donateplease
newsletter
newsletter
rishta online logo
rosemine
Bazme Adab
Google   Site  
Bookmark and Share 
mazameen
Share on Facebook
 
Literary Articles -->> Adbi Gosha
 
Share to Aalmi Urdu Ghar
Author : Hamida Moin Rizvi
Title :
   Adab Ki Parishan Kun Sooratehal


 ادب  کی پریشان کن  صورتِ حال


 حمیدہ معین رضوی



جو  لوگ سنجیدیدگی سے  ادب  کا مطالعہ کرتے رہتے  ہیں  انھیں  اندازہ  ہو گا  کہ اردو ادب  میں  اب  زندگی   کی   دوسری اقدار  کی  طرح ادب  کی اقدار بھی  صحت مند  بنیادوں  پہ استوار  نہیں ہیں،جیسے زندگی  میں دیانتداری  نہیں ویسے ہی  ادب  کا  بھی  حال ہے ۔اور  جیسے زندگی  میں اچھے لو گوں کی ناقدری ہوتی ہے  ویسی ہی ادب  میں ہورہی ہے، یوں تو  ہم  لوگ شاعری  کے  بہت  دلدادہ  ہیں اور جو بھی انسان  تھو   ڑی   بہت ادب  کی   شدہ بدہ  رکھتا  ہے شاعری کرنا  اپنا  فرض سمجھتا ہے۔مگر  ایسی شاعری ادب میں اضافہ نہیں ہے،

 معیار  کے بارہ  میں اب سوچنا  غیر  ضروی  تسلیم کرلیا  گیا ہے  مگر افسانہ اور  اس  سے زیادہ تنقید  کا  حال برا ہے ۔ تنقید  جس کا مقصد تخلیقی  ادب  کی تحقیق کرنا  خوبیوں اور خرابیوں  کی  وضاحت کرنا اور  بعض صورتوں میں نئے لکھنے والوں کی مثبت رہنمائی کرنا  تھا۔ اس  کا  کام واہ واہ کرنا  ہو گیا  ہے   یعنی۔تالیاں بجا نا ۔ دوسری طرف لکھنے والا  بھی دو افسانے لکھ   کر خود  کو  نہ صرف  یہ  کہ جیمز   جوائس  سمجھنے لگتا ہے بلکہ اسی آئو بھگت  کی  توقع بھی رکھتا ہے ، یا   رکھتی  ہے ۔  چنانچہ ادبی  منظر نامہ     ایک  محاذ کا منظر   پیش کر  رہا ہے  جس میں ادب  پہ  بحث  نہیں ہورہی ہے ، مثبت انداز میں ادبی کمزوریوں  پہ  بحث  نہیں ہورہی  غیر  ضروری، غیر افادی۔اور غیر متعلق  مغربی فلسفوں  پہ بے سمجھے بحث ہورہی ہے مثلاََ

ساختیات پسِ  ساختیات۔ جدیدیت بعد  ِ جدیدیت۔فاشزم ۔اور  نیا شوشہ  تعمیر  شکنی ۔بغیر سمجھے میں اسلئے کہہ رہی ہوں ۔ کہ اردو کا ہر نقاد اس  کی  مختلف توجیہ اور تشریح پیش  کر  رہا   ہے۔ تھو ڑ  ا  بہت علم مجھے بھی  ملا ہے  میں نے بھی  یہ فلسفے پڑھے ہیں ۔آپ  بھی  خود  پڑھ سکتے ہیں اورگزشتہ برس عمران  بھینڈر  کی کتاب   فلسفہ   ما  بعدِ جدیدیت اردومیں بھی آگئی ہے، مزید سمجھنے میں مدد مل سکتی ہے اگر انگریزی  کے بجائے اردو میں  پڑھا جا  ئے  تو شاید  زیادہ  یا واقعی  سمجھ میںآجائے  ۔ مگر  یقین  مانئے  اس کا  ہمارے ادب  سے  نہ کوئی  تعلق ہے  نہ   یہ  اسکی ارتقا  میں معاون۔سوائے اسکے  کہ  مجھ جیسے  لوگوں  پہ  رعب ڈالا  جاسکتا ہے۔ اور صرف اس  مقصد  کے  لئے نقاد  وقت  ضائع کر   رہے ہیں

تو  سوال  میں نے  یہ اٹھا یا  ہے  ادب  کی اس صورت  حال کی  وجہ کیا ہے؟ میرے خیال  میں اسکی  دو  وجو ہات  ہیں

(۱) ترقی پسندتحریک  سے  وابستہ نقادوں نے مارکسی تنقید کو سمجھ  کر  آگے بڑھا یا   تھا   

اسلئے  انھوں نے  ہمارے لئے تنقید  کا وافر سرمایہ چھوڑا اب ان میں سے اکثر  نے دنیا  چھوڑ دی  اور باقیات  نے اد ب کا میدان  چھوڑ  دیا۔

انکے مقابل گر وہ کے قائداعلیٰ  ڈاکٹر نارنگ  ہیں ۔انھیں گذشتہ تیس برس کا ادبی  سرمایہ  نظر   ہی  نہیں آتا  پھر وہ  بہت  بڑے انسان  بھی  ہیں اوراہم  بھی ۔اسلئے وہ  ساختیات کی تھیو  ری  میں الجھے  رہے اور افسانوی ادب  جیسی معمولی  شے  کو دیکھنا ضروری   نہیں سمجھا۔ضرورت بھی کیا  تھی جبکہ انگریزی  فلسفیوں کا  نام  لے  کر ایسا  رعب  پڑتاہے  کہ   اوارڈ مل سکتا ے   آج کل ہر چیز  کا تعین مانگ اور رسد  کے قوانین سے ہو تا ہے لہٰذا     ۔؟
دوسری  طرف  جناب شمس  لرحمٰن  فاروقی  ہیں وہ  بھی بہت  بڑے نقاد  ہیں ڈاکٹر  نارنگ  سے کم  نہیں ۔ وہ جدیدیت ۲

