donateplease
newsletter
newsletter
rishta online logo
rosemine
Bazme Adab
Google   Site  
Bookmark and Share 
mazameen
Share on Facebook
 
Literary Articles -->> Adbi Gosha
 
Share to Aalmi Urdu Ghar
Author : Hasan Farruk
Title :
   Urdu Sahafat Ka Ilmi Pahloo

 

 اردو صحافت کا علمی پہلو
 
حسن فرخ
 
اردوصحافت کا علمی پہلو اردو صحافت کے آغاز سے ہی اس پیشہ کا اہم ترین حصہ رہا ہے۔ اردو صحافت کی تاریخ بہت پرانی بھی نہیں ہے 
 
اور بہت نئ بھی نہیں۔چھاپہ خانے کے رواج کے ساتھ ہی اردو میں احخبارات کی اشاعت بھی شروع ہوگئ ۔کلکتہ سے اٹھایس سو باییس میں شایع ہونے والے جام جہاں نما کو اردو کا یوں تو پہلا اخبار کہا جاتا ہے مگر اس بارے میں بحتلاف راے ہے کیوں کہ یہ اخبار ایک تو آدھی اردو آدھی فارسی میں تھا اور دوسرے یہ ایسٹ انڈیا کمپنی کا ترجمان تھا ویسے اس کے بانی ہری ہر دت اور ایڈیٹر لالہ سدا سکھ تھے۔پہلا خالص اردو کا اخبار اخبار دہلی تھا۔ جس کے بانی اور ایڈیٹر مولوی محمد باقر حسین تھے جو تحریک آزادی کے پہلے شہید ہیں۔جنھیں پھانسی پر لٹکایا گیا تھا کیوں کہ ان کے اخبار میں علمی ادبی تاریخی اور تعلیمی بہترین مضامین کے علاوہبرطانوی سامراجی حکومت کے خلاف بھی بڑے سخت اور حقایق پر مبنی مضامیں شایع ہوتے تھے جس میں برطانوی سامراج کا کچا چٹھا کھول دیا جاتا تھا ۔ مولوی محمد باقر حسین اردو کے نامور ادیب اور نقاد محمد حسین آزاد کے والد تھے اٹھاراسو ستاون کی پہلی جنگ آزادی میں اخبار دہلی کا رول بہت اہم تھا۔
 
اگر ہم علم سے مراد معلومات لیں تو اس پہلے اخبار ہی سے اردو صحافت کے علمی پہلو کو واضح طور پر دیکھا جا سکتا ہے۔جس میں علم سے متعلق تمام موضوعات کا بھرپور احاطہ کیا جاتا تھا حن میں برطانوی حکومت کی اقتصادی پالیسی کا تجزیہ بھی ہوتا تھا کہ وہ کس طرح ترقی پزیر دنیا بالخصوص ہندوستان کا استحصال کر رہی ہے۔اردو صحافت کا شروع ہی سے علمی پہلو بھی ہے اور ادبی تعلیمی ثقافتی اور تہذیبی پہلو بھی ہے ۔سامراجیت کے خلاف مضامین کے علاوہ اخبار دہلی میں ان سبھی اہم موضوعات کا احاطہ کیا جاتا تھاجن کے ذریعہ اردو بولنے والے طبقے کو علم و ادب اور تعلیم خاص طور پر عصری علوم کی اہمیت سے واقف کروایا جاتا تھا اور انھیں ان کی طرف راغب کیا جاتا تھا۔ اردو کا دوسرا اخبار سیدالاخبار تھا جسے سر سید احمد خاں کے بھائ سید محمد نے شروع کیا تھا۔یہی وہ اخبار ہے جس کے ذریعہ سر سید نے عصری تعلیم حاصل کرنے اور انگریزی سیکھنے کی پوری مہم چلاء۔ایسی ترغیب سے متعلق سر سید کے مضامیں اسی اخبار میں شایع ہوتے تھے۔اسی اخبار میں مرزا غالب کی سر سید کی کتاب آثار الصنادید کے لیے لکھی تقریظ بھی شایع ہوئ جس میں سر سید کو یہ تلقین کی گئ تھی کہ ماضی کی اپنی یادگاروں کا ذکر تو ٹھیک ہے مگر ماضی پرستی سے احتراز ضروری ہے۔غالب نے سر سید سے کہا تھا کہ یہ جایزہ لینا ضروری ہے کہ انگریزون کی ترقی کے اسباب کیا ہیں ۱اور ان پر عمل کرنا چاہیے۔یعنی علوم میں مہارت اور دسترس۔اس طرح ہندوستانیوں اور مسلمانوں کو ماضی پرستی کی بجاے عصری علوم پر مہارت اور عبور حاصل کرنا چاہیے۔
 
