فرزند یا اُن کی بہو نے جب فرنگی محل میں حیات العلوم نام سے ایک مدرسہ کا ڈھونگ رچایا تھا تو ہم نے اس وقت سخت لب و لہجہ میں اس کی مخالفت اس لئے کی تھی کہ حیات اللہ صاحب کا تعلق چاہے فرنگی محل کے علماء سے کیسا ہی ہو لیکن انہوں نے زندگی بھر جتنا علماء اور مولویوں کو نشانہ بنایا ہے اتنا بلراج مدھوک گرو گولوالکر اور اٹل بہاری باجپئی کو بھی نہیں بنایا ہے۔ جس وقت قومی آواز ایک مینار کی طرح اکیلا اخبار تھا اسی ز مانہ سے حیات اللہ صاحب کے ریٹائر ہوجانے تک ملک میں ہر صوبہ میں بلکہ ہر شہر میں مسلمانوں پر قیامت ٹوٹی جبل پور پھر جمشید پور، رائوڑ کیلا، کلکتہ، گیا، بہار شریف، مہاراشٹر اور خدا جانے ملک میں کہاں کہاں مسلمانوں کا قتل عام ہوا اور یہ اس وقت ہوا جب ہر جگہ کانگریس کی حکومت تھی لیکن حیات اللہ انصاری صاحب اس معاملہ میں ملک کے سب سے بڑے کانگریسی تھے جن کی طرف سے کسی عالم کو بھی اس کی اجازت نہیں تھی کہ وہ مسلمانوں کی طرف سے حکومت پر تنقید کرسکے اور نہ کسی اخبار کی مجال تھی کہ وہ کانگریس کے خلاف کچھ لکھ سکے۔ اگر کسی نے زبان کھولی یا قلم چلایا تو سب سے زیادہ زہر میں ڈوبے قلم سے حیات اللہ صاحب عالم کی پگڑی اچھالتے تھے اور اخبار کی رپٹ لکھاتے تھے۔ انہیں غیرکانگریسی عالموں سے چاہے وہ کتنے ہی محترم اور معظم ہوں اتنی نفرت تھی کہ ان کی کردارکشی اور ان کی پگڑی اچھالنے کو وہ اپنا ایمان سمجھتے تھے۔ حیات اللہ انصاری صاحب کا یہ چہرہ ایسا تھا کہ اس کی وجہ سے شاید 99  فیصدی مسلمان ان سے اور ان کی وجہ سے قومی آواز سے نفرت کرتے تھے اور ہم نہیں جانتے کہ ان میں کتنے ایسے تھے جن کے ہاتھ ہر نماز کے بعد بددعا کے لئے اٹھتے تھے اور شاید یہ ان اللہ والوں کی بددعائیں ہی تھیں کہ اخبار کے اس ایڈیٹر کو جس نے اس پودے کو اپنے ہاتھ سے لگایا اور لاکھوں مسلمانوں کو کانگریس کے لئے قربان کیا خود بددعائیں لیں مگر کانگریس کو خدا کا انعام بتایا اسی کانگریس نے انہیں اس طرح ریٹائر کیا کہ دوسرے دن کے اخبار میں ایک کالمہ خبر بھی اس کے متعلق نہیں تھی کہ قومی آواز کے ایڈیٹر اب حیات اللہ انصاری نہیں رہے۔ بس ان کے نام کی جگہ عشرت علی صدیقی چھاپ دیا اس دن کے بعد حیات اللہ انصاری صاحب منافق کانگریسی ہوگئے اور انہوں نے فیصلہ کرلیا کہ اب ہر اس گالی اور بددعا کی قیمت وصول کرنا ہے جو کانگریس کے لئے کھائیں اور اسی دن حیات اللہ صاحب نے دوسرا چہرہ لگالیا۔

پھر انہوں نے بغیر شور مچائے کانگریس سے وصول کرنا شروع کیا اور اخبار کے لئے اپنی وہ قربانی جو ایک عرصہ تک ایک روپیہ مہینہ تنخواہ لے کر کی تھی اور دوپہر میں ایک خمیری روٹی اور پائو بھر دہی سے پیٹ بھرکر کی تھی اسے لات مارکر ہر طرف سے وصول کرنا شروع کیا اور اتنا وصول کیا کہ ان کے بعد ان کا بیٹا رئیس زادوں کی طرح رہے اور اسے بھی اور کچھ پڑھایا ہو یا نہ پڑھایا ہو یہ سکھا دیا کہ پیسہ کیسے کمایا جاتا ہے؟