کے مذ ہب کے پیرو کار  ہیں ۔ انکا ترویجی  رسالہ  شبخوں   بوجوہ  بند ہوگیا  ، جدیدیت  کی دوکان بڑھا دی گئی  کہ خریدار کے بغیر دوکان کا کیا مصرف ؟ اسکے  ساتھ شمس لرحمٰن  صاحب  نے  ایک عجیب اعلان   یہ کیا کہ۔ ,, ہم نے اپنے نقطہِ نظر  کی ترویج  کے  لئے لکھا ہم  (آج    کے لوگوں  کے  لئے  کیوں لکھیں ؟ نئی نسل  کے لوگ  اپنا خود  نقاد  پیدا  کریں ،،

دیکھئے اشعر نجمی کا  رسالہ اثبات۔ یہ  اعلان کرہا  ہے ۔ایک ادبی نظرئے  کے گرو  ہ کا یہ  بیان ۔ حیرتناک  ہے ۔میرے نزدیک ادب ایک مجموعی قدر  ہے ہم تو شمس  لرحمٰن  صاحب کو  ادب   کا  معمار  سمجھتے  ہیں۔ پھر الٰہی  یہ ماجرا  کیا ہے؟

میرا تمھارا۔کا رویہ  چہ معنی دارد ؟ہم ہیں تو اردو کے  ہی پرستار۔

 اسی  روئیے  کا نتیجہ افسانوی  اد ب  کا  رو    بہ  زوا  ال  ہونا ہے ۔ گزشتہ چند برسوں  میں  ناول  پہ   جو تنقیدیں لکھی گئیں ان کا انداز چبائے ہوئے  لقمے  چبانے   کا  سا ہے ۔ ناول اور افسا نہ    دونوں  کے  بارہ  میں انکے بیانئے  سے  یہ  محسوس  ہوتا  ہے کہ ۱۹۶۵؁  کے  بعد افسانے لکھے ہی  نہیں گئے ،یہ نقاد صرف پرانے  افسانہ     نگار  جن میں اکثریت  ترقی پسندوں کی ہے اور  انکے  بارہ  میں کافی مواد  موجود  ہے  وہ بھی انھیں کے بارہ  میں لکھ کر پی ۔ ایچ  ۔ ڈ ی  ۔ کی ڈگری  کے حقدار ہو رہے ہیں۔۱۹۶۰؁   اور ۱۹۷۰؁  کی دہائیوں  میں جن  لوگوں نے لکھنا شروع کیا انکو تسلیم کیا جائے  تو ان  کے بارہ  میں ذاتی تحقیق ۔ تنقید۔ تقابلی  جائزہ   اور  متوازن  رویئے  کی ضرورت ہے   لہٰذا   بہتر   سمجھا  جا تا ہے  کہ  انکا  ذکر  نہ  کیا جائے ۔ مضحکہ  خیز  حقیقت  یہ  ہے  کہ جب کبھی  ذکر ہوتا ہے ۔ ساٹھ    اور  ستر  سال     کے  بڈھے  جنھیں لکھتے ہوئے بھی پچاس برس سے اوپر  ہو  گیا  انھیں  ,,نئے لکھنے والے کہا جاتا ہے،،جبکہ       بعض  ایسے  لوگوں کا ذکر  شدو مد  سے ہوتا ہے  جنھیں لکھتے   ہوئے جمعہ جمعہ آٹھ  دن  ہوئے ہیں،  مگر۔۔۔ان   سے نقاد اور رسالے  کو مالی منفعت پہنچنے  کی امید  ہے یوں وہ ایک دم  بڑا افسانہ  نگار بنا دیا  جاتا ہے ۔ مجھے نام  لینے کی چنداں ضرورت  نہیں اگر  آپ ادب  پڑھتے ہیں تو  آ پکو ہر  غیر صحتمند  رویئے  کاعلم  ہوگا ۔

ایسے  افسانہ نگار جو بغیر  محنت  کے بڑ ادیب بن  سکتے  ہیں انھیں  کیا  ضرورت   ہے  یہ جاننے کی کہ حقیقت  میں افسانے  کی تعریف  کیا ہے؟اور جو کچھ وہ  لکھ رہے  ہیں  کیا وہ اس  معیا ر پہ پورا اتر تا  ہے ؟آج  کا  کہانی اور افسانہ لکھنے وا  لا یہ سمجھتا  ہے  کہ جو کچھ  وہ لکھتا ہے وہ  ہی افسانہ ہے، ۔۔۔۔۔,,معتبر  ہے میرا فر مایا ہوا  ،،۔۔یہی وجہ ہے  کہ صرف برطانیہ  میں ہی نہیں  ہندو سان   اور پاکستان  میں جو  افسانوی ادب  لکھا جارہا  ہے معیاری  نہیں  ہے   افسانوں  میں اوسط، دو اور  دس  کی ہے۔کیوں ؟ درج  ذیل  بنیادی نکات کا خیال  نہیں رکھا جاتا
(۱)کہانی کیوں لکھی جاتی   ہے ؟ جواب  ہے محظوظ کرنے کے لئے  ۔۔  مگر قاری کوقطعی ا  ن سے حظ   حاصل نہیں ہوتا