اس طرح اخبار دہلی کے بعد سید الاخبار کا علمی پہلو سب سے اہم اور نمایاں دکھائ دیتا ہے۔اس اخبار سے سر سید اور ان کے رفقاء نے جس علمی اور تعلیمی تحریک کا آغاز کیا تھا وہی آگے چل کر مسلم یونیورسٹی کی بنیاد ثابت ہوء۔چنانچہ پنڈت جواہر لال نہرو نے کہا تھا کہ ہندوستان کے مسلمان تعلیم کے میدان میں ہندوؤں سے چار سو سال پیچھے تھے مگرسر سید نے اس فاصلہ کو دو سو سال کم کردیا۔
اس کے بعد تو اردو اخبارات کی اشاعت کا لا متناہی سلسلہ شروع ہوگیا۔جو نڈر بے باک اردو صحافیوں کی طرف سے شایع ہوے۔ان میں سے زیادہ تر میں شایع ہونے والا مواد سیاسی سماجی اور معاشی پہلوؤں پر مشتمل ہوتا تھا۔اس کے ساتھ ہی ساتھ ہندوستانیوں بالخصوص مسلمانوں کو حصول علم اور عصری علوم کے حصول کی ترغیب اور ان کے فواید سے بھی واقف کروایا جاتا تھا۔
 
ان بہت سے اخبارات میں سے جن صحافیوں نے اپنے قلم کے زور سے اردو صحافت کو آسمان کی بلندیوں تک پہنچادیا ان میں کے اولین مشاہیرمیں مولانا ظفر علی خان مولانا ابوالکلام آزاد مولانا محمد علی جوہر مولانا حسرت موہانی اور مولانا عبدالمجید سالک وغیرہ شامل تھے۔ان بلند پایہ صحافیوں نے جو علم و ادب کے بھی جید ماہرین میں شمار ہوتے تھے سارے ملک میں اخبارات کا جال بچھاکر عوام میں علمی و ادبی سیاسی و سماجی تہذیبی و ثقافتی بیداری پیدا کرنے کا نا قابل فراموش کارنامہ انجام دیا۔ اردو اخبارات دہلی الہ آباد لکھنؤ آگرہ بمبیی جے پور اور کشمیر غرض پورے ملک کے ہر مقام سے شایع ہونے لگے تھے۔ان روزناموں میں پیسہ۔لاہور، وکیل۔ امرتسر، زمیندار۔ لاہور، کامریڈ اور پرتاب۔ لاہورشامل تھے۔ ادب اور سیاست کے موضوع پر منشی نولکشور کا اودھ پنچ اعلی معیار کا حامل تھا۔اس اخبار سے منشی سجاد حسین ،مولانا عبدالحلیم شرر، پنڈت رتن ناتھ سرشار ،وابستہ تھے ۔انھیں دنوں ریاض خیرآبادی کا ریاض الاخبار بھی علم و ادب کا معیاری اخبار تھا۔دبدبہ سکندری۔ رامپور، نورالانوار۔کانپور،آصفۃالاخبار۔ حیدرآباد، اردو کے ابتدائ دور کے بہترین اور معیاری اخبار تھے جن سے آج کی صحافت اور صحافی بہت کچھ سیکھ سکتے ہیں۔
 