حیات اللہ صاحب کا فرنگی محل سے کیا تعلق ہے ہمیں نہیں معلوم اور ہر کسی کے شجرہ سے واقف ہونا ضروری بھی نہیں لیکن اس بات کی ہم آخر آخر تک مخالفت کریں گے کہ ان کے نام سے ایک ایسا ادارہ قائم کیا جائے جس میںبچوں کو مولوی، عالم اور فاضل بنایا جاتا ہو، اس لئے کہ جتنی کردارکشی علماء کی انہوں نے کی ہے اور جتنے عالموں کی پگڑی انہو ںنے اُچھالی ہے اتنی صرف مسلم لیگ کے زمانے میںجناح کے پرستاروں نے کی تھی حیات اللہ صاحب اُردو کے بہت بڑے پریمی تھے لیکن بعد میں انہوں نے اردو کو بھی معاف نہیں کیا اور انجمن ترقی اُردو کی اُترپردیش کی شاخ پر غاصبانہ قبضہ کرکے بیٹھ گئے اب وہ وراثت میںان کے بیٹے کے پاس ہے۔ ہم ایک بات قسم کھاکر کہتے ہیں کہ ہماری ان کی ملاقات میں دین کی کبھی کوئی بات نہیں ہوئی۔ ہم نے کبھی انہیں نماز پڑھتے نہیں دیکھا (ہم نے نہیں دیکھا) ان کے گھر ایک دن روزہ افطار کیا لیکن وہ بیمار تھے اس لئے روزے سے نہیں تھے باقی حال اللہ جانتا ہے۔ ان کے بارے میں صرف سنا ہے کہ وہ دینی علم کے عالم بھی تھے لیکن ہر عالم کے ساتھ دشمنوں جیسا سلوک کرنے والے کے نام پر کچھ بھی ہو مدرسہ نہیں ہونا چاہئے۔ سدرت اللہ صاحب کی بیوی بھی ایک بڑے عالم دین کی بھانجی ہے انہیں کی گود کی پلی ہے لیکن وہ آئینہ دیکھ کر بتادے کہ کیا جب اسے اس کے ماموں نے رخصت کیا تھا تو کیا اس کی ماں اور بہنوں کا طرز زندگی ایسا ہی تھا؟


سال اور مہینہ تو یاد نہیں لیکن یہ یاد ہے کہ آخری بار حیات اللہ انصاری صاحب میرے (تنویر) پریس آئے۔ میں حیران تھا کہ بغیر بلائے اور بغیر کہے کیسے آگئے؟ چند منٹ کے بعد ایک کاغذ مجھے دیا کہ دو رنگ میں فل سائز یہ پوسٹر چھپنا ہے پورے پوسٹر میں مشکل سے دس لائنیں تھیں عنوان تھا ’’اُردو بھی اپنی ہندی بھی اپنی‘‘ میں نے دریافت کیا کہ یہ کیا ہے؟ فرمایا کہ آپ چھاپ دیجئے ہم نے حکم کی تعمیل کی چند روز کے بعد پیسے بھیج کر پوسٹر منگوا لیا بہت بعد میں معلوم ہوا کہ حکومت کو بلیک میل کیا تھا کہ مسلمان لڑکے ہندی پڑھنے سے انکار کررہے ہیں حکومت نے ایک موٹی رقم اس لئے دی کہ مسلمان لڑکوں کو ہندی کی طرف مائل کرنے کی مہم چلائی جائے چاہے جتنا خرچ ہو فکر نہ کریں۔ آج کل عربی فارسی بورڈ کے منظور شدہ مدارس انگلش میڈیم اسکولوں سے زیادہ آمدنی والی تجارت ہیں اس لئے فرزند ارجمند کو عربی مدرسہ یاد آیا اس لئے کہ سرکاری مدرسہ کے ناظم کے لئے ضروری نہیں کہ اس کا اپنا عمل بھی ایسا ہی ہو جیسی تعلیم مدرسہ میں دی جائے گی ایسے ہی گرُ مرحوم اپنے وارث اور اس کی شریک زندگی کو بتا گئے ہیں کہ کچھ کئے بغیر بھی دولت کمائی جاسکتی ہے۔ اللہ مغفرت فرمائے اور وارثوں کو توفیق دے کہ وہ ثواب جاریہ کے بجائے گناہ جاریہ کے لئے جدوجہد نہ کریں۔

(یو این این)

 

Comments


Login

You are Visitor Number : 750