 (۲)کہانی  کے شروع  کرتے ہوئے کس چیز  کو اہمیت دینا چائے؟   جو اب قاری   کی توجہ کو مکمل طور پہ جذب کرنے کی۔مگر آج کا افسانہ قاری کو بالکل جذب  نہیں  کرتا قاری  اذیت  سے اسے ختم  کرتا  ہے،         (۳)

(۳)واقعا  ت اور انسانی نفسیات  کو  تاریخ کی صورت منجمد کرنا  جو قا  ری   کے لئے     مانو   س  ہوں۔ایسا کم ہورہا ہے

(۴)زندگی  کے بارہ  میں ایک نقطہِ نظر کی وضاحت  کرنا اورکہانی  کو آگے بڑھاتے    ہوئے اس کی تشریح  کرنا۔

(۵) زندگی اور اسکے مسائل کو سمجھنے اور سمجھانے  کی کوشش کرنا ۔ اچھے افسانے اور  ناول  میںدرجِ ذیل خصوصیات لازمی  کہی گئی ہیں ۔      

  پر اسر اریت ۔۔۔ایسے سوالات   اٹھانا جن کے  جوابات ناول  کے آخر تک  نہ مل سکیں  ۔اور انجام  پہ ملیں ۔چھوٹے پیمانے  پہ افسانے میں  بھی  یہی کوشش  ہونی چاہئے ۔

جوابات  کے لئے اختتام  پہ  واپس ابتداء کی طرف لوٹنا ۔ اور ہر چیز کو اختتام پہ  مل جانا،
راز داری ۔ کردار  کیسے اپنے مسائل میں الجھے  اور ان سے نکلنے کے لئے کیا کرتے رہے  ؟
اچھی کہانی کی یہ پہچان  بھی بتائی گئی ہے ۔

   پلاٹ   میں ذومعنویت ہونی چاہئے  ۔کثیرلجہتی  اور پرتیں ہونی چاھئے    کہانی یا واقعات   کاالجھاوا اور کشمکش  کامیابی سے آگے بڑھنی چائے۔

 (۱)پلاٹ  مضبوط ہو نا چاہئے  ۔ پلاٹ کیا ہے؟   ایک  اچھے افسانے کی پہچان   اچھا پلاٹ ہے۔واقعات۔ انکی وجوہات،کرداروں کے  عمل ردعمل کے ذریعے دل چسپ  سوالات پیدا کئے جائیں  اورانکے قابلَ یقین جوابات پا لئے  جائیں    و اقعا ت  کی ترتیب وجوہات ونتائج کے ساتھ۔۔     جو چیز مضبوطی  سے  کہانی  کو  باندھے رکھتی ہے وہ پلاٹ ہے  ۔اس کے لئے

(۲)کردار نگاری منطقی اور انسانی ہو ۔ ایک انسان   کو   عا د تاََ  سچا دکھا کر   جھوٹا دکھانا غیر   منطقی ہے

(۳) کشمکش  پیدا ہو اور واضع کیا جائے  کہ اس  میں کس  چیز  کی جستجو ہے ۔
(۴)افسانے ۔اور ناول میں ۔واقعات  کا پھیلائو کس نوعیت کا ہے؟اس میں کتنی پرتیں ہیں کشمکش کا حل کیسے ڈھونڈا گیا ؟

(۵)تصادم۔کس نوعیت کاہے ؟اس کے نتیجے میں کشمکش کس انداز  سے    وا   قع   ہوئی  ۔کونسی قوتیں اس تصادم  کو واضع  کرہی ہیں ؟

(۶) پیدا شدہ کشمکش   سے جو مسائل پیدا ہوئے تھے کیا ان کا حل  پالیا گیا ؟یا اتنے  ۔اشارے  ، کنائے سمبل          اور  معلومات مہیا کردی گئیں  کہ   قاری انکا   حل  خود سمجھ لے؟۔۔۔ آخرِ  پہ۔انجام  پہ یہ سوال  سرے  سے ہمارے   افسانہ نگاروں میں اکثر عنقا   ہوتا  ہے کہ۔۔ کہانی  کی ابتدا  میںکرداروں  کے جوحالات  تھے وہ بد لے   یا  نہیں ۔ اگر جواب نفی  میں ہے  تو کردار ڈپٹی نذیر  احمد  کا ابن الو  قت ہے  ٹھس ۔اور  (۴)

       یہ  خصوصیت  آج کے افسانوں میں ہے  کہ  کردار جوں کے توں نظر آتے ہیں۔
 اور غیردلچسپ۔کہانی  کے  سفر میں  پلاٹ کی ارتقا ء  ہوتی ہی نہیں  اور کہانی ختم ہو  جاتی ہے؟   
  کہانی لکھنے کا عمل   خود کو سمجھنے  سمجھانے کا عمل ہے  اس کے بعد  ہی      انسان اپنے گرد  کی  سماجی کارکردگیوں اور  کار گزاریوں کو دیکھ سکتا  ہے کہ وہ کس طرح انسانوں  پہ اثر انداز  ہوتی  ہیں؟،واقعات    کی وجوہات  کیا  تھیں؟اور  کس طرح  اسکے کرداروں  نے اس صورتِ حال  کا مقابلہ کیا؟ اگر  کامیاب ہوئے تو کیسے اور اگر ہارگئے تو کیوں ؟اسی کشمکش  سے  ہی  کرداروں کے فلسفیانہ نقظہ ِ  نظر  کی  وضاحت  بھی  کی جاتی  ہے یہ کہانی  کے   کرداروں کے  ذریعے    اجاگر  کئے جاتے  ہیں  مگر۔۔ فلسفہ  کہانی  نہیں بن سکتا ۔میں یہاں  ایک  ایسی مثال  دوں  گی  جس  کا  ہر  ایک  کو علم  ہے اور  وہ ہے قرآنِ  کریم  کی سورہ یوسف۔بارہ رکوع  کی  یہ کہانی ایک مکمل ناو  لٹ  ہے ۔

ابتدا۔مسئلے ۔کشمکش ،تجسس۔

کرداروں  کا عمل رد عمل  صحیح طور پہ انجام پانا ہے۔ کہانی  میں تجسس کا عنصر مو جود ہونا  ۔ اور (یہ عنصر  خواب  اورسکے بیان  سے  شروع  ہوتاہے۔یہ بھی ہمارے  ا ٓج  کے افسانہ  نگاروں  کے فلسفے میں نہیں ہے،) متصادم قوتوں  میں غلطی  کرنے والوں  نے   قد   رت  کی طرٖ  ف سے سزا بھگتی یا نہیں  ۔یہ سزا خواہ    دنیاوی قا نون سے ملی یاتقدیر  سے، جسمانی  تھی معاشی تھی یا روحانی ۔اور اسکی منطقی  تو جیہ  کیا قا  ری پہ نمایاں ہوئی ؟یہ سب  بھی ضروری ہے جاننا اور  یہ اس  سورہ میں واضح  ہے ۔پھر کہانی  سے کہانی  نکلتی ہے ۔عورت کا عشق  دوسری عورتوں کے طعنے۔ پھر  لیموں کاٹنے  کا ،واقعہ  ،پھر انکا جیل جانا ،وہاں دوسرے  دو قیدیوں  کا خواب،اور انکی تعبیر

ایک قیدی  کا  بادشاہ  کے دربار  میں  ساقی  بننا،پھر بادشاہ کا  خواب ۔تاریخ کا  سب سے بڑا قحط،  جسکی وجہ  سے بھائیوں  کا ملک  سے نکلنا۔معاشی  حالات سیاسی حالات  انکی تبدیلی ،انجام  پہ مسائل  کو پرتوں پرتوں کھلتے  جانا۔ بھائیوں کی شرمندگی  ندامت  اور ناکامی ، یہی انکی سزا ٹھہرنا۔

زندگی  کی سماجی ، نفسیاتی، معاشرتی، مذہبی  نقطہ ہائے نظر کو سمجھنے  سمجھانے  کی  میاب کوشش۔۔کرداروں کے نقطہ ہائے نظر  میں وقت  کے  ساتھ زندہ رہنے  کی قوت ہے ؟نیزپلاٹ اور مرکزی  خیال  نے کہانی  کے ہر حصے  کو مضبوطی  سے  نقطہئِ  عروج  تک     باندھے    رکھا  ہے  او کہانی کامیابی سے انجام  کی طرف پہنچ گئیَْ ہے اس کہانی  میں حسن ، دلکشی   طرزِ تحریر  سے بڑھتی ہے  لیکن قرآن  کی دلکشی کا  تو دشمن  بھی معترف ہے  س میں تشبیہ  استعارے علامتیں اور اشارے سب کچھ  ہیں ۔                                            (۵)

جبکہ  انسانوں  کی لکھی کہانی  میںطرزانکی ذاتی محنت سے اور اسکی اپنے کرداروں سے  شدید   محبت سے وجود میں   ا ٓتی ہے  ، کہ لکھنے والا خود اپنے تخلیق کردہ  کردار  کے  ساتھ رونے لگتا ہے     فلابرٹ   کہتا ہے ,, طرزِ تحریر  زندگی  ہے یہ تخیل  کے لئے شہ رگ ہے،،

یہی  چیز اسکی ہیئت بھی ہے ۔ میرا خیال  ہے  کہانی  کی طرز اور ہیئت خود  افسانہ نگا ر کو صحیح  سمت  میں لے جاتی   ہے اور    کہانی  اپنی ہیئت خود متشکل کر لیتی  ہے ۔ آج کل اردو  میں جو کہانیاں لکھی  جارہی  ہیں  ان شرائط   میں سے پچاس  فی  صد شرائیط بھی  ان میں    نہیںپائی  جاتیں۔کبھی  تو  یہ تحریر   صرف واقعہ نویسی ہوتی  ہے،کبھی خود نوشت کا باب معلوم   ہو تا ہے ، کبھی نظریات  سرقہ  کے ،کبھی تھیم   مانگے  کی ، کبھی انگریزی فلموں  کا چربہ ، کبھی خود اپنے ہی ملک میں دکھائے جانے والے ڈراموں، کاسرقہ ۔ادبی چاشنی اورحسن  سے عاری۔میرے ذہن  میں ایسے  لوگوں کے  نام ہیں  میں نے  Home work کیاہوا ہے  لوگوں کی تنک مزاجی  کے شر  سے کون بچائے  گا ،؟  میں نے  تو  آئینہ  مہیا  کیا  ہے  کس کی  شکل کیسی  ہے  یہ معزز  اہلِ قلم اور   قابِل احترام  ہم عصر   خود  دیکھ  لیں ، سنگسار کرنے  سے مسئلے حل نہیں ہوتے ہمیں ادب  کی مجموعی ارتقا  کے لئے کام کرنا   چاہئے  ۔اور ایک سخت گیر اور دیانت  دار نقاد پیدا کرنا چائے۔

 ایک بات اور  ۔ہمارے  نقاد اور تبصرہ  نگار ہر ایک  کو بہت  ۔۔ بیحد  ۔۔ بہتریں  ۔۔۔ کے الفاظ  سے نوازتے ہیں  تو اس سے آگے  درجہ  کہاں ؟ سو جو بہترین ہیں  ، کسی کو  کچھ کر نے  کی ضرورت ہی ، نہیں سب  کو یقین  ہے کہ  ہم چو  من دیگرے  نیست۔سب لکھتے وقت یہی سوچتے  ہیں ،

 آج  کی  اکثر  کہانیوں میںیہ ہوتا ہے  کہ پلاٹ اور  کردار  کے ارتقائی  سفر میں عمل ردعمل  کے بعد انتہا  پہ  کبھی  یہ  واضع  نہیں  ہوتا  کہ ابتدا میں  سوالات  کیا  تھے ا؟ورو جوابات  کیا ہوئے؟نتائج کیا نکلے   ؟جبکہ  اصو لاََ آخر  میں ان  تمام اجزاء  کو مل جانا چاہئے ۔اسی طرح  یہ  بھی  بعض وقت  واضع  نہیں ہوتا کہ متصادم قوتیں اپنے اعمال  کی  سزا  جزاکو  پہنچیں ؟اور  کیا  اسکی توجیہ قاری  پہ واضح ہوئی  ؟ بس اخباری انداز  میں کہانی ختم  ہو  جاتی  ہے ۔آج اردو کا افسانہ و ناول  نگار خود  سے  یہ  سوال کرتا  بھی  نظر نہیں آتاکہ آیا  قاری محظوظ ہوا  ؟ اوراور اسکی   کہانی  نے زندگی  کی نفسیاتی اور پیچیدہ صورتِ  حال   کو   سمجھانے  کی  کوشش کی  اور  قاری  نے اس  سے کچھ  سیکھا ؟اسیطرح      آج کی  کہانی  کے کرداروں میں وہ نقطہ  ہائے  نظر  بھی  نہیں ملتا  جس  کے  اندر وقت کے  ساتھ  زندہ  رہنے  کی قوت ہو اور  ان میں یاد  رکھے  جانے  کی صلاحیت ہو  ۔

  اچھی  کہانی  میں یہ  بھی ہوتا ہے, خواہ یہ کہانی ناول  میں ہو  یا افسانے  میں،   کہ و  اقعات  انکی وجوہات ،تصادم کشمکش،

عمل و ۔ ردعمل کے ایک دوسرے  سے  رابطے ،تعلق   ،محبت  و نفرت ،خوشی او غم الجھنیں پریشانیوں             (۶)

کو بھگتت کر  ،انجام کار اس   صورتِ    حال سے  کیسے باہر  آئے ؟  اور  کیا انجامِ کار۔ قاری  مطمئین  ہوا                                                  کہ  زندگی  میں ایسا  ہی  ہوتا  ہے ۔مختصراََ  یہ کہہ  سکتے ہیں کہ تجسس۔کشمکش کے  ساتھ ارتقا ۔ بڑھتا  ہوا  الجھاوا ۔ذومعنویت، ،اشاریت،کثیر الجہتی۔نیرنگی۔عروج کی طرف  سفر۔پھرسورتِحال  کی گتھیوں  کا  سلجھتے جانا ،گرہوں  کا کھلنا ۔ اور کتھارسس کے بعد قاری کو مطمئین  اور خوش کرنا ،یہ ہے  ایک  اچھی  کہانی  کا  سفر۔

میرا خیال  ہے  کہانی  کا  سفر  پید ل  انجانی    پہاڑی پہ چڑھنے  اورایک  مقام  تک  پہنچ  کر   اترنے  کا سفر ہے تحیر  کے  پیچ و خم  کے  ساتھ ۔

ٓا یک  ضروری  بات اور  بھی  ہے  کہ تخلیق کار  ، تجزیہ نگار اور  نقاد  کا چولی دامن  کا  ساتھ ہے ۔یہ  ایک  بے حد  سنجیدہ صورتِ حال    ہے  کہ  ہماری نسل یعنی ۱۹۶۰  سے  میدانِ ادب  میں آنے  والے   افسانہ  نگاروں پہ  لکھنے  والوں کے لئے نقاد  ہی  نہیں۔ کم ازکم خواتین فسانہ نگاروں کے لئے کوئی نقاد نہیں  لکھتا    البتہ ان چند  لوگوں  کے  لئے  جو  یا  تو  بہت اچھا  لکھ  رہی   ہیں یا مرد  نقاد  مجبواََر   انکا  ذکر دیتے ہیں بو جوہ  ۔۔۔  یا  ۱ن  کی   کچھ  نقادوں  سے دوستی  ہے ۔اور وہ  نقادوں  کو۔۔ ۔اور ان  پہ  جب  نقاد  لکھتے ہیں تو،,بہت اچھا  ،  اور بیحد  خوبصورت، کے الفاظ  سے  انکا  تجزیہ ہوتا ہے ۔اسی  لئے میرے  خیال  میں ایسی تنقید   تضیعِ اوقات ہے ۔اور ادب  کا  سنجیدہ  فنکار اور  لکھنے والا اس  سے کبھی خوش  نہیں ہوتا۔
میرا  ایک یقین یہ  بھی  ہے کہ ہر اچھا  تخلیق  کار  پہلے  ایک اچھا   نقاد  بھی  ہو  تا  ہے ۔اگر  وہ  خود  بھی تخلیقی  اصولوں  کو  سامنے رکھ  کر اپنی تخلیق  کا   جائزہ  لے   تو تبدیلی  اور ترقی   ممکن ہے ۔

خواتین  کو  اس  سلسلہ میں مزید  مشکلات  کا  سامنا ہے ۔ایک انکو نقاد  لوگ ویسے  بھی  گھاس  نہیں ڈالتے ۔کچھ سائیکی ایسی  ہے ۔ اس  پہ خواتین محنت  بھی  نہیں کرنا چاہتیں حالانکہ  عینی آپا  نے  جس  مقام  پہ  افسانوی ادب  کو  لا  کھڑا  کیا اس  سے ہمارا  سر  فخرسے اونچا  رہنا  چاہئے ، اور  انکی طرح محنت  کرنی  چاہئے ۔انھوںنے  لندن  میںایک بار۱۹۸۴۔؁۸۵   میں  اپنی تقریر  میں  کہا  تھا  کہ  ہمارا  ادب  اس  وقت  تک صحت  مند  قدروں اورماحول  سے ہمکنار  نہیں ہوسکتاجب  تک  خواتین  خود  تنقیدکی مہارت  پیدا  نہ  کریں ۔ورنہ  وہ اسی طرح نظر انداز  کی  جاتی  رہیں گی۔ہمارے پاکستان  میں کچھ  خواتین  سامنے  آئی  ہیں  مگر  ان  سے  مجھے  یہ بڑی   شکایت  ہے  کہ انھوں  نے کوئی  Challanging کام نہیں  کیا  ،بلکہ انھوں نے بھی کسی خاتون  پہ لکھنے  کی زحمت نہیں اٹھائی ۔ اور  جومعدود پہ لکھا

 ان کی اندازِ  نگارش    ,,  پیچھے اس امام  کے،،   ہے وہ صرف  ان  شاعروں اور  ادیبوں  پہ  لکھتی  ہیں  ِجن پہ  پہلے  سے  بھی  بہت  کچھ  لکھا  جا چکا  ہے ،اور  بہت   سے لوگ  جونظریات   لکھ  کرچھوڑ  گئے ہیں  انھیں  نقل کر دیا ۔نہ ہینگ  لگا  نہ پھٹکری  رنگ  بھی  چوکھا ۔ان میں وہ جرائتِ  تنقیدانہ  نہیں   جو  انفرادی  فکر سے  وجود  میں  آتی  ہے ۔(۷)

اور  نہ  ہی وہ نئے موضوعات تلاش  کرتی  ہیں نہ  کسی  نئے  لکھنے  والے پہ  قلم  اٹھاتی  ہیں  نہ  آزادانہ فکر  ہے  نہ آزادانہ لکھنے کی ان میں ہمت  ہے

وہی  نہیں خود  مرد حضرات  بھی ایسی تنقید    کرتے  ہیں جیسے  وہ   تخلیق  کاار نہ  بن  سکنے کا غصہ اتارنے  کے لئے  نقاد      بن  گئے ہیںاور۔مارے حسد  کے ادبی  دہشت گردی پہ  اتر چکے ہیں ۔بیچارے  رولاں بارتھ نے بھی  اسی وجہ  سے تخلیق کار  کی موت  کا  اعلامیہ جاری  کیا  تھا ،یہ بھی حسد کی صورت ہے۔

  مگر اسکے باوجود  یہ ہر صورت  ماننا پڑے گا  کہ پہلے تخلیق  وجود  میں آتی ہے  معیار مقرر کرتی  ہے  پھرنقاد  ان تخلیقات  کو  جمع  کرکے  فکر  کرتا  ہے  کہ ان  میں سے  کونسی  بہترین ہے ۔جیسا  ادب وقت اوزمانے  کے  ساتھ وجود  میں آتاہے اسکے  مطابق  تنقیدی  کلیات  وجود  میں لائے  جاتے ہیں  ۔ چاہے  ادب  کو  پرکھنے  کے  لئے  یا  اسکی  اہمیت  سے انکار  کے  لئے مگر نقاد   کو تخلیق  کار  پہ  توجہ   دئے بغیر  چارہ  نہیں ہمارے  ادب  میں  نقا  دکی بلا جانے  کیسا  ادب لکھا  جارہا  ہے وہ مغرب  کے  نظریات  کی دوکان  سجا رہا ہے ۔