صحافت میں جو زبان استعمال ہوتی ہے اس کے تین پہلو ہوتے ہیں۔ علمی ،ادبی اور عام بول چال کی یعنی مواصلاتی ۔اردو صحافت سے چونکہ ابتداء ہی سے اعلی درجہ کے ادیب ،انشاء پرداز،اور شاعر وابستہ تھے اسی لیے اردو صحافت کی زبان انتہائ معیاری ،علمی اور ادبی ہوتی تھی۔جس پرعلمیت کی گہری چھاپ ہوتی تھی۔چونکہ صاحب طرز قلم کار اردو صحافت سے وابستہ تھے اسی لیے اس کا علمی وادبی پہلو بے حدنمایاں رہا۔
 
اردو میں کسی بھی لفظ کی سند کے لیے اساتذہ کے کلام سے استفادہ کیا جاتا ہے، لیکن مذکورہ علمی وادبی صاحب طرز تخلیق کاروں کی وجہہ سے اخبارات اور مضامیں میں استعمال ہونے والے لفظ بھی سند کا درجہ حاصل کر چکے تھے۔اس طرح بلا مبالغہ یہ کہا جاسکتا ہے کہ اردو اخبارات ،رسایل وجراید نے نہ صرف صحافتی معیارات ، اقدار اور صداقت پر مبنی ایک بے باک کلچر کوفروغ دیا بلکہ ان سے علم و ادب کو بھی ترویج حاصل ہوء۔چنانچہ سید امتیاز علی تاج کا کہکشاں،سر سید کا تہذیب الاخلاق،مولانا حسرت موہانی کا اردوے معلی،سر عبدالقادرکا مخزن، مولانا آزاد کالسان الصدق،حکیم محمد یوسف کا نیرنگ خیال، شاہد احمد دہلوی کا ساقی، خواجہ حسن نظامی کا نظام المشایخ،علامہ راشد الخیری کاعصمت،مولوی عبدالحق کاسہ ماہی اردو،اور ماہنامہ ساینس،ایسے چند رسایل اور جراید میں شامل ہیں ، جنھیں ہندوستان کی تاریخ صحافت کبھی فراموش نہیں کرسکتی۔سہ ماہی اردو اس اعتبار سے بھی قابل ذکر قرار پاتا ہے کہ مولوی عبد الحق کو اس بات کا شدید احساس تھا کہ ز بان کے جو تین پہلو علمی،ادبی اور مواصلاتی ہیں ان کے ارتقاء ،فروغ،ترویج،اور تحفظ کی ذمہ داری خاص طور پر صحافت پر عاید ہوتی ہے، کیونکہ زبان و ادب سے متعلق جو مباحث اور معاملات ہوں گے وہ قابل غور ہوں گے۔انھوں نے لکھا ہے ۔
 
کون انتظار کرسکتا ہے کہ بہت سے الفاظ اور محاورے ابھی تحقیق طلب ہیں، بہت سی کتابیں ہیں جو لکھنے کے بعد ہی گوشہ گمنامی میں رہ گییں،یا شایع ہوتے ہی ناپید ہو گیں۔زبان کے رسم الخط، املا، اور انشاء میں بہت سی باتیں اصلاح طلب اور مشورہ اور بحث کی محتاج ہیں۔اردو کی تاریخ اور نشو ونما میں بہت سی منزلیں ابھی طے کرنا باقی ہیں۔شاہراہ زبان سے مختلف شاخیں ایسی پھوٹتی ہیں، جن کا سراغ لگانا ضروری ہے۔مثال کے طور پرخود اردو اور اس کی بہنیں کس خاندان کی ہیں۔ ان میں باہم کیا تفاوت اور تعلق ہے اور ملک میں ان کا کیا درجہ ہے۔زبان کی اشاعت اورترقی کی بہت سی ایسی تجویزیں ہیں جو ابھی تک عالم خیال سے صفحہ قرطاس پر نہیں آیں۔ ان پر بحث کرنا،ان کا جانچنااور ان کو عمل میں لانا، بھی بڑا کام ہے۔تنقید جو ادب کی جان اور ذوق سلیم کی روح و رواں ہے ابھی ابتدائ مرحلے میں ہے۔اسے صحیح رنگ میں دکھانا بہت بڑا فرض ہے۔ اردو کے بہت سے ایسے محسن ہیں جن کے حالات اور کارنامے ملک کے سامنے پیش ہونے چاہیں۔اس کے علاوہ غیر زبانوں کے ادب میں ایسے انمول جواہر ہیں جو صاحب نظر ادیب اورشایقین ادب کے لیے سب سے بڑا تحفہ ہیں۔ضرور ہے کہ انھیں اردو کے لباس میں پیش کیا جاے تاکہ ہمارے اہل ملک اسلوب بیاں ، طرز تخیل و اداے مطلب سے یحظ حاصل کریں ۔ متمتع ہوں۔ 
رسالہ اردوجنوری انیس سو بیانوے ص ص دو، تین
 