اکثراب  مرد  نقاد  بھی  اسی انداز  کی تنقید  کر  ہے ہیں  اور پرانے نقادکچھ  ساختیات کے  کرب  میں مبتلا  ہیں۔کچھ  بعد ساختیات  کے درد مین مبتلا ،کچھ  روشن خیالی  کے پیچھے لٹھ لے  کر گھوم  رہے ہیں اور کچھ جدیت  کے غم میںنڈھال  ۔پاکستان  کی  خواتین  تنقید نگارروں  نے  تو مجھے متاثر نہیں  کیا  ۔تاہم ہندستان  میں کچھ باشعور آزاد فکر  کی حامل خواتین نقاد  ہیں  کنول غازی    ۔ رفیعہ خانم  عابدی  رضیہ  حامد  بھی  سنا  ہے اچھا  لکھتی  ہیں میں  نے ذاتی  طورپہ  انکی کوئی تحریر  نہیں  پڑھی  اس لئے   رائے  نہیں دے سکتی   رفیعہ خانم کے  مضامین میں نے پڑھے  ہیں  ان  میں جرائت ہے ۔    ایسی خواتین  سے  مجھے بڑی امیدیں ہیں ۔برطانیہ  میں  شبانہ  یوسف میں اچھے  نقاد ہونے  کی  تمام صلاحیتیں ہیں۔انکی انفرادی فکر   ہے، سوچ  کا  انفرادی  زاویہ  ہے  ،اور  وہ  توجہ  اور محنت سے پڑھنے  کے  بعد  رائے دیتی  ہیں اگر  وہ  بھی خانگی قصوں  میں  الجھ کر اپنی  ذہانت  کا  زیاں  نہ  کریں  تواچھی نقاد  ہو  سکتی ہیں ۔

ادب  کی اس پریشان کن صورت   حال  پہ  سنجیدگی  سے کہیں نہیں سوچا  جا  رہا ہے کہ ادب  کا معیار  کیسے اونچا کیا جائے؟اور کیسے اچھے معیا  ری ادب  کو تجزیے  کے  ذریعے سامنے لایا  جائے  کہ لکھنے والوں کوحوصلہ ملے ۔ادب  کے وقار  اور معیار  کو بلند  کرنے  کے  لئے  ضروری ہے  کہ ٹھو  س بنیادوں  پہ ادب   کی تخلیق  ہو  اور ٹھوس  بنیادوں پہ تنقیدی  اصول وضع کئے جائیں ۔ یہ سب  اتنا آسان  نہیں  ۔اسکا  ذکرامحمد افضل  خان نے کسوٹی  جدیدمیں بھی کیاہے

کسوٹی جدید جنوری تامارچ۲۰۱۰؁    ۵۴ص عنوان  ’’مجھے کہنے دیجئے ۔‘‘  اس  میں وہ جامعاتی  تنقیدی دہشت  گردی  کا ذکر  کرتے ہیں،جس کے بارہ  میں ایڈورڈ سعید  نے بھی کہا ہے  ادیب یا  ادارتی استحصال  کی  وجہ  سے بک جاتا ہے  یابد دیانت  ہوجاتا ہے ۔اور سچ  بولنے کی ہمت  کھودیتاہے ،یعنی جو  لوگ  پی،ایچ، ڈی کرواتے ہیں۔وہ اسی زمرے میں ہیں ۔

 اسکی بڑی وجہ یہ ہے  کہ  معاشرہ  میں بے اصولی  اور اخلاقی  گراوٹ عام ہے اسی لئے  تخلیق کار  کے پا  س ز  ندگی  کا کوئی ٹھوس نقطہِ  نظر نہیں جس  سے زندگی  کی قد ریں متعین کی جاسکیں  اسی  لئے  وہ پھسپھسے  افسانے لکھ  کر سمجھتا ہے  کہ اسنے کمال  ڈھایا  ہے  اور نقاد  اس  کو بہر حال  نظر انداز  نہیں کرے گا،پس پردہ  کی  وجہ سے جو نقاد کیوں جان بوجھ کر    غیر  معیاری  تحریر پہ خاموشی اختیار  کر  لیتا ہے اور اسی  میں ہی عافیت  سمجھتا ہے  ۔وہ   گو  مگو  کی کیفیت  میں مبتلاہے ۔ یہ  مقامِ عبرت  تو  ہے  ہی  مقامِ فکر  بھی  ہے  کہ  فکر   ایک مثبت   قدر   ہے ۔اور  اس  سے نئے امکانات  پیدا  ہوسکتے  ہیں ۔کچھ غور و خوض ہو سکتا ہے ۔جس طرح زندگی  میں  دیانت  اور صداقت  سے     روحانی  قوت  میں اضافہ ہو تاہے اور  انسان جھوٹی  خو شا   مد  کی ضرورت محسوس  نہیں کر تااسی  طرح    ادب  میں بھی  اصول پرستی  کی عادت  ،اور  دیانت  سے سچ  کہنے کی اصول پرستی انسان کو  جرائت عطا کرتی  ہے جس  کا  صلہ آنے والا  کل دے گاہمیں اپنی  ناک  سے   آگے بڑھ کر  دیکھنا چاہئے ۔ اور  میرے ہم  خیال  بہت  ہوں  گے انھیں مل کر  سوچنا ہوگا

کسی  بھی کانفرنس  کے  انعقاد   کا مقصد مسائل  کو زیرَ بحث  لاکر  انکے لئے حل  تلاش  کرنا  ہوتا  ہے ۔ کم از  کم  برطانیہ  میں  تو اسکا یہی  مقصد ہے  ۔ لہٗذا آج  یہا ں   جو موجود  مندوبیں  شریک ہیں کیااس مسئلہ  پہ  غور  کرنا  پسند  کریں گے ؟کہ آج  کے  مسائل  کو کیسے حل کیا جائے ؟

کیسے فنکار  کو قائل  کیا  جائے  کہ  معاشرہ  کے  منفی  رویے  کے  باوجود  اسے مثبت  رویہ اپنانا چاہئے ؟

۔اورکیسے  ایسا  ادب  تخلیق  کرنا  چاہئے  جو  آج کے دورکے  تاریخی  انحطاط کے تناظر   کو  دھیان  میں رکھ  کر  لکھا جائے ؟،

کیسے  دنیا  میں نئے  استحصالی تصادم  اورنئی استعماری چالوں  کی   وضاحت  کی  جائے  کہ مطالباتِ فن  بھی  مجروح  نہ  ہو ں اور  قا ری  کے اندر اس فلسفے اور فکر  کا   شعور  پیدا ہو اور   وہ  اسے  سمجھ  بھی  سکے  اور محظوظ بھی ہو  ؟

اور

 کیسے   ا ہمارے  اپنے  دور  کے  نقاد وں   کو  شمس  الر  حمٰن فاروقی   کا  چیلنج  قبول کرنا  چاہئے   جو انھوں نے ,,اثبات،،میں دیا  کہ
’’, ہم  نے  اپنے فلسفے  کی وکالت  کی  آپ  کے پاس  کوئی  فلسفہ  ہے  تو اپنے  نقاد  لائیئے  ‘‘۔،

میرے  خیال  میں  ہمارے  پاس جدیدیت     جیسے  بے معنی  فلسفے  سے  زیادہ  مثبت فلسفہ ہے   اور  وہ ہے  نئی استعماریت  کے  خلاف   جنگ۔ادب  یا  تنقید پہ زوال  ایک  دن   میں نہیں آتا۔چودہ  برس قبل شہزاد منظر نے  کہا  تھا ،

(ٹخلیق  اکتوبر ۱۹۹۳ میںشہزاد  منظر  نے فکشن  کی تنقیدی  روایت   کے حوالے    سے  لکھا  تھا
        ,,   ہمارے  یہاں تنقید  کی سرے  سے  کوئی  روایت  نہیں اور  جو  ہے وہ  تعصب  سے بھری ہوئی  ہے اورعلاقائی برتری  کی ترویج کرتی  ہے ۔ہندستان  میں نسبتاََ  تنقید  زیادہ  ہوئی  ہے  مگر معیاری نہیں ہے،،

چنانچہ نئی استعماریت   کے  خلاف  ادب تخلیق کرنا  اور  پھر تنقید  سے اس  کو  اجاگر  کرنا  یہ  ہمارا  مقصد  ہونا  چاہئے
    اور  یہ  مقصد  حاصل  اسوقت  ہی  ہو سکتا  ہے  جب نقاد     فنکار ،  اور  قاری  ایک  دوسرے  کے   ساتھ  مثبت  

رویہ    رکھیں ۔نقاد  کا  کام فنکار کی خوبیوں اور  کمزوریوں کو واضح  کرنا  ہے  جبکہ  فنکار  کاکام ہے   فن کا اعلیٰ معیار مقرر کرنا  اور  سنجیدگی  سے نقاد  کے   نکات  پہ غور  کرنا  اور دوبارہ  اپنی تخلیق  پہ نظر ڈالنا  ہے ۔اور  اگر  اس  کے  پاس شواہد  ہیں  نقاد  کو  غلط   ثابت  کرنے  کے  تو  اس کو  پورا  حق  ہے کہ  وہ  ایسا  کرے اور  مثبت انداز  میں جواب دے ۔میں خطائے  بزرگاںگرفتن خطا  است۔پہ   یقین  نہیں  رکھتی

۔سچ  کہنا  ہر انسان  کا فرض ہے ،اور  تنقید  میں  تشتہ داریان  نبھانے کی قائل نہیں
 میں بلاوجہ مغربی  مصنفین  کا حوالہ  دینا  پسند  نہیں  کرتی مگر یہاں وضاحت  کیلئے  حوالہ دینا پڑ رہا  ہے ۔آرنلڈ  نے اپنے زمانے  کو  کہا تھا  کہ ,سائینس  نے پرانے عقائد، اور قدروں کو  منہدم  کر دیا  ہے ،  ہماری  ہر اچھی  قدر  کو مٹانے  کی جو کوششیں  آج ہورہی  ہیں آرنلڈ  نے خواب  میں بھی  نہ  سوچا ہوگا کہ  ایسا  ہوسکتا  ہے ۔میں ہر  ذی فہم ادیب  کو مشورہ  دینا چاہوں گی  کہ  وہ  عمران شاہد بھنڈرکی  کتابیں  ۔ فلسفہِ ما  بعدِ جدیدیت   اور   تازہ کتاب, فلسفہ  اور سامراجی    دہشت ، ضرور پڑھیں ۔اوریہ  حوصلہ  رکھنا چاہئے  کہ  فن  میں ثقافت  کو بدل  دینے  کی قوت  ہے  اور  شاعری اور افسانہ، و ناول  فن  کی  ہی صورتیں ہیں ۔اگر  آج اس  پہ  سنجیدگی  سے سوچا جائے تو کل عمل  بھی  ہوگا ۔ یہ ایک  مشترکہ عمل  ہے کہ اکیلا  چنا  بھاڑ  نہیں پھوڑ سکتا ۔آئے  مل  کر سوچیں
,’’ہم  نہ ہوںگے  کوئی ہم  سا  ہوگا‘‘

یہ مقالہ جون ۲۰۱۰؁  کی بین الاقوامی کانفرنس کے  لیئے  لکھا  گیا۔

لندن  یو نیورسٹی .

 حمیدہ معین رضوی۔

۔Ref  ..The Study of Poetry page 260  to  285 by  M. Arnuld

******************************

 

Comments


Login

You are Visitor Number : 980