سردار دیوان سنگھ کا اخبار ریاست بھی اپنی جرات و بے باکی کے لیے یاد رکھا جاے گا۔شاہد احمد دہلوی کے ساقی کے علاوہ مولاناصلاح الدین کا گلستاں،میاں بشیر احمد کا ہمایوں، نیاز فتحپوری کا نگار، تاجور نجیب آبادی کا ادبی دنیا، جسے مولانا صلاح الدین نے خرید لیا تھا ان اہم رسایل میں شامل ہیں جو بحیثیت مجموعی علم کی وسعت اور فروغ کا اہم حصہ رہے۔ حیدرآباد میں ہندوستان کی آزادی سے پہلے سے رہبر دکن شایع ہورہا تھا۔اس کے علاوہ مشیر دکن، پیام ، سلطنت وغیرہ بھی تھے۔ جہاں تک صحافت میں علمی پہلو کا تعلق ہے پیام اور رہبر دکن کو معیار اور اخبار کی زبان کی حد تک نمایاں اہمیت حاصل تھی۔پیام کے ا یڈیٹر قاضی عبدالغفار تھے۔اور رہبر دکن کے سید یوسف الدین اور احمد محی الدین تھے ۔جہاں پیام باییں بازو کے خیالات کا حامل تھا جس سے ترقی پسند ادیب اور شاعر جیسے اختر حسن، احسن علی مرزا اور مہدی عابدی وابستہ تھے۔رہبر دکن روشن خیال مذہبی رجحان کا حامل تھا۔جس سے شبلی یزدانی ، عبد القادر جیلانی، یوسف الدین اور حبیب محسن وابستہ تھے۔ان دونوں اخبارات میں دو باتیں مشترک تھیں، زبان و بیان کا معیار اور نظر یاتی کمٹ منٹ،مگر یہ کسی دوسرے نظریے کے خلاف پروپیگنڈا نہیں کرتے تھے۔ انیس سو سینتالیس کے بعد یہاں سے سیاست اور پھر ملاپ جاری ہوے ۔سیاست کے ایڈیٹر جناب عابد علی خاں اور جواینٹ ایدیٹر محبوب حسین جگر تھبکہ ملاپ کے ایڈیٹر جناب پورن چند شاکر تھے ۔ بعد میں یدھ ویر جی نے خود ادارت سنبھال لی تھی۔رہبر دکن اب رہنماے دکن کے نام سے شایع ہونے لگا تھا جس کے ایڈیٹر منظور حسن تھے کچھ مدت کے بعد جناب لطیف الدین قادری منیجنگ ایڈیٹر اور سید وقارالدین چیف ایڈیٹر بن گیے۔سیاست کی پالیسی جہاں پیام کا تسلسل تھی وہیں اسمیں خبروں کے ساتھ ساتھ تہذیب وتمدن اور ادب و شاعری کو بھی مناسب جگہہ دی جاتی تھی۔رہنماے دکن بھی اقلیتوں اور اردو کے تحفظ اور مفادات کا حامی تھا۔آزادی اور پولیس ایکشن کے بعد کے حالات میں سابق ریاست حیدرآباد میں حالات نے ایک دم پلٹا کھایا تھا اور مسلمان اور اردو مادری زبان والے افراد ہر شعبہ حیات میں نظر انداز کیے جانے لگے تھے اور ان کی علمی ،ادبی اور تعلیمی زندگی پر شدید ضرب پڑی تھی۔ معاشی ،سیاسی اور سماجی حالات بھی ابتر ہوگیے تھے۔ایسے میں رہنماے دکن اور سیاست دونوں ہی ان کے مسایل کو نمایاں کرتے تھے۔جہاں تک ملاپ کا تعلق تھا وہ آریا سماجی نظریات کا حامی تھا مگر یدھ ویر جی نا انصافی کے خلاف کھل کر قلم اٹھاتے تھے۔ اخبار دہلی سے اب تک اردو صحافت میں علمی پہلو بے حد نمایاں اور ناگزیر عنصر بنا رہا تھا۔ہندوستان بھر کے ان اردو اخبارات میں بڑی معیاری اردو لکھی جاتی تھی۔لاہور کو چھوڑ کر پنجاب میں تاہم اردو اخبارات کا گیٹ اپ اور انداز مختلف ہوتا تھا جو اب بھی قایم ہے ۔ان کے پہلے صفحے پر تمام اہم خبریں رہتی ہیں جس میں بس ابتدائ خبر ہی ہوتی ہے اور باقی سلسلہ اندر کے صفحات پر ہوتا ہے۔پنجاب اور ممبئ کے اخبارات میں عام طور پر بول چال کی زبان استعمال ہوتی ہے ؛علمی اور ادبی زبان نہیں۔ دہلی لاہور اور حیدرآباد کے اخبارات سے وابستہ زیادہ تر صحافی ایسے تھے جنکا علم وادب اور شاعری اور زبان سے گہرا تعلق تھا۔چنانچہ جو زبان اخبارات میں پروان چڑھی اس پر علمی اور ادبی چھاپ تھی جو حیدرآباد کے اخبارات پر ابھی تک برقرار ہے۔ مثال کے طور پر حیدرآباد کے اخبارات میں لکھا جاتا ہے ،،کوئ دقیقہ فرو گزاشت نہیں کیا ،،اسی طرح لفظ ناگزیراورمسترد،استفادہ کنندگان،استیصال،ضیاع،۔اس طرح کی زبان کے استعمال کا لازمی نتیجہ یہ نکلا کہ اردو بولنے والوں کی آبادی بھی فصیح اور معیاری زبان نہ صرف اچھی طرح سمجھتی تھی بلکہ ان کی بول چال میں بھی زیادہ تر ایسی ہی زبان کا استعمال ہوتا تھا۔کوئ بھی یو این او نہیں کہتا تھا بلکہ اقوام متحدہ اور صیانتی مجلس کہتا تھا، سیکوریٹی کونسل نہیں ۔ اسی طرح سب جامعہ عثمانیہ کہتے تھے عثمانیہ یونیورسٹی نہیں۔ آزادی سے پہلے اور پچیس تیس سال تک اردو اخبارات کی تعداد اشاعت حیدرآباد میں کچھ زیادہ نہیں تھی مگر ان کے قارییں کی تعداد بہت زیادہ تھی،حالانکہ خواندگی کا تناسب کچھ زیادہ نہیں تھا۔ان دنوں ہر محلے کی ہر ہوٹل میں ،چاہے وہ کتنی ہی چھوٹی کیوں نہ ہو تمام اردو اخبارات آتے تھے۔اور لوگ وہاں گھنٹوں بیٹھ کر انھیں پڑھ لیا کرتے تھے ۔ یہ سلسلہ صبح کی اولین ساعتوں سے رات دیر گیے تک جاری رہتا تھا۔ہر اردو اخبار کے دفتر کے پاس دیوار پر لوہے کے فریموں میں اخبارات چسپاں کر دیے جاتے تھے اور وہاں دن بھر اخبار پڑھنے والوں کا ہجوم رہتا تھا۔ اس وقت تمام اردو اخبارات کی مجموعی تعداد اشاعت لگ بھگ تیس ہزار رہی ہوگی ۔ مگر ان کے پڑھنے والوں کی تعدادتین لاکھ سے زیادہ ہی رہی ہوگی۔ مگر اب جب کہ اردو اخبارات کی مجموعی تعداد اشاعت دیڑھ لاکھ سے زیادہ ہوگی ان کے پڑھنے والوں کی تعداد بھی لگ بھگ دیڑھ لاکھ ہی ہوگی۔ان اخبارات مین مختلف علوم سے متعلق مضامین شایع ہوا کرتے ہیں، جن میں ساینس، ٹیکنالوجی،انفارمیشن ٹیکنالوجی اور دوسرے علوم وغیرہ شامل ہیں ۔اس طرح ہم یہ تو کہ سکتے ہیں کہ آج اھی اردو صحافت کا علمی پہلو مضبوط و مستحکم ہے۔تاہم اخبارات میں زبان و بیان کا معیار حالیہ چند برسوں میں پہلے حیسا نہیں رہا۔آج ہم اپنے ان اردو اخبارات کو زبان کی اصلاح کے سلسلہ میں سند نہیں مان سکتے۔اردو اخبارات کو اس طرف توجہہ دینے کی ضرورت ہے۔کیوں کہ قواعد،عروض،املا ،انشاء لسانیات اور صوتیات کی جو کتابیں شایع ہوتی ہیں انھیں عام آدمی پڑھ کر فیض حاصل نہیں کر سکتابلکہ وہ انھیں عام طور پر پڑھتا ہی نہیں۔جبکہ عام آدمی زبان کو سیکھتا ہے تو صحافت کے ذریعہ۔اخبارات کے مطالعہ ہی سے اسے قواعد ، زبان ،املا نا مہ اور انشاء کی کتابوں کا مطالعہ کیے بغیر ، فصیح زبان سے واقفیت حاصل ہو جاتی ہے۔اسے یہ معلوم ہوجاتا ہے کہ جسے وہ رشتے ناطے پڑھتا اور لکھتا تھا وہ رشتے ناتے ہے۔ اسی طرح وہ جسے وطیرہ لکھتا تھا وہ اصل میں وتیرہ ہے۔وہ تماشہ لکھتا تھا جو کہ تماشا ہے ، وہ اژدہام لکھتا تھا جو کہ اصل میں ازدحام ہے۔عام آدمی کو اس طرح کا علم صرف صحافت ہی سے حاصل ہوسکتا ہے۔ ایک صحافی نے اخبارات اور رسایل وجراید کو ادب کے پہیے کہا ہے کیوں کہ کتابیں انفرادی اور عوامی ذخیروں ہی میں پڑی رہ جاتیں اگر رسایل انھیں اندھیرے بند کمروں سے کھینچ کر باہر کھلی ہوا میں نہ لے آتے۔علم و ادب کے لیے ہمیں کتابوں تک جانا پڑتا ہے، رسایل اسے ہم تک لے آتے ہیں ۔اس طرح ہم یہ کہنے میں حق بجانب ہیں کہ اردو صحافت کا علمی پہلو بہت اہم ہے اسے مزید مستحکم کرنا ضروری ہے۔
+++++
 
Comments


Login

You are Visitor Number : 